کہانی : دوسرا اور آخری حصہ
کچھ لمحے شاید واقعی قبولیت کے ہوتے ہیں ۔ مولوی صاحب ابھی نکاح کے لیے ماحول ہی بنا رہے تھے کہ گیٹ کسی نے دھڑ دھڑ پیٹا تھا ۔ دستک کا انداز اتنا دھانسو تھا کہ سب ہی نے اپنی اپنی جگہ رک کر گیٹ کو دیکھا تھا ۔ فریدہ کے اشارے پر نفیس ہی نے دروازہ کھولا تھا ۔ دبتے ہوئے رنگ پر گولڈن ڈائی بال، فربہی مائل سراپا، آنے والی خاتون کو اس نے رشتے دار سمجھ کر سلام کیا تھا ۔ جس کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھا گیا تھا۔ خاتون ایک جوان سال لڑکے کے ساتھ دندناتی ہوئی داخل ہوئیں تھیں۔
’’کہاں ہے وہ بے غیرت، ہڈ حرام ۔ ‘‘ اس سے تقریباََ غراتے ہوئے سوال کیا تھا ۔
اس سے پہلے کہ وہ ان کو مطلوب شجص کی بے غیرتی اور ہڈ حرامی سے زیادہ معقول شناختی علامات کے بارے میں کوئی سوال کرتا وہ صحن میں لگے شامیانے تک پہنچی تھیں ۔ دھان پان سے مولوی صاحب کو دھکیل کر پرے کیا تھا ہاتھ سیدھا نوشے میاں کہ گریبان پر ڈالا تھا۔
’’ دوسری شادی کرو گے ؟ ہیں؟ پہلی کو تو کھلا نہیں سکے، الٹا اس کی کمائی کھاتے رہے ۔ نکھٹو شوہر تو پالا اب سوکن بھی میں پالوں گی ؟ ‘‘
’’صائمہ گریبان چھوڑو‘مم میرا اور تمہارا اب کوئی تعلق نہیں ۔ ‘‘ مقصود علی نے مدابرانہ انداز میں کہنے کی ناکام کوشش کی تھی۔
’’اچھا ؟ کب سے؟پرسوں تک تو تم منتیں کر رہے تھے کہ دس لاکھ روپے بھیج دوں تمہیں ؟ ‘‘ صائمہ بیگم نے ہاتھ نچا کر استہزائیہ انداز میں سوال کیا تھا ۔ پھر مقصود علی کا گریبان چھوڑ کر دوسری جانب حیران پریشان بیٹھے دولہن والوں کی طرف مڑی تھی۔
’’اس ذلیل آدمی کو بیٹی دینی ہے شوق سے دو ۔ میں لعنت بھیجتی ہوں اس کی منحوس شکل پر، لیکن اگر نظر ڈیفنس کے بنگلے پر ہے تو خوش فہمی دور کر لو ۔ وہ میرا ہے‘ میری محنت کی کمائی سے بنا ہے اور میرے نام ہے ۔ یہ نکھٹو ہڈ حرام تو ساری زندگی سگریٹ بھی مجھ سے پیسے مانگ مانگ کر پیتا رہا ہے ۔ ‘‘ کہہ کر وہ رکی نہیں تھی بلکہ جیسے دھم دھم کرتی آئی تھی ویسے ہی سب کو ہکا بکا چھوڑ کر چلی بھی گئی تھی ۔ نفیس عش عش کر اٹھا تھا کہانی کہ اس ٹویسٹ پر ۔کیا انٹری ماری تھی مقصود احمد کی بیوی نے!
’’دراصل طلاق کی کاروائی ابھی مکمل نہیں ہوئی ۔ دیکھا نا آپ نے اس کا مزاج اسی بدتمیزی کی عادت کی وجہ سے دے رہا ہوں طلاق۔ ‘‘ مقصود احمد نے گریبان درست کرتے ہوئے ڈیمج کنٹرول کی کوشش کی تھی۔
’’ آپ برائے مہربانی تشریف لے جائیے ۔ ‘‘ بڑی ہمت کر کے کانپتے ہوئے لہجے میں فریدہ نے کہا تھا۔
پھر مقصود علی اور اس کی بہن کی اگر ‘مگر اور بوگس صفائیاں کارگر ثابت نہیں ہوئیں تھیں اور بے مراد رخصت ہونا ہی پڑا تھا ۔ اب فریدہ رشتے داروں کے کٹہرے میں کھڑی تھیں۔
’’نا تم نے کسی سے مشورہ کیا نا خود کوئی اتا پتا کیا ٹھیک سے ۔ ایسے کرتے ہیں لڑکیوں کے رشتے؟‘‘
’’ہاں بھئی بندہ اپنے کو اپنا نہ سمجھے اور غیروں پر بھروسہ کر لے تو پھر ایسا تو ہوتا ہے ۔ ‘‘ اب وہ رشتے دار اپنا نا سمجھنے کا شکوہ کر رہے تھے جنہوں نے کبھی مشکل وقت میں جھوٹے منہ بھی نہیں پوچھا تھا۔
فریدہ سے کوئی صفائی نہیں بن پائی تھی ۔ بس شرمندہ سے آنکھیں پونچھتی سب کی باتیں سنے جا رہی تھیں۔
’’بڈھا کھوسٹ اوپر سے فراڈیا شکر کر لڑکی کی زندگی بچ گئی ۔ ویسے یہ رشتہ بتایا کس نے ؟ ‘‘ انیلا نے اس سوال پر پہلو بدلا تھا۔
مہمان آہستہ آہستہ رخصت ہوگئے تھے ۔ وہ بھی اوپر چلا آیا ۔ کچھ دیر میں ثمن آئی تھی۔
’’ نفیس بھائی،امی کا بی پی ہائی ہے ۔ بی پی کی گولیاں ختم ہیں لا دیں گے۔‘‘
نفیس نے بلا تامل دونوں خالی پتے اس کے ہاتھ سے لیے تھے۔
’’تم تو کہہ رہیں تھیں تم اچھے سے جانتی ہو ؟ فلاں کے رشتے دار ہیں فلاں کے جاننے والے ہیں ۔ فرحان(انیلا کا شوہر) نے بھی پتہ کروایا ہے ۔ یہ پتا کر وایا تھا ۔‘‘ وہ دوا لے کر واپس آیا تو تخت پر نیم دراز فریدہ پاس بیٹھی انیلا کو لتاڑ رہیں تھیں۔
’’امی میں نے تو کی تھی پوچھ گچھ اپنی طرف سے ‘ اب جرمنی میں کیا معاملات ہیں ، ان کا مجھے کیسے پتہ ہو سکتا تھا ۔ ‘‘ انیلا نے صفائی دینے کی کوشش کی تھی۔
’’ رہنے دو بس تم ۔ اتنی بے عزتی، اتنی جگ ہنسائی ۔ کیا کیا باتیں سنا کر گئے ہیں لوگ۔‘‘
’’چھوڑیں،اچھا ہی ہوا وہ کالاموٹا گنجا بڈھا کوئی سامعہ آپی کے ساتھ اچھا لگتا ۔ ‘‘ ثمن نے بھی اظہار خیال کیا تھا۔
وہ دوائیوں کا تھیلا پکڑاکر سیڑھیوں کی طرف بڑھ رہا تھاجب سامعہ باہر آئی تھی ۔ نفیس نے بے ارادہ ہی اسے غور سے دیکھا تھا ۔ دھلا ہوا چہرہ، ہاتھ میں دھلے ہوئے کپڑوں کی بالٹی ۔ نظر ملنے پر دونوں نے نظر چرائی تھی ۔ اسے اپنی متجسس نظر پر شرمندگی ہوئی تھی مگر کیا کرتا وہ لکھاری تھا رویوں اور تاثرات میں کہانیاں کھوجنا اس کی عادت تھی ۔ وہ آگے بڑھ کر تار پر کپڑے پھیلانے لگی تھی ۔ نفیس کی نظر اس کے ہاتھوں پر پڑی تھی ۔ مہندی اور سرخ نیل پالش مخروطی انگلیوں والے گندمی ہاتھوں پر کتنی جچ رہی تھی ۔ سجی بنی کبھی وہ نظر ہی نہیں آئی تھی۔ نجانے دولہن بنی کیسی لگ رہی ہو گی؟ وہ تار پر ڈالے کپڑوں کی شکنیں اتنی توجہ سے دور کرنے کی کوشش کر رہی تھی جیسے دنیا کا سب سے ضروری کام یہی ہو۔
عجیب لڑکی تھی، اپنی ہی کہانی میں ثانوی کردار! لڑکی تھی یا روبوٹ؟
مگر رات دوسرے پہر وہ کھلی فضاء میں سگریٹ پھونک کر چھت سے اتر رہا تھا جب وہ اسے نظر آئی تھی ۔ اندھیرے میں پہلی سیڑھی پر بیٹھی خاموش سسکیوں سے لرزتی۔
وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ جان پائے کہ وہ اسے اس کمزور لمحے میں ٹوٹتے بکھرتے دیکھ چکا ہے، سو دبے پاؤں اپنے دروازے سے اندر گیاتھا ۔ لکھنے کے لیے پھر کاغذ قلم اٹھا کر وہیں سے شروع کرنا چاہا تھا جہاں سگریٹ کے وقفے کے لیے قلم روکا تھا، مگر لفظ ہی ساتھ چھوڑ گئے تھے ۔ کرداروں کے چہرے دھندلے پڑگئے تھے ۔ بس ایک ہی کردار تھا جو اس وقت وہ سوچ پا رہا تھا ۔ سامعہ جلیس احمد،آخر وہ ایسی کیوں تھی؟
زندگی کو معمول پر آتے زیادہ دن نہیں لگے تھے ۔ فریدہ گھر داری میں مگن، سفیان یونیورسٹی یار دوست اور’’جانو‘‘ کے ساتھ مصروف، ثمن ناولوں میں گم ۔ ایک سامعہ ہی تھی جو اس تماشے پر ضائع ہوئے پیسوں کے باعث آؤٹ ہوتے بجٹ پر پریشان پھر رہی تھی۔
آج شام بھی باہر کرسی پر بیٹھی اسی بات پر غور و غوص کر رہی تھی کہ کس سے کچھ ادھار کی رقم لے کہ مہینہ گزر جائے ۔ اندر سے فریدہ بار بار ثمن کو آوازیں دے رہیں تھیں مگر تخت پر بیٹھی ناول پڑھتی ثمن ٹس سے مس ہو کر نہیں دے رہی تھی۔
’’امی بلا رہی ہیں تمہیں اور یہ میرا فون مجھے دو واپس۔‘‘
’’افوہ ایک ڈھنگ کا فون ہی لے دیں میرے فون پر تو دو ناول ڈائونلوڈ کرو تو سپیس ختم ۔ ‘‘
ثمن بادل ناخواستہ اٹھی تھی اور فون اس کے ہاتھ میں دے کر خود اندر چلی گئی تھی۔
’’نیا موبائل! یہاں ضرورتیں پوری نہیں ہو پا رہیں۔ ‘‘سامعہ نے تاسف سے سر ہلا کر موبائل کی سکرین کو دیکھا جہاں کوئی ناول اوپن تھا۔
’’ تم تیار نہیں ہوئی ابھی تک؟‘‘ شاہ نے ال میرمل کو غضبناک نظروں سے دیکھا تھا۔
’’ہاں کیونکہ میں تمہارے ساتھ کہیں نہیں جانا چاہتی۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’کیونکہ تم ایک جاہل جنگلی اور وحشی انسان ہو ۔ ‘‘ میرمل تڑخ کر بولی تھی۔
’’ تم نے مجھے کڈنیپ کیا، زبردستی شادی کی، مجھے میرے ممی پاپا سے دور کر دیا اور اب تم مجھ پر حکم چلاؤگے اور میں مانتی رہوں گی؟ اوور مائی ڈیڈ باڈی ۔ میرا نام بھی میرمل دریاب خان ہے ۔ ‘‘
شاہ جارحانہ انداز میں اس کی طرف بڑھا تھااور اس کی پونی ٹیل میں بندھے بالوں کو اپنی آہنی گرفت میں لیا تھا۔
’’کیا کہا تم نے… کیا نام ہے تمہارا ؟ ‘‘جارحانہ انداز میں سوال کیا تھا۔
وہ اتنا قریب تھا کہ میرمل کو سگریٹ کی بو سے مہکتی اس کی سانسیں اپنے چہرے پر محسوس ہو رہیں تھیں۔
’’مم…‘‘ کچھ دیر پہلے کی ساری بہادری ہوا ہو گئی تھی اور اب میرمل اس کی گرفت میں منمنا رہی تھی۔
’’تمہارا نام ہے میرمل یرمان شاہ بخاری… کیا نام ہے تمہارا؟‘‘
’’میرمل یرمان شاہ بخاری… ‘‘ میرمل نے طوطے کی طرح دوہرایا تھا۔
’’گڈ گرل چلو اب دس منٹ ہیں تمہارے پاس تیار ہونے کے لیے اور میرے لیے کافی بنانے کے لیے۔‘‘
’’ مگر پانچ منٹ میں میں کیسے تیار…‘‘
’’ ٹائم ضائع کر رہی ہو تم ۔ ‘‘ شاہ نے اپنے موبائل پر چلتا ٹائمر اسے دیکھایا جس پر دس سیکنڈ گزر بھی چکے تھے ۔
میرمل لنگڑاتی ہوئی جس قدر ممکن تھا تیزی سے ڈریسنگ روم تک بڑھ گئی ۔ دس منٹ بعد جب وہ کافی بنا کر لائی تو دل خوف سے کانپ رہا تھا ۔ اسے کافی بنانی نہیں آتی تھی ۔کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اس نے کپ شاہ کی طرف بڑھایا تھا ۔ اس وقت اسے اپنی ممی پر شدید غصہ آ رہا تھا جو اپنے فیشن اور کٹی پارٹیز میں ہمیشہ اتنی مصروف رہیں کہ اسے کافی بنانا بھی نہیں سکھا سکیں ۔ خود ان کو بھی تو اس نے کبھی پاپا کے لیے کافی بنا تے یا ان کا کوئی کام کرتے نہیں دیکھا تھا۔ ممی کو اپنی دولت پر بہت غرور تھا۔
شاہ نے کافی کا سپ لیا مگر اس کے خلاف توقع باقی کی کافی اس کے منہ پر نہیں ماری بلکہ پوری پی لی ۔ کافی کتنی بدمزہ تھی وہ جانتی تھی تو کیا وہ اس سے واقعی محبت کرتا تھا ۔ میرمل نے کن انکھیوں سے مردانہ وجاہت کے اس شاہکار کو دیکھا تو اس کا دل زور سے دھڑکا تھا۔
’’ یہ تم لنگڑا کر کیوں چل رہی ہو ؟‘‘ کافی ختم کر کے شاہ نے اپنی گھمبیر آواز میں اس سے پوچھا تھا۔
’’وہ جب آپ نے رات کو غصے میں مجھے ٹیرس سے نیچے پھینکا تھا تو میری شاید ٹانگ ٹوٹ گئی تھی ۔ ‘‘ میرمل نے ہلکی آواز میں جواب دیا کہ کہیں اسے دوبارہ غصہ نہ آجائے۔
’’چلوپھر ڈنر کینسل ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔‘‘
میرمل نے بے یقینی سے اسے دیکھا تھا۔ اب اسے اس بات کا یقین ہو چلا تھا کہ شاہ اس سے محبت کرتا تھا۔
سامعہ کو پہلے تو یہ شاہکار پڑھ کر ہنسی آئی تھی مگر پھر اس کے اندر کی بڑی بہن جاگی تھی ۔ ثمن کے کچے ذہن پر اس قسم کی واہیات کہانیوں کا کیا اثر ہو رہا ہو گا ۔ ثمن واپس آئی تو سامعہ نے آڑھے ہاتھوں لیا تھا۔
’’یہ تم ہر وقت کیا ناولوں میں گھسی رہتی ہو ؟ اچھی بھلی ذہین ہو تھوڑی محنت کرو پڑھائی میں تو بہت اچھا سکور کر سکتی ہو مگر نہیںبس جب دیکھو بس یہ ناول اور کس قسم کا چیپ رومانس پڑھتی ہو تم ؟کیا سیکھ رہی ہو تم ان سے ؟ ‘‘سامعہ بہت کم کسی بات پر اسے ٹوکتی تھی ۔ یوں اس کے درشت لہجے میں بات کرنے پر ثمن کو بھی غصہ آیاتھا۔
’’ جسے کچھ غلط کرنا ہوتا ہے وہ کر گزرتا ہے ناول کسی کو نہیں بگاڑتے ۔ آپ تو نہیں پڑھتی تھیں چیپ رومانس پھر کسی کے عشق میں آدھی رات کو گھر سے کیوں بھاگی تھیں ؟ ‘‘
سامعہ نے سکتے کی سی کیفیت میں خود سے آٹھ سال چھوٹی بہن کو دیکھا تھا اور پھر اسے سیڑھیوں سے اترتا نفیس دیکھائی دیا تھا ۔ یقینا اس نے بھی سب سنا تھا ۔ خجالت سے ڈوب مرنے کو جی چاہا تھا ۔ وہاں ایک لحظہ بھی کھڑا رہنا محال ہوا تو سر جھکائے اندر چلی گئی تھی ۔ ثمن کی نظر بھی نفیس پر پڑی تھی۔ نفیس کی نظر میں صاف ملامت تھی۔
’’آپ نہیں جانتے نفیس بھائی یہ گھر سے بھاگ گئیں تھیں کسی کے ساتھ ۔ ابو کو ہارٹ اٹیک ہو گیا یہ خبر سن کر ہمارے ابو ہمیں چھوڑ کر چلے گئے ان کی وجہ سے ۔ ‘‘ نفیس کی ملامتی نظروں پر ثمن اپنی صفائی دیتے ہوئے یہ بھول گئی کہ وہ اپنی سگی بہن کے راز کسی اجنبی کے سامنے کھول رہی ہے۔
’’وہ بڑی بہن ہے تمہاری ‘ تمہیں یہ زیب نہیں دیتا ۔ ‘‘ وہ اسے سرزنش کرکے آگے بڑھ گیا تھا مگر گیٹ سے نکلتے ہوئے اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی تھی۔
اسے کہانی مل گئی تھی اور ہیروئن بھی … اگلے دن وہ نادیہ کے دفتر میں تھا ایک ایسی لڑکی کی کہانی لے کر جو احساس جرم کے بوجھ کے تلے قربانی پر قربانی دیتی چلی جا رہی تھی اور اس کے اپنے ہی تاوان حق سمجھ کر وصول کر رہے تھے۔ ون لائنر نادیہ کو پسند آیا تھا اور دو دن میں چینل سے کال بھی آگئی تھی ۔ نفیس کا قلم کھٹا کھٹ چلا تھا ۔ کچھ کرداروں میں ہیر پھیر کی تھی، کچھ ڈرامائی عنصر بڑھایا تھا مگر کردار تو اس کے آس پاس پھر رہے تھے۔ قلم رکتا تو کیوں رکتا۔
انگلینڈ میں مقیم بہن نے بلآخر وہ بات کر ڈالی تھی جس کی فریدہ منتظر تھیں۔
’’ دسمبر میں پاکستان آنے کا پروگرام بن رہا ہے،تو میں سوچ رہی ہوں کیوں نا نکاح ہی کر لیں حاشر اور ثمن کا ۔ پیپرز بننے میں کافی ٹائم لگتا ہے ۔ پیپر بن گئے تو بس پھر رخصتی کر لیں گے ۔ ‘‘ فریدہ کی آنکھیں نم ہوئی تھیں احساس تشکر سے انہیں تو خدشہ ہی تھا کہ ہلکے پھلکے موڈ میں کہی جانے والی باتوں کی کوئی اہمیت تھی بھی یا نہیں۔
’’مگر دسمبر میں تو بس تین مہینے ہیں ،اتنے جلدی تیاری…‘‘ فریدہ کو اب آگے کی فکر لاحق ہوئی تھی۔
’’تم فکر نا کرودولہا دولہن دونوں کے کپڑے اور انگوٹھیاں میں خود کر لوں گی ۔ ہمارے طرف کے مہمان بھی بہت زیادہ تو تیس ہوں گے۔‘‘ بہن نے واقعی بہن ہونے کا حق ادا کیا تھا۔
’’ باقی ہر چیز کے لیے تو اس نے منع کر دیا ہے مگر کھانا ہم بہت شاندار کھلائیں گے ۔ زیادہ مہمان تو ویسے بھی نہیں ہیں ۔ ‘‘ فریدہ کو بہن پر بہت پیار آرہا تھا۔
’’ پر گھر میں ہوگا سب ؟ پرانے زمانے کا بنا گھر ہے اوپر سے مینٹینس بھی کب سے نہیں ہوئی تصویروں میں کیا بیک گراؤنڈ آئے گا ۔ ‘‘ ثمن نے منہ بسورا تھا۔
’’ ایسا نہیں ہو سکتا کسی ہال وغیرہ میں کر لیں ۔ ‘‘
’’ کافی پیسے چاہئے ہوں گے ۔ جب سے اوپری منزل کا کرایہ بند ہواہے پے چیک ٹو پے چیک گزارا ہو رہا ہے ۔ کچھ بھی نہیں بچتا ۔‘‘ سامعہ نے بیچارگی سے کہا تھا۔
ثمن نے امید بھری نظروں سے ماں کی طرف دیکھا تھا ۔
’’گھر میں ہی کر لیں گے نا ابھی کون سی شادی ہو رہی ہے ۔ ‘‘ فریدہ نے ثمن کو بہلایا تھا اور سامعہ کی طرف متوجہ ہوئی تھیں ۔
’’ویسے ہمیں کم از کم ثمینہ اور بھائی صاحب کو جوڑے تو دینے چاہئیں ۔ بلکہ بچوں کو بھی تینوں کو دے دیتے ہیں ۔ یہ ایک میری بہن ہی تو ہے جس نے ہمارا احساس کیا ہے۔ تم کیا کہتی ہو؟‘‘
سامعہ کیا کہتی جوڑے بھی یقینا ان کے شایان شان چاہئے تھے ۔وہ ان کے جذبات سمجھ سکتی تھی مگر اس کی خالی جیب نہیں۔
’’ہاں اب آپ کو ان کے جوڑوں کی پڑ گئی ہے ۔ جیسے ان کے پاس کوئی کمی ہے ۔ کوئی ڈھنگ کا ارینجمنٹ ہوگا ناں تو جوڑوں سے زیادہ اس سے خوش ہوں گے۔ خالہ کے سسرال والے تو ویسے بھی اتنے شو آف ہیں یہاں ٹوٹے فرش پر انہوں نے سو سو باتیں کرنی ہیں ۔ کہیں چھوٹے ہال میں کر لیتے ہیں، خالہ کی بھی عزت رہ جائے گی، اور تصویریں بھی اس قابل ہوں گی کہ بندہ کسی کو دیکھا سکے۔ ‘‘ ثمن کی دلیل میں اب کہ فریدہ کو بھی کچھ دم نظر آیا تھا مگر حالات کا اندازہ تو انہیں بھی تھا ۔ سوالیہ نظروں سے سامعہ کو دیکھا تھا۔