کہانی : پہلا حصہ
سفر تو تب بھی مشکل تھا جب وہ رات کے اندھیرے میں گھر سے نکلی تھی ۔ دل بھی کانپ رہا تھا اور قدم بھی مگر اس وقت سامنے منزل تھی ، ساتھ ہمسفر تھا ۔
رات کے تیسرے پہر یہ واپسی کا سفر تو کسی ڈراؤنے خواب جیسا تھا ۔ ہر موڑ پر لگتا تھا کوئی عفریت اسے نگل لے گی ۔ اپنے گھر کے دروازے کو دیکھا تو تحفظ کا احساس ہوا تھا ۔ اللہ کرے کسی کو پتا نہ چلے دل ہی دل میں اس نے دعا کی تھی ۔ دروازہ اس کے حسب توقع کھلا تھا ۔ مگر اندر کا منظر ہمیشہ کے لیے بدل گیا تھا ۔ اس کا باپ بے حس و حرکت چارپائی پر پڑا تھا ۔ اس کی ماں اسی چارپائی کی پائنتی سے لگی یوں بیٹھی تھی جیسے اپنی ساری متاع گنوا چکی ہو ۔ ادراک کا لمحہ قیامت تھا ۔ اس کی صالحہ پھوپھوجارحانہ انداز میں اس کی طرف بڑھیں تھیں اور ایک زوردار تھپڑ اس کے منہ پر دے مارا تھا ۔
’’ آوارہ، بے غیرت… جان لے لی تم نے میرے بھائی۔‘‘سدا کے بردبار اور معاملہ فہم عابد پھوپھا نے پھوپھو کے منہ پر ہاتھ رکھا تھا ۔
’’ لڑکی گھر واپس آ گئی ہے، ہمارے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ کیا ہو ا۔ اگر اپنے مرے ہوئے بھائی کی عزت پیاری ہے تو خاموش ہو جاؤ۔‘‘ پھوپھو نے آواز دھیمی کر لی تھی۔
’’پیدا ہوتے ہی مر جاتی تم تو اچھا ہوتا ۔ ‘‘
اس نے اپنے باپ کے زرد چہرے کو دیکھا تھا، بند آنکھوں کو دیکھا تھا۔ زندگی سے بھرپور ان آنکھوں نے،اب کبھی نہیں کھلنا تھا۔ واقعی اگر وہ پیدا ہوتے ہی مر جاتی تو اچھا تھا!
٭…٭…٭
’’ سامعہ ڈھنگ کے رشتے ملنا آسان نہیں، روایتی بات ہے مگر سچ ہے ۔ تم اٹھائیس کی ہو چکی ہو ۔ معاشی طور پر بھی تمہاری فیملی کمزور ہے ۔ اس سے بہتر رشتہ حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو ملنا مشکل ہے ۔ ‘‘
اس کی کولیگ اور واحد سہیلی آج پھر سکول کے سٹاف روم میں،اپنے کزن کے لیے اسے راضی کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔ کزن اس کا اچھا بھلا تھا ۔ میتھس میں ایم ایس سی، سبجیکٹ سپشلسٹ کے طور پر ایک گورنمنٹ ہائر سیکنڈری میں تعینات تھا ۔ لڑکے کی ماں کی خدا خوفی کہ لیے اتنی دلیل کافی تھی کہ بغیر کسی تام جھام کے جلد از جلد بیٹے کی شادی کرنا چاہتی تھی، اس لیے کہ باپ کی موت کے بعد ذمہ داریاں اٹھاتے اور بہنیں بیاہتے بیٹا بتیس سال کا ہو گیا تھا۔
’’ تم اور احمر بھائی ایک جیسے حالات سے گزرے ہیں ایک دوسرے کے مسائل سمجھ سکتے ہیں ۔ تم اپنی امی کو سمجھاؤ وہ سمجھ نہیں رہیں یا سمجھنا ہی نہیں چاہتی ۔ ‘‘ نائمہ کے لہجے میں کچھ جھلاہٹ اتر آئی تھی۔
’’ امی کا مسئلہ نہیں ہے، میں خود شادی نہیں کرنا چاہتی ۔ ‘‘ سامعہ کا معتدل لہجہ نائمہ کو سلگا گیا تھا۔
‘‘کیوں ایب نارمل ہو ؟ ایک عام عورت کا دل، اس کی خواہشات نہیں ہیں تمہارے اندر۔‘‘
’’ حالات خواہشوں کو نگل جاتے ہیں۔‘‘
’’ کیا حالات؟ حالات تم نے خود بھی ایسے بنائے ہوئے ہیں ۔ اکیس سال کی تھی تم جب تمہارے والد کی ڈیتھ ہوئی، تمہارا بھائی اب بائیس کا ہے، جو سٹرگل تم نے کی وہ کیوں نہیں کر سکتا؟‘‘
’’میرا ماسٹرز تقریبا کمپلیٹ تھا وہ ابھی پڑھ رہا ہے۔‘‘
’’ جتنا تم نے اسے ہر ذمہداری سے آزاد رکھا ہوا ہے وہ پڑھ کر بھی کوئی تیر نہیں مارنے والا اور تم سے چھوٹی انیلا، اس کی کوئی ذمہ داری کیوں نہیں تھی ؟ مزے سے شادی کرکے بیٹھ گئی ۔ بلکہ اس کی شادی بھی تمہاری ذمہ داری تھی اور تو اور ثمن بھی اتنی چھوٹی نہیں ہے اب…عجیب ہی نظام ہے تمہارے گھر کا۔‘‘
سامعہ نے کاغذ پر چلتا قلم روکا تھا اور پوری طرح ناعمہ کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔
‘‘میں تمہیں نہیں سمجھا سکتی، مگر یقین کرو میں کسی پر احسان نہیں کر رہی اور پلیز اب اس ٹاپک پر بات نا کرو۔‘‘
’’پچھتاوں کے علاوہ کچھ نہیں دے گا تمہیں یہ تمہارا ہیروئن بنے کا شوق!‘‘ ناعمہ نے تاسف سے سر ہلایا تھا
٭…٭…٭
’’ ہممم آئیڈیا تو بہت اچھا ہے مگر آئی ڈاؤٹ کوئی پروڈیوسر اس پر اس وقت کام کرنا چاہے گا ۔ ‘‘نادیہ نے سر نفی میں ہلاتے ہوئے اس کا ون لائنر واپس میز پر رکھا تھا۔
’’ تو پھر میں نا ہی سمجھوں ۔‘‘نفیس نے گہری سانس بھری تھی۔
’’ہاں ہو جائے گی مگر جیسے تم چاہ رہے ہو فوری پیمنٹ مل جائے تمہیں وہ مشکل ہے ۔ ایک تو بجٹ زیادہ چاہئے، دوسرا تمہیں پتہ ہے ہم ٹرینڈز فالو کرتے ہیں، ماضی قریب میں کوئی بھی مسٹری سیریل ہٹ نہیں ہوا ۔ ‘‘
’’ آخری مسٹری سیریل چلا کب تھا ؟ ‘‘نفیس نے طنزیہ انداز میں بھوئیں اچکا کر نادیہ کو دیکھا تھا۔
’’ یہی تو بات ہے‘ تاثر یہی ہے کہ مسٹری ہمارے ویوورز کا کپ آف ٹی نہیں ہے، لہٰذا اس یونرا پر کوئی کام ہی نہیں کرتا۔‘‘
’’ ہاہ…‘‘ نفیس نے ٹھنڈی آہ بھری تھی۔
’’غریبی اور آٹا گیلا… پہلی بار ریکارڈ بنا رہا ہوں مسلسل تین ریجیکٹڈ ون لائنرز کا ۔اچھا چلو ون لائنر نہیں اپروو کرنا تو کم از کم چائے ہی پلا دو ۔ آج کل چائے کے پیسے بھی بچا رہا ہوں کہیں کا نہیں چھوڑا مجھے اس فلم پروڈیوس کرنے کے شوق نے ۔ ‘‘اس نے کرسی پر مزید پھیل کر بیٹھتے ہوئے کہا تھا۔
’’چائے پیے بنا تم کب ٹلے ہو ۔ ‘‘نادیہ نے مسکراتے ہوئے انٹرکام اٹھایا تھا۔
نادیہ ایک بڑے چینل کی کانٹینٹ مینیجرہی نہیں اس کی دیرینہ دوست بھی تھی۔
’’ تمہاری فلم کا کیا بنا؟‘‘
’’ اس کا تو تم نام مت لو ۔‘‘وہ ہنسا تھا۔
’’کپڑے بیچنے کی نوبت آگئی ہے یہاں اور اس کا پھر کوئی نا کوئی خرچہ نکل آتا ہے۔‘‘
’’تو تمہیں کس نے کہا تھا، اتنے مشکل کام میں ہاتھ ڈالو۔‘‘
’’یار لو بجٹ سکرپٹ تھا، فائناسر مل گیا تھا ۔ کوئی اور تو مانتا نہیں ایسے سکرپٹ پر مووی پروڈیوس کرنے کے لیے سوچا خود ہی ہمت کرتا ہوں ۔ مجھے کیا پتہ تھا فائناسر بھاگ جائے گا اور فلم شیطان کی آنت بن جائے گی ۔‘‘
’’یار کچھ بھی ہو تم روک دیتے جب گھر بیچنے کی نوبت آگئی تھی ۔ فلم کا کیا ہے چلے نا چلے جوا ہی کھیل لیا تم نے اپنی ساری جمع پونجی پر۔‘‘
’’ بس کرو یار، دن رات کوستا ہوں میں خود کو اپنی حماقت پر، تم اچھی دوست بنو اس وقت اور مجھے کہو کے تمہاری فلم ہٹ ہو جائے گی ۔ جوتم نے لگایا ہے اس کا ڈبل واپس آئے گا ۔ ‘‘
’’ تمہاری فلم ہٹ ہو گی انشاء اللہ، جو تم نے لگایا ہے اس کا ڈبل نہیں ٹرپل واپس آئے گا انشاء اللہ ۔ ‘‘نادیہ نے تسلی دی تھی۔
’’اچھا ایک کام ہو سکتا ہے اگر تم کرنا چاہو، نو سے دس والے سلاٹ کے لیے ہمیں ایک سوپ سیریل کا سکرپٹ چاہئے مگر سٹوری لائن ذرا سمپل ہو وہی بس گھریلو مسئلے مسائل۔‘‘
نفیس کے چہرے کے زاویے تو بگڑے تھے مگر جو حالات تھے ان میں اس کے پاس صرف اپنی مرضی کا کام کرنے کی آزادی نہیں تھی۔
’’کوشش کرتا ہوں۔‘‘
’’جلدی چاہئے، فورا شوٹنگ سٹارٹ ہو گی اور تمہیں پے منٹ بھی جلد مل جائے گی۔ ویسے کوئی اتنا مشکل کام نہیں ہے دو چار ڈرامے دیکھ لو ایسے،باقی بھی اصل زندگی میں بھی ایسی مثالیں بھری پڑی ہیں کہیں سے انسپائریشن لو اور جلدی لکھو ۔ ‘‘نفیس نے چائے پیتے ہوئے سر ہلایا تھا۔
’’ بجٹ لو رکھنا بس دو تین ایزی لوکیشنز پر سارا شوٹ ہو جائے اور یہ اپنی سگنیچر femme fatale (قاتل حسینہ) کو بریک دو ۔ ایک بھولی بھالی، رشتے نا طوں اور محبت میں پھنسی ہیروئن کی کہانی لکھو ۔ سیدھی سادھی،صابر شاکر،قربانی کی دیوی ٹائپ ۔ ‘‘
’’ مطلب ایک کہانی گھسی پٹی ہو دوسرا ہیروئن بھی رج کے بورنگ ہو۔‘‘
’’ ایگزیکٹلی ۔ ‘‘نادیہ شرارت سے مسکرائی تھی۔
’’ کیا دن آگئے ہیں مجھ پر۔‘‘ نفیس نے گہری سانس بھری تھی۔
٭…٭…٭
’’ زرینہ پھوپھو آئیں تھیں ؟ ‘‘ تخت پر ماں کے ساتھ بیٹھتے ہوئے اس نے پوچھا تھا۔
قمیض کے بخیئے ادھیڑتی فریدہ نے سر ہلایا تھا۔
’’ ہاں بس دو منٹ کے لیے بیٹے کی شادی کا بلاوہ دینے وہ بھی امیر بھائی کے آئی ہوگی تو ادھر بھی جھانک لیا۔‘‘
’’ آپ کہہ دیتی ان سے اوپر والی منزل کو کرائے پر لگوانے کا ۔ رئیل اسٹیٹ ہی کا کاروبار ہے ان کے میاں کا۔‘‘
’’ رہنے دو اسے۔‘‘فریدہ نے ناگواری سے سر جھٹکا تھا ۔
’’ ایک نمبر کی مطلبی اور خودغرض عورت ہے ۔ تمہارے ابو حیات تھے تو کیسے روز وارد ہوتی تھی ۔ اپنے سگے بھائیوں سے زیادہ چچازاد بھائی کو سگا کہتی تھی ۔ اب غلطی سے ادھر کا رخ نہیں کرتی ۔ سب اچھے ناشتوں کھانوں اور تحفے تحائف کی کشش تھی ۔ ایسے خودغرض لوگ کسی کے لیے کچھ نہیں کرتے ۔‘‘
’’ پھر بھی آپ کہہ تو دیتیں۔‘‘
’’ رہنے دو کرنا اس نے کچھ تھا نہیں ۔ میں کیوں ایسی کم ظرف عورت کے سامنے اپنا آپ چھوٹا کرتی۔‘‘
سامعہ گہری سانس بھر کر رہ گئی ۔ ماں کو یہ نا کہہ پائی کہ جب ضرورتیں منہ کھولے کھڑی ہوں تو اناؤں کے پرچم لپیٹنے پڑتے ہیں ، موہوم سی امید پر بھی در کھٹکھٹانے پڑتے ہیں۔
’’ انٹرنیٹ پر تو کب سے اشتہار دیا ہے ۔ صرف دو لوگ آئے ‘ انہیں بھی پسند نہیں آیا ۔ پسند بھی کیسے آئے ؟کتنی بری حالت کر کے گئے ہیں پچھلے کرائے دار ۔ پیسے ہوتے تو کچھ رنگ و روغن کروا لیتے ۔ ‘‘ وہ مایوسی سے بولی تھی۔
’’ اللہ پوچھے ان منحوسوں کو تو ۔ اتنا بیڑہ غرق کیا ہے گھر کا ۔ بیوہ مجبور عورت کو دیکھ کر تو لوگ یوں ہی شیر ہو جاتے ہیں کہ کیا اکھاڑ لے گی ۔ تمہارے ابو ہوتے تو ایک دم تمیز سے رہتے ۔ خیر ان کے جیتے جی ہمیں ضرورت ہی کیوں پڑتی کرائے دار رکھنے کی ۔‘‘ ڈھلتی شام کی اداسی فریدہ کے لہجے میں اتر آئی تھی ۔
سامعہ سر جھکا کر پاؤں کے انگوٹھے سے فرش کریدنے لگی تھی ۔اگلے کچھ منٹ ماں بیٹی نے اپنی اپنی کیفیات میں گم گزارے تھے پھر سامعہ دوبارہ گویا ہوئی تھی۔
’’ اگر سفیان موٹر سائیکل بیچنے پر راضی ہو جائے تو ان پیسوں سے مرمت ہو سکتی ہے ۔ کرایہ آنے لگا تو میں کمیٹی ڈال کر نئی لے دوں گی ۔‘‘
’’بات کر کے دیکھ لو ۔ مشکل ہے مان جائے ۔ میں تو لے کے دینے ہی کے خلاف تھی بھئی۔‘‘
’’وعدہ لیا تھا اس نے مجھ سے کہ اگر اتنا اچھا رزلٹ لایا کہ آئی بی اے میں ایڈمیشن ہوگیا توبائیک لے کر دوں گی ۔ اسی امید پر اس نے اتنی محنت کی تھی ۔ اس کا دل میں کیسے توڑتی۔‘‘
’’ اس کے دل میں تو ارمان جاگتے ہی رہتے ہیں اب کہہ رہا ہے رشتہ لے جاؤ میرا اس لڑکی کے گھر ۔ ‘‘فریدہ نے کان سے مکھی اڑائی تھی۔
’’پھر؟‘‘
’’ منع کر دیا ہے میں نے ۔ کس منہ سے جائیں گے ؟ لڑکا پڑھ رہا ہے اور باقی بھی کوئی حالات نہیں ۔ اس بات پر اب منہ پھلائے پھر رہا ہے چار دن سے۔‘‘
سامعہ نے گہری سانس بھری تھی ۔ دیکھ تو رہی تھی وہ بھی اس کا خفا خفا انداز مگر بات ماں کی بھی ٹھیک تھی ۔ یونیورسٹی میں کلاس فیلو پسند تھی ۔ اچھے گھر کی خوبصورت لڑکی تھی،مگر مشکل تھا کہ ان حالات میں اس کے گھر والے مان جاتے ۔
رات کو اس نے رسان سے اس سے بات کرنی چاہی۔
’’ سفیان کرائے کے بغیر بہت مشکل ہے نظام چلانا، ایک روپیہ نہیں بچتا بلکہ آخری دنوں میں ادھار کی نوبت آجاتی ہے اگر تم ابھی موٹر سائیکل بیچ دو۔‘‘
’’ ہاں بس اب میری موٹر سائیکل آپ کی آنکھوں میں کھٹکنے لگی ہے ، حالانکہ پیٹرول بھی میں زیادہ اپنے پیسوں کا ڈالتا ہوں ٹیوشن پڑھا کر ۔ ‘‘ یہ جتانا وہ کبھی نہیں بھولتا تھا کہ وہ اپنے خرچے کے لیے ٹیوشن پڑھاتا ہے حالانکہ وہ خرچ محض جیب خرچ تک محدود تھا ۔ تمام ضروری اخراجات سامعہ کے ذمہ تھے ۔ حتیٰ کہ جیب خرچ کی مد میں بھی وہ کچھ نا کچھ اسے دیتی ہی رہتی تھی۔
’’ سفیان یہ بات نہیں ہے مجبوری ہے پلیز سمجھنے کی کوشش کرو۔ ‘‘
’’ میرے لیے بس مجبوریاں ہیں سمجھنے کے لیے ۔ ‘‘ وہ تن فن کرتا باہر نکل گیا تھا۔
سامعہ نے وہیں تخت پرچت لیٹ گئی تھی ‘ اسے اپنے پور پورمیں تھکن محسوس ہوئی تھی ۔ انتھک کوشش کے بعد بھی انسان ناکام ہی رہے توتھکن روح میں اتر جاتی ہے۔
٭…٭…٭
نا رسمیں ہیں، نا قسمیں ہیں نا شکوے ہیں نا وعدے ہیں۔
ایک صورت بھولی بھالی ہے دو نینا سیدھے سا دھے ہیں۔
ایسا ہی روپ خیالوں میں میں تھا جیسا میں نے سوچا تھا۔
چاند سی محبوبہ ہو میری کب ایسا میں نے سوچا تھا۔
ہاں تم بلکل ویسی ہو جیسا میں نے سوچا تھا۔‘‘
دو دن ہوچکے تھے اسے مکیش کے اس گانے پر وائب کرتے مگر مجال ہے کہ کسی ’’سیدھی سادھی، صابرہ شاکرہ‘‘ کے کوئی خدوخال واضح ہوئے ہوں ۔ اکتا کر اس نے لمحہ بھر کو میوزک آف کرنے کو نگاہ سڑک سے ہٹائی تھی اور اگلے ہی لمحہ عبایہ میں ملبوس ایک خاتون اس کی گاڑی کی زد میں تھی ۔ اچانک بریک سے گاڑی کے پہیے چرچرائے تھے ۔ وہ تشویش کے عالم میں گاڑی سے اترا تھا ۔ عبایہ میں ملبوس سڑک پر گری لڑکی کو اٹھنے کی سعی کرتے دیکھ کر اس نے مدد کے لیے ہاتھ بڑھایا تھا۔