افسانے

جلی ہوئی روٹیاں: راضیہ سید

’’یہ آج کی بات نہیں بلکہ روز کا معمول بن گیا ہے کہ دفتر سے جیسے ہی واپسی ہوتی ہے اور بندہ بھوک سے بے حال ہوتا ہے تو سالن کے ساتھ جلی ہوئی روٹیاں دیکھ کر ہی جی متلانے لگتا ہے ۔ ہماری شادی کو اٹھارہ سال ہو گئے ہیں لیکن تمہیں روٹیاں اب تک ٹھیک سے پکانا نہیں آئیں ۔ اب مانا کہ تمہاری شادی کم عمری میں ہوئی ہے لیکن میری ماں بہن سے جہاں سالن پکانا سیکھ لیا تھا وہیں روٹی پکانا بھی سیکھ لینا تھا لیکن نہیں بات وہی ہے کہ شوہر کو پریشان کرنا تمہاری عادت بن چکی ہے ۔ ‘‘شاہ زیب آج پھر ہمیشہ کی طرح غصے سے آگ بگولہ ہو رہا تھا۔
صوفیہ اپنے گھر میں سلائی کڑھائی سے لے کر سب کام کرتی تھی ۔ ہاں بڑی بہنوں اور بھاوجوں کی وجہ سے کچن میں ذرا کم کم ہی جاتی تھی ۔ خاص طور پر تو روٹیاں پکانے سے اس کی جان جاتی تھی ۔ شادی ہوئی تو مختصر سا خاندان تھا، شاہ زیب اچھا اور سلجھا ہوا لڑکا تھا ایک بیوہ ماں اور دو بہنوں کا واحد سہارا تھا ۔ شروع شروع میں تو سب بہت اچھا رہا ۔ آہستہ آہستہ یہ معلوم ہوا کہ شاہ زیب کھانے کے معاملے میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کرتا تھا ۔ بہنوں اور ماں نے اکلوتا ہونے کی وجہ سے ہاتھ کا چھالا بنا رکھا تھا ۔ سو کبھی سالن میں نمک زیادہ کم ہوتا تو صوفیہ کی شامت آجاتی ۔ وہ تو اللہ بھلا کرے صوفیہ کی ساس کا جو اکلوتے بیٹے کے عتاب سے اسے بچانے کے لئے میدان میں آجاتیں ۔ کئی دفعہ تو اماں بھی شاہ زیب کی خوب خبر لیتیں ۔
’’چلو بہو کو کچھ نہ کہو ‘ آخر اس نے سالن بھی تو بنانا سیکھ لیا ۔ روٹی اگر گول نہیں تو کم ازکم پکا تو لیتی ہے اور کیا ہوا کبھی کبھار جل گئی ۔ روز تو تمہیں بہترین کھانا ملتا ہے ۔ یہ بھی تو دیکھو کہ گھر بھر کے کپڑوں کی سلائی بھی وہی کرتی ہے ۔ سارا سارا دن مشین پر بیٹھ کر کمر تک جھکا لی اس نے لیکن تمہیں اس کی بالکل فکر نہیں ۔ ارے یہی سوچ لو کہ تمہاری بہنوں کی شادیوں کے اخراجات کا کتنا بوجھ اس نے ہی اٹھایا لیکن تم وہی ناشکرے کے ناشکرے ہی رہنا ۔ غلطی ہماری ہی ہے بچپن سے تمہیں سر چڑھا لیا اور آج تم بہو کے لئے آزار بن رہے ہو ۔‘‘
لیکن وہ شاہ زیب ہی کیا جو کھانے کے معاملے میں زرا سا بھی سمجھوتہ کرے ۔ روزکی لڑائی سے ایک طرف اماں تنگ تھیں تو دوسری طرف بیوی صوفیہ ۔ جہاں تک رہی اولاد کی بات تو اللہ نے ایک ہی بیٹی امن سے نوازا تھا ۔
امن کی نظروں سے ماں کی آنسو بھری آنکھیں پوشیدہ نہ تھیں ۔ صوفیہ تو گویا اب بے حس ہو چکی تھی اس پر اب شاہ زیب کی ڈانٹ پھٹکار کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا ۔ لیکن ان کی بیٹی امن اس سب صورتحال سے بہت پریشان رہتی تھی ۔ ایک طرف وہ دیکھتی کہ محلے بھر کی نگاہوں میں باپ بہت معزز ہے لیکن ماں کے ساتھ ان کا رویہ تضحیک آمیز ہے ۔ سو وہ بھی اپنی ذات کے خول میں بند ہوتی چلی گئی ۔
آج دفتر سے واپسی پر شاہ زیب کا موڈ خلاف توقع بہت خوشگوار تھا پہلی مرتبہ جب بیوی سے بھی خوش دلی سے بات کی تو وہ بھی حیران ہو گئی ۔ شاہ زیب کے قریبی دوست کے توسط سے امن کا رشتہ آیا تھا۔ لڑکے کی والدہ نے شاہ زیب کے دوست کے بیٹے کی شادی میں امن کو یکھا تھا ۔ اس کی خوب صورتی پسند آئی ۔ وہ کھاتے پیتے لوگ تھے اور لڑکا میجر ڈاکٹر تھا ۔ امن کم عمر اور زیر تعلیم تھی اور شاہ زیب یہ رشتہ گنوانا نہیں چاہتا تھا ۔ لیکن صوفیہ اس رشتے کے خلاف تھی۔
’’شاہ زیب آپ سوچ لیں، رشتے برابری میں اچھے لگتے ہیں ۔ ہماری بچی سیدھی سادی اور کم عمر ہے اور اسے تو گھر کے کام بھی نہیں آتے، ہم نے بہت نازوں سے پالا ہے ۔ کہیں ہمیں پچھتانا نہ پڑے۔‘‘ صوفیہ کے دل میں بہت خدشات تھے ۔
لیکن وہ شاہ زیب ہی کیا جو اپنی ضد پر قائم نہ رہے ۔
’’ تم جیسی عورت خود ہو ویسا ہی میری بیٹی کو سمجھتی ہو ۔ تمہاری ناقص معلومات میں اضافہ کر دوں کہ اسے وہاں کھانا نہیں پکانا پڑے گا کیونکہ وہاں خانساماں، بیٹ مین سب ہوں گے تم ایسے ہی فکر میں گھلتی مت رہو۔‘‘
شادی کی تیاریاں دونوں طرف سے شروع ہو گئیں ۔ شاہ زیب نے اونچی آن بان کے لئے کئی جگہوں سے قرضے لیے تھے لیکن شادی کے دن بہت خوش تھا کہ بیٹی کے لئے کسی چیز کی کوئی کمی نہ چھوڑی ۔ ساتھ ہی باتوں باتوں میں بیوی کو بھی جتا دیا کہ دیکھنا میری بیٹی راج کرے گی۔
دن گزرتے گئے لیکن امن نے ماں باپ سے کسی رسمی بات چیت کے سوا کبھی کوئی بات نہ کی جب بھی میکے آتی ‘ جلدی سے واپسی کا شور مچا دیتی ۔ شام ہی اس کا شوہر لینے کے لیے پہنچ جاتا ۔ دونوں ماں باپ بیٹی سے طویل بات کرنے کے لئے ترس گئے تھے ۔ داما د اور بیٹی دونوں رسمی طور پر گھر آنے کی دعوت دیتے ۔ صوفیہ ماں تھی اسے امن کی آنکھوں میں عجیب سے وحشت دکھائی دیتی تھی جیسے ماں کو کچھ بتانا بھی چاہ رہی ہو اور کہہ نہ پا رہی ہو۔
ایک چھٹی والے دن دونوں میاں بیوی قریبی مارکیٹ گئے تو خیال آیا کہ یہیں قریب ہی تو امن کا گھر بھی ہے ۔ سو کیوں نہ اسے اچانک سرپرائز کیا جائے ۔ گھر کا دروازہ باوردی چوکیدار نے کھولا ۔ شاہ زیب بیوی کے ہمراہ گاڑی سے اتر کر ڈرائینگ روم جانے لگا تو ساتھ ہی کچن سے ان کے داماد کی آوازیں آرہی تھیں۔
’’ ماما کو میں نے کہا بھی تھا کہ مجھے تم سے شادی نہیں کرنی ۔ مجھے اپنی کلاس میں شادی کرنی تھی ۔ اس لڑکی سے جو میری سوسائٹی میں موو کر سکے ۔ لیکن نہیں ماما کو تو تمہاری معصومیت بھا گئی ۔ اب تمہاری وہی مڈل کلاس والی سوچ کہ نہیں کچن عورت سے سجتا ہے ۔ آج بیٹ مین کو چھٹی دیتے ہیں ‘ میں کھانا پکا لوں گی ۔ یار اگر تمہیں کچھ آتا نہیں ہے تو کیا تم ساری زندگی مہارانی بن کر ہی بیٹھی رہو گی ۔ چلو سالن تو پھر تم گزارے لائق بنا لیتی ہو ۔ لیکن روٹیاں تک تمہیں بنانا نہیں آئیں ۔ ہر مرتبہ سالن کے ساتھ جلی ہوئی روٹیاں کچھ تو خیال کر لیا کرو۔‘‘
داماد بالکل وہی جملے ادا کر رہا تھا جو کبھی ان کی زبان سے کسی اور کی بیٹی کے لئے نکلے تھے ۔ شاہ زیب کی نظریں صوفیہ سے ٹکرائیں تو شرم سے جھک گئیں ۔ ان کی بیٹی بھی ویسے ہی کچن میں کھڑی رو رہی ہو گی جیسے کبھی صوفیہ دبی آواز میں رویا کرتی تھی ۔ گویا جلی ہوئی روٹیوں کی سیاہی نے ان کی بیٹی کا نصیب بھی جلا ڈالا تھا۔
ختم شد

Related Articles

One Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے