ہم سرد ستارے: صبا زین
’’ہم دونوں ایک فیری ٹیل کے کردار ہے؟ میرے خیال سے تو ہم دونوں کے درمیان چند ایک باتوں کے علاوہ کچھ بھی کہانی سا نہیں ہے ۔ اگر ہم دونوں سچ میں ایک فیری ٹیل کے کردار ہوتے تو…‘‘ اس نے جان بوجھ کا جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’تو پھر اس میں محل ہوتا، کرس ہوتا، اس کرس توڑنے کے لئے محبت ہوتی اور شاید ایک آخری ڈانس…‘‘وہ اس کی طرف رخ کرکے مسکرائی، پھر اپنے دونوں ہاتھ پیچھے کی طرف کرکے اپنا رخ آسمان کے ستاروں کی طرف کر لیا۔ آج آسمان چاند کی روشنی سے خالی تھا۔
اصل دنیا کے پر شور ٹریفک سے دور یہ محل چاند تاروں کو پوری تابناکی کے ساتھ روشن ہونے کی دعوت دیتا تھا ۔ اس کی بات سن کر کچھ سوچ کر اسد چھلانگ لگا کر اپنی جگہ سے کھڑا ہوا۔ اس نے اپنا ایک ہاتھ اپنی کمر پر باندھ کر دوسرا ہاتھ زمین پر بیٹھی رومیسہ کی طرف بڑھایا ۔ رومیسہ نے اپنی آنکھوں میں بچوں کی سی حیرانگی بھر کر اپنے سامنے جھکے بھرپور جوان کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’اس فیری ٹیل میں ہمارے پاس محل ہے ۔ ہم دونوں ہی ایک کرس میں مبتلا تھے مگر محبت کے جادو نے اس کرس کو توڑ دیا، میرا تو یقین ہے کہ توڑ دیا ہے تو پھر بس ایک رقص رہ گیا ہے تمہارا مجھ پر ادھار … وہی پوچھ رہا ہوں ۔ مے آئی ہیو آ اونر ٹو ڈانس ود یو؟‘‘ اس کے جواب پر رومیسہ نے پلکیں جھپکا کر اس کو دیکھا ۔ ایسے جیسے کسی خواب کو ان پلکوں سے جھٹک دینا چاہتی ہو۔
’’ایک خیالی انسان کی محبت بھی کسی بد دعا کو توڑ سکتی ہے۔‘‘ اس نے منہ پھیر کر یاسیت سے کہا۔
’’تم سے کس نے کہہ دیا میں خیالی ہوں؟‘‘ اسد مسکرایا۔
اس کی بات پر رومیسہ نے اپنی آنکھوں میں حیرت اور بے یقینی بھر کر اس کودیکھا۔
’’کیا مطلب… تم میرا تخیل ہو ۔ میں نے تمہیں اپنا ناول شروع کرنے سے پہلے ایک کاغذ پر اس محل کے ساتھ اتارا تھا ۔ اس دن سے تم میرے خوابوں کے شریک بن گئے؟‘‘
’’میں اصلی ہوں رومیسہ، یہ میرے خواب ہے ۔ تخیل تم میرا تھی ۔ اچھا تم مجھے ایسا کچھ بتاؤ گی جو میں نہیں جانتا۔‘‘
اس کی بات پر رومیسہ سوچ میں پڑ گئی۔
’’کیا تم ستاروں پر یقین رکھتے ہو؟‘‘ اس کی بات پر اسد نے چونک کر اس کو دیکھا۔
’’وہ دیکھو…‘‘ اس نے دور افق پر چند ستاروں کی طرف اشارہ کیا۔
اسد کی نظروں نے اس کی انگلی کا تعاقب کیا۔
’’تم نے مجھے بتایا تھا نا کہ میں صبح کا ستارہ ہوں تو شاید لوگ بھول جاتے ہیں کہ اسد ایک زوڈیاک ہے ۔ اسد کے معنی عام طور پر لوگ شیر کے لیتے ہیں، شیر ستارہ اسد کا سمبل ہے۔ اور یہ ستارے اسد یعنی لیو زوڈیاک سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘ اس نے انگلی ہلا کر دوبارہ اس ستارے کی طرف اشارہ کیا اور فخرانہ نظروں سے اسد کی طرف مڑ کر دیکھا، جس کے چہرے پر ایک سوچ کی پرچھائی تھی۔
’’اچھا توتم مجھے اپنی زندگی میں کیسے جانتی ہو؟‘‘ اب کی بار رومیسہ تھوڑا الجھی مگر اس کو آہستہ آہستہ ان کے کالج کا واقعہ بتاتی گئی۔
’’کیا تم زندہ ہو؟‘‘ اسد کی بات پر اس نے بدک کر اس کو دیکھا۔
’’کیا مطلب، میں زندہ ہوں۔‘‘
’’تو پھر میں بھی زندہ ہوں اور اصلی ہوں اور اس وقت تمہارا خیال نہیں تم سے اصل اسد ہی کھڑا یہاں باتیں کر رہا ہے۔‘‘
رومیسہ نے اس کو بے یقینی سے دیکھا۔
’’اب کی بار جب تم جاگو تو مجھ سے شام چار بجے اپنے کالج کے آرٹ ڈیپارٹمنٹ میں نیلے لباس میں ملنا ۔ ثابت ہوجائے گا کہ میں حقیقت ہوں، تمہارا خیال نہیں۔‘‘ اس نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پورے یقین سے کہا۔
رومیسہ نے گم صم انداز سے بغیر بحث کیے اثبات میں سر ہلا دیا اور خود بیٹھ کر دوبارہ اس کے ہم نام ستارے کو تکنے لگی۔
اسد نے بھی کوئی بات نہ کی اور ان لمحوں کو خاموشی کی نذر کر دیا۔
٭…٭…٭
اسد اس کا تخیل نہ تھا۔
وہ اس کے ان کہے سوالوں کے جواب دیتا ہوا، اس کے غم سنتا ہوا، اس کو زندگی کی طرف بلاتا ہوا کردار اصل میں ایک جیتا جاگتا انسان تھا ۔ جو اس سے خوابوں میں ملاقات کرتا تھا؟
اس دن کانپتے ہاتھوں سے رومیسہ نے اپنے آپ کو سنوارا تھا ۔ دل تھا کہ امید اور نا امیدی کے پنڈولم میں جھول رہا تھا ۔ یہ سچ ہوا تو اس نے تو اپنے دل کا ہر تاریک راز اس کو بتا دیا تھا، بشمول اظہار محبت کرنے کے ۔ اس خیال کے ساتھ بغیر کسی لالی کے اس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
دوسری طرف اسد نے بھی تو یہی کیا تھا ۔ کیا پتا کہ یہ قدرت کا اشارہ ہو ۔ اس کی کوئی سازش ہو ۔ اس کا دل پھر سے امید کے ساتھ دھڑکا ۔اس نے کہا تھا کہ ان دونوں کی محبت نے ہی ان دونوں کو کرس سے آزاد کیا تھا ۔ ان دونوں کے درمیان جو تھا کیا وہ محبت تھی ؟ ان سب سوالوں کے جواب اس کو ایک ہی جگہ سے ملنے تھے۔
وہ اس کوڈیپارٹمنٹ کی سیڑھیوں پر ہی بیٹھا مل گیا تھا۔
’’میں نے سوچا کہ کیا تم پورے ڈپارٹمنٹ میں مجھے ڈھونڈتے ہوئے خوار ہوگی ۔ تمہارے لیے آسانی کر دیتا ہوں۔‘‘ وہ بظاہر بے تکلفی سے بولا مگر اس کے ہاتھوں کا مسلنا اس کی اندرونی گھبراہٹ کو ظاہر کر رہا تھا۔
رومیسہ نے اس کو سر سے پیر تک دیکھا۔ وہ بلیو جینز پر سفید جرسی شرٹ پہنے بال سلیقے سے بنائے ہوئے تھا ۔اس نے آس پاس دیکھا۔ ایک لڑکی اس کو کلاس کی طرف جاتے ہوئے دکھائی دی تھی۔ وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھی۔
’’ایکسکیوز می! وہ لڑکا جو سیڑھیوں کے پاس کھڑا ہے، کیا آپ کو بھی دکھائی دے رہا ہے؟‘‘ اس لڑکی نے پہلے اس کے ہاتھ کے تعاقب میں دیکھا پھر اس کو ایسے دیکھا جیسے اس کے سر پر سینگ اگ آئے ہو۔
’’پلیز کیا آپ مجھے بتا سکتی ہو کہ اس نے کون سے کپڑے پہنے ہیں؟‘‘ اس نے دوبارہ سوال کیا۔
لڑکی نے پھر سے اس کو عجیب نظروں سے دیکھا اور پھر جواب دیا۔
’’سفید شرٹ اور نیلی پینٹ… آپ اندھی ہو کیا؟‘‘ لڑکی نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔
’’نہیں، مگر اب لگتا ہے جیسے مجھے بصارت مل گئی ہے۔‘‘ وہ اس لڑکی کی عجیب نظروں کو نظر انداز کرتی تیزی سے اسد کی طرف بڑھی۔
’’آگیا یقین؟‘‘ اس نے سینے پر ہاتھ باندھ کر پوچھا۔
’’اب کیا؟‘‘ اس نے جھجھک کر پوچھا ۔
یہ ایک ایسا سوال تھا جو پوچھنا ضروری تھا۔ ٹھیک ہے وہ ایک دوسرے کا تخیل نہیں تھے ۔ وہ ایک دوسرے کے خوابوں میں ملتے تھے مگر اس سے کیا ثابت ہوتا تھا؟ وہ دونوں کہاں کھڑے تھے؟ اسد کہاں کھڑا ہونا چاہتا تھا؟
’’میرا تو اس قدرت کے تحفے کو قبول کرنے کا ارادہ ہے جو مجھے تمہاری صورت ملا ہے۔‘‘ اسد نے سادگی سے جواب دیا۔
رومیسہ کا اس کے جواب پر زور کا دل دھڑکا ۔ مگر پھر وہ ساری چکنی چپڑی باتیں یاد آنے لگیں جو غلط لوگوں نے اس کے ساتھ بول کر اس کوکمزور کر دیا تھا ۔ اب کی بار وہ کمزور نہیں پڑے گی۔
’’اور اگر یہ محبت نہ ہوئی تو؟ بس وقتی جذبہ ہوا جو صرف اور صرف ہمارے خوابوں کی وجہ سے ہمیں قریب لے آیا ہے تو…‘‘ اس نے اپنے خدشے کا اظہار کیا۔
’’میں یہ مانتا ہوں کہ میں نے اپنے آپ کو اپنے خوابوں کے ذریعے پایا ہے اور میں ہمارے حالات کو سچی محبت کے علاوہ کچھ نہیں مانتا ۔ تم غلط کہتی تھی کہ سچی محبت صرف معصوم دلوں پر ہی اترتی ہے ۔ کچھ دل ہمارے جیسے بھی ہوتے ہیں جنہیں قدرت خود انتظام کر کے سچی محبت سے ملواتی ہے۔‘‘
وہ دونوں چلتے چلتے باہر باغ میں آ گئے اور سورج مکھی کے پھولوں کے پاس سرما کی دھوپ میں بیٹھ گئے۔
’’تو کیوں نا اس سچی محبت میں ہم ہمیشہ کے لئے قید ہو جائیں۔‘‘ اس نے جیب سے مخملی ڈبیا نکال کر اس کے سامنے رکھ دی۔
اس نے حیرت سے اپنے سامنے بیٹھے وجود کو دیکھا اور دل کیا کہ اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھا دے۔ مگر وہ ماضی میں کی ہوئی غلطیاں دوبارہ نہیں دہرائے گی۔
’’سچی محبت آپ کو آزاد کرتی ہے اور میں ہم دونوں کو آزاد کرنا چاہتی ہوں ۔ کسی وقتی جذبے کی قید میں آکر کوئی غلط فیصلہ نہیں کرنا چاہتی۔‘‘ اس کے چہرے پر سنہری دھوپ میں بھی تاریکی نے سایہ کیا۔
اسد نے مایوس ہو کر انگوٹھی کا کیس بند کیا
’’پھر کیا چاہتی ہو تم مجھ سے…‘‘
’’آج کی تاریخ یاد رکھو اسد محسن! پورے ایک سال بعد جب ہم دونوں اپنی اپنی منزلیں پا لیں گے، ہو سکتا ہے کہ اس سے زیادہ وقت لگ جائے مگر چلو اس ایک سال کو ہم دونوں اپنی ڈیڈ لائن بنا لیتے ہیں ۔ اس ایک سال کے دوران ہمیں کوئی اور نہ ملا اور یہ جذبہ قائم رہا تو یہ انگوٹھی منہ دکھائی کے طور پر میرے ہاتھ میں سجا دینا کیونکہ میرا نہیں خیال کہ اس عمر میں ہم منگنیاں پالتے اچھے لگتے ہیں۔‘‘ اس نے بات کے آخر میں ایک پرچی اس کی طرف بڑھا دی۔
’’اس میں میرا ای میل ایڈریس ہے۔‘‘
’’واہ! تم تو کافی بولڈ نکلی۔‘‘ اسد شوخی سے بولا۔
وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’ہم نے اپنا دل پہلے ہی ایک دوسرے کے سامنے کھول دیا ہے اسد…‘‘ اس نے کندھے اچکا کر باہر کی طرف قدم بڑھا دیے۔
’’پھر ملتے ہیں ایک سال بعد۔‘‘ وہ پیچھے سے چلایا۔
رومیسہ نے اس کو نرم مسکراہٹ سے مڑ کر دیکھا۔
٭…٭…٭
ایک سال بعد
چاند کتنا ہی خوبصورت اور تابناک کیوں نہ ہو، مگر اس کی روشنی ستاروں کو کھل کر ہنسنے کا موقع نہیں دیتی ۔ کسی پر غرور حاکم کی طرح آسمان پر راج کرتا ہے یہ چاند مگر اس کی غیر موجودگی کئی بار ستاروں کو جشن منانے کا موقع دے دیتی ہے ۔ وہ رات اماوس کی تھی، ستاروں کے جشن کی، آسمان ستاروں سے بھرا پڑا تھا ۔ ایسے جیسے کسی نے سیاہ آنچل پر ان کو ٹانک دیا ہو۔
ایسے ہی تاروں بھرے آسمان کے نیچے اپنی بالکونی میں بیٹھی رومیسہ فرقان اپنے خوابوں کی جستجو میں لگی ہوئی تھی ۔ گھڑی رات کا بارہ کا ہندسہ عبور کر گئی تھی ۔ مگر وہ جو اپنی کتاب کے دوسرے حصے پر کام کر رہی تھی کو کسی چیز کا ہوش نہیں تھا۔
چونکی تو وہ اپنے موبائل کی ای میل کی بیپ سے تھی۔
اس نے بے خیالی میں موبائل اٹھا کر دیکھا تو بھیجنے والے کا نام دیکھ کر اس کے دل نے یک لخت کئی دھڑکنیں مس کر دیں ۔ ای میل کے سبجیکٹ میں ’’ایک سال ہوگیا ہے‘‘لکھا گیا تھا ۔ اس نے ای میل کھول کر پڑھی تو کچھ پلوں کے لئے سانس لینا بھول گئی تھی۔
’’مبارک ہو، میرے جذبات ابھی تک وہی قائم ہے ۔ اگر تمہارے بھی ہیں تو کل مجھے اپنے مقام پر ہی ملنے آ جانا۔ اگر نہیں ہے تو اس ای میل کے ریپلائی میں ’’مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے‘‘ لکھ دینا، میں سمجھ جاؤں گا ۔میں نے اس ایک سال میں اپنی ماسٹر کلاس پوری کرلی ہے اور المصور میں تین بار میری پینٹنگ لگ چکی ہے ۔ لیلیٰ نے صحیح کہا تھا کہ محبت کو سمجھ کر انسان اپنے فن میں زندگی لے کر آ سکتا ہے ۔ تم سے مل کر مجھے دوبارہ زندگی ملی ہے رومیسہ…اب میری اگلی منزل پیرس کی آرٹ گیلریز ہیں مگر وہاں میں تمہیں ساتھ لے کر جانا چاہتا ہوں ۔ ہاں تمہاری کتاب پڑھی ۔ جب تم سے ملوں گا تو اس پر تفصیلی تبصرہ کروں گا ۔ اور اپنے خاندان میں دور و نزدیک میں جتنے بھی ٹین ایجرز اور بچے ہیں ان کو میں تمہاری کتاب گفٹ کر چکا ہوں ۔ اگلے حصے کا ہم سب کو ہی بے صبری سے انتظار ہے اور مجھے کل ہونے کا ۔اور دیکھو اگر نہیں آنا تو مجھے ریپلائی فوراً کرنا ۔ تاکہ آج رات غم منا کر کل سے زندگی کی ڈگر پر دوبارہ چل سکوں۔ زندگی تم سے زیادہ تو نہیں مگر قیمتی تو ہے ۔ فقط تمہارا منتظر: اسد محسن…‘‘
اس نے کانپتے ہاتھوں سے ریپلائی کے آپشن پر کلک کیا اور چند کیز دبائی۔
’’ہاں، زندگی قیمتی تو بہت ہے اور میرے جذبات بھی وہی قائم ہے۔ مجھے بھی کل کا انتظار رہے گا ۔
فقط: تمہارا صبح کا ستارہ
٭…٭…٭
پیرس میں آکر اداس ہونا جرم ہے۔ یہ پیار کا پہلا شہر ساری یاسیت، ساری اداسی کو دھو ڈالتا ہے ۔ ان دونوں کی اداسی تو اسی دن کہیں ہوا میں تحلیل ہو گئی تھی، جب ان دونوں نے قانونی اور شرعی طور پر ایک دوسرے کا ہاتھ تھاما تھا۔
’’ہنی مون تو پیرس میں ہی بنتا ہے۔‘‘ یہ اسد کا کہنا تھا، یہ الگ بات کہ اس کواپنی نمائش کے سلسلے میں پیرس جانا ہی تھا۔
رومیسہ کو معلوم تھا، مگر اس کی کتاب کا تیسرا حصہ مزید ایڈونچر مانگتا تھا، وہ ایڈونچر اس رنگین شہر میں اس کوہر جگہ ملنے والا تھا ۔ اب پیرس آئے تھے تو ایفل ٹاور کے سامنے ایک تصویر تو بنتی ہی تھی۔
’’کہانی کے آخر میں ایک آخری رقص تم پر ادھار ہے۔‘‘ اسد نے اس کو بازوؤں میں لے کر گھمایا تو وہ چونک کر ہنس دی۔
اس نے ایک پل کے لئے آس پاس دیکھا، مگر کوئی ان کی طرف متوجہ نہ تھا۔ اور ہوتا بھی تو کیا تھا؟ اس کے لیے تو یہاں صرف وہ تھی اور اس کی زندگی کا ساتھی… باقی سب تو بیک گراؤنڈ میں رنگ بھرنے کے لئے اس تصویر کا حصہ تھے۔
’’بھلا تصویر کھنچواتے ہوئے کون رقص کرتا ہے؟‘‘ فوٹوگرافر نے بیزاری سے سوچا ۔ مگر یہاں پر ایسے سر پھرے روز آتے تھے سو مسکرا کر سر جھٹک دیا۔
’’اور تو کچھ نہیں چاہئے نا؟‘‘ اس نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اپنا دوسرا ہاتھ اس کی کمر پر رکھا اور اس کے قدموں سے اپنے قدموں کا ناطہ جوڑا۔
’’نہیں ہمارے پاس پیرس ہے۔‘‘ کسی فلم کا ڈائیلاگ یاد کر کے رومیسہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مسکرائی۔
’’اور ہمارے پاس المصور ہے۔‘‘ اس نے اس کو خود سے الگ کر کے جھٹکا دیا۔
’’اور ہمارے پاس میری کہانیوں کے ایڈونچرز ہیں۔‘‘ وہ چکر کھا کر اس کے سینے سے جا لگی۔
’’اور ہمارے پاس محبت ہے ۔‘‘ اس نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔
’’ہمارے پاس یہ آخری رقص ہے۔‘‘ اسد نے رومیسہ کو دوسرا جھٹکا دے کر گول چکر دیا جیسے وہ کوئی شوپیس میں سجی پری ہو۔
’’آخری رقص کیوں؟ یہ پہلا رقص ہے اور بہت سارے رقص باقی ہے۔‘‘ اسد نے اس کو ایک بار پھر سے جھٹکا دے کر اس کی کمر کے خم پر اپنے ہاتھ کا سہارا دیا اور وہ کسی لچکیلی شاخ کی طرح مڑتی چلی گئی۔
’’اور ہمارے پاس ستارے ہیں۔‘‘
’’اور میرے پاس تم ہو۔‘‘
’’اور ہمارے پاس ہم ہیں۔‘‘ لچکیلی شاخ جھکی ہی رہی اور درخت سائبان بنا دیا گیا۔
فوٹوگرافر نے ان کے رقص کے رک جانے کا شکر ادا کیا اور کلک کی آواز سے جلدی سے تصویر اتاری ۔ اس لمحے کو کیمرے کی آنکھ نے قید کیا، جس میں ایک کے بال ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے اور دوسرے کے کسی آبشار کی طرح بہہ رہے تھے۔
ایک کی آنکھوں میں محبت تھی اور دوسرے کی آنکھوں میں ستارے…
ختم شد