ہم سرد ستارے: صبا زین
سچی محبت… یہ اس کے لیے بہت ہی مشکل سوال تھا ۔ وہ مڑی اور اس کے چہرے پر ایک نظر ڈالی ۔ اس کی بھینچی بھنویں کسی گہری سوچ کی نشاندہی کرتی تھی ۔ اس کے چوڑے شانے تنے ہوئے تھے ۔ اس کی نظریں رومیسہ پر ٹکی تھی۔ اس پل وہ اس کو مٹی کا بنا شاہکار لگا ۔وہ مٹی کا بنا شاہکار ہی تو تھا …
اس کے آرٹسٹ کے ہاتھ ایک پل کے لیے اس کو کورے کاغذ پر اتارنے کے لیے مچلے ۔ کبھی کبھار اس کو حیرت ہوتی کہ اتنے سالوں بعد بھی وہ اپنے خوابوں میں اس کی اتنی صاف، اتنی واضح تصویر کیسے دیکھ لیتی تھی ؟ جیسے وہ اس کا تصور نہ ہو، حقیقت ہو ۔ کیا اس کی یادداشت میں اسد کی تصویر اتنی واضح محفوظ تھی کہ اس کا ایک ایک نقش اس کے تصور میں روز چلا آتا تھا ۔ اس نے اپنی نظریں اسد کے وجود سے چُرا کر سامنے دیوار پر لگی مشعل کی طرف کر دی ۔ آگ کے الاؤ کے پاس چند پتنگے منڈلا رہے تھے۔
سچی محبت کا سوال ابھی بھی ان دونوں کے درمیان ٹھہرا ہوا تھا۔ اسد اس کو منتظر نگاہوں سے دیکھ رہا تھا ۔ایک پروانے نے آگ کی چنگاری کا بوسہ لیا اور راکھ ہوگیا ۔شاید محبت کی فطرت میں ہی راکھ ہونا ہے۔
’’یہ نہیں ہے کہ مجھے سچی محبت پر بالکل یقین نہیں ہے۔‘‘
اسد نے ایک برو اٹھائی۔
اس کی فطرت نے ایک بار پھر سے اسد کو کاغذ پر اتارنے پر اکسایا ۔ وہ کبھی کبھار رومیسہ کو شجرِ ممنوع کی طرح لگتا تھا ۔ اب اس کو سمجھ آتی تھی کہ انسانوں کو جنت سے کیوں نکال دیا گیا تھا۔
’’مجھے لگتا ہے کہ سچی محبت بڑا پیارا، بڑا خالص جذبہ ہے ۔ ہم جیسے لوگ جو محبت کے نام پر اپنے آپ کو بیوقوف بناتے ہیں ۔ جیسے کہ تم نے کہا تھا اپنی ذات سے چیٹنگ کرتے ہیں، حدود پار کرتے ہیں، صبر نہیں کر پاتے، گھر میں محبت پیدا کرنے کے بجائے انہیں باہر ڈھونڈتے ہیں،کسی بد دعا کی طرح داغدار ہو جاتے ہیں ۔ اور میرا نہیں خیال کہ کسی نو پہلی بہار کی طرح کا جذبہ کبھی مرجھائے ہوئے دلوں پر بھی وارد ہوا ہے ۔ میرا خیال سے سچی محبت ہے، مگر وہ ہم جیسے لوگوں کے لیے نہیں ہے۔‘‘
اسد اس کی بات سن کر مسکرایا ۔ اس مسکراہٹ کا عکس رومیسہ کے چہرے پر بھی جھلکا ۔ وہ بڑی تاریک، بڑی اداس سی مسکراہٹ تھی ۔
’’یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ تاریکی کو روشن کرنے کے لیے چاند کا وجود ہوتا ہے اور ہر بہار خزاں کے بعد آتی ہے ۔‘‘اسد کے الفاظوں میں امید کی ملاوٹ تھی ۔ وہ امید جو نہ جانے وہ دونوں کب کے کھو چکے تھے ۔ شاید وہ وقت دور نہیں ہے جب اس اجنبی محل میں یہ دو وجود بہار کا انتظار کرنے کے بجائے اپنی خزاں زدہ محبت کے وجود سے ہی پھول کھلا دیں گے۔
٭…٭…٭
جب سے ان انہوںے خوابوں نے اسد کا پیچھا کیا تھا اس کی ذات پر تاریکی کا جو سایہ منڈلاتا تھا ختم تو نہ ہوا تھا مگر کم ضرور ہو گیا تھا ۔ رومیسہ جو اس کوپہلے اپنی ذات کا ہی حصہ لگتی تھی، اس کو جان کر اندازہ ہوا تھا کہ وہ تو اپنی ذات میں خود ایک کردار تھی ۔ اس کے تصور کے کردار کی کہانی اسد سے الگ اور پیچیدہ تھی ۔ اسد کے چند الفاظ نے اس کی زندگی کو امید دکھائی تھی جس کو پکڑ کر وہ اپنی زندگی میں مثبت تبدیلی لے آئی تھی۔
اسد ایسا کیوں نہیں کر سکتا تھا؟
حالانکہ وہ جانتا تھا کہ رومیسہ کے ابھی بھی کچھ شیطان ہیں جو اس کی ذات پر آسیب کی طرح چھائے ہوئے ہیں مگر وہ کوشش کر رہی تھی ۔ ایسی کوشش جو اسد کو بھی کرنے کی ضرورت تھی۔
مگر کیا…؟ اسد کو راستہ نہیں ملتا تھا ۔ رومیسہ کو راستہ دکھانا آسان تھا۔ مگر اپنے لئے راستہ ڈھونڈنا بے حد مشکل…
اس نے علی کو ایک بار پھر سے کال کر کے پوچھا کہ کیا اس کو یا اس کے گھر والوں کو سارہ دوبارہ خواب میں آئی تھی ؟ مگر جواب پھر سے نفی میں تھا ۔ اس نے بے دلی سے آفس سے آکر آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی ۔ جب اس کا آفس میں دل ہی نہیں لگتا تھا تو وہ وہاں جاتا ہی کیوں تھا ؟ اس نے دل میں سوچا ۔ ٹائی اتارتے ہوئے اس کے ہاتھ تھم گئے۔
’’تم بھی پہلے اپنی ذات کو رنگ دو تو پھر شاید تمہارے روٹھے ہوئے رنگ تمہیں مل جائیں ۔‘‘اس کے دماغ میں رومیسہ کے الفاظ گونجے۔
وہ اپنی زندگی کو غلط گزار رہا تھا تو زندگی اس کو اس کے رنگ کیسے لوٹاتی؟
سارہ کے جانے کے بعد اس نے خود ساختہ سزا کے طور پر بابا کا آفس جوائن کر لیا تھا ۔ ایک سیدھی سادی زندگی گزارنا چاہی، مگر وہ رنگوں کی خواہش اپنے دل میں دفنا نہ پایا تھا۔ جب رنگوں کے پاس جاتا تو ان کے لیے وہ خوشی محسوس نہیں کر پاتا جو اس کو پہلے ہوتی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ اب رنگ بھی اس کو خوشی سے پاس نہیں بلاتے تھے۔
مگر اب اتنے سالوں بعد وہ اپنے دل کو رنگوں کے لیے کھول پائے گا ؟ اس کے بابا اس کے لئے ایک مستحکم رستہ چاہتے تھے ۔ وہ کاروبار میں ایک نا کام انسان تھا ۔ یہ بات اب وہ بھی جان چکے تھے ۔ جس چیز میں انسان کا دل اور دماغ نہیں لگتا تھا، اس میں وہ کیسے کامیابی حاصل کر سکتا تھا؟
ان چاہے رشتے تو بوجھ ہوتے ہیں۔ چاہے وہ انسانوں کے ساتھ ہو یا کاموں کے ساتھ ۔ وہ اکتیس سال کا ایک ناکام انسان تھا جس کو نہ مستحکم کاروبار سمجھ آتا تھا اور نہ ہی اس کا دل رنگوں کے لیے کھلتا تھا ۔ المصور کا خواب اور اس کا جنون اس کی زندگی کے کئی سال کھا گیا تھا ۔ اب وہ کہاں جائے اور کہاں سے شروعات کرے؟ یہ بات اس نے اس رات رومیسہ سے پوچھی۔
اس بار وہ ہال کمرے میں تھی جس کے فانوس کے ساری موم بتیاں بجھی ہوئی تھی ۔ وہ اسٹول پر چڑھی ایک موم بتی سے دوسری موم بتیاں روشن کر رہی تھی۔
’’تم وہاں سے شروع کرو اسد، جہاں سے تم نے سب کچھ کھو دیا تھا ۔ میں نے اندازہ کیا ہے کہ گھٹن سے باہر نکلنے سے ہی میں اپنی وحشت کو کم کر پائی ہوں ۔ تم بھی اپنے رنگوں کی دنیا میں واپس چلے جاؤ۔‘‘ اس نے موم بتیوں کی الوہی روشنی کو اپنے اندر جذب کرتے ہوئے جواب دیا۔
اس کا جواب بہت آسان تھا، عمل بہت مشکل اور راستہ مانوس اجنبی سا…
اسد نے اس کے بعد سے اس سے کوئی سوال نہیں کیا اور موم بتی کی الوہی روشنی میں اس کی دودھیا رنگت کو سنہری ہوتے ہوئے دیکھتا رہا۔
٭…٭…٭
رومیسہ کو اس کے ماں باپ تو مل گئے تھے مگر اس کے خواب ابھی بھی بکسے میں بند تھے ۔ وہ رنگوں کے خواب جن کی تلاش میں اسد تھا، انہی رنگوں کے خواب رومیسہ نے بھی دیکھے تھے۔ ذرا مختلف انداز سے مگر دیکھے ضرور تھے۔ایسا کیا تھا جو رومیسہ کو ان خوابوں کے پنڈورہ باکس کھولنے نہیں دیتا تھا۔
الفاظ…
رومیسہ کی زندگی میں الفاظوں نے سب سے بڑا کردار ادا کیا تھا ۔ یہ اس کی تبدیلی کے بعد کی اور زوال سے پہلے کے الفاظ تھے۔
’’ایسے راتوں رات ایسے کپڑے اور گاڑی اس کے پاس کہاں سے آ گئی؟‘‘
’’ایسے تو نہیں لڑکوں سے اتنا ہنس ہنس کر بات کرتی ہے۔‘‘
’’اس طرح کی لڑکیاں خود کچھ نہیں کرتی اور لڑکوں کو کامیابی کے لئے سیڑھی بناتی ہے۔‘‘
اس وقت وہ ان باتوں کو ان سنی کر دیتی تھی مگر جب ان آخری الفاظ نے اس کی آنکھیں کھولیں تو وہ سارے پرانے الفاظ بھی ادھ کھلے زخموں کی طرح رسنے لگ گئے تھے۔ انسانی دل کبھی بھی امید کا دامن پوری طرح نہیں چھوڑتا ۔ مایوس ہونے کے بعد بھی نہیں … ایسے جیسے ہر اندھیری رات کے بعد صبح ہوتی ہے، ہر مایوس دور کے بعد امید کا دیا ضرور جلتا ہے۔
پھر خواب دیکھنے والے لوگوں کے خواب کبھی بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتے ۔ وہ ان کو اکساتے ہیں، ان کو چڑاتے ہیں، ان کا دامن کسی ضدی بچے کی طرح پکڑے رکھتے ہیں۔ ان کو وقتی طور پر نظرانداز کر بھی دیا جائے تب بھی وہ اپنی بات منوانے کا ہنر جانتے ہیں۔
یہ بات ہر خواب دیکھنے والا انسان جانتا ہے۔
رومیسہ بھی جانتی تھی کہ جب وہ ایک کتاب کسی اور کے نام کے لئے لکھ رہی تھی، تو اپنا نام اور اپنا کام کسی کتاب میں دیکھنا اس کا بھی خواب تھا ۔ مگر اسد کو راستہ دکھانا آسان تھا، خود ہمت کر کے باکس میں بند مسودے کو باہر نکالنا اور اس چیز کا سود و زیاں کرنا کہ اس نے کتنا وقت کھو دیا ہے، بہت مشکل تھا۔
وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کے اندر اتنی ہمت تھی یا نہیں کہ اپنے پچھتاووں کو ایک بار پھر سے زندہ کر سکے۔
اس رات اسد نے اس کو باغ میں موروں کے جوڑے کے قریب پایا ۔ سفید مور اپنے پر پھیلائے ناچ رہا تھا اور مورنی اپنے پیروں کو دیکھ کر رو رہی تھی۔
’’ دوسروں کی باتیں ہمارے اوپر اتنا اثر کیوں کرتی ہے کہ ہم ان میں آکر اپنے خواب گنوا دیتے ہیں۔‘‘ اب کی بار رومیسہ کا لباس سفید تھا ۔ وہ ہمیشہ کی طرح گھٹنوں پر سر رکھے موروں کے انوکھے جوڑے کو دیکھ رہی تھی ۔ اس کے بال سورج کی روشنی میں آگ لگا رہے تھے۔
اسد اس کے مقابلے میں کافی تروتازہ لگ رہا تھا جیسے اس کو اس کی منزل مل گئی ہو۔
’’میں مراکش جارہا ہوں ۔ وہاں خالد بن منصور نے مجھے اپنے ساتھ کام کرنے کی آفر کی ہے۔‘‘ خالد بن منصور کا نام ہر آرٹسٹ جانتا تھا۔ رومیسہ کیسے انجان رہتی؟
’’مگر تم تو آزاد کام کرتے تھے نا؟‘‘
’’کرتا تھا اور کرنے میں فرق ہے رومیسہ، مجھے ایک آرٹسٹ کی گائیڈنس کی ضرورت ہے ۔ ویسے بھی منصور کا دعویٰ ہے کہ وہ دیواروں سے بھی کام کروا سکتا ہے ۔ میں تو پھر بھی انسان ہوں ۔ تم نے ہی تو کہا تھا کہ مجھے اپنے رنگ اپنی زندگی میں واپس لے آنا چاہیے ۔ یہ رنگ مجھے اپنے جیسے لوگوں کے درمیان میں رہ کر ہی مل سکتے ہیں کسی آفس میں بیٹھ کر نہیں۔‘‘ وہ رکا اور پھر اس کی طرف دیکھ کر بولا۔ ’’اور نہ ہی تمہاری طرح دوسروں کے الفاظوں کو خود پر اثر انداز کرکے۔‘‘
وہ چونکی، یعنی کہ اس نے غور کیا تھا کہ وہ کیا محسوس کرتی ہے۔
’’تو پھر کیا کروں؟‘‘ وہ تقریباً چلائی ۔ مورنی نے ڈر کر بھاگ کر گلابوں کی شاخ میں پناہ لی۔ مور وہی ادائے بے نیازی سے ناچتا رہا۔
’’تم نے کبھی بھی مجھے اپنے خوابوں کے بارے میں نہیں بتایا۔‘‘ ان دونوں نے بے شمار باتیں کی تھیں مگر کبھی بھی رومیسہ نے اپنے خوابوں کو پوٹلی سے باہر نکال کر اسد کو نہیں دکھایا تھا۔
’’میں… کومکس لکھنا چاہتی ہوں۔‘‘ رومیسہ کے الفاظ سرگوشی سے زیادہ نہ تھے۔
’’ کومکس… وہ سپر ہیرو والی کومکس؟‘‘ اسد چونکا۔
رومیسہ نے نفی میں سر ہلایا۔
’’کومکس سوپر ہیرو سے بڑھ کر ہے ۔ یہ پورا ایک لٹریچر ہے ۔ یہ سمجھو ایک تصویری کہانی ہے ۔ میں اپنی کہانی کو تصویروں کے ذریعے بیان کرنا چاہتی ہوں ۔ جیسے آپ کی آنکھوں کے سامنے کوئی فلم چل رہی ہو۔‘‘ وہ جوش سے بولی۔
اسد نے اثبات میں سر ہلا کر اس کومزید بولنے کا حوصلہ دیا۔
’’میں جب چھوٹی تھی تو جب جب میرے گھر میں برتن ٹوٹتے تو میں اپنے کمرے میں چپ چاپ کارٹونز لگا لیتی ۔ کچھ عرصے بعد میں نے منگا، جاپانی کومکس کو دریافت کیا ۔ میرا آدھا بچپن اور پورا ٹین ایج انہی کے درمیان گزرا ۔ تم مجھے اڈیکٹ کہہ سکتے ہو۔‘‘ اس نے بے نیازی سے کندھے اچکاتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔
’’وہ میرا برے حالت سے کٹنے کا ذریعہ تھا ۔ میں ان میں پناہ لیتی، کبھی وہ تصویریں مجھے دوسری دنیاؤں میں لے جاتیں اور کبھی میں ان کرداروں کو اپنے اندر زندہ کر لیتی ۔ اگر وہ میری زندگی میں نہ ہوتے تو نہ ہی میرے پاس تخلیق کی صلاحیت ہوتی اور نہ ہی میری زندگی میں رنگ ہوتے۔‘‘ وہ جھینپ کر بتانے لگی۔
اسد نہایت غور سے سن رہا تھا۔ رومیسہ نے اس کو ہمیشہ بہترین سامع پایا تھا۔
اس نے اس کی تنہائی کا، اس کے فرار کی کوشش کا مذاق نہیں اڑایا تھا ۔ وہ اب کی بار پورے اعتماد اور جوش سے بتانے لگی۔
’’میں 15 سال کی تھی جب میں نے خواب دیکھا تھا کہ میں ایسا ہی کچھ تخلیق کروں ۔ جو جوان ہوتے بچوں کے لیے خاموش پناہ گاہ بن جائے، ان کے لئے زادِ راہ نکالے، جو ان کو تسلی دیں کہ ان کے گھر کی تاریکی کے باوجود وہ اکیلے نہیں ہیں ۔ اس وقت میں اتنی پرجوش تھی کہ میں نے مسودے تک تیار کر لئے تھے ۔ اگر میں اس سو کالڈ محبت کی تلاش میں بھٹکتی نہیں تو شاید…‘‘اس کا جملہ ایک خواہش پر ختم ہو گیا۔
’’اگر تمہارے پاس وہ مسودہ ہے تو تم ان کو نکال کر انسپریشن لے سکتی ہو ۔ سب کچھ دوبارہ شروع کر سکتی ہو۔‘‘
’’یہ سب اتنا آسان نہیں ہے ۔ میں نے بہت وقت گنوا دیا ہے۔ اتنے سال … اتنے سال میں نے اپنی ضد اور ڈپریشن میں گزار دیے ۔ ایک ناکام خواہش کے پیچھے اپنے سارے خواب گنوا دیے ۔ دوسروں کے لیے کام کیے، مگر خود کے لئے ہمت نہ کر سکی ۔ اتنے سال میں نے سوائے امیزون پر ایک ناکام کتاب لکھنے کے کچھ بھی نہ کیا۔‘‘ اس نے ہف کر ہاتھ ہوا میں گرائے اور اپنا سر دوبارہ گھٹنوں پر رکھ لیا۔
’’امیزون پر…‘‘اسد چونکا۔
’’میں نے امیزون پر دیئر اس نو فنٹیسی کے نام سے ایک بک لکھی تھی، جو کچھ خاص کامیاب نہ گئی تھی۔‘‘ اس نے مایوسی سے سر جھٹکا۔
’’ضروری نہیں کہ ایک چیز ناکام ہو تو سب کچھ ناکام ہی ہو ۔ مجھے بھی دیکھو 31 سال کا ایک فیئلر مرد ہوں ۔ اب اس عمر میں جب لوگ سیٹل ہو جاتے ہیں تو میں ایک بار پھر سے ایک طرح سے اپنی پڑھائی شروع کر رہا ہوں ۔ وہ کیا کہتے ہیں۔ آپ کے ڈریمز کی کوئی ایکسپائری ڈیٹ نہیں ہوتی ۔‘‘ وہ آخر میں مسکرایا، تو اس کی مسکراہٹ رومیسہ کے ہونٹوں پر بھی ٹھہر گئی۔
اس منظر کو مورنی کی نگاہوں نے بڑی حیرانگی کے ساتھ اپنی آنکھوں میں قید کیا، جواب رونا بھول چکی تھی۔
٭…٭…٭
اس واقعے کا بعد اسد کچھ دن بعد اپنے کمپیوٹر کے آگے بیٹھا تو نجانے اس کے دماغ میں کیا آیا کہ اس نے گوگل پر دیئر اس نو فنٹیسی کے نام سے کتاب سرچ کی ۔ وہ کتاب اس کو آسانی سے امیزون پر مل گئی، اس کی مصنفہ رومیسہ فرقان تھی ۔ وہ دن اس کا کانٹوں پر گزرا تھا ۔ وہ ہمیشہ اس کواپنے دماغ کا خلل سمجھتا تھا ۔ ایسا خوبصورت خلل جو اس کے تاریک دنوں میں مشعل بن کر آیا تھا ۔ مگر ایسا کیسے ممکن تھا؟ ایک ایسی لڑکی اس کے خوابوں میں آتی تھی جو وجود رکھتی ہو ۔ اس نے گوگل پر سرچ کیا تھا مگر رومیسہ کے نام کے ساتھ کوئی لنک منسلک نہ تھا ۔ وہ اس کو فیس بک اور انسٹاگرام پر بھی نہیں ڈھونڈ پایا تھا۔
رومیسہ کی کہانی کے مطابق وہ اس کو جانتی تھی، بلکہ محبت بھی کرتی تھی ۔ کوئی ایسی لڑکی جس سے اس کا سامنا ہوا ہو مگر وہ اس کو یاد نہ ہو ۔ رومیسہ نے کبھی اس چیز کا تفصیل سے ذکر نہیں کیا تھا کہ وہ اس کو کیسے جانتی تھی ۔ اس نے خود ہی فرض کر لیا تھا چونکہ وہ اس کا خیال تھی تو وہ اس کے متعلق کچھ نہ کچھ تو جانتی ہوگی۔
کیا وہ مر چکی تھی اور اس کی روح کا اس پر سایہ تھا؟
سوچ سوچ کر اس کا دماغ پھٹ رہا تھا ۔ جاننے کا بس ایک ہی طریقہ تھا ۔ اس رات وہ اس کو باہر باغ میں جھیل کے کنارے ملی تھی ۔ رات کا وقت تھا اور ہنسوں کا جوڑا کہیں غائب تھا ۔ وہ بے خیالی میں پانی پر انگلیوں سے کوئی تصویر بنا رہی تھی ۔ اسد کی آہٹ پر اس نے چونک کر سر اٹھاکر ایک بھر پور مسکراہٹ سے اس کودیکھا۔
’’میں نے اپنا مسودہ اپنی السٹریشن کے ساتھ چند پبلشرز کو بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘
’’تمہارے پاس مسودہ تیار ہے؟‘‘ اس کو حیرت ہوئی۔
رومیسہ نے کندھے اچکا دیے۔
’’کام تو میں کب سے کر رہی تھی، بس ہمت نہیں ہوئی کہ اس کی اشاعت کے بارے میں سوچوں ۔ اب جب میں نے وہ باکس کھولا، جس میں میری پرانی کہانیاں اور پینٹنگز رکھی ہوئی تھیں تو خود کو مزید کام کرنے سے روک ہی نہیں پائی ۔ کافی کام تو میں نے پہلے بھی کیا ہوا تھا ۔ ویسے بھی یہ کہانی کا پہلا حصہ ہوگا ۔ ابھی تھوڑا کام رہتا ہے کرنے والا، مگر میں جلد ہی مکمل کر لوں گی۔‘‘
پھر وہ شرارتی انداز سے مسکرائی۔
’’دراصل میرا پہلے ارادہ ہم دونوں پر کہانی لکھنے کا تھا، مگر میں اپنے کلائنٹ کو بھی اسی طرح کی فیری ٹیل لکھ کر دے رہی تھی ۔ سو، یہ آئیڈیا چھوڑ دیا ۔ ذرا سوچو، ہم دونوں ہی اس کہانی کے کردار ہو، یہ محل اس کی سیٹنگ … اور پھر ہم محبت کو ایڈ کریں اور تھوڑا جا دو بھی…‘‘ وہ اس کو انگلی سے کندھے پر ٹہوکا دے کر معنی خیزی سے مسکرائی ۔ اس کا موڈ آج بہت اچھا لگ رہا تھا۔