مکمل ناول

ہم سرد ستارے: صبا زین

’’ہمارا اپنا آپ… ہمارا اپنا آپ ہم سے گم ہوگیا ہے ۔ کیا وہ تمہیں ملا؟‘‘ اس نے کتاب کا صفحہ پلٹتے ہوئے پوچھا۔
رومیسہ نے کمر کا خم ٹھیک کیا ۔ اتنی سامنے کی چیز اس کو دکھی کیوں نہیں ؟ وہ اپنے خواب ایک بکسے میں بند کر چکی تھی اور اپنی ذات کو ایک روبوٹ کے اندر قید کیا ہوا تھا ۔ وہ روبوٹ جو چلتا تھا، پھرتا تھا، کام کرتا تھا مگر محسوس نہ کر سکتا تھا ۔ ایک عجیب سا لاتعلقی کا تعلق تھا اس کے جسم کا اس کی روح سے …اس کے اندر کا اس کے باہر سے …اس نے اپنے آس پاس دیکھا تو اس کو کتابیں بھی کچھ راز بتاتی ہوئی محسوس ہوئی ۔ وہ راز جو کتاب ہاتھ میں لیے ہوئے اسد سے مخفی رہ گیا۔
اس نے اپنے سامنے بیٹھے وجود کو دیکھا ۔ وہ کسی پتلے کی طرح ساکت تھا ۔ وہ سوال کر کے شاید جواب دینا بھول چکا تھا۔ مگر نہیں، اس پتلے میں جان پڑی ۔ اس نے اپنی سیاہ تاریک آنکھوں سے رومیسہ کو دیکھا اور رومیسہ کو اس پل اندازہ ہوا کہ وہ آخر اس تاریکی میں ڈوبے ہوئے سنہری محل کا شہزادہ کیوں تھا؟
کیونکہ اس کے اندر بھی شیطان پل رہے تھے۔
’’انسان اپنا آپ اپنے شیطانوں کو ہرانے کے بعد پا سکتا ہے۔ تمہارے شیطان زندہ ہے اسد، کیا تمہیں اپنا آپ ان شیطانوں کے درمیان ملا؟‘‘ اس نے اسد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔
٭…٭…٭
اسد نے اس اجنبی لڑکی رومیسہ کی طرف بھونچکا ہو کر دیکھا ۔ وہ جس رخ پر بیٹھی ہوئی تھی، وہاں کے پردے گرے ہوئے تھے اور کتب گاہ کو نیم اندھیرے نے ڈبویا ہوا تھا ۔ اس نیم اندھیرے میں اس کا ہلکا آسمانی لباس شام کے اندھیرے کا سا تھا ۔ اس کے بال کسی پیپل کی لکڑی کے رنگ کی سے تھے اور اس کی سنہری آنکھیں کسی بلی کی طرح چمکتی تھیں ۔
’’میرا اپنا آپ تو میں نے اسی دن کھو دیا تھا جب میں نے سارہ کو کھویا تھا۔‘‘ اس نے بے خیالی میں کتاب کے صفحے پر نظریں گاڑ کر جواب دیا۔
’’سارہ؟‘‘ وہ چونکی۔
’’سارہ میرا المصور کو پانے کا خواب تھی ۔ وہ میری محبت تھی یا نہیں تھی مگر میرا جنوں ضرور بن گئی تھی اور تمہیں پتہ ہے جب جنون ختم ہوتا ہے تو پھر کیا ہوتا ہے؟‘‘ اس نے کتاب الٹی کر کے اپنے سامنے رکھی میز پر رکھی اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔
’’کیا ہوتا ہے؟‘‘ اس کی آنکھوں میں تجسس اس نیم اندھیرے میں بھی چمکا۔
’’جنوں جب ختم ہوتا ہے تو اس کے ساتھ سب کچھ ختم ہو جاتا ہے ۔ وہ گئی تو اپنے ساتھ میرے رنگ، میرا تخیل بھی لے گئی۔‘‘ اس نے رومیسہ کی نظروں سے نظریں چرائی اور کسی بوسیدہ سی کتاب پر ٹکا دی۔
یہ سچ تھا جب سے اس نے سارہ کی پینٹنگ جلائی تھی تب سے رنگ اس سے روٹھ گئے تھے، تصویریں اس کے تخیل سے کترانے لگی تھی ۔ کوئی بھی منظر اس کے کینوس کو آباد نہیں کرتا تھا ۔ وہ ایک فنکار سے ایک عام سا کاروباری آدمی بن گیا تھا جس کو کاروبار کے نام پر کچھ نہیں آتا تھا۔
’’مگر تمہاری زندگی میں تو فرح تھی نا؟‘‘ الفاظ اس اجنبی شہزادی کے منہ سے ٹوٹ ٹوٹ کر نکلے۔
اسد کو حیرت ہوئی کہ وہ اس کو کیسے جانتی تھی ۔ فرح تو اس کی زندگی کا بہت پرانا قصہ تھی جس کو وہ یاد بھی نہ کرتا تھا ۔ اس کے بعد اس کی زندگی میں کئی بہاریں آئی اور گئی ۔ صرف سارہ کے ہجر کا موسم تھا جو ٹھہر گیا تھا ۔ یہی بات اس نے اس لڑکی کو بتا دی۔
’’یعنی تم نے فرح کو اور اس کے بعد آنے والی لڑکیوں کو چھوڑ دیا کیونکہ وہ اور تم کمپیٹیبل (مطابقت رکھنا) نہ تھے؟‘‘
اسد نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔ ’’ہم دونوں نے ایک دوسرے کو راضی خوشی چھوڑ دیا ۔ جب ریلشن شپ بوجھ بن جائے تو اس کو اتار دینا چاہیے۔‘‘
’’کاش میرے ماں باپ بھی یہ سمجھ جائے تو زندگی کتنی آسان ہو جائے۔‘‘ اس نے اداسی سے کہا۔
اسد نے اس کو چونک کر دیکھا۔ کیا اس کے تخیل کے بنائے ہوئے کردار کی اپنی کہانی تھی؟ کیا اس کا تخیل کام کرنے لگ گیا تھا ؟ اس کا دل خوش فہم ہوا۔
’’ایک شادی شدہ شخص کا معاشرے سے لڑنا آسان نہیں ہوتا۔‘‘ اسد نے جواب دیا۔
’’کاش وہ دونوں اتنے بہادر ہو جائے کہ اپنی خوشیوں کے لئے الگ الگ ہوجائے۔‘‘
’’ان کی مجبوری بھی تو ہو گی۔‘‘
’’میں مجبوری ہوں ان کی…‘‘ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’ان کے گلے میں اٹکی ہوئی ہڈی، جس کو نہ وہ اگلتے ہیں اور نہ نگلتے ہیں۔‘‘ اس کا گلا رندھ گیا اور وہ تیزی سے باہر کی طرف بھاگی ۔
وہ بھی اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے پیچھے بھاگا ۔ وہ اس کومحل کی چوکھٹ پر بیٹھی ہوئی ملی تھی اور اس کا نیلا لباس اس کے آس پاس آبشار کی طرح پھیلا ہوا تھا۔
’’کیا تم نے کبھی ان سے بات کرنے کی کوشش کی؟‘‘ وہ اس کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔
’’کیا بات کروں؟‘‘ اس نے اپنا سر اپنے گھٹنے پر رکھ کر اس کی طرف دیکھا۔
’’جو تم ان سے چاہتی ہو۔‘‘
’’میں چاہتی ہوں کہ وہ مجھے اپنی مجبوری نہیں اپنی اولاد سمجھے۔‘‘
’’تو ان کو اس چیز کا احساس دلاؤ۔‘‘ اس نے آسمان کی طرف دیکھا۔ صبح ہو رہی تھی، ستارے ڈوب رہے تھے۔
’’میں اتنی بہادر نہیں ہوں۔‘‘ اس نے یاسیت سے جواب دیا۔
’’صبح ہو رہی ہے۔‘‘ اسد نے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ رومیسہ نے بھی سر اٹھا کر دیکھا۔
سارے ستارے ڈوب گئے تھے۔ بس ایک ہی ستارہ آسمان پر غالب تھا۔
’’تمہیں پتا ہے صبح کا ستارہ سب سے بہادر ہوتا ہے ۔ جب سارے ستارے روشنی سے ہار مان لیتے ہیں وہ تب بھی چمکتا ہے۔‘‘ اسد نے ایک نظر صبح کے ستارے کو دیکھا اور دوسری طرف اس لڑکی کو دیکھا جس کا نام اس ستارے پر رکھا گیا تھا۔
’’اگر تم تینوں میں وہ دونوں بہادر نہیں ہیں تو کسی ایک کو تو بہادر بننا ہی پڑے گا۔‘‘ ایک بار پھر سے الفاظ ہی تھے جو رومیسہ کو بدل رہے تھے۔
٭…٭…٭
اگلی صبح رومیسہ نے پہلی بار اپنے گھر کو غور سے دیکھا ۔ اس کے گھر کام والی آتی تھی مگر جب گھر والے توجہ نہ دیں تو باہر والے بھی لگن سے کام نہیں کرتے ۔ کچن میں جگہ جگہ چکنائی کے دھبّے پڑے ہوئے تھے ۔ لانڈری روم سے کپڑے باہر آ رہے تھے ۔ صوفوں پر سالوں کی ڈسٹ پڑی ہوئی تھی ۔ کھڑکی کھولنے اور پردے اٹھانے کی زحمت کوئی نہیں کرتا تھا ۔ فضا میں حبس، تاریکی اور وحشتیں بسی ہوئی تھی ۔ یہ ان نفوس کا گھر تھا جو کوشش کرنا چھوڑ چکے تھے ۔ رومیسہ کے لئے بھی کوشش آسان نہ تھی۔ مگر اس کو گھر کی اور گھر کو اس کی ضرورت تھی۔
اگر اس کو اپنی خود ساختہ وحشتوں سے نکلنا تھا تو اس کو اس گھر کی وحشت دور کرنا تھی ۔ اس نے کھڑکیوں کے پردے اتارنے سے شروعات کی اور سب کچھ دھونے والی مشین میں ڈال دیا ۔ کام والی آئی تو اس کے لئے ہزاروں کام جمع تھے ۔ اس کو رومیسہ کا یہ نیا روپ پسند تو نہیں آیا تھا مگر کیا کرتی، چارونا چار کام تو کرنا ہی تھا ۔ اور یہ ایک دن کا کام بھی نہیں تھا۔
وہ اپنے پروجیکٹ کے علاوہ جب بھی وقت ملتا، صفائی کرتی یا گھر کی چیزیں لینے کے لئے نکل جاتی ۔ اس نے روشن رنگوں والے پردے لگا لیے ۔ صوفوں کے کوور تبدیل کر لئے، گلدانوں میں نئے پھول لگا لیے ۔ بالکونی میں ہینگنگ پوٹ لگا دیے اور ان میں پھولوں کی کیاریاں لگا دیں ۔ کچھ ہاتھوں کے بنائے ہوئے ڈیکوریشن پیس جو اس نے بہت پہلے بنائے تھے، نکال کر صاف کیے اور گھر کے مختلف کونوں میں سجا دیے ۔
اس دوران اس کی اسد سے بھی اکثر ملاقات ہوتی رہتی تھی۔
وہ اس کو مختلف مقامات پر ملتا ۔ کبھی ہال کمرے میں، کبھی گرین ہاؤس میں، کبھی کسی باغ میں اور کبھی آئینوں والے کمرے میں ۔ ہر بار اس کا اداس چہرہ اور آنکھیں اس کے کھوئے ہونے کا پتہ دیتی تھی۔ وہ کھویا ہوا انسان اس کو کیسے راستہ دکھاتا تھا؟ وہ خود بھی نہیں جانتی تھی۔
وہ گھنٹوں باتیں کرتے یا کم ازکم اس کے خوابوں میں اس کوگھنٹوں ہی لگا کرتا ۔ مختلف موضوعات پر، آرٹ پر، فلسفے پر اور زندگی پر…
وہ اس کو اپنی پروگریس بتاتی اور وہ بہت غور سے سنتا ۔ ایسے جیسے رومیسہ سے زیادہ دلچسپ گفتگو تو کوئی کر ہی نہیں سکتا تھا ۔ وہ جانتی تھی کہ اسد اس کا خیال تھا ۔ اس کے دل نے ان خوابوں سے ایسی امید جوڑ لی تھی، جیسے کوئی فاقہ زدہ انسان مردار کھانے پر بھی راضی ہو جاتا ہے ۔ اس طرح رومیسہ نے ایک خیالی انسان سے ناتا جوڑ لیا تھا اور اپنے خوابوں میں ایسے پناہ لے لی تھی جیسے وہ اپنے بچپن میں کارٹون اور کامکس میں لیتی تھی۔
’’تمہیں پتا ہے ممی نے مجھے گھر سجاتے ہوئے دیکھ لیا تھا اور مجھے دیکھ کر بولی کہ تمہیں یاد آ گیا ہے کہ یہ تمہارا ہی گھر ہے ۔‘‘ وہ گلابوں کی شاخوں کے پاس بیٹھتے ہوئے اسد سے بولی۔
اسد نے بھی ٹانگیں پھیلا لیں اور گہری سانس لے کر گلابوں کی خوشبو کو اندر تک کھینچا۔
’’تو پھر تم نے کیا جواب دیا؟‘‘
’’میں نے کہا جب آپ کو یاد نہیں رہے گا کہ یہ آپ کا گھر ہے تو مجھے ہی یاد کروانا پڑے گا ۔ پھر انہوں نے مجھے غصے سے دیکھا اور پھر وہ ہوا جس کی مجھے توقع نہیں تھی۔‘‘
اسد نے گردن موڑ کر سوالیہ نظروں سے اس کو دیکھا۔
’’ وہ تھکان بھری آہ بھر کر صوفے پر بیٹھی اور مجھے کہا کہ میں ٹھیک کہہ رہی ہوں ۔ وہ تو بھول ہی چکی تھی کہ ان کا کوئی گھر بھی ہے ۔ اس وقت مجھے ان پر بے انتہا ترس آیا۔‘‘
’’اس کے بعد کیا ہوا؟‘‘ اسد نے دلچسپی سے پوچھا۔
’’اس کے بعد اکثر ہم ساتھ بیٹھ کر کافی پیتے ہیں ۔ یہ نہیں کہ ہمارا رشتہ بہترین ہو گیا ہے، مگر ہم دونوں کو یاد آگیا ہے کہ ہمارے درمیان کوئی رشتہ بھی ہے۔‘‘
’’اور تمہارے بابا؟‘‘
’’ان سے میری ملاقات بھی تیسرے ہی دن ہو گئی تھی ۔ میں نے ان سے چائے کا پوچھا تو انہوں نے پہلے مجھے اور پھر حیرت سے صاف ستھرے گھر کو دیکھا اور اثبات میں سر ہلا دیا۔ پھر میں نے ان کے دن کا پوچھا تو انہوں نے میری تبدیلی کی وجہ پوچھی ۔ میں نے جواب دیا کہ میں تھک گئی ہوں ۔ ہم سب ہی اس خاموش تماشے سے تھک گئے ہیں اور اب آگے بڑھ جانے کا وقت آگیا ہے۔‘‘ رومیسہ نے ایک گلاب کی طرف ہاتھ بڑھایا اور اس کو شاخ سے اتارے بغیر ناک کے پاس لا کر سونگھا۔
’’ممی بابا تو ابھی بھی آپس میں بات نہیں کرتے ۔ مگر میں اب ان کے گلے میں اٹکی ہوئی ہڈی نہیں رہی۔‘‘
اسد نے اس کی بات سن کر اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’اور تم نے کچھ بنایا؟‘‘ رومیسہ نے بات بدلی ۔ اسد کی نگاہیں آسمان پر رنگ بدلتے بادلوں پر تھیں۔
’’نہیں ابھی تک میری تخلیق مجھ سے روٹھی ہوئی ہے ۔ میں کچھ بنانے کی کوشش بھی کرتا ہوں تو جیسے سارہ کا تصور میرے سامنے آجاتا ہے ۔ میں آج کل صرف بلینک کینوس ہوں۔‘‘ اسد نے کندھے اچکا کر جواب دیا۔
’’بلینک کینوس ہونے کا بھی ایک فائدہ ہوتا ہے۔‘‘ رومیسہ نے گلاب کی شاخ اپنے ہاتھ سے آزاد کی۔
’’انسان اس میں جو چاہے رنگ بھر سکتا ہے ۔ میں نے اپنے آس پاس ہمت کر کے رنگ بھرے تو اپنی ذات میں بھی تبدیلی محسوس کی اور اپنے حالات میں بھی ۔ تم بھی پہلے اپنی ذات کو رنگ دو تو پھر شاید تمہارے روٹھے ہوئے رنگ تمہیں مل جائیں۔‘‘ رومیسہ نے اپنے آس پاس کے رنگوں کو دیکھ کر جواب دیا۔
٭…٭…٭
وہ اس رات اس کو مرمری راہداری میں چہل قدمی کرتی ہوئی ملی تھی ۔ اس بار اس کا لباس سرخ تھا، جس کی سطح سفید فرش کو چوم رہی تھی ۔ دیواروں پر لگی مشعلوں کی الوہی روشنی میں اس کا وجود اس دلہن کا سا ہو گیا تھا جو شادی کی رات ہی مر گئی ہو، اور اب اس لباس میں اس پرانے محل پر آسیب بن کر سوار ہو۔
’’کیا تم نے اپنے آپ کو معاف نہیں کیا؟‘‘ اسد نے اس سے پہلا سوال کیا۔ اب اس کا اگلا قدم خود کو اپنی ماضی کی غلطیوں کو معاف کرنے کا تھا۔
’’کیا تم نے کر دیا؟‘‘ وہ اس کی طرف چونکے بغیر مڑی۔
’’میرا قصہ الگ ہے، مجھے سمجھ نہیں آتا کہ میرا میرے خوابوں کا پیچھا کرنا کوئی گناہ تھا کیا؟‘‘
’’اور کیا پتہ کہ یہ سارہ کا گناہ ہو جس کے ذریعے تمہیں قدرت کچھ دکھانا چاہ رہی ہو ۔ تم ایک ایسی لڑکی کی پینٹنگ کی نمائش کرنا چاہ رہے تھے جس سے تمہیں محبت کا دعویٰ تھا ۔ انسان تو محبوب کو گرم ہوا سے بھی بچانا چاہتا ہے ۔ کیا تمہیں اس سے محبت بھی تھی؟‘‘ رومیسہ کے سوال نے اسد کو بھونچکا کردیا۔
تھوڑی بعد وہ سنبھلا تو بولا ۔
’’مجھے نہیں معلوم، کبھی کبھار میں بھی شک میں رہتا ہوں ۔ محبت اتنا پیچیدہ جذبہ ہے کہ اس کا دعویٰ کرنا آسان نہیں ۔ کیا تمہیں کسی سے محبت ہوئی؟‘‘
’’مجھے لگا کہ تم سے محبت ہے مجھے ۔ مگر تمہارے بعد جو لوگ میری زندگی میں آئے ان سے مجھے محبت نہیں تھی۔‘‘
اس کے جواب نے اسد کی دلچسپی بڑھائی۔ ’’اچھا ایسا کیوں؟‘‘
’’کیونکہ ان سب چیزوں کی یاد میرے لئے شرمندگی کا باعث ہے ۔ تم میرے لئے فخر ہو۔ تم مجھے ابھی بھی یاد ہو۔‘‘ رومیسہ نے بغیر جھجکے جواب دیا ۔
وہ اس کا تصور تھا ۔ اس سے سچ بولتے ہوئے کیسی شرم ؟ ابھی کچھ دن پہلے ہی تو اس نے اپنے ماضی کا قصہ مختصر لفظوں میں اس کے گوش گزارا تھا ۔جس کے جواب میں اسد نے کہا تھا کہ اس کواپنے آپ کو معاف کر دینا چاہئے۔
’’اور تمہیں معلوم ہے کہ ایسا کیوں ہے ؟ کیونکہ تم دوسرے انسانوں کے لیے بدلی تھی ۔ تم محبت کو پانے کے لیے اتنی زیادہ ڈیسپیرٹ تھی کہ تم وہ بنتی چلی گئی، جو تم نہ تھی ۔ شوخ و چنچل اداؤں والی لڑکی ۔تمہیں لگا کہ تم بولڈ نہیں بنو گی تو لوگ تمہاری چاہ نہیں کریں گے ۔ تم نے اپنے آپ کو دھوکہ دیا تھا رومیسہ! جو انسان اپنی ذات سے چیٹنگ کرتا ہے اس کے لیے اپنے آپ کو معاف کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘اسد کی باتوں نے رومیسہ کو بت بنا دیا۔
کچھ پل ان دونوں کے درمیان ایسے ہی گزر گئے ۔ اسد جو اس کی طرف سے کچھ سننے کا منتظر تھا مایوس ہو گیا ۔ پھر رومیسہ نے بغیر کوئی جواب دیے باہر کی طرف قدم بڑھا دیئے۔
’’چلو باہر چلتے ہیں۔‘‘
اسد نے ایک نظر اس کے فرش کو بوسہ دیتے سرخ جوڑے کو دیکھا، پھر اس کے پیچھے جانے کے بجائے وہی ایک دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔
’’کیا تم اپنا ایمان سچی محبت پر کھو چکی ہو رومیسہ؟‘‘ اس کے سوال نے رومیسہ کے قدم باندھ دیے۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6 7اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page