ہم سرد ستارے: صبا زین
اسد نے ایک نظر اس نیلے پھول کو دیکھا اور پھر کھڑکی سے جھانکتی سنہری دھوپ کو، جو اس لڑکی رومیسہ کے بالوں میں آگ لگا رہی تھی۔
’’چلو پھر مل کر ڈھونڈتے ہیں۔‘‘ وہ اس کا خواب تھا، آخر حرج ہی کیا تھا ۔ اس کومعلوم تھا کچھ سوالات کے جوابات ہمارے لا شعور میں چھپے ہوتے ہیں، اگر وقت اس کواس خواب کے ذریعے اس کے سوالات کے جواب دینا چاہتا تھا تو کیوں نہیں؟
اس نے اپنا ہاتھ اس اجنبی کی طرف بڑھایا ۔ رومیسہ نے اس کے ہاتھ کو دیکھا ضرور، مگر اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا نہیں۔
’’کیا ڈھونڈنے سے سب کچھ مل جاتا ہے؟ جن کو معلوم ہی نہ ہو کہ وہ کیا ڈھونڈ رہے ہیں یا پھر جنہوں نے ڈھونڈنے کی کوشش ہی ترک کر دی ہو؟‘‘ رومیسہ کا جواب نئے سوالات لئے ہوئے تھا۔
’’میں نے بھی ترک کر دی تھی۔‘‘ وہ بھی اس کے پاس آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔
’’پھر اس محل نے میرے اندر امید جگادی۔‘‘ اس نے آس پاس دیکھ کر جواب دیا۔
’’کیا میرا محل تمہارے اندر امید جگاتا ہے؟‘‘ اس کی آنکھوں میں جوت جلی۔
’’کیا یہ تمہارا محل ہے؟‘‘
’’ہاں، بہت پہلے میں نے اس کو رنگوں سے تعمیر کیا تھا ۔ پھر بس…کھو دیا۔‘‘
’’تو پھر کیا تم اپنے محل کو ڈھونڈ رہی تھی؟‘‘
’’ نہیں ، مجھے نہیں معلوم کہ میرا کیا کھویا ہے ۔ بس کچھ ایسا ہے جو مجھے زندگی سے جڑنے نہیں دیتا۔‘‘
زندگی سے تو وہ بھی لاتعلق تھا۔ اس کا خیالی پیکر، بالکل اس کے جیسا تھا ۔ اس کو اس آئینوں کے کمرے میں اپنا عکس ملا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا بیپ کی آواز نے اس کا خیال توازن توڑ دیا۔
’’یہ کیسی آواز ہے؟‘‘ وہ چونکی۔
’’یہ میرے الارم کی آواز ہے ۔ آفس جانے کا وقت ہو گیا ہے۔ مجھے چلنا ہوگا، ورنہ بابا سے ڈانٹ پڑ جائے گی۔‘‘وہ کان کھجاتا ہوا کھڑا ہوا۔
’’مگر تم تو آرٹسٹ نہیں ہو؟‘‘ اسد کے چہرے پر سایہ سا گزرا، اس نے نگاہیں چرائی۔
’’اب وہ راستہ چھوڑ دیا ہے میں نے…‘‘ اس کے ساتھ ہی اس نے نیلے پھول کے گھیرے میں بیٹھی ہوئی لڑکی کو تنہا چھوڑ دیا۔
٭…٭…٭
کیا کوئی خواب اتنا تسلسل کے ساتھ آسکتا تھا ؟ جیسے کوئی کہانی ہو، جو اس پر قسطوں کی صورت نازل ہوئی ہو ۔ کیا اسد اس کے حواس پر اتنا زیادہ سوار تھا کہ وہ اس کے خوابوں کا لازمی جز بن گیا تھا ؟آخری بار اس نے سنا تھا کہ وہ لندن شفٹ ہوگیا تھا اور اپنی آرٹ کی پڑھائی جاری رکھے ہوئے تھا ۔
اس کے بعد اس کا باب اس کی زندگی میں بند ہوگیا تھا ۔ بلکہ کہنا چاہیے تھا کہ وہ ایک ایسا باب تھا جو کبھی کھلا ہی نہ تھا ۔ دل کے کونے کھدرے میں اپنے آپ سے بھی چھپا کر رکھے ہوئے احساس کی طرح تھا ۔
بریسس لگے ہوئے دانتوں کے ساتھ، بڑا سا چشمہ پہنے ہوئے، اپنے چڑیا کے گھونسلے کو ڈوپٹے سے چھپاتی ہوئی‘ اس کا صاف رنگ پمپل کے دانوں اور داغوں سے چھپا ہوا تھا ۔ ایسی تھی وہ اپنے کالج کے شروع کے دنوں میں ۔آرٹسٹ کو سب سے زیادہ فیشن کی پہچان ہوتی ہے ۔ اس چیز کا اندازہ اس کو آرٹ کالج جاکر ہوا تھا ۔ جب وہ اپنے پرانے زمانے کے کپڑوں کو دوسروں کے لیٹیسٹ فیشن کے مطابق سلے ہوئے کپڑوں سے موازنہ کرتی۔
یہ نہیں تھا کہ رومیسہ کا گھرانہ غریب تھا۔ وہ شہر کے پوش علاقے میں کروڑوں روپے کی مالیت کے فلیٹ میں رہتی تھی ۔اس کی ماں شہر کی مشہور سرجن تھی اور باپ ایک گورنمنٹ آفیسر تھا ۔ اس کی ماں کو اپنی پڑھائی کا بہت زیادہ غرور تھا اور اس کے باپ کو اپنے خاندان کا ۔ جس چیز کو وہ دونوں کبھی ایک دوسرے کو جتانا نہیں چھوڑتے تھے ۔ رومیسہ ان کی وہ مجبوری تھی جو ان دونوں کو باندھے ہوئے تھی ۔ اور کبھی کبھار وہ سوچتی کہ وہ ایسی مجبوری میں بندھے ہوئے کیوں تھے، جس کو دینے کے لیے ان کے پاس کوئی وقت نہیں تھا؟
ان دونوں کا اپنا اپنا سوشل سرکل تھا اور اپنی اپنی مصروفیات …نتیجاً نہ ہی رومیسہ کا کوئی سوشل سرکل تھا اور نہ ہی پڑھائی کے علاوہ کوئی مصروفیات ۔ اس کی ماں تو اس کو کہیں لے کر نہیں جاتی تھی ۔ کبھی کبھی کبھار اگر وہ اپنے ددھیال کے فنکشن میں چلی جاتی تو وہ وہاں اتنی مس فٹ، اتنی آؤٹ ڈیٹڈ لگتی کہ اس کا دل کرتا کہ وہ اپنے آپ کو کہیں چھپا لے ۔
’’یہ عالیہ اور فرقان کی بیٹی ہے ناں؟‘‘
’’بیچاری…‘‘
’’اس کی ماں نے اس کوپہننے اوڑھنے کا سلیقہ نہیں سکھایا ہے؟‘‘
’’ماں کو باہر سے فرصت ملے گی تو پھر نا؟‘‘
اس طرح کے جملے وہ جب کسی سے ملتی تو اس کوسننے کو ملتے ۔ پھر آرٹ کالج میں وہ کیسے دوسروں کا مقابلہ کرسکتی تھی؟جس خود اعتمادی اور خود پسندی کی وجہ وہ اپنے گھر میں ڈھونڈنا چاہ رہی تھی ‘ وہ اس کواسد سے ملی تھی ۔ جب رومیسہ کا پہلا سال تھا تو وہ اپنے فائن آرٹ کے آخری سال میں تھا ۔ اس حساب سے سوائے کینٹین اور آڈیٹوریم اور آرٹ مقابلوں کے علاوہ اس کا اور رومیسہ کا سامنا نہ ہونے کے برابر تھا۔
اسد کو چھا جانے کا فن آتا تھا ۔ وہ ہر عمر کے سٹوڈنٹ اور ٹیچر زمیں دل عزیز تھا ۔ ٹیچرز اس کی کلاس میں مثالیں دیتے تھے اور وہ دل ہی دل میں خود کو اسد کی جگہ محسوس کرنا چاہتی تھی۔
اسی کی طرح دلعزیز، اتنی چاہے جانے کے قابل ۔ اس کا فن، اس کا حسن اخلاق، اس کی خود اعتمادی … وہ ان سب چیزوں کے خواب دیکھنے لگی۔کچھ عرصے بعد اسد بھی اس کے خوابوں کا حصہ بن گیا ۔ صرف ایک چھوٹی سی ملاقات اسد کو اس کے خوابوں کا شہزادہ بنا گئی تھی۔
اس کے پہلے سال کے چوتھے مہینے ان دونوں کا آڈیٹوریم میں ٹکراؤ ہوا تھا ۔ اس کی سکیچز کی فائل اس کے ہاتھ سے گر گئی تھی، جس کو اسد نے اٹھا لیا ۔ کچھ سکیچز فائل سے باہر گر گئے تھے۔ وہ جواسد کے ہاتھ میں اپنے سکیچز دیکھ کر بوکھلا گئی تھی ۔ اس کے چہرے پر دلچسپی دیکھ کر ٹھٹھک کر رک گئی ۔ اسد نے پہلے اس کے سکیچز کو پھر اس کو دیکھا ۔ اس وقت اس کی سیاہ آنکھیں رومیسہ کے دل کے کونے میں نقش ہو گئی تھی۔
’’یہ تم نے بنائے ہیں؟‘‘
بوکھلائی ہوئی رومیسہ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’تم فرسٹ ایئر کی سٹوڈنٹ ہونا؟‘‘ پھر سے سر ہلانے پر اکتفا کیا۔
’’تمہارے سکیچز تو بہت لاجواب ہے ۔ بس تھوڑی گرومنگ کی ضرورت ہے ۔ ایسا کرو کہ تم سر فیصل سے ہیلپ لے لو ۔ بلکہ آنے والے مقابلے میں بھی حصہ لے لو، مجھے یقین ہے کہ تم جیت جاؤ گی۔‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے رومیسہ کے سکیچز واپس کئے اور خود چلتا بنا۔
اور رومیسہ کے لیے اپنے پیچھے اس کی زندگی کی سب سے قیمتی الفاظ چھوڑ گیا ۔ اگر انسان کو معلوم ہو جائے کہ اس کے الفاظ کیسے ایک انسان کو سنوار یا بگاڑ سکتے ہیں وہ ہمیشہ اچھے الفاظ کا استعمال کرے ۔ ان الفاظ نے رومیسہ کو پہلی بار آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا ۔ اس نے سر فیصل سے مدد بھی لی اور مقابلہ بھی جیت لیا ۔ بات وہاں پر ختم نہیں ہوئی کیونکہ اب وہ اسد کے ساتھ کے خواب دیکھنے لگی تھی ۔
اس کا خواب کچھ مہینے بعد زمین بوس ہوگیا، جب ایک مشترکہ فنکشن کے دوران ٹیچرز کے جانے کے بعد اسد نے اپنی کلاس فیلو فرح کو سب کے سامنے پرپوز کردیا ۔ اس کے ہی جیسی پراعتماد، دلعزیز اور خوبصورت فرح … اس کے ساتھ بیٹھی نازیہ نے اس کا کھلی کتاب جیسا چہرہ پڑھ لیا ۔ ہر جان قیمتی ہے، جب کسی کو گولی مارنا جرم ہے، اسی طرح ہمارے قانون میں الفاظ سے مارنا بھی جرم ہونا چاہیے ۔ یہ جرم اس وقت نازیہ نے اس کے کان میں سرگوشی کی صورت میں کیا تھا۔
’’تمہیں کیا لگا اسد تمہاری جیسی لڑکی کو پسند کرے گا ؟ مجھے حیرت ہو گی اگر اس کو تمہارا نام بھی معلوم ہوگا ۔ ہر انسان اپنا اسٹینڈرڈ بڑھانا چاہتا ہے، بہتر سے بہترین کی خواہش کرتا ہے ۔ یہ سب کہانیوں میں ہوتا ہے جب ایک اپر کلاس کا مشہور لڑکا کسی عام سی دبو ٹائپ کی لڑکی سے محبت کرنے لگ جاتا ہے ۔ انسان کو اپنے آپ کو دیکھ کر خواب دیکھنے چاہیے۔‘‘
یہ بھی الفاظ ہی تھے جو اس کے دل پر کوڑوں کی طرح برس رہے تھے اور اس کی شخصیت کو دوسرے ہی سانچے میں ڈھال رہے تھے۔
٭…٭…٭
اس دن کے بعد سے اس نے اپنا معیار بڑھا لیا تھا ۔ اس کے گھر والوں کے پاس اس کو دینے کے لئے وقت ہو یا نہ ہو مگر پیسے تو تھے ۔پہلے اس کو مانگنے سے جھجھک ہوتی، ایک ضد سی تھی کہ جب ان کو خود سے اس کی ضروریات کا احساس نہیں تو وہ خود سے کیوں مانگے ؟ اب وہ ٹھنک کر سوچتی کہ اگر وقت نہیں دے سکتے تو اس کا متبادل کچھ تو ہو ۔ پھر وہ پمپلز کے لیے بیوٹی پروڈکٹس استعمال کرنے لگی ۔ انٹرنیٹ کے ذریعے جدید فیشن سے بھی ہم آہنگی ہو گئی ۔ اپنے چڑیا کے گھونسلے کو بھی سدھانا آگیا ۔ رنگت تو پہلے بھی صاف تھی اور نین نقش دلکش تھے، چہرے پر رونق بھی خود بخود آ گئی۔
آپ کا اچھا لباس، آپ کی خوبصورتی آپ کو آدھی خود اعتمادی تو عطا کر دیتی ہے۔
اگلے سال اپنے بابا سے فرمائش کر کے گاڑی بھی لے لی ۔ وہی تھے جو اس کو وقت اور توجہ نہ دینے کی وجہ سے تھوڑا بہت گلٹی محسوس کرتے تھے، اس نے اسی چیز کا فائدہ اٹھایا۔
پھر وہی نازیہ جو اس کواوقات یاد دلا رہی تھی، اس کو دیکھ کر بولنا بھول گئی تھی ۔ خوبصورتی اور فن نے مل کر خود اعتمادی اور دل عزیزی بھی خرید لی ۔مگر کچھ تھا جو ابھی بھی اس کوادھورے پن کا احساس دلاتا تھا، اس کے اندر کسک جگاتا تھا، وہ محبت تھی ، چاہے جانے کی خواہش تھی ۔ کچھ نازیہ کے الفاظ نے اس کوضد دلا دی تھی ۔ وہ جیسے پوری دنیا پر ثابت کرنا چاہتی تھی کہ وہ بھی چاہے جانے کے قابل ہے۔
پھر اس کو کوئی مل گیا۔ وہ جو اس سے محبت کرنے پر راضی تھا مگر شادی کرنے پر نہیں ۔ رومیسہ کتنی بھی پر اعتماد ہوجاتی، اس کے اندر کی محبت کو ترسی ہوئی لڑکی ابھی بھی وہی تھی، اس لئے ڈر کے پیچھے ہٹ گئی ۔ محبت کی تلاش اس کو جگہ جگہ بھٹکاتی رہی ۔ لیکن کوئی بھی سلسلہ کچھ عرصہ سے زیادہ نہ چل سکا ۔ کوئی ہاتھ پکڑنا چاہتے تھے، تو کوئی باہر ملنا چاہتے تھے، کچھ لوگ اس سے بھی زیادہ چاہتے تھے ۔ رومیسہ جیسا سمجھدار، اس کو سمجھنے والا انسان اپنی زندگی میں چاہتی تھی ۔ ان میں سے کوئی ایک بھی نہ تھا۔
دوسری طرف جیسی پر اعتماد، بولڈ رومیسہ کے لیے لڑکے اس کی زندگی میں آتے تھے، قریب آکر پتہ چلتا تھا کہ وہ محبت کو ترسی ہوئی ایک روایتی مشرقی لڑکی تھی ۔کچھ رومیسہ سے ڈر کر بھاگ جاتے اور کچھ رومیسہ کو ڈرا دیتے ۔ اس سے پہلے کہ یہ سلسلہ طول پکڑتا پھر سے الفاظ کی مار نے رومیسہ کے بھٹکتے قدم روک لیے ۔ جو محبت گھر سے رومیسہ کو نہ ملی تھی۔ اس کو باہر ڈھونڈتے ہوئے وہ یہ بھول گئی تھی کہ باہر محبتیں نہیں ملتی، رسوائیاں ملتی ہے ۔ لوگ آنکھیں بھی رکھتے ہیں اور ان کو دوسروں کے داغ تو کچھ زیادہ ہی دکھائی دیتے ہیں۔
وہ اس کا آخری سال تھا ۔ امتحانات کا موسم چل رہا تھا اور ابھی ابھی وہ پرچہ دے کر فارغ ہو کر کینٹین میں بیٹھی بریانی کی پلیٹ میں بے خیالی میں چمچ چلا رہی تھی ۔ دماغ میں ابھی بھی اپنا پرچہ گھوم رہا تھا جب وہ اپنا نام سن کر چونک گئی۔
’’ویسے تو کالج کے پورے دورانیے میں اس کو کسی لڑکی سے کچھ خاص دوستی رکھتے ہوئے نہیں دیکھا میں نے ۔ اس کو لگتا ہے سارے لوگ بیوقوف ہیں ۔ میرے بھائی کے ساتھ سلسلہ چلنے لگا تھا پچھلے دنوں اس کا ۔ میں نے بھائی کو وارن کر دیا کہ میں ممی کو بتا دوں گی اگر انہوں نے اس آوارہ لڑکی سے کوئی سلسلہ بڑھایا تو…‘‘ وہ کولڈ ڈرنک کے گھونٹ بھرتی لڑکی نخوت سے بولی۔
’’اس طرح کی لڑکیاں نہ جانے خود کو کیا سمجھتی ہیں۔ کالج جاکر ماں باپ کا نام بد نام کرتی ہیں اور لڑکوں کو اپنی انگلیوں پر نچانے سے ان کو نہ جانے کیا مزا آتا ہے۔‘‘ دوسری نے بھی جھرجھری لی۔
’’ تمہیں معلوم ہے…‘‘ تیسری بھی کچھ کہنے والی تھی مگر رومیسہ سے مزید سنا نہ گیا۔
گھر آ کر اس نے اپنی ذات کو محاسبہ کیا ۔ ایسی حقارت و نفرت اور ایسے الفاظوں کے لیے کیا وہ دلعزیز بننا چاہتی تھی ؟اس طرح کی محبت وہ باہر ڈھونڈ رہی تھی جو اس کو بد نامی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرا دے ؟ کیا وہ اتنی زیادہ محبت کو ترسی ہوئی تھی کہ کسی کا ذرا سا خوبصورت جملہ، ذرا سی خوشامد اس کو اس سے محبت میں مبتلا کردیں ؟ کیا وہ اتنی آسان تھی ؟ کیا وہ اتنی سستی لڑکی تھی کہ ایک محبت کا جھوٹا دعویٰ اس کاوقت خرید سکے ۔ کیا اس کے جذبات اتنے سطحی تھے کہ وہ زیادہ عرصے قائم نہ رہ سکے؟
یہ سب اس کو کیا ثابت کرتا تھا ؟ اس نے اپنے آپ سے پوچھا اور جواب ملنے کے بعد جیسے وہ شرمندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتی چلی گئی ۔ اس دن کے بعد سے رومیسہ کبھی بھی اپنے آپ کو محبت کے قابل نہیں سمجھ پائی ۔ اس کے ددھیال والوں کے دباؤ میں آکر فرقان صاحب کو یاد آگیا کہ ان کی جوان بیٹی شادی کے قابل ہو گئی ہے ۔ رومیسہ کا شادی پر تو پہلے بھی اعتبار نہ تھا، اب محبت پر بھی نہیں رہا تھا۔ اس لیے اس نے اپنے آپ کو کمرے میں بند کر دیا۔
فرقان صاحب نے پیار سے لے کر زبردستی تک سمجھا لیا مگر رومیسہ کی ایک نہ ہاں میں نہیں بدلی۔ نتیجتاََ انہوں نے ہار مان لی۔
تب سے اب تک وہ جیسے ایک رکی ہوئی زندگی گزارے جا رہی تھی۔
کچھ خواب جو اس نے اپنے لئے دیکھے تھے، اس نے اپنے آپ کو ان کو پورا کرنے کے قابل بھی نہ سمجھا تھا ۔ اس لئے ان کو اپنے کمرے میں ایک ڈبے میں بند کر کے رکھ دیا تھا۔
اور کچھ خواب ہی تھے جو آنے والے دنوں میں رومیسہ کی زندگی بدلنے والے تھے۔
٭…٭…٭
وہ اس کو آئینوں کے درمیان ملی تھی، وہ اس کو کتابوں کے درمیان ملا تھا۔
’’کیا تم نے ڈھونڈنے کی کوشش کی؟‘‘ اب کی بار وہ اس کا پہلے سے منتظر تھا۔
قدیم زمانے کی کتابوں کی خوشبو ان کے آس پاس بکھری ہوئی تھی ۔ اسد سفید کرتا شلوار میں سیاہ لکڑی کی کرسی پر بیٹھا مولانا رومی کو پڑھ رہا تھا ۔
’’کیا ڈھونڈنا تھا؟‘‘ رومیسہ نے اس کے سامنے شہزادی کی سی ادا سے بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
اگر وہ خواب ہی تھا تو کچھ عرصے کے لیے اس کو پوری شدت سے محسوس کرنے میں کیا حرج تھا ؟ انسان ہر وقت اداس، ہر وقت وحشتوں میں رہ کر بھی تھک جاتا ہے۔