ہم سرد ستارے: صبا زین
اس کا ان دنوں لندن میں کسی بھی دوست سے رابطہ نہ ہونے کے برابر تھا ۔ اس لئے کسی کا اس وقت اس کے گھر آنا تعجب کا باعث تھا ۔ اس نے دروازہ کھولا تو مقابل کو دیکھ کر جھٹکا کھا گیا ۔ لندن میں اس کے فلیٹ کے دروازے پر اس کے سامنے کوئی عورت سر سے پیر تک برقعے میں ملبوس کھڑی تھی ۔ وہ ماڈرن انسانوں کی اس قوم میں سے تھا جس کے دلوں میں دہشت گردی کا خوف جڑوں تک پھیلا ہوا تھا ۔ وہ جو تیزی سے دروازہ بند کرنے لگا تھا مقابل کی آواز سے رک گیا۔
’’میری بات سنو اسد، یہ میں ہوں سارہ۔‘‘
’’سارہ…‘‘
اس نے اس کا ہاتھ دیکھا، جہاں کلائی کے پاس پے کے نقطوں کی صورت تین تل تھے۔ وہ بلا شبہ سارہ ہی تھی۔
’’تم یہاں … ایسے حلیے میں،کیا ہوا؟‘‘ وہ بوکھلا گیا۔
نقاب کے اندر سے اس نے اپنی بھوری آنکھیں اٹھا کر اس کو دیکھا۔ ’’اندر آنے کو نہیں کہو گے؟‘‘ اسد نے اس کے لئے راستہ چھوڑ دیا۔
اس نے سارہ کو لاؤنج میں پڑے کاؤچ پر بٹھایا اور خود سامنے بیٹھ گیا۔
’’سارہ کیا ہوا ہے؟ تم کہاں تھی؟ تمہیں میں نے اتنی ای میلز کی تھیں۔‘‘ وہ بے چین ہوا۔
’’میرے پاس زیادہ کچھ بتانے کا وقت نہیں ہے ۔ میں نے واپس بھی جانا ہے ۔ بس اتنا سمجھ لو کہ تمہارے پاس سے جانے کے بعد میرا بہت برا ایکسیڈنٹ ہوا تھا تب سے اب تک میں بہت زیادہ اذیت میں ہوں ۔ باقی ساری تکلیفیں اپنی جگہ، مگر تمہارا بار بار میری تصویر کو کینوس پر اتارنا مجھے بہت تکلیف دے رہا ہے ۔ تم پلیز میری پینٹنگ بنانا چھوڑ دو اور میری باقی ساری پینٹنگز کو بھی ضائع کر دو۔‘‘
’’ایکسیڈنٹ…کیسے ہوا ایکسیڈنٹ؟ اب تم ٹھیک ہو؟‘‘ وہ فکرمند ہوا ۔ کیا اس کی تبدیلی کی وجہ اس کا ایکسیڈنٹ ہے۔
’’ہاں، بس میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے ۔ اگر تمہارے دل میں میرے لیے ذرا سے بھی جذبات ہے تو اس کی خاطر مجھے اس اذیت سے نکال لو۔‘‘ وہ جلدی جلدی بولے گئی، جیسے اس کا وقت ختم ہو رہا ہو۔
’’اذیت، کس چیز کی اذیت؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔ تمہیں بتایا تو تھا کہ میں تمہاری پینٹنگ پر بہت محنت کر رہا ہوں ۔ اب کی بار وہ حقیقت کے بہت قریب ہے ۔ ‘‘ اسد نے اس کا زبردستی ہاتھ پکڑ کر اس کو اپنی حالیہ پینٹنگ کی طرف کھینچا۔
وہ فوراً پیچھے ہوئی۔ ’’نہیں مجھے مت دکھاؤ۔ مجھے یہ سب تکلیف دیتا ہے۔ بس تم ان سب کو ضائع کر دو۔‘‘
’’ایک بار دیکھو تو سہی۔‘‘اس نے اس کے برقعے کو جھٹکا دے کر اس کو اپنی طرف کھینچا تو سارہ کا نقاب کھلتا چلا گیا۔
وہاں سارہ کے دل فریب چہرے کی بجائے مسنح شدہ بدصورت چہرہ تھا ۔ وہ تیزی سے پیچھے ہٹا ۔ اتنی ہی تیزی سے سارہ نے اپنا نقاب دوبارہ لگایا۔
’’میرا وقت پورا ہو گیا ہے، مجھے جانا ہوگا۔ پلیز اگر مجھے اذیت سے نکالنا چاہتے ہو تو میری پینٹنگز جلا دو۔‘‘ وہ یہ کہہ کر تیزی سے اس کے فلیٹ سے نکل گئی۔
وہ تیزی سے اس کے پیچھے لپکا ۔ وہ اپنے فلیٹ سے باہر نکلا تو وہاں سارہ کا نام و نشان بھی نہ تھا ۔ وہ لفٹ کی طرف بھی گیا اور سیڑھیوں کی طرف بھی۔ مگر وہ تو جیسے ہوا میں تحلیل ہو گئی تھی۔
٭…٭…٭
پھر نجانے کتنے دن اس کے اپنے سٹوڈیو میں بیٹھے ان ادھوری بے جان تصویروں کو دیکھتے ہوئے گزر گئے ۔جن میں جان ڈالنے کی جدوجہد نے اس کے اندر سے جیسے جان ختم کر دی تھی ۔
اس کی زندگی نے دوسرا پلٹا اس کی موبائل کی بیل کے ساتھ کھایا تھا ۔ علی نامی وہ لڑکا سارہ کا بھائی ہونے کا دعویٰ کرتا تھا اور اس سے ملنا چاہتا تھا۔
’’سارہ نے امریکہ جانے سے پہلے میرے پاس تمہارے لئے ایک امانت رکھوائی تھی وہی دینے کے لئے تم سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘
اسد نے اس کو اپنا ایڈریس سینڈ کر دیا ۔ وہ ایک اکیس بائیس سال کا لڑکا افغانی طرز کے کرتے کے ساتھ جینز پہنے ہوئے تھا ۔ اس کے بالوں کے علاوہ وہ کہیں سے بھی سارہ کا بھائی نہ لگتا تھا ۔ اس کی رنگت گوری اور بال سارہ کی طرح ہی ڈرٹی بلونڈ تھے ۔ وہ تعجب کرتا تھا کہ سارہ کے بال قدرتی ہے یا ڈائی، علی کو دیکھ کر اس کو اس کے سوال کا جواب مل گیا تھا ۔
چند رسمی باتوں کے بعد علی نے اس کی طرف ایک بھورا لفافہ بڑھا دیا تھا۔
اسد نے لفافہ لے کر ایک طرف رکھ دیا۔ اس کو لفافے سے زیادہ سارہ نامی پہیلی میں دلچسپی محسوس ہو رہی تھی ۔ کچھ اندر بے چینی سی تھی جو اس کی ذات کو کنارے لگنے نہ دیتی تھی۔
’’سوری میں جلدی آ جاتا مگر میرے پاس تمہارا کوئی رابطے کا ذریعہ نہ تھا ۔ بہت مشکلوں سے کہیں سے تمہارا نمبر حاصل کیا تو یہاں پہنچا ہوں۔‘‘ علی اپنے ہاتھوں کو بار بار مسلتا، ایک ٹانگ پر دوسری ٹانگ رکھتا، غیر آرام دہ لگ رہا تھا۔
’’تم سارہ سے بھی تو نمبر یا ایڈریس لے سکتے تھے؟‘‘
اسد کی تفتیش پر علی کے چہرے پر سایہ سا گزرا۔
’’اس نے مجھے کہا تھا کہ وہ مجھے امریکہ پہنچ کر ای میل کردیں گی، مگر…‘‘ اس نے ہونٹوں پر زبان پھیری اور جملہ مکمل کیا۔ ’’مگر اس کو اتنی مہلت ہی نہ ملی۔‘‘
اسد چونک کر سیدھا ہوا، اس کی آنکھوں کے سامنے سارہ کا مسنح شدہ چہرہ آ گیا۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’امریکا پہنچ کر جب اس کی ٹیم آڈیشن کے لئے جا رہی تھی تو راستے میں ان کا بہت بڑا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا ۔ دو دن کومے میں رہنے کے بعد وہ…‘‘ علی کا ادھورا جملہ اسد کو سمجھ تو آگیا تھا مگر کچھ تھا جو اس کو نتیجے پر پہنچنے سے روک رہا تھا۔
’’وہ اس دنیا میں نہیں رہی اسد ۔ وہ سفر اس کے خوابوں کی طرف نہ جاتا تھا، موت کی طرف جاتا تھا۔‘‘ علی کی آواز بھرا گئی مگر اسد کے اندر جیسے کچھ ٹوٹنے کے باوجود بھی ایک آنسو بھی اس کی آنکھوں سے باہر نہیں آیا تھا۔
اندر کچھ تھا جو اس کی روح کو جھنجھوڑ رہا تھا، مگر باہر سے اس کا چہرہ بے تاثر تھا۔
’’کیا اس کا چہرہ مسنح ہوگیا تھا؟‘‘
’’تمہیں کیسے پتا؟ حیرت انگیز طور پر اس کے جسم پر کہیں بھی کوئی داغ نہ تھا ۔ مگر اس کا چہرہ ناقابل پہچان ہو گیا تھا اور اس کے ہاتھوں سے ہم نے اس کو پہچانا تھا۔‘‘
وہ جو اپنی شناخت بنانا چاہتی تھی، اس دنیا سے جیسے بے شناخت ہو کر گئی تھی ۔اس سوچ کے ساتھ ہی اسد کے اندر جیسے کچھ کلک ہوا تھا ۔ کچھ تھا جو اس کے دماغ پر دستک دے رہا تھا مگر جس کا سرا وہ پکڑ نہیں پا رہا تھا۔
’’کتنا عرصہ ہوگیا ہے اس بات کو؟‘‘
’’تین مہینے…‘‘
اسد جھٹکا کھا کر کھڑا ہو گیا ۔ پزل کا وہ ٹکڑا خود بخود اپنی جگہ پر لگ گیا تھا۔
’’یہ کیسے ممکن ہے؟ تقریباً دو ہفتے پہلے وہ مجھ سے ملی تھی ۔ وہ برقعے میں تھی ۔ میں نے اس کا نقاب اٹھایا تو اس کا چہرہ جلا ہوا تھا۔‘‘ اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے کی طرف اشارہ کیا۔
’’کیا مطلب؟ کیا وہ تمہیں بھی ملی تھی؟‘‘علی واضح طور پر چونکا تھا۔
’’کیا کسی اور کو بھی ملی تھی؟‘‘
’’تمہیں سارہ کیا کہہ رہی تھی؟‘‘
اسد نے اس کو آہستہ آہستہ سب بتا دیا۔
’’تمہیں یقین ہے کہ تم کوئی خواب نہیں دیکھ رہے تھے؟‘‘
’’میں جاگتی آنکھوں سے ایسے بھیانک خواب نہیں دیکھتا۔‘‘ اسد کو برا لگا۔
’’میری خالہ جو ترکی میں رہتی ہے، انہوں نے بھی مجھے سارہ کے فوت ہونے کے کچھ عرصے بعد فون کرکے کہا تھا کہ سارہ ان سے ملنے آئی تھی اور ان سے اپنی اپلوڈ کی ہوئی ویڈیوز ڈیلیٹ کرنے کے لئے کہہ رہی تھی ۔ وہ دراصل سارہ کا سوشل میڈیا پیج مینیج کرتی تھیں ۔ ہم بھی یہ سب ان کا ہم وہم سمجھے تھے۔‘‘
’’ان سب کا کیا مطلب ہے؟‘‘ اسد کی نظر اس پانی پر رقص کرتی جل پری پر پڑی۔
علی کی نگاہوں نے اس کی نظروں کا پیچھا کیا، پھر نظریں چرالیں۔
’’میں اسلام کے بارے میں اتنا نہیں جانتا اسد! مگر عورت کے پردے کے بارے میں تو ہم سب کو ہی معلوم ہے ۔ ہمارے ماں باپ نے کبھی بھی ہمیں اپنے خواب پورے کرنے سے نہیں روکا ۔ وہ اس دنیا کے ماڈرن لوگ ہیں جو اس دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر صحیح غلط کو ناپتے ہیں ۔ میں یہ نہیں جانتا کہ سارہ کا خواب صحیح تھا یا غلط۔ مگر میں یہ جان گیا ہوں کہ اس کے امر ہونے کی چاہ نے اس کو مرنے کے بعد بہت تکلیف میں مبتلا کر دیا ہے۔‘‘ علی اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر رو دیا۔
اور اسد نے اس پانی کی پری سے ہمیشہ کے لئے نظر چرا لی ۔ سارہ کی پینٹنگز جلانے کے بعد اسد کتنی کتنی دیر خالی کینوس کو دیکھتا رہتا ۔ وہ کچھ بنانے کی کوشش کرتا مگر اس کا تخیل جیسے کہیں جا سویا تھا ۔ جب کافی عرصے وہ اپنے تخیل کو جگانے میں ناکام رہا اور اس کا اسٹوڈیو ادھوری پینٹنگز سے بھر گیا تو ہار مان کر پاکستان واپس آ گیا ۔ اس کا اس کے والد سے اختلاف بھی اسی بات پر تھا ۔ وہ چاہتے تھے کہ اسد آوارگی چھوڑ کر اسٹیبلش ہو جائے ۔ دوسری طرف اسد ایک جگہ بیٹھ کر اپنی انسپریشن کھو دیتا تھا ۔ وہ واپس آکر باپ کے کاروبار کا حصہ بن گیا ۔ گھر والوں سے صلح ہو گئی مگر وہ زندگی سے روٹھ گیا۔
ایک دن وہ اپنے پرانے سامان میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا تو ایک بھورے رنگ کا لفافہ اسکے بیگ سے اسے قدموں میں گر گیا ۔ یہ وہی لفافہ ہے جو سارہ اس کے لئے چھوڑ کر گئی تھی، جس کو وہ سرے سے بھول گیا تھا ۔ اس نے کھول کر دیکھا تو اس کے اندر سے ایک پینٹنگ کی اسکین امیج نکلی۔
وہ تصویر سات میناروں پر مشتمل سنہری محل پر تھی، جس کے چاروں طرف گھنے درخت اور نہریں بہہ رہی تھی ۔ ایک نہر کے پاس ایک اونچے سے پتھر پر ایک لڑکی بیٹھی تھی ۔ وہ لڑکی سارہ نہیں تھی ۔ سارہ کے مقابلے اس لڑکی کا رنگ گورا تھا اور بال…
بالوں کا رنگ وہ جان نہ پایا تھا، کیونکہ سورج کی شعاعیں سیدھا اس کے بالوں پر پڑ رہی تھی ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کسی نے اس کے بالوں میں آگ لگا دی ہو ۔وہ لڑکی اپنا چہرہ اپنے بازوؤں میں لے کر بیٹھی ہوئی تھی ۔ جس کی وجہ سے وہ اس کی شناخت نہ کر سکتا تھا ۔ اس نے وہی نیلا لباس پہنا ہوا تھا، جو سارہ نے اس کی پینٹنگ کے لئے بطور خاص پہنا تھا۔
اس نے تصویر کا رخ موڑ کر دیکھا، جہاں سارہ پیغام لکھا ہوا تھا۔
’’میں جب اپنا سوشل میڈیا کا کوور پیج ڈیزائن کرنا چاہتی تھی تو یہ سکین پینٹنگ میں نے بہت پہلے ایک فریلانسر سے بہت سستے داموں خرید لی تھی ۔ اس پینٹنگ کو میں نے استعمال نہیں کیا تھا مگر پتہ نہیں کہ اس میں ایسا کیا تھا جس نے مجھے مسحور کر دیا تھا ۔ تم زندگی کی بات کرتے ہو تو اس پینٹنگ میں میں نے زندگی کا ایک روپ دیکھا تھا ۔ کیا…؟ مجھے نہیں معلوم ۔ شاید تمہاری آرٹسٹ نگاہیں اس چیز کو جانچ سکیں، جس کو میں کوئی نام نہیں دے سکی ۔ اگر تمہیں پتہ چلیں تو مجھے ضرور بتانا۔‘‘
آخر میں آنکھ مارتے ہوئے ایموجی بنی ہوئی تھی ۔ جو چیز سارہ کو سمجھ نہیں آئی تھی ہوسکتا تھا کچھ عرصہ پہلے اس کو بھی سمجھ نہیں آتی۔ مگر اب زندگی کا دوسرے رخ دیکھنے کے بعد اس زندگی کے پہلو کو وہ ایک نگاہ میں پہچان گیا تھا ۔ اس پینٹنگ کو دیکھ کر اس کو پہلا خیال فینٹیسی کا اور دوسرا گرمیوں کی دھوپ کا احساس ہوا تھا ۔ ہر فن اپنے دیکھنے والے کے اوپر کوئی نہ کوئی احساس چھوڑ دیتا ہے ۔
اس کو یاد ہے جب اس نے علی پور کا ایلی پڑھا تھا، تب اس کو گرمیوں کی دوپہروں کا سا احساس ہوا تھا ۔ایسی گرمیوں کی دوپہریں جو کاٹے سے کاٹے نہیں کٹتی تھی ۔ اس کو یاد تھیں، اپنی زندگی کی گرمیوں کی دوپہریں، جو وہ اپنے کمرے میں جاگتے ہوئے اکیلے وحشت سے گزارتا تھا ۔ اس سنہری چبوتروں اور دھوپ کے باوجود کچھ تھا، جو اس پینٹنگ کو تاریکی کا سا تاثر دیتا تھا ۔ اس لڑکی کا بازؤں میں سر دے کر اس سنہری محل کے سامنے تنہا بیٹھا ہونا، زندگی کے ایک اور پہلو کو اجاگر کرتا تھا اور وہ تھا اداسی…
اس رات جب اسد سونے لیٹا تو اس کی آنکھوں کے سامنے ایک اجنبی آرٹسٹ کا سنہری محل تھا اور اداسی تھی۔
٭…٭…٭
وہ سات میناروں پر مشتمل سنہرا محل تھا جو اس نے سارہ کی چھوڑی ہوئی پینٹنگ میں دیکھا تھا ۔ کیا یہ محل اس کے حواسوں پر اتنا زیادہ سوار تھا کہ اس کو اب خواب بھی اس کے آنے لگ گئے تھے ؟ پورا محل چھانٹ مارنے کے بعد اس کوایک لڑکی آئینوں سے بھرے کمرے میں ملی تھی۔
یہ وہی پینٹنگ والی لڑکی تھی۔
اس کی رنگت ملائی سے گوندھی گئی تھی اور اس کے بال تانبے کے رنگ کے گھنگریالے تھے ۔ باہر سے آتی سنہری دھوپ سے اس کے بال سرخ ہو رہے تھے اور ایسا لگ رہا تھا جیسے ان میں آگ کا الاؤ جل رہا ہو ۔ اس کی آنکھیں سنہری تھی اور اس کا چہرہ کسی ہیرے کی طرح تراشا گیا تھا۔
’’کون ہو تم؟ ‘‘اس نے پہلا سوال پوچھا۔
’’میں… رومیسہ! تم یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘
کیا وہ اس کو جانتی تھی ؟ وہ اس کے خواب میں تھی، کیا پتا وہ اس کو جانتی ہو اور کیا پتہ اس کو اس کے سوالات کے جواب معلوم ہو ۔ اس نے آس پاس کے آئینوں میں دیکھا، ہر آئینے میں اس کا عکس تھا۔
’’میرا کچھ کھو گیا ہے۔‘‘
’’میرا بھی…‘‘ وہ اداسی سے بولتی ہوئی ہوں زمین پر بیٹھتی چلی گئی، اس کا نیلا لباس کسی نیلے پھول کی طرح اس کے گرد پھیلا ہوا تھا۔