ہم سرد ستارے: صبا زین
اس نے اپنی بنائی ہوئی ایک پینٹنگ دیکھی، اور ان کو المصور کے لئے پیش کر دیا، مگر وہاں سے جواب مایوس کن تھا ۔ مراکش خوبصورتی اور آرٹ کا گڑ تھا ۔ ایک آرٹسٹ کے لئے وہاں پینٹنگ کے لئے انسپریشن ڈھونڈنا کچھ مشکل نہ تھا۔
وہ حقیقی آرٹسٹ تھا، مراکش اس کے لیے آئیڈیل جگہ تھی ۔ اس نے پھر دریائے درعہ کے کنارے کھڑے ہوکر سامنے کے منظر کو اپنے رنگوں میں بھر دیا کہ المصور میں تو زندگی کی کہانیاں تھیں ۔ اس نے بھی ایک زندگی کی کہانی اپنے رنگوں میں سمونی چاہی، اور پانی سے بڑھ کر زندگی کہاں ہوگی۔ مگر پھر سے ناکام ر ہا ۔ مسلسل ناکامی کے بعد آخر کار اس نے وہ کیا، جو وہ بچپن میں کرتا آیا تھا ۔ وہ المصور کی آرٹ گیلری دیکھنے گیا، آخر وہاں کے نوآموز مصوروں میں کیا تھا جو اس میں نہ تھا ؟وہ اتنے سالوں بعد وہاں پر آرٹ کے شائق کے طور پر گیا تھا نہ کہ ایک مصور کے طور پر۔
المصور کے دروازے پر اس کو وہاں کا کیئر ٹیکر مل گیا ۔ یہ وہی کیئر ٹیکر تھا جب بچپن میں وہ اپنے نانا کے ساتھ یہاں آتا تو وہ وہاں آنے والے بچوں کو لولی پاپ دیا کرتا تھا ۔ اسد بھی لولی پاپ وصول کرنے والے بچوں میں سے تھا ۔
اس دن اسد جب وہاں سجے ہوئے ایک ایک فن کے شاہکار کو اپنے غرور کے ترازو میں تول رہا تھا تو وہ اس کے پیچھے آکر کھڑا ہوگیا۔
’’ایسا کیا کھو گیا ہے، جو ان ماہ پاروں میں کھوجتے ہو؟‘‘ اس نے کیئر ٹیکر کا مسکراتا ہوا چہرہ اپنے سامنے لگی پینٹنگ کے شیشے میں دیکھا اور گھوم گیا۔
’’کہ ایسا کیا ہے ان تصویروں میں جو میری آرٹ میں نہیں ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
کیئر ٹیکر نے اپنی سفید داڑھی کھجائی اور مغربی لباس میں پھرتی ایک درمیانی عمر اور درمیانے قد کی عورت کو آواز لگائی۔
’’لیلیٰ، ادھر آکر اس نوجوان کی مشکل تو دور کرنا۔‘‘
لیلیٰ بابا کو ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے اسد کے قریب آئی ۔ وہ سنجیدہ چہرے اور نرم تاثرات کی عورت تھی ۔ وہ مسکرائی تو اس کی آنکھوں میں اس کی مسکراہٹ کا عکس جھلکا ۔ اس نے اپنا تعارف وہاں کی مینیجر کے حوالے سے کروایا تو اسد کی فوراً اس میں دلچسپی بڑھی ۔ المصور کی انتظامیہ سے اسد کی ملاقات نمائش کے سلسلے میں ہوتی رہی تھی مگر اس کو ابھی تک لیلیٰ سے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔
’’میں اے محسن ہوں ۔ میری پینٹنگز پیرس کی آرٹ گیلری میں نمائش پا چکی ہیں ۔ مگر المصور اس کو واپس لوٹا دیتا ہے ایسا کیوں؟‘‘ اس نے آخری مسترد کی ہوئی پینٹنگ جو وہ اپنے ساتھ لایا تھا لیلیٰ کی طرف بڑھا دی۔
لیلیٰ نے احتیاط سے سکرول ہوئی پینٹنگ سیدھی کی ۔ پینٹ سوکھ چکا تھا، تصویر اب خراب نہیں ہو سکتی تھی ۔ ویسے بھی وہ رد ہو کر اپنی اہمیت کھو چکی تھی ۔ وہ تو بس اس کو حوالے کے لیے لے کر آیا تھا۔ لیلیٰ نے ایک نظر اس کی پینٹنگ کو دیکھا پھر اس کو اشارے سے دوسری طرف لے گئی ۔ وہ دونوں چلتے ہوئے ایک پینٹنگ کے سامنے آ کر رک گئے۔
’’یہ پینٹنگ ایک نو آموز لوئر کلاس کے نوجوان نے بنائی ہے اور ہم نے اسے قبول کر لیا ہے۔ آپ اس کو دیکھیں اور اپنی تصویر کو دیکھ کر بتائیں کہ آپ کو کیا فرق نظر آتا ہے؟‘‘
وہ جو نو آموز کے نام سے نخوت سے سر جھٹکنے والا تھا پینٹنگ دیکھ کر رک گیا ۔ وہ تصویر سرمئی پینسل سے سکیچ کی صورت بنائی گئی تھی ۔ وہ کسی گاؤں کی تصویر تھی ۔ کسی بدحال سے گھر کے سامنے ایک سانولا سا بچہ ادھ ننگی حالت میں کھڑا ہوا تھا ۔ اس کا جسم لاغر تھا مگر چہرے پر بچپن کی لالی تھی ۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں ایک جہان آباد تھا اور اس سے بھی بڑھ کر اس کی مسکراہٹ تھی ۔ اس کی مسکراہٹ سے اس کے آگے کے دو ٹوٹے ہوئے دانت دکھتے تھے مگر اس مسکراہٹ میں زندگی بھی جیتی تھی۔
اسد نے اپنی پینٹنگ دوبارہ دیکھی تو اس کو اپنی کلرفل پینٹنگ اس تصویر کے سامنے بے رنگ لگی ۔ تب اس کو معلوم ہوا کہ اس کی پینٹنگ میں کس چیز کی کمی تھی۔
’’فنکار کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے دیکھنے والے کی روح سرشار کردیں ۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دے، اس کی آنکھوں میں آنسو لے آئے، اس کے دل میں اطمینان ڈال دے ۔ اگر وہ یہ سب نہیں کر سکتا تو اس کا فن مردہ ہے۔‘‘ لیلیٰ اس کو دیکھتے ہوئے بولی۔
’’اور سب سے بڑھ کر محبت … ایک محبت بھرا دل ہی ایسا فن پیدا کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے ۔ اگر تمہارے دل میں محبت نہیں ہے تو تمہارے فن میں جان کیسے آئے گی؟‘‘ لیلیٰ یہ کہہ کر اس کا جواب سنے بنا وہاں سے چلی گئی اور وہ وہی بت بن کر اس مسکراتے ہوئے بچے کی تصویر کو دیکھتا رہا۔
یہ کیسے ممکن تھا کہ محبت کی کمی اس کی تصویروں کو مردہ کر رہی تھی ؟ وہ اپنے بابا سے محبت کرتا تھا ۔ یہ الگ بات کہ ان دونوں کے درمیان کافی عرصے سے اختلافات چل رہے تھے ۔ وہ اپنے نانا اور دادا کے بے حد قریب تھا۔ نانا دنیا میں نہیں تھے اور دادا سے وہ ضد میں نہیں ملتا تھا ۔ وہ اپنے بہن بھائیوں سے بھی بہت محبت کرتا تھا ۔ گو کہ وہ سب اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف تھے۔
کیا لیلیٰ رومانوی محبت کی بات کر رہی تھی ؟ اس نے چند ایک بار وہ بھی کر کے دیکھی تھی، مگر بات نہیں بنی تھی۔
جب مراکش میں اس کا ویزا پورا ہو گیا تو وہ پہلے پاکستان آگیا ۔ پھر مختلف نمائشوں کے بہانے وہ مختلف ملکوں گھومتا رہا مگر اس کو سکون نہ ملا ۔ ہار مان کر جب اس نے لندن میں اپنے سٹوڈیو آ کر دوبارہ کام کرنے کا سوچا تو وہ اس کووہاں کچھ اور مل گیا۔
بلکہ کوئی مل گئی۔
ایک جل پری…
وہ اپنے رنگوں میں زندگی اور محبت کی تلاش میں بھٹک رہا تھا کہ اس کے دوست نے اس کو ایک انوکھی نمائش پر بلا لیا۔
’’آؤ، تمہیں میں جل پری دکھاتا ہوں۔‘‘
’’کیا سائنس نے اتنی ترقی کر لی تھی کہ اصل جل پری دریافت ہوگئی تھی؟‘‘وہ سوچ کر الجھا۔
جب وہ وہاں پر پہنچا تو اس کو معلوم ہوا کہ وہ اصل جل پری نہ تھی مگر سچ میں جل کی پری تھی ۔ وہ پانی پر ناچتی، کرتب دکھاتی، ہر آنکھ کو محو کرتی تھی ۔اس کے اندر کا مشرقی مرد شرماتا، لجاتا، اس کے جسم کے ساتھ چپکے لباس کو ناگواری سے دیکھتا۔ اس کے اندر کا فنکار اس وقت اس کو کہیں اور دیکھنے نہ دیتا تھا ۔ وہ سوئمنگ پول میں پاؤں مارتی، پانی کی بوندوں کو اپنا تابع کرتی، پھر ہوا میں لٹکے رنگ کی مدد سے پانی میں بھنور پیدا کردیتی ۔ پانی کی ایک ایک بوند اس کے ساتھ محو رقص تھی۔
اس کا رنگ گہرا گندمی تھا اور بال گہرے سنہری تھے، جس کو عام طور پر ڈرٹی بلونڈ کہتے ہیں ۔ اس کی آنکھیں بھوری اور کسی ہرنی کی طرح تیکھی تھیں ۔ گویا وہ ہرنی کے لباس میں ایک تیراکن تھی ۔ رقص ختم ہوا تو وہ اپنی ٹیم کے ساتھ کپڑے بدل کر جانے لگی تو وہ اس کے پیچھے ہو لیا۔
چند روپوں کی خاطر ایسا تماشا دکھانے والی ایک پینٹنگ کے لیے کچھ پیسے لینے کو تیار تو ہو ہی جائے گی ۔ اور اس کو مفت کی پبلیسیٹی بھی مل جائے گی۔اس کے اندر کا مرد اترایا۔
’’ایکسکیوز می…‘‘ اس کے پکارنے پر اس نے اپنی ہرنی جیسی تیکھی آنکھیں اٹھا کر اس کو دیکھا۔
’’آپ کے لئے ایک پروپوزل ہے۔‘‘
’’میں پرائیویٹ شوز نہیں کرتی۔‘‘ وہ بات سننے سے پہلے نتیجے پر پہنچی۔
’’دس لوگوں کے سامنے رقص کرتے شرم نہیں آتی اور پرائیویٹ شوز نہیں کرتی۔‘‘ اس نے دل میں نخوت سے سوچا۔
’’نہیں، ایسی بات نہیں ہے ۔ میں اے محسن ہوں۔ یہ میرا کارڈ…‘‘ اس نے اپنا کارڈ اس کی طرف بڑھایا جس کو اس نے تھامنے کی زحمت نہ کی۔
’’میں ایک آرٹسٹ ہوں اور آپ کی تصویر بنانا چاہتا ہوں۔‘‘اسد کی بات پر اس نے ایک ابرو اٹھائی، اپنے رنگے بالوں کو جھٹکا دیا اور وہاں سے چلتی بنی۔
وہ اپنا کارڈ ہاتھ میں تھامے وہی کھڑا رہا ۔ پھر وہ جل پری جہاں بھی ہوتی، وہ وہاں ہوتا۔
جیسے جل پری کے فن میں جان تھی، زندگی تھی، اس کو یقین ہو چلا تھا کہ اس کے فن میں بھی وہی جان ڈالے گی۔
مگر وہ تھی کہ توجہ ہی نہ دیتی تھی ۔ جب اس کا نام کام نہیں آیا تو اس نے اپنا سحر چلانے کا فیصلہ کیا ۔ اس نے اس کو کافی پلانے کی دعوت دے ڈالی ۔ اس کو کچھ خاص امید تو نہ تھی مگر شاید تھکن تھی یا ٹھنڈ کہ اس نے قبول کرلی۔ ایک بار کی کافی کئی شاموں کی ملاقاتوں میں ڈھل گئی ۔
اس کا نام سارہ تھا اور وہ اپنے بچپن میں سوئمنگ اور جمناسٹک چیمپئن تھی ۔ اس نے اپنی ٹین ایج میں اپنے شوق کو اپنے رقص کے ساتھ ملا لیا ۔ ان سب ملاقاتوں کے بعد نہ جانے کیا ہوا؟ کوئی خاص لمحہ تو نہیں گزرا تھا۔ مگر اسد کو وہ اچھی لگنے لگ گئی تھی ۔ محبت…؟ نہیں، محبت شاید نہیں تھی کیوں کہ وہ ابھی بھی اس کی خواہش کا احترام کیے بغیر اس کی پینٹنگ بنانا چاہتا تھا۔ اور وہ اب بھی انکار ہی کرتی تھی۔
جب وہ وجہ پوچھتا تو وہ ناک چڑھا کر کہتی۔
’’میں تمہیں اپنی نمائش کا ذریعہ نہیں بنانا چاہتی۔‘‘
’’اگر تم اپنی نمائش نہیں چاہتی تو دس لوگوں کو سامنے پرفارم کیوں کرتی ہو؟‘‘ اس نے بھی ایک دن اسی نخوت سے پوچھ لیا۔
سارہ نے اس کو ایسی نظروں سے دیکھا جیسے وہ اس سے ایسے جواب کی توقع نہیں کرتی ہو۔ پھر کچھ ٹھہر کر جواب دیا۔
’’تم تصویریں نہیں بناتے؟ جاندار کی تصویریں بنانا بھی تو حرام ہے ۔ بس فرق یہ ہے کہ میں عورت ہو کر وہ کرتی ہوں جو میں کرنا چاہتی ہوں ۔ میرے جسم کو پانی کی بوندیں چھوتی ہیں، کسی غیر کے ہاتھ نہیں ۔ جیسے تم رنگوں سے کھیلتے ہو، میں پانی کی بوندوں سے کھیلتی ہوں ۔ پھر فنکار تو فنکار ہوتا ہے اس میں داد پانے کی چاہ تو ہوتی ہے، چاہے وہ کسی بھی قسم کا فن کار ہو۔‘‘ وہ یہ کہہ کر اپنا بیگ اٹھا کر بغیر کافی کو ہاتھ لگائے چلتی بنی۔
’’مجھے بہت بڑے شو سے پرفارمنس کی آفر آئی ہے ۔ مگر پہلے آڈیشن کے لئے امریکا جانا ہوگا۔‘‘ اس نے کچھ دن بعد بتایا۔
اس دن پہلی بار اسد پر ایک انوکھا انکشاف ہوا۔ وہ سارہ کا عادی ہو گیا تھا۔ وہ اس کو اپنی زندگی میں رکھنا چاہتا تھا ۔ وہ اس کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا ۔ وہ اس کو روکنا چاہتا تھا۔
مگر پاکستان میں جس دنیا سے اسد کا تعلق تھا وہاں سارہ جیسی لڑکی کی گنجائش نہیں تھی ۔ وہ جل پری تھی، وہ پانی کی باسی تھی، اگر اس کو اپنی مچھلی کی کھال چھوڑ کر پیروں پر چلنا پڑتا تو وہ تھک جاتی ۔
اس دن اسد کو پہلی بار ادراک ہوا کہ پیار کا پہلا شہر میں سنان پاسکل کو ساتھ لے کر کیوں نہیں گیا تھا۔
کچھ چیزیں آپ کو ایک وقت میں الجھا دیتی ہے مگر ان الجھنوں کا جواب آپ کو وقت دیتا ہے ۔ اسد کے بھی بہت پہلے کیے گئے سوال کا جواب اس کو وقت نے دے دیا تھا ۔ سارہ نے وہ سارے ان کہے سوال اسد کی آنکھوں میں پڑھ لیے تھے۔
’’تم سول میٹ پر یقین رکھتے ہو اسد؟‘‘ سارہ نے اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
اسد کے کوئی جواب نہ دینے پر وہ خود ہی بولنے لگی۔ ’’یونانی دیو ملائی کہانیوں کے مطابق دراصل جب کوئی انسان مرتا ہے تو اس کی روح ٹکڑوں میں بٹ کر زندہ ہوتی ہے ۔ وہ ٹکڑیں مختلف انسانوں کے اندر ہوتے ہیں ۔ جب میں نے تمہاری کافی کی آفر قبول کیں تو مجھے لگا کہ میری روح کا ایک ٹکڑا تمہارے اندر بھی ہے۔‘‘ وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔
’’مگر سول میٹ ضروری نہیں کہ زندگی کا ساتھی ہو ۔ کبھی کبھار وہ زندگی میں آپ کو روشنی دکھانے بھی آتے ہیں ۔ تم میری زندگی میں آئے تو میرے سارے کام بننے لگے ۔ میں رنگوں کے فن سے واقف تو نہیں ہوں۔ مگر میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ تم مجھے رنگوں میں کیسے ڈھالتے ہو۔‘‘
کچھ دن بعد وہ اس کے سامنے نیلے لباس میں تھی۔ وہ لباس کسی شہزادی کا سا تھا۔
’’میں نے اس لباس کے اندر ایک لڑکی کی پینٹنگ دیکھی تھی ۔ اگر تم نے اس پینٹنگ کو مات دے دی تو میں تمہیں اپنی پینٹنگ کی نمائش کی اجازت دے دو گی۔‘‘
پھر اسد نے دن رات سارہ کے فن کو اپنے فن کے ساتھ مدغم کرنے کی کوشش شروع کر دی ۔ وہ پینٹنگ اس کی زندگی کا شاہکار بننے والی تھی۔
اس کا میگنم اوپس…
اس نے اپنی پینٹنگ کو ’’زندگی‘‘ کا عنوان دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کی زندگی نے اپنی تکمیل کے دن اس کو مایوس کردیا ۔ سی کی شیپ میں پیروں کو بل دیتی ہوئی وہ جل پری اس کے سفید کینوس کو نیلا کر رہی تھی ۔ پانی کی ایک ایک بوند کو اس نے زندگی دینے کی کوشش کی تھی۔ جس دن اس نے سارہ کو اپنی پینٹنگ مکمل کر کے دکھائی اس کے چہرے پر پہلا جذبہ مایوسی تھا۔
وہ جو کسی ’’واہ‘‘ کی امید کر رہا تھا بجھ کر رہ گیا۔
’’یہ پینٹنگ میرے فن کا ایکسیگر یٹیڈ ورژن ہے ۔ تم نے اس میں زندگی ڈالنے کی جدوجہد میں اس کو آرٹیفیشل کر دیا ہے ۔ ‘‘ اسد کو سارہ کا تجزیہ پسند نہیں آیا۔
’’تم مجھے نمائش کی اجازت دے دو میں اس کو نیچرل کر دوں گا۔‘‘ اسد کو اپنا ملتجی لہجہ پسند نہیں آیا تھا ۔ اس نے آج چلے جانا تھا ۔ وہ اس کو آج نہیں منا پاتا تو کبھی نہیں منا پاتا۔
’’ٹھیک ہے مجھے صحیح سے فیمس کرنا۔‘‘ وہ اس کو آنکھ مار کر اس کے کندھے پر ہاتھ مارتی ہوئی اس کی نظروں سے اوجھل ہوتی گئی۔
اسد کا اس پل دل کیا کہ اس کو روک لے ۔ وہ جانتا تھا کہ ان دونوں کی سانسوں کی سلامتی کے لیے ان دونوں کا اپنی اپنی دنیاؤں میں رہنا ضروری تھا۔
٭…٭…٭
اس کے دن رات اس مصنوئی تصویر کو زندگی دینے کی جستجو میں گزر رہے تھے۔
المصور زندگی چاہتا تھا ۔ سارہ اپنی تصویر میں زندگی چاہتی تھی ۔ وہ بھی اس سے کم میں راضی نہ تھا۔ مگر تصویر تھی کہ زندگی کا رخ لینے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
کبھی کبھار وہ اپنے اوپر ہنس بھی دیتا۔ وہ اے محسن، ایک لڑکی کے فن کو زندہ کرنے کا ہنر اپنے اندر نہیں جگا پا رہا تھا ۔ اکثر کام کے وقفوں کے دوران وہ سارہ کو بھی میسج کرتا ۔ انٹرنیٹ پر جس پروگرام کا اس نے ذکر کیا تھا اس کو بھی سرچ کرتا ۔ اس پروگرام کے آڈیشن میں وہ اس کو دکھائی نہیں دی اور نہ ہی اس نے اس کے کسی میسج یا ای میل کا جواب دیا تھا ۔ ایسے ہی ناکامی بھرے دنوں میں جب دونوں وقتوں کے ملنے کا وقت تھا اس کے فلیٹ کی گھنٹی بجی تھی ۔