ہجرووصال : آخری قسط
’’بہت شکریہ دوست ‘تمہارے کنسرن کا بھی اور تمہاری آفر کا بھی ‘مگر میں کشتیاں جلا چکا ہوں ۔‘‘
باسل نے اُس کا جواب سن کر’’ خدا حافظ ‘‘کا تکلف بھی نہیں کیا تھا اور فون رکھ دیا تھا ۔
مگر وہ آخری فون نہیں تھا جس میں اُسے’’ معافی کی گنجائش‘‘کی پیشکش ہوئی تھی ۔آج کی تاریخ کا یہ تیسرا فون تھا جو مصالحت کی آفر سے شروع ہو کر دھمکیوں تک پہنچ چکا تھا ۔
’’تم کیا سمجھتے ہو تم ہیرو بن جاؤ گے یہ سب کر کے ؟‘‘مصالحت ٹھکرانے پر مقابل لتاڑنے پر اُتر آیا تھا ۔
’’تمہارے خلاف ہمارے پاس ایسا ترپ کا پتا ہے کہ ہم تمہیں کتے کی موت مار سکتے ہیں ۔کوئی دفنانے کو تیار نہیں ہو گا تمہیں، لوگ تھوکے گے تمہاری لا وارث لاش پر ۔‘‘
لاوارث لاش سے شہریار کو نفیس احمد یاد آگیا تھا ۔ وہی نفیس احمد جس کے احسانوں کے بدلے میں وہ بستر مرگ پر اُسے دھوکا دے کر بھاگا تھا ۔کیاوہ تھا اِس قابل کہ اُسے دوسراموقع دیا جاتا ۔کیا وہ تھا اِس رحم کے قابل جو اُس پر کیا گیا تھا ؟
’’جیتے جی جو پاتال کی پستیوں میں اُتر چکا ہو اُس کی لاش پر کسی نے تھوک بھی دیا تو کیا ہو جائے گا ۔‘‘اُس نے کہہ کر فون رکھ دیا تھا ۔
شام تک ’’ترپ کا پتا ‘‘سامنے آچکا تھا ۔اُسے اُس کے وکیل نے وہ ویڈیو کلپ ارسال کی تھی ۔اور چند منٹ بعد فون کر ڈالا تھا ۔
’’سر جو آپ اِس ویڈیو کلپ میں کہتے سنائی دے رہے ہیں سیدھا سیدھا توہین مذہب میں آتا ہے ۔ آپ کے پاس فی الحال بیسٹ آپشن یہی ہے کہ آپ ملک چھوڑ دیں ۔ایسے کیسز میں ملزم تو کیا اُس کو ڈیفنڈ کرنے والوں کی جان کو بھی خطرہ ہوتا ہے ۔‘‘
شہریار سمجھ سکتا تھا یہ شائستہ لفظوں میں مزید اُس کی پیروی کرنے سے انکار تھا ۔ اُس نے بہت سوچ سمجھ کر وکیل چنا تھا ۔ وہ قابل اور نڈر اور بارسوخ ہی نہیں تھا بلکہ اُس کے سیاسی عزائم کو بھی یہ کیس فائدہ پہنچا سکتا تھا ۔مگر مقدمے کی اِس نئی جہت سے اُس کا گھبرا جانا قابلِ فہم تھا ۔
’’جی میں سوچتا ہوں کہ کیا کیا جانا چاہئے۔بہت شکریہ اب تک ساتھ دینے کے لیے۔‘‘
’’سوری فار…‘‘وہ شرمندہ تھا ۔
’’نو پرابلم ۔‘‘شہریار کے کال کاٹتے ہی ایک نا مانوس سا نمبر اُس کی سکرین پر چمکا تھا ۔چند لمحے اُس نے فون کی سکرین کو دیکھتے ہوئے سوچا تھا کہ کیا آج کی تاریخ میں وہ مزید دھمکیاں سننا چاہتا ہے یا آج کے لیے کافی ہو گیا ۔مگر پھر فون اُٹھا ہی لیا تھا ۔
’سو ڈیوڈ۔۔۔۔ہیونگ فن؟‘‘(مزا ٓرہا ہے )دوسری طرف سے سبطین شاہ کی چہکتی ہوئی آواز آئی تھی ۔
’’یہ ویڈیو کلپ تمہاری پیاری بیوی اور میری پیاری …آں ‘میری صرف پیاری نے بھیجا تھا مرنے سے پہلے ۔ اتنے مہینے میں نے انتظار کیا صحیح موقع کا۔ ۔۔اب کمپلین مت کرنے لگ جانا۔۔۔ تم سے ہی تو سیکھاہے ۔‘‘وہ ہنسا تھا ۔
شہریار نے کچھ کہے بنا فون رکھ دیا تھا ۔یہ ایک نجی محفل کی ویڈیو تھی اور دیکھ کر اُس کے ذہن میں ایک سوال ضرور آیا تھا کہ آخر یہ کس نے لیک کی تھی ۔
’’ویسے مجھے لگتا ہے یہ اس کا سو سائیڈنوٹ تھا۔۔۔۔۔اللہ بخشے ،بڑا ڈارک سینس آف ہیومر تھا ’’ہماری ڈارلنگ کا‘‘۔وہ حظ اُٹھا رہا تھا ۔شہریار نے بنا کچھ کہے فون رکھ دیا تھا۔
’’ اچھا ہوا تم بھی اپنا حساب چکتا کر گئیں ۔‘‘وہ اُداس سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا تھا ۔شامین اگر اُسے دیکھ سکتی تو آج بھی کلس کر رہ جاتی یہ وار بھی اُس کے مطلوبہ نتائج نہیں لایا تھا ۔
وہ یہ جنگ جیت سکتا ہے ‘یہ خوش فہمی تو اُسے پہلے بھی نہیں تھی مگر اب بحث میں ایک تازہ بیانیہ شامل ہو گیا تھا کہ وہ ملحد تھا ، صہوانی قوتوں کا ایجنٹ تھا ،غدار تھا ۔ پچھلی تاریخوں میں اُسے کے خلاف کٹی ایک توہین مذہب کی ایف اٗی آر بھی دریافت کر لی گئی تھی ۔ اور یہ کہانی بھی زور و شور سے چلائی جا رہی تھی کہ جن لوگوں کے نام وہ لے رہا تھا اُن سے دراصل اُس نے توہین مذہب کے کیس میں مددمانگی تھی اور انکار پر یہ ڈرامہ چا رہا تھا ۔
ہمیشہ کی طرح مختلف بیانیے چلا کر سچ کو جھوٹ میں مدغم کر دیا تھا ۔ رائے عامہ کی اگر کوئی طاقت تھی بھی تو وہ اب اُس کے ساتھ نہیں رہی تھی ۔
کیا اُسے واقعی ملک چھوڑ دینا چاہئے ؟ خرد حق میں دلیل دے رہی تھی ۔وہ اکیلا کون سا کچھ بد ل سکتا تھا ۔اپنے حصے کی کوشش تو اُس نے کر لی تھی ۔مگر دل نے صاف انکار کر دیا تھا ۔یہ جنگ اُس کی قضاء تھی ۔ہار جیت تو بے معنی تھی اِس میں ۔بس لڑنا واجب تھا ۔
اور نازنین ؟ دل میں ہوک سی اُٹھی تھی ۔کاش ایک عام سی زندگی ہوتے اسکی۔اکیس سال کی عمر میں وہ اُسکے محلے کے چکر لگاتااور پچیس سال کی عمر میں اُسے بیاہ کر لے آتا ‘حق سے محبت کر پاتا اور حق سے اُسے نبھاتا ۔ اِس وقت نازنین سے کوئی بھی تعلق ،نازنین کے لیے مسائل پیدا کر سکتا تھا۔ اُس نے خود ہی منع کیا تھا اُسے ،کسی بھی قسم کا رابطہ کرنے سے۔ مگراس وقت نجانے کیوں، دل نے نادان بچے کی طرح ضد لگا لی تھی ‘بس ایک بار!
اُس نے نازنین کا نمبر ملایا تھا ۔
’’میں تم سے ملنا چاہتا ہوں ؟‘‘
’’اِس وقت ؟‘‘آواز نیند میں ڈوبی ہوئی تھی ۔
شہریار نے گھڑی کی طرف دیکھا تھا ۔صبح کے ساڑھے تین بج رہے تھے ۔
’’ہاں ۔‘‘
’’آجاؤ ۔‘‘
وہ گاڑی خود ہی ڈرائیوکر کے نکل پڑا تھا ۔وہ اِس لیے جا رہا تھا اُس سے ملنے کہ اُسے بتا سکے کہ آئندہ وہ اُس نے نہیں ملے گا‘کیونکہ اُس کی وجہ سے وہ بھی خطرہ میں پڑ سکتی ہے ۔
وہ اُسے سمجھانا چاہتا تھا کہ وہ اپنی نئی زندگی کا آغاز کرے ۔اپنے لیے کوئی ایسا ساتھی چن لے جو اُسے وہ سب دے سکے جس کی وہ حقدار ہے ‘مگر کہنا تو وہ یہ بھی چاہتا تھا کہ اگر وہ اُس کے لیے دعا کرتی رہے ،اُس کا انتظار کرتی رہی تو ہو سکتا ہے کوئی معجزہ ہو جائے اُن دونوں کے لیے ۔ وہ اِس لیے جا رہا تھا کہ اُسے بتا دے کہ وہ اُس سے کتنی محبت کرتا ہے اور کب سے کرتا ہے ۔وہ اُسے یہ سب بتانے جا رہا تھا ۔یا بس ایک بار اُسے دیکھنے جا رہا تھا !
گاڑی اُس کے گھر کے باہر کھڑی کر کے وہ بیل بجانے کے لیے اُترا تھا ۔ ابھی بیل پر ہاتھ ہی رکھا تھا کہ پیچھے سے آتے دو موٹر سائیکل سواروں نے اُس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی تھی ۔
’’گستاخ کی سزا سر تن سے جدا …اللہ ہو اکبر ،اللہ ہو اکبر ۔‘‘
مارنے والوں نے اپنے رب کے نام پر غیرت کھائی تھی‘ اور وہ جو اُسی رب کو منانے نکلا تھا گولیوں سے چھلنی سینہ تھامے زمین پر آرہا تھا۔
سرخ خون مٹیالی زمیں پر کہانی لکھنے لگا تھا ۔
جفاء کی ،وفا کی …
خطاء کی ،اُس قضاء کی …
ہجر کی اور وصال کی …
اُس کے انتظار میں دروازے کے گرد منڈلاتی نازنین نے گو لیوں کی آواز سن کے خوف کے عالم میں دروازہ کھولا تھا ،اور اُس کابدترین خوف حقیقت بن کر سامنے تھا ۔’’شہریار ‘‘وہ اُسے خون میں لت پت دیکھ کر چیخی تھی ۔
’’اشرف بھائی ،اشرف بھائی! ‘‘مدد کے لیے چیخ چیخ کر کسی کو پکارتے ہوئے خود اُس کے سرہانے زمین پر بیٹھ گئی تھی ۔اُس کا سر اُٹھا کر گود میں رکھا تھا ۔
’’تمہیں کچھ نہیں ہو گا شہریار!تمہیں کچھ نہیں ہو گا‘تمہیں کچھ نہیں ہو گا ۔ ‘‘ دیوانہ وار دوہرا کر نجانے وہ کس کویقین دلا رہی تھی ۔شہریار نے دھندلاتی نظر اُس کے چہرے پرمرکوز رکھنے کی کوشش کی تھی ۔ وہ کون سا لمحہ تھا جب وہ اُس کی محبت میں گرفتار ہوا ،وہ نہیں جانتا تھا ‘مگر ایسا تو کوئی موقع اُسے یاد نہیں تھا جب اُس کی موجودگی میں دھڑکنوں نے لے نہ بدلی ہو ۔مگر اتنی لمبی شناسائی میں اظہار کے لیے کوئی مناسب لمحہ ہی نہیں آسکا ۔لمحہ تو یہ بھی مناسب نہیں تھا !
مگر اب لمحوں کی گنتی ہی کتنی تھی ۔
’’میں تم سے بہت محبت …‘‘اکھڑتی سانسوں نے لفظوں کا ساتھ دینے سے انکار کیا تھا ۔
نازنین نے تڑپ کر اُس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں تھاما تھا ۔
’’شہریار …‘‘یوں نکلا تھا نازنین کے لبوں سے اُس کا نا م جیسے حسرتوں سے بوجھل سسکی ہو ۔اور پھر لمحے بھر کو شہریار کو اپنے ماتھے پر اُس کے گداز لبوں کا لمس محسوس ہوا تھا ۔اور اُس لمحے میں جی شدت سے چاہا تھا کہ اپنے رب سے ایک موقع وہ اور مانگ لے …مگر نہیں !
وہ پھر بھٹک سکتا تھا ، وہ پھر اُس سے بچھڑ سکتا تھا …
اُسی کی بنائی ہوئی رنگین دنیا کی بھول بھلیوں میں ۔
کامرانیوں کی چکا چوند میں …مایوسیوں کے اندھیروں میں …
حوادث زمانہ کے اسباب و نتایج میں …
کسی محقق کے ادھورے حقائق میں …کسی فلسفی کے پرفریب دلائل میں۔
زمانے کے’’ سچ ‘‘میں ۔۔
اپنی ہی خواہشوں کے جنگل میں یا …اپنی ہی خرد کر پیچ و خم میں ۔
سو اِس کہا نی کا …یہی انجام بہتر تھا !
ختم شد
سچ بولوں تو اس کہانی کے نام کی وجہ سے میں اسکو پڑھتے ہوئے جھجھک رہی تھی۔ اب رومانس اتنا خاص پڑھنے کا دل نہیں کرتا۔ محبتوں پر دل یقین نہیں کرتا۔ مگر پھر یہ کہانی جب پڑھی تو خیال آیا کہ کیوں اتنی دیر سے پڑھی۔ یہ کہانی محبت سے زیادہ، خواہشوں کی ہے، حسرتوں کی ہے، ادھوری تمناؤں کے ہے۔ گرنے کی ہے اور گیت کر اٹھنے کی۔ چلے جانے کی ہے اور واپس لوٹ آنے کی ہے۔ کردار نگاری سے لے کر پلاٹ تک سب مضبوط رہا اور زبردست بھی۔ مگر تھوڑا سالوں کا جو حوال تھا وہ تھوڑا لجھنے والا تھا۔ باقی انڈنگ تھوڑی سی ادھوری لگی۔ تھوڑی سی ڈیٹیل اور add کرنے چاہ تھی
مگر باقی سب زبردست تھا۔ اور ڈائیلاگ کی تو مت پوچھو۔ thanks a lot۔