ہجرووصال : آخری قسط
پچھلے پانچ منٹ سے وہ اُس سیاہ گیٹ کے سامنے کھڑا تھا ۔ تلاش بسیار کے بعد وہ اُس شخص تک بھی جا پہنچا تھا جسے چودہ سال پہلے اُس نے سڑک کا ٹکڑا کاغذات میں رہائشی پلاٹ دیکھا کر بیچ دیا تھا ‘مگر راستہ پتہ سب معلوم ہونے کے باوجود یہاں تک آنے کی ہمت جمع کرنے میں اُسے بہت وقت لگا تھا ‘اور اب پچھلے پانچ منٹ سے دروازے کی گھنٹی بجانے کی ہمت نہیں جمع کر پا رہا تھا ۔ گناہ گار تو وہ بہت لوگوں کا تھا۔‘مگراُسے لگتا تھا اگر اِس در سے بخشا گیا تو سب معاف ہو سکتا ہے ،لیکن اگر بخشا گیا تو ۔
کسی نے اتفاقاًہی گیٹ کھول دیا تھا ۔حلیے سے ملازم لگ رہا تھا ،اپنی سائیکل لیے باہر جانے کا ارادہ رکھتا تھا ۔اُسے دیکھ کر رک گیا ۔
’’جی ؟‘‘سوالیہ نظروں سے اُسے اور اُس کی بیش قیمت گاڑی کو دیکھ کر پوچھا تھا ۔
’’فاروق حسین صاحب ہیں گھر میں ؟‘‘
’’جی‘آپ کون ؟ ‘‘
’’میں‘شہریار ملک ۔‘‘وہ نام بتاتے ہوئے ہچکچایا تھا مگر مقابل یقینانہیں جانتا تھا کہ وہ کون ہے ۔
’’جی میں بتاتا ہوں اندر ۔ ‘‘ وہ اندر جانے کے لیے مڑا تھا مگر پھر شاید اُسے لگا تھا کہ غالباًوہ کوئی بڑا آدمی ہے اور اُسے دروازے پر انتظار کروانا مناسب نہیں ۔
’’ آپ آئیں …‘‘اُسے اندر آنے کی دعوت تھی ۔اپنی میت میں اُسے مہمان خانے میں لا بیٹھایا تھا اور خود اطلاع دینے اندر چلا گیا تھا ۔شہریار دھڑکتے دل کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گیا تھا ۔ہر گزرتے لمحے کے ساتھ گھبراہٹ سوا ہوتی جا رہی تھی ۔قدموں کی چاپ سن کر اُس نے ماتھے سے پسینہ پونچا تھا اور احتراماًاُٹھ کھڑا ہوا تھا ۔۔فاروق حسین سپاٹ چہرے کے ساتھ چلتا ہوا اُس کے سامنے موجود صوفے پر براجمان ہوگیا تھا مگر اُسے بیٹھنے کو نہیں کہا تھا ۔چند لمحے وہ یونہی سامنے بیٹھا اُسے بے تاثر نظروں سے دیکھتا رہا تھا ۔شہریار کی نظریں جھک گئی تھیں ۔اپنی ٹانگیں اُسے کانپتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں ۔
’’جی ؟ اب کیا چاہتے ہیں آپ ؟‘‘
’’میں آپ کی زمین واپس کرنا چاہتا ہوں آپ کو ۔‘‘بڑی ہمت جمع کرنی پڑی تھی اُسے یہ کہہ کر فائل فاروق حسین کی طرف بڑھانے کے لیے۔فاروق حسین نے فائل کو دیکھا تھا مگر پکڑنے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھایا تھا ۔
’’آپ کے خیال میں اِس زمین کا اب میں کیا کروں گا ؟‘‘
شہریار کے پاس اُس کے سوال کا کیا جواب ہو سکتا تھا مجرموں کی طرح سر جھکائے کھڑا رہا ۔
’’جب یہ زمین میری تھی ،میرے لیے قیمتی تھی تو مجھ سے چھین لی گئی تھی ۔ اب میرا اِس سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘وہ سپاٹ لہجے میں کہہ کر اُٹھ کھڑا ہوا تھا اور کمرے سے باہر جانے کے لیے قدم بڑھائے تھے ۔
’’فاروق صاحب!‘‘اُس کے مخاطب کرنے پر نخوت سے دیکھا تھا ۔
’’دفع ہو جاؤ یہاں سے ۔‘‘دروازے کی طرف اشارہ کر کے فاروق حسین دھاڑا تھا ۔
’’میرا اکلوتا بیٹا تمہاری حرص کے کھیل میں حرام موت مر گیا‘اور تم زمین کے ٹکڑے کا کاغذپکڑ کر حساب چکانے آئے ہو ؟‘‘شہریار کے پاس کچھ نہیں تھا کہنے کو بس نم آنکھوں کے ساتھ ہاتھ جوڑ دیے تھے۔فاروق حسین نے ایک نفرت بھری نظر اُس کے بندھے ہاتھوں پر ڈالی تھی ۔
’’کیا کر سکتے ہو معافی کے لیے؟‘‘
’’جو بھی آپ کہیں گے ۔‘‘فاروق حسین نے لب بھینچ کر سر ہلایا تھا اور اُسے انتظار کرنے کا کہہ کر کمرے سے نکل گیا تھا۔چند منٹ بعد واپس آیا تو ہاتھ میں ایک بوتل تھی اور ماچس بھی ۔میز پر رکھ کر خود صوفے پر بیٹھ گیا تھا ۔
’’چھڑکو اِس کو خود پر اور آگ لگا دو خود کو ۔‘‘شہریار ششدر کھڑا رہ گیا تھا ۔
’’تم تو کہہ رہے تھے کچھ بھی کر سکتے ہو ‘پھر کیا ہوا ؟‘‘وہ کچھ دیر اُسے ساکت کھڑا دیکھنے کے بعد بولا تھا ۔مزید چند لمحے متوقع نظروں سے اُسے دیکھنے کے بعد وہ اُٹھ کھڑا ہوا تھا ۔
’’دفع ہو جاؤ یہاں سے ۔دوبارہ اِس طرف آئے تو اپنے ہاتھ سے آگ لگاؤں کا تمہیں ۔‘‘
’’میں سوسائیڈنوٹ لکھ دیتا ہوں، آپ لگا دیں مجھے آگ ۔‘‘شہریار نے ٹیبل سے مٹی کے تیل کی بوتل اُٹھا کر اُس کی جانب بڑھائی تھی ۔
فاروق حسین نے اُس کے ندامت سے بہتے آنسوئوں کو دیکھا تھا مگر آگ لگائی تھی اُن آنسوؤں نے اُس کے دل میں ۔ جو چوٹ اُس نے کھائی تھی وہ اتنی گہری تھی کہ یہ آنسو مرہم نہیں بن سکتے تھے۔ ‘وہ بندہ تھا ۔ ایک کمزور زودرنج بندہِ حقیر ،خدا نہیں تھا کہ معاف کر دیتا ۔ اُس کے لیے تو گزرتے روز وشب ہی بے معنی ہوچکے تھے ،زندگی اُسی لمحے پر رک چکی تھی جس لمحے اُس نے قبر میں اپنے بیٹے کی جلی ہوئی لاش اُتاری تھی ۔ خون اُترا تھا اُس کی آنکھوں میں ۔ شہریار کے ہاتھ سے بوتل لے کر تیل چھڑکا تھا اُس نے شہریار پر پھر جھک کر ٹیبل سے ماچس اُٹھائی تھی مگر پھر کچھ سوچ کر دور پھینک دی تھی ۔
’’میرا بیٹا تو حرام موت مرا ہے ‘اور تم یہاں جنت کا راستہ ڈھونڈنے آئے ہو ؟ دنیا میں جو جنت تم نے اپنے لیے بنا رکھی ہے وہ کافی نہیں ہے جو اب وہاں بھی جنت چاہئے تمہیں ؟‘‘فاروق حسین نے سر نفی میں ہلایا تھا ۔
’’ناں ‘ناں ‘ناں…اتنی آسانی سے نہیں‘تمہیں اپنے ہر جرم کا حساب دینا پڑے گا ،اُس رب کو جو سب سے بڑا منصف ہے ۔اِس دنیا کے قانون تو تم جیسے لوگ ہی بناتے اور چلاتے ہیں ،مگر وہ جو سب سے بڑا بادشاہ ہے…‘‘فاروق حسین نے آسمان کی طرف انگلی اُٹھائی تھی ۔
’’اُس کے سامنے بڑے سے بڑا وکیل جھوٹ کو سچ ثابت نہیں کر سکتا ۔ کوئی پروپگینڈا حق کو باطل اور باطل کو حق نہیں دیکھا سکتا ۔وہ علیم خبیر ہے ۔ جن لوگوں کو تم جیسے لوگ کیڑے مکوڑوں کی طرح روند ڈالتے ہیں ،اُن کی بھی ایک ایک آہ ،ایک ایک آنسو کی رسائی ہے اُس تک … چندسکے کسی ضرورت مند کے آگے اُچھال کر تم اُس کی عدالت نہیں خرید سکتے … اتنی سستی نہیں ہے اُس کی عدالت ‘حساب دینا ہو گا تمہیں اور تم جیسے ہر شخص کو ۔ ‘‘شہریار نے فاروق حسین کے بہتے آنسوئوں کو دیکھا تھا اور آنکھوں میں جلتی انتقام کی آگ کو اور شکستہ قدموں سے وہاں سے چلا آیا تھا ۔
’’ جانتے ہو اِس دنیا میں سب سے بڑا جرم کیا ہے ؟جرمِ ضعیفی ! ‘‘ کبھی فرعون کے لہجے میں کہا تھااس نے ’یہ دنیا ایک چین آف پریڈیشن (شکار کا سلسلہ )ہے جہاں کمزور اِس لیے آیا ہے طاقتور اپنی بھوک مٹا سکے ۔چاہے وہ پیٹ کی ہو ،دولت کی یا اقتدار کی ‘انصاف بس ایک خوبصورت سا لفظ ہے جو کسی آئیڈیلسٹ کی ایجاد ہے ۔‘‘آج اپنے ہی الفاظ کسی تھپڑ کی طرح اُس تک لوٹ آئے تھے ۔انصاف کسی آئیڈیلسٹ کی ایجاد نہیں تھا۔یہ رب کائنات کا وصف تھا ‘وہ منصف تھا اور انصاف اُس کا وعدہ تھا۔
’’شہریار ملک تمہارے اور میرے بیچ انصاف ہو گا اِس زمین پر نہ سہی ۔ آسمانوں میں سہی ۔‘‘فرقان حسین کے آخری الفاظ اُس کے کانوں میں گونج رہے تھے۔ اُسے گاڑی روکنی پڑی تھی وہ مزید نہیں چلا سکتا تھا۔سٹیرنگ وہیل پر ماتھا ٹکائے وہ چیخ چیخ کر رو یا تھا۔
٭٭٭٭
اسی دن نازنین ملنے چلی آئی تھی ۔
’’کہاں گم ہو ؟‘‘اُس کے ساتھ لان میں بیٹھ کر چائے پیتے ہوئے اُس نے اُس کے گم صم انداز پر اُسے ٹوکا تھا ۔
’’ہمم … کچھ نہیں ۔‘‘شہریار چونک کر اپنے خیالات سے باہر آیا تھا ۔اُس نے چائے پیتی نازنین کو دیکھا تھا ۔بہت عرصے بعد وہ اتنی نکھری نکھری لگ رہی تھی ‘حلیہ سادہ سہی ‘مگر جو بھی تیاری کی گئی تھی دل سے کی گئی تھی یا شاید آنکھیں میں جلتے اُمید کے دیے تھے جنہوں نے رونق بکھیر رکھی تھی چہرے پر وہ ادھر اُدھر کی باتیں کر رہی تھی ‘مگر وہ جانتا تھا وہ یونہی نہیں آئی تھی اُس سے ملنے ۔ وہ کچھ خاص سننا چاہتی تھی ۔ جو وہ سننا چاہتی تھی وہ تو وہ کب سے کہنا چاہتا تھا ۔‘مگر اُس کے اندر جو طوفان برپا تھا وہ کہاں اُسے کسی اور جانب دیکھنے کی اجازت دے رہا تھا ۔ وہ اُس کی باتوں کے جواب میں ہوں ہاں کرتا رہا ۔وہ بل آخر مایوس ہو کر چل دی ۔اُسے خیال بھی نا آیا روکنے کا ۔اتنی بے سکونی اتنی پریشان خیالی میں کہاں سے نکالتا وہ گنجائش محبت کی لطافت محسوس کرنے کی ۔
٭٭٭٭
وہ آج پھر سجدے میں رویا تھا گڑگڑایا تھا۔ معافی مانگی تھی ،مگر سکون نہیں آیا تھا ۔ جب سے فاروق حسین سے مل کر آیا تھا سجدوں سے لطافت تو کیا سکون بھی کشید نہیں کر پا رہا تھا ۔ اُسے لگ رہا تھا جیسے اُسکے اور اللہ کے بیچ فرقان حسین کی جلتی لاش پڑی ہے ۔
’’جن لوگوں کو تم جیسے لوگ کیڑے مکوڑوں کی طرح روند ڈالتے ہیں ،اُن کی بھی ایک ایک آہ ،ایک ایک آنسو کی رسائی ہے اُس تک۔‘‘بار بار اُس کے کانوں میں فاروق حسین کا جملہ گونجتا تھا اور وہ کانپ اُٹھتا تھا ۔لا محدود کائنات کے مالک تک اِس ذرہِ حقیر کی رسائی تھی ،یہی اِس کی معراج تھی مگر…یہی اِسکا امتحان بھی ۔ وہ سجدے سے بے چین ہی اُٹھا تھا۔ہر بار سجدے میں سکون ملتا بھی کہاں ہے ؟اگر مل جائے تو ہر مومن اپنی جنت اپنے اندر نا ڈھونڈ لے !پھراِس دنیا کے معاملات کون درست کرے گا ، ترازو سیدھا کون کرے گا،ظالم کے سامنے کلمہ حق کون کہے گا ؟ جہاد کون کرے گا ؟
’’مجھ پر رحم کر دے میرے مالک !تیرے انصاف کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتا میں۔‘‘وہ گڑگڑایا تھا ۔موت کو سامنے دیکھ کر جس نادان نے اُس کے انصاف پر سوال اُٹھایا تھا آج اُسے اپنی حماقت کا احساس شدت سے ہو رہا تھا ۔
٭٭٭٭
اگلے دن آفس میں جب ریسپشنسٹ نے اُسے اطلاع دی تھی کہ فاروق حسین نام کا کوئی شخص اُس سے ملنے چاہتا تھا تو اُسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا تھا ۔ کیا واقعی جس رحمت کا سوال اُس نے کیا تھا وہ کر دی گئی تھی ۔ فاروق حسین سنجیدہ تاثرات کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا تھا ۔وہ دھڑکتے دل کے ساتھ احتراماًکھڑا ہوا تھا ۔ مصافحہ کے لیے اُس کا بڑھا ہوا ہاتھ فاروق حسین نے نظرانداز کیا تو شہریار کو اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا تھا ۔
’’پلیز ۔‘‘شہریار نے کرسی کی طرف اشارہ کر کے اُسے بیٹھنے کو کہا تھا مگر خود بیٹھنے کی ہمت نہیں ہوئی تھی ۔
’’ یہی ملنے آیا تھا میرا بیٹا تم سے ؟‘‘وہ کمرے کے درودیوار دیکھتے ہوئے بولا تھا ۔شہریار نے اُس کی آنکھوں میں اُترتی نمی کو دیکھا تھا اور اُمید دامن چھڑاتی محسوس ہوئی تھی ۔فاروق حسین نے پلکیں جھپک کر آنسو ضبط کئے تھے پھر کھنکار کر گلا صاف کیا تھا ۔
’’میں تمہیں معاف کرنے کے لیے تیار ہوں…مگر میری ایک شرط ہے ۔‘‘
’’کہئے۔‘‘وہ ہر شرط ماننے کو تیار تھا ۔
’’تمہارے اِس کاروبار میں جو بھی ،بدعنوانیاں ،کرپشن ، ظلم تم نے کیے ہیں اور تمہارے کاروباری ساتھیوں نے کیے ہیں ،جس کا جتنا بھی حق مارا ہے ،وہ سب تفصیلات تم دنیا کے سامنے بے نقاب کرو گے ۔ خود بھی اپنے تمام جرائم کااعتراف کرو گے اور جو تمہارے شریک جرم ہیں اُن کے کرتوتوں سے بھی پردہ اُٹھا ئو گے ،چاہے وہ کوئی بھی ہو اور کتنا بھی اثرو رسوخ رکھتا ہو ۔اپنے اور اُن سب کے خلاف ثبوت جو بھی تم جمع کر سکتے ہو ناصرف میڈیا کے سامنے لائو گے بلکہ قانونی جنگ بھی لڑو گے‘بولو کر پائو گے ؟‘‘
شہریار نے چیلنج کرتے اُس شخص کو دیکھا تھا ۔وہ آج بھی اپنی معافی کی قیمت اُس سے خودکشی کی صورت مانگ رہا تھا ۔بس یہ خودکشی سماجی اور معاشی تھی ۔
’’منظور ہے مجھے ۔‘‘انصاف کے تقاضے تھے ۔اپنی حصے کی سزا تو بھگتنی تھی اُسے ۔فاروق حسین اُٹھ کھڑا ہو اتھا ۔
’’میں دوبارہ کبھی بھی تمہاری شکل نہیں دیکھنا چاہتا ،لیکن اگر تم نے یہ سب کر لیا تو سمجھنا میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے ۔‘‘
٭٭٭٭
چار مہینے لگے تھے اُسے مگر آج وہ آخر کار پریس کلب میں صحافیوں کے سامنے بیٹھا تھا ۔
’’دو سال پہلے کئی اخباروں اور نیوز چینلز پر ایک خبر چلی تھی دن دھاڑے ایک باپ بیٹی کے قتل کی ۔ شاید آپ میں سے کسی کو یاد ہو ۔ تنازعہ زمین کا تھا ‘لینڈ مافیا کے بڑے کھلاڑی چودھری تاج نے اُن کی زمین پر قبضہ کر لیا تھا ۔ تیار فصل تک بیچ ڈالی تھی ۔ عدالت کی طرف سے فیصلہ اُن باپ بیٹی کے حق میں آگیا تھا ‘مگر اِس فیصلے کی قیمت انہیں جان گنوا کر ادا کرنی پڑی تھی ۔ ویسے تو چودھری تاج کے اپنے ہاتھ کافی لمبے ہیں مگر کچھ سر پھرے صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کی بدولت اِس کیس کی گونج اُس کی توقعات سے کہیں زیادہ اُونچی ہو گئی تھی ۔ ایسے میں میں نے موقع پر چوکہ مارا تھا اور بات دبانے میں اُن کی مدد کی تھی ۔ بدلے میں وہی زمین سستے داموں خرید لی تھی ۔ آج اُس پر ہاؤسنگ سوسائٹی بنانے کے لیے کام جاری ہے اوراُس زمین کے اصل مالکوں کے قاتل دندناتے پھر رہے ہیں ۔ میرے پاس اِس کیس کے مکمل ثبوت ہیں ،جن بیورو کریٹس اور سیاسی رہنمائوں نے جس حد تک ’’تعاون ‘‘کیا اور فوائد اُٹھائے اُن سب کے بارے میں بھی حقائق مع ثبوت میں آپ لوگوں کے سامنے رکھوں گا ۔مگر یہ میرا اکلوتا جرم نہیں ‘ایک لمبی فہرست ہے میرے اور میرے ببزنس اسوسیٹس کے جرائم کی ۔کچھ کے ثبوت ہیں میرے پاس کچھ کے نہیں مگر سب رکھوں گا میں آپ کے سامنے ۔آج آپ لوگوں کو تکلیف دینے کا مقصد یہی ہے ۔‘‘
تین گھنٹے کی پریس کانفرنس میں جو انکشافات اور شواہد سامنے آئے تھے اُنہوں نے میڈیا میں تہلکہ مچا دیا تھا ۔صاف صاف نام لیے تھے اُس نے کئی معروف شخصیات کے بھی اور ایسے پردہ نشینوں کے بھی جن کا نام لینا گناہ شمار ہوتا تھا ۔ یہ سب ہو رہا ہے لوگ جانتے تھے ۔کوئی نئی بات ہرگز نہیں تھی ۔مگر ٹھوس شواہد کے ساتھ دوٹوک بات کوئی پہلی دفعہ کر رہا تھا ۔ہر طرف وہ موضوع بحث بنا ہوا تھا ۔کوئی واہ واہ کر رہا تھا ،کوئی سازش قرار دے رہا تھا ،کوئی اُسکی گرفتاری کا مطالبہ کر رہا تھا ۔
حلیفوں نے حریف بننے میں لمحے بھی ضائع نہیں کیے تھے ۔ ایک باسل فارقی تھا جس نے دوستی نبھاتے ہوئے ایک فون کر ڈالا تھا ۔
’جو تم کر نے نکلے ہو نا وہ تم کر بھی نہیں سکتے ‘تمہیں نہیں پتا تم کن لوگوں کے خلاف لڑ رہے ہو ؟ہاؤ کین یو بی سو ڈمب ۔ اُن کا کچھ نہیں بگڑے گا بس خود بنا موت مارے جائو گے ۔‘‘اُس نے سمجھانے کی کوشش کی تھی ۔
’’کچھ ہو پائے نہ ہو پائے ‘کوشش تو مجھے کرنی ہے ۔‘‘
’’پاگل مت بنو شہریار !اب بھی اگر تم اپنے الزامات واپس لے کر معافی مانگ لو اور کہہ دو کے تم انجانے میں کسی سازش کا حصہ بن گئے تو…کچھ عرصے میں بات آئی گئی ہو سکتی ہے اور تمہارے لیے گنجائش نکل سکتی ہے ۔‘‘
سچ بولوں تو اس کہانی کے نام کی وجہ سے میں اسکو پڑھتے ہوئے جھجھک رہی تھی۔ اب رومانس اتنا خاص پڑھنے کا دل نہیں کرتا۔ محبتوں پر دل یقین نہیں کرتا۔ مگر پھر یہ کہانی جب پڑھی تو خیال آیا کہ کیوں اتنی دیر سے پڑھی۔ یہ کہانی محبت سے زیادہ، خواہشوں کی ہے، حسرتوں کی ہے، ادھوری تمناؤں کے ہے۔ گرنے کی ہے اور گیت کر اٹھنے کی۔ چلے جانے کی ہے اور واپس لوٹ آنے کی ہے۔ کردار نگاری سے لے کر پلاٹ تک سب مضبوط رہا اور زبردست بھی۔ مگر تھوڑا سالوں کا جو حوال تھا وہ تھوڑا لجھنے والا تھا۔ باقی انڈنگ تھوڑی سی ادھوری لگی۔ تھوڑی سی ڈیٹیل اور add کرنے چاہ تھی
مگر باقی سب زبردست تھا۔ اور ڈائیلاگ کی تو مت پوچھو۔ thanks a lot۔