ہجرووصال : قسط نمبر 6
اِس بات کو چھ ماہ گزر گئے تھے ۔
نہ پھر اُس نے رابطہ کیا نہ نازنین نے ۔ وہ اپنے تئیں اِس بات کو پیچھے چھوڑ آیا تھا ۔ آخر کو اُس کا زندگی میں موٹو ہی ’’مووو آن ‘‘تھا‘ مگر اِس بار بدقسمتی سے یہ ہو نہیں پایا تھا ۔ نہ اُس نے نیندیں گنوائیں تھیں ،نہ شیو بڑھائی تھی ،نہ المیہ گانے سنے تھے ،نہ دیوداس بنے کی کوشش کی تھی ۔ نہا دھو کر اگلے ہی دن روٹین کے مطابق دفتر گیا تھا اورشام تک کام کیا تھا ‘مگر کچھ تھا جو بدل گیا تھا ۔
گزشتہ چند مہینے اُس کی پروفیشنل زندگی کے سب سے کم پروڈکٹیو مہینے تھے ۔ وجہ شاید یہ تھی کہ کامیابی کی دوڑ میں سب سے آگے نکل جانے کے لیے جو جوش جو ولولہ وہ اپنے اندر محسوس کرتا تھا وہ ٹھنڈا پڑ گیا تھا ۔ نازنین کو تو اُس نے ہمیشہ ایک نہ پورے ہونے والے خواب کی طرح دیکھا تھا ۔ اُسکی ترجیحات کی فہرست میں بھی وہ ہمیشہ بہت نیچے رہی تھی ۔ وہ اُسے پا سکتا ہے یہ خوش فہمی تو بہت قلیل مدت رہی اُس کے پاس ۔ نہیں ملی تو نا سہی، ایسا کیا ہوگیا تھا کہ وہ یاسیت کے کنوئے سے نہیں نکل پا رہا تھا۔
آج وہ آفس کے بعد ایک سوشل ڈنر اٹینڈ کر کے لوٹا تھا ۔ ذہنی اور جسمانی تھکن سے چور تھا ‘مگر اپنے کمرے کی جانب بڑھتے بڑھتے نجانے کیوں وہ شامین کے کمرے کے سامنے رک گیا تھا ۔ اُسے یاد بھی نہیں تھا آخری بار وہ اِس کمرے میں کب آیا تھا ۔ وہ تو اس کے جیتے جی بھی کم ہی اُس کے کمرے میں قدم رکھا کرتا تھا ،اُس کے مرنے کے بعد کیوں آتا ۔ داخل ہوتے ہی اُس کی نظر وسطی خالی دیوار پر پڑی تھی جہاں کبھی اُس کی اور شامین کی جہازی سائز تصویر آویزاں کی گئی تھی ۔ زیادہ دن وہ اِس دیوار پر ٹک نہیں پائی تھی اُن کے ہنی مون کے ’’لوی ،ڈوی ‘‘فیز کی طرح ۔ اِس کی ایک اہم وجہ شاید یہ تھی کہ شامین نے سوچا تھا کہ اِس شادی سے وہ عظیم شیخ کو زچ کر پائے گی مگر یہ نہیں ہو پایا تھا ۔
عظیم شیخ اُس معمر سلطان کی مانند تھا جو اپنی سلطنت کے لیے قابل جانشین کی کمی کو شدت سے محسوس کرتا تھا ۔ شہریار کے کردار پر تحفظات اپنی جگہ مگر وہ اُس کی قابلیت کو نظر انداز نہیں کر سکتا تھا ۔ بہت کم عرصہ لگا تھا عظیم شیخ کو اُسے اپنی شاگردی اور پھر کسی حد تک فرزندی میں بھی قبول کرنے میں ۔ جیسے جیسے شہریار کی کاروباری مصروفیات اور عظیم شیخ کی اُس سے قربت بڑھی اُس میں اور شامین فاصلے بڑھنے لگے ۔ حالانکہ شروع شروع میں اُس نے خیال رکھنے ،پیار کرنے والا شوہر ہونے کا ڈرامہ جاری رکھنے کی کافی کوشش کی ۔ پھول ،تحفے ،آفس سے فون کالز، رومانٹک ڈنرزسب اُس نے بے زار دل و دماغ مگر مسکراتے چہرے کے ساتھ کیا ‘مگر بدقسمتی سے شامین خود سوز وخودکش سہی ،کند ذہن ہرگز نہیں تھی ۔
اُس کا ڈپریشن ،اُسکے موڈ سوئنگز اور پھر مدہوشی میں اُس کی پناہ، چند مہینوں ہی میں شروع ہو گئے تھے ۔ سال سے پہلے ہی اُس کے بیڈ روم میں داخلے پر بھی پابندی لگ گئی تھی ۔ اُسے کون سا شوق تھا روز روز اُس کی پیچیدہ نفسیات میں اُلجھنے کا ۔ زندگی رنگین کرنے کے مواقع بہت تھے اُس کے پاس بغیر کسی جذباتی اور نفسیاتی لانجھوں کے ۔ عظیم شیخ کے مرنے کے بعد تو وہ اور بھی آزاد ہو گیا تھا اور شامین کے مرنے سے تو گویا کاملیت ہی مل گئی تھی آزادی کے احساس کو ‘مگر پچھلے کچھ عرصے میں بارہا اُس نے شامین کے بارے میں سوچا تھا ۔ اتنا کہ شاید اُس کے ساتھ گزارے کئی برسوں میں نہیں سوچاہو گا۔
وہ روایتی میاں بیوی تو کبھی نہیں رہے تھے مگر آج نجانے کس احساس کے زیر اثر وہ چلتا ہو ا اُس کے بستر تک آیا تھا ۔ حادثاتی اوور ڈوز تھی یا خودکشی ؟ آج پہلی بار اُس سوال کا جواب جاننا چاہتا تھا ۔ یہیں اُس نے اپنی آخری سانسیں لی تھیں شاید ،اُسکے تکیے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اُس نے سوچا تھا ۔ برائے نام ہی سہی رشتہ تو اُسی سے تھا اُس کااب اِس دنیا میں سب سے قریب ۔ کیا آخری وقت میں اُس نے اُسے پکارا ہو گا ؟ اتنی تشنہ زندگی !اتنی تنہا موت!کاش کوئی خوشگوار موڑ آجاتا اُس کی کہانی میں ۔ کاش اُسے واقعی شامین سے محبت ہو جاتی ،ایسی محبت جو اُسے بچا لیتی۔کاش شامین کوخود اپنے آپ سے محبت ہو جاتی، ایسی محبت جو اُسے بچا لیتی ۔
کیا ہوتا جا رہا تھا اُسے ۔ کیسی کیسی باتیں سوچنے لگا تھا وہ ؟ اُس کی وحشتوں کا مذاق اُڑانے والے کو آج جب خود اپنے قریب وحشت کی چاپ سنائی دی تھی تو گھبرا کر اُٹھ کھڑا ہوا تھا ۔ اُس نے سن رکھا تھا کہ دماغ میں خوشی اور غم کے ساتھ کیمیائی مادے پیدا ہوتے ہیں جو ہمیں خوشی غم کا احساس دیتے ہیں ۔ کبھی کبھی یہ مادے بغیر کسی بیرونی اثر کے خود ہی اپنے تناسب سے اوپر نیچے ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ڈپریشن یا دوسرے ذہنی مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔ شاید وہ بھی ڈپریشن کا شکار ہو رہا تھا ۔ورنہ زندگی تو ویسی ہی تھی جیسی اُس نے سوچی اور چاہی تھی ۔کوئی معقول وجہ نہیں تھی نہ اِس بے کیفی کی نہ اس نفسیاتی بحران کی ۔
اگلے ہی دن وہ ایک ماہر نفسیات کے آفس میں موجود تھا ۔
’’شہریار صاحب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اِس کی وجہ آپ کی وائف کی ڈیتھ ہو ۔ ٹراما کا ایک ڈیلیڈ ریسپونس بھی ہو سکتا ہے ۔ ‘‘مختصراًہسٹری لینے کے بعد اُس نے کہا تھا ۔
’’میں آپ کو بتا چکا ہوں اپنے رشتے کی نوعیت ‘اگر آپ کے خیال میں میرے اُس کے لیے کوئی ایسے لاشعوری جذبات تھے جن کے بارے میں میں خود نہیں جانتا تھا تو ایسا ہرگز نہیں ہے ۔مجھے اُس سے کبھی کبھی ہمدردی محسوس ہوتی تھی اور بس ‘میں خوش ہوں کہ وہ مر گئی ۔ ‘‘
’’اور آپ یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ آپ کے ’’لو انٹرسٹ ‘‘کی طرف سے ریجیکشن بھی اِس کی وجہ نہیں ؟‘‘
’’میرے لا شعور میں ہمیشہ یہ رہا کہ وہ میرے لیے نہیں ہے ۔ بہت تھوڑا سا عرصہ تھا جب مجھے وہ اپنی پہنچ میں لگی ۔ جب اُمید کی عمر اتنی تھوڑی ہو تو وہ اپنے پیچھے مایوسی کیسے اتنے لمبے عرصے کے لیے چھوڑ کر جا سکتی ہے ؟‘‘اُس کے سوال پر ڈاکٹر مسکرایا تھا ۔
’’ہمارا دماغ اِس طرح وائرڈ ہے کہ خوش کن احساسات کا اثر بہت جلدی زائل ہو جا تا ہے اور پریشان کن احساسات سے جان چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے ۔ ‘‘ شہریار نے سر ہلا کر اُس کی بات سے اتفاق کیا تھا ۔
’’آپ کی کوئی قریبی فیملی نہیں ہے ‘ہو سکتا ہے تنہائی آپ کو پریشان کر رہی ہو ۔‘‘
’’پندرہ سال ہو چکے ہیں میری مدر کی ڈیتھ کو ‘یہ تنہائی پہلے کہاں تھی ۔‘‘
’’کچھ چیزیں ایج کے ساتھ ہٹ کرتی ہیں۔‘‘
’’امڈ لائف کرائسس کے لیے پینتیس سال کم نہیں؟‘‘
’’ایگزیسٹینشل کراٗئس(وجودی بحران) انسان کو کسی بھی ایج میں ہٹ کرسکتا ہے ‘ بہرحال یہ کچھ دوائیں میں لکھ رہا ہوں ۔ سائیکوتھراپی بھی کچھ لوگوں میں موثر ہوتی ہے آپ چاہیں تو میں اُس کے لیے بھی ریکمنڈیشن دے سکتا ہوں۔ایکسرسائز کے بھی اچھے اثرات ہوتے ہیں۔ تھوڑا روٹین ماحول سے بھی نکل کر دیکھیں۔ روزمرہ کے سٹریس سے ذرا دور کوئی سیر سیاحت ۔ ‘‘ ڈاکٹر کے مشورے اور نسخہ لے کر وہ نکل آیا تھا کلینک سے ۔
سائیکو تھراپی کے پہلے ہی سیشن میں اُسے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ اُس کے لیے نہیں ۔ اُسکی سروائیول سٹریٹیجی ہمیشہ سے یہی تھی کے مٹی ڈالواور آگے بڑھو ۔ وہ کھود کھود کر اپنے شعور اور لاشعور سے پرانے زخم نہیں نکال سکتا تھا ۔ ہاں دوائیوں نے کچھ دن میں اثر دیکھانا شروع کر دیا تھا ۔اُس کا موڈ بہتر رہنے لگا تھا ۔ کاروباری مصروفیات کے باعث فارن ٹرپ فی الحال پلان کرنا ممکن نہیں تھا ۔ نادرن ایئریا میں ایک لگژری ریزورٹ کا آئیڈیا تو تھا کچھ عرصے سے اُس کے دماغ میں ۔ خود سائیٹ وزٹ کرنے کے بہانے ڈاکٹر کے ماحول تبدیل کرنے والے مشورے پر بھی عمل ہو سکتا تھا ۔ یہی سوچ کر وہ چلا آیا تھا ‘مگر یہاں آکر اُسے محسوس ہو رہا تھا کہ یہ غلطی تھی‘ خزاں کا موسم تھا ‘خاموش پہاڑ اور درختوں سے بچھڑتے پتے کسی کے لیے خوبصورت ہوتے ہونگے مگر اُسکا تو اُلٹا ڈپریشن بڑھا رہی تھے ۔ اُسے یوں بھی ہمیشہ سے بھاگتی دوڑتی تیز رفتار زندگی پسند تھی ۔ایک دن ہی میں اُکتا گیا تھا ‘ وہ تو ریزورٹ کا پلان بھی کینسل کرنے کے بارے میں سوچنے لگا تھا۔
’’سر آگے لینڈ سلائیڈ ہے ۔ ‘‘ ڈرائیور کی آواز نے اُسے اپنے خیالات سے چونکایا تھا ۔ اُس نے آگے دیکھا تو گاڑیوں کی لمبی لائن تھی ۔
’’سر ویٹ کریں یا …‘‘
’’ایسا کرو اسلام آباد کی طرف نکلو۔‘‘بس بہت ہو گیا تھا ماحول چینج ۔
’’سر ایک شارٹ کٹ جاتا ہے ہائی وے کی طرف مگر سڑک تھوڑی خراب ہے ۔‘‘
’’لے چلو اُسی پر ۔‘‘
وہ رات کو صحیح سے سو نہیں پایا تھا سو تھکن محسوس کر رہا تھا ۔ کرسی کی پشت سے سر ٹکا کر اُس نے آنکھیں موند لی تھیں ۔ اُس کی آنکھ ٹائرز کے یکدم چرچرانے سے کھلی تھی۔
’’ یا اللہ … ‘‘ ڈرائیور کہ منہ سے با آوازِبلند نکلا تھا ‘اور اگلے ہی لمحے ایک زوردار جھٹکے اور خوفناک آواز کے ساتھ سامنے سے آتا ٹرک آٹکرایا تھا اُن کی گاڑی سے ۔ گاڑی توازن کھو کر پہاڑ سے نیچے گرنے لگی تھی ۔ پہاڑ کی اونچی نیچی عمودی سطح سے پھسلتی گاڑی میں بیٹھے اُسے موت سامنے دیکھائی دی تو اُس نے آنکھیں بھینچ لی تھیں‘مگر یکدم گاڑی ایک زاردار جھٹکے کے ساتھ رک گئی تھی ۔ اُس کے سینے کی ایک سائیڈ اور سر کے گرد لپیٹے بازو کے کہنی زوردار طریقے سے دروازے سے ٹکرائی تھی ‘مگر درد کا احساس اُسے فوری طور پر نہیں ہوا تھا ۔ سر کے گرد لپیٹے بازو ہٹا کر پہلے تو اُس نے اپنے زندہ ہونے کا یقین کیا تھا مگر چند ہی لمحوں میں جب گاڑی کی پوزیشن کا ادراک ہوا تھا تو موت ٹل جانے کا اطمینان اُڑنچھو ہو تا محسوس ہوا تھا ۔ دیار کے دو دیو قامت درخت نیچے کو گرتی گاڑی کے راستے میں آگئے تھے ۔ ڈھلوان پر دو درختوں کے سہارے گاڑی ترچھی پڑی تھی ۔ نجانے وہ درخت کتنی دیر اتنی بھاری گاڑی کا وزن مزید برداشت کر سکتے تھے ؟ اُس نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی تھی مگر گاڑی شاید سینڑلی لاک تھی۔
’’سکندر !یوسف خان !‘‘ اُس نے اپنے ڈرائیور اور گارڈ کو آواز دی تھی مگر جواب ندارد ۔ وہ احتیاط سے سیدھا ہوا تھا اور آگے کی دو نشستوں کے بیچ موجود جگہ میں قدرے آگے بڑھ کر اُن دونوں کی حالت معلوم کرنے کی کوشش کی تھی ۔ زیادہ دیر نہیں لگی تھی اُسے یہ جاننے میں کہ وہ اِس گاڑی میں واحد نفس تھا ،جو زندہ تھا ۔ اُس نے کسی طرح ہاتھ بڑھا کر ڈرائیونگ سیٹ کے ساتھ نسب لاک کھولے تھے اور پھر ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی تھی ۔
دروازہ نہیں کھلا تھا ‘گاڑی شاید آٹو لاک ہو چکی تھی ۔ اُس نے باری باری ہر دروازہ کھولنے کی بھرپور کوشش کی تھی مگر سب جام تھے ۔ جیب سے فون نکال کر دیکھا تو سگنلز ندارد ۔
خوف کی ایک لہر اُسے اپنے وجود میں سرائیت کرتی محسوس ہوئی تھی ۔ وہ پھنس چکا تھا ‘بلٹ پروف گاڑی تھی شیشے توڑے نہیں جا سکتے تھے ۔ بیرونی امداد کے بغیر وہ اِس گاڑی سے نہیں نکل سکتا تھا ۔ امداد کب تک پہنچ سکتی تھی ؟ نیچے دریا تھا اور اُس کے دوسری طرف سامنے ایک اور پہاڑ مگر اُس پر کسی ذی روح کا نام و نشان نہیں تھا ۔ وہ جہاں جا رہا تھا وہاں کوئی اُس کا منتظر تھا نہ جہاں سے آرہاتھا وہاں کوئی اُس کے لیے متفکر ۔ گاڑی سڑک سے کتنے نیچے گری تھی ؟کیا گاڑی کو گرتے ہوئے کسی نے دیکھا تھا ؟ کیا وہ ٹرک والا حادثہ کے متعلق کسی کو مطلع کرے گا ؟یہ درخت کتنی دیر تک گاڑی کا وزن سہار سکتے تھے ؟ایک بندہ کے سانس لینے کے لیے کتنی دیر تک ایک بند گاڑی میں آکسیجن ہو سکتی تھی ؟یہ وہ سوال تھے جن کے جواب واقعتا اُس کی زندگی اور موت کا فیصلہ کر سکتے تھے ۔