سلسلہ وار ناول

ہجرووصال : قسط نمبر 6

کتنے خوبصورت لمحے ہوتے تھے ‘مگر اب جب حقیقت بنے تھے تو کتنے پھیکے لگ رہے تھے ۔ تعبیر تک پہنچتے پہنچتے کبھی کبھی زندگی خواب دیکھنے کی قیمت اتنی وصول کر چکی ہوتی ہے کہ اُس قیمت کے سامنے پھر خواب بے وقعت لگنے لگتے ہیں ۔ ریمپ کے سرے تک پہنچتے پہنچتے آنکھیں بھر آئی تھیں ۔ اُس نے پلکیں تیزی سے جھپک کر آنسوؤں کی دھند دورکی تھی اور سامنے بیٹھے شہریارکو دیکھا تھا جو اُسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ وہ بھی مسکرائی تھی اور پھر نظروں کا رخ بدل لیا تھا ۔ آنکھوں میں پانی پھر سے بھرنے لگا تھا ۔ یہ شخص بھی اُس کا ایک خواب تھا ،بہت پرانا ،انجانے میں دیکھے ہوا ۔ آج وہ اگر چاہتی تو ہاتھ بڑھا کر اُسے پا سکتی تھی مگر اِس خواب کو پانے کی قیمت اتنی بڑی تھی کہ وہ جانتی تھی کہ اگر پا لیا تو ہاتھ صرف پچھتاوا آئے گا۔
٭٭٭٭
ایک بڑے نیوز چینل پر ایک سنسی خیز کہانی سامنے آئی تھی ۔صوبائی اسمبلی کے سپیکر حیدر شاہ کے ایک سابق گھریلو ملازم نے یہ الزام لگایا تھا کہ سات ماہ قبل حیدر شاہ کے بیٹے سبطین شاہ اُس کی تیرہ سالہ بیٹی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا ‘جو اب حاملہ تھی۔ ثبوت کے طور پر ایک ویڈیو پیش کی گئی تھی جس میں اُسے حیدر شاہ کے سامنے انصاف کے لیے گڑگڑاتے اور حیدر شاہ کو اُسے دھمکیاں دیتے دیکھا جا سکتا تھا ۔
الیکشن سر پر ہونے کی وجہ سے اِس سکینڈل کو مزید ہائپ مل گئی تھی ۔ پارٹی نے حقائق سامنے آنے تک باپ بیٹے کی ٹکٹ کے لیے نامزدگی کینسل کر دی تھی ۔ این جی اوز اور کی بورڈ کے جنگجوئوں نے کم سن بچیوں کے خلاف جنسی جرائم کے خلاف زبانی جہاد کا علم اُٹھا لیا تھا ۔ ٹی وی پر گرما گرم بحث جاری تھی ۔
’’ سوال یہ ہے کہ اگر یہ الزامات حقیقت پر مبنی ہیں تو کیا ایک طاقتور کے خلاف ہمارا نظام عدل ایک کمزور کو انصاف دلانے میں کامیاب ہو سکتا ہے ؟ ‘‘ ٹی وی شو کے اینکر نے اِس سوال کے ساتھ بحث سمیٹی تھی ۔ شہریار نے ٹی وی بند کر کے اپنے برابر صوفے پر براجمان شامین کو دیکھا تھا ۔ ٹی وی بند ہونے کے بعد بھی اُس نے سکرین سے نظر نہیں ہٹائی تھی ۔کافی دیر تک یونہی بیٹھی خالی سکرین کو دیکھتی رہی تھی ۔
’’ تم نے فریم کیا ہے ؟‘‘
’’نہیں جو کیا ہے اُس نے خود کیا ہے ۔میں نے صرف اس کے کیے کو ایکسپوز کیا ہے ۔‘‘
’’ بہت جلدی نہیں مل گیا تمہیں اُس کے خلاف مٹیریل ؟‘‘
’’ جلدی کہاں دس مہینے سے ریکی ہو رہی تھی اس کی ۔‘‘
’’ دس مہینے ‘مطلب اُسی رات سے ؟‘‘ شہریار نے جواب نہیں دیا تھا مگر جواب واضح تھا ۔
’’ چلو یہ تو ثابت ہوا کہ تم اتنے ’’ ایوالو ‘‘ابھی نہیں ہوئے کہ بیوی کا افیئر یکسر نظر انداز کر دو ۔ ‘‘وہ ایک بے لطف سی ہنسی کے ساتھ بولی تھی۔
’’ شاید مجھے تمہارا شکریہ ادا کرنا چاہئے ۔ ‘‘
اتنی مایوسی اتنی شکستگی تھی اُس کے چہرے پر کہ شہریار کو بے ساختہ ترس آیا تھا ۔ کیوں کچھ لوگ ہمیشہ سرابوں کے پیچھے ہی بھاگتے ہیں؟
’’ شامین اگر تم واقعی آگے بڑھنا چاہتی ہو ،زندگی کو کسی مثبت ٹریک پر لانا چاہتی ہو تو اُس کے لیے تمہیں کسی کے ساتھ کی ضرورت نہیں ۔ ‘‘شامین نے چندلمحے اُسے خالی خالی نظروں سے دیکھا تھا ۔
’’ مجھے تم سے محبت کی طلب تھی شہریار ۔ تمہارا یہ ترس مجھے تمہاری بے نیازی سے بھی زیادہ تکلیف دیتا ہے ۔ ‘‘ وہ کہہ کر اُٹھ گئی تھی ۔
شہریار نے اُس کی تھراپسٹ کو بلا بھیجا تھا مگر اُس نے ملنے سے انکار کر دیا تھا ۔ وہ پھر تباہی کی اُسی ڈگر پر چل نکلی تھی ۔ پانچ دن بعد اُسے ہاؤس کیپر کی کال آئی تھی کہ اُسے ایمرجنسی میں لے جایا جا رہا ہے ۔ ریکارڈ درست رکھنے کے لیے وہ میٹنگ چھوڑ کر پہنچا تھا ‘مگر اِس بار وہ اُس کے آنے سے پہلے ہی خود کو ہر اذیت سے آزاد کروا چکی تھی ۔ شیشے کی طر ح چمکتی سفید ٹائلوں سے سجے ،عالمی معیار کے بہترین طبی آلات سے لیس ہسپتال کے اُس ایمرجنسی وارڈ میں بستر پر اُس کی لاش پڑی تھی ۔ چہرہ ڈھکا جا چکا تھا ایمبولینس میں منتقلی کی تیاری کی جا رہی تھی۔
’’سوری …… یہاں پہنچنے سے پہلے ہی ان کا انتقال ہو چکا تھا۔‘‘
سفید کوٹ میں ملبوس ڈاکٹر ہمدردانہ لہجہ میں کہا تھا ۔مگر وہ تو جیسے ہلکا پھلکا ہو گیا تھا۔کمزور ہی سہی ،بیڑی تو تھی ‘ موہوم ہی سہی ،خدشہ تو تھی‘ موت کی وجہ ڈرگ اوور ڈوز تھی ۔ حادثاتی تھی یا خودکشی نہ اُسے جاننے میں کوئی دلچسپی تھی نہ بات اُس نے اتنی نکلنے دی کہ کسی اور کو دلچسپی پیدا ہوتی ۔ مر جانا اُس کے اپنے لیے بھی شاید بہتر ہی تھا ، وہ کون سا جی رہی تھی ؟جو زندگی جینے کے قابل نہ ہو وہ تو موت سے بڑا المیہ ہوتی ہے ۔
٭٭٭٭
اس نے شامین کی موت کے بعد تین مہینے انتظار کیا تھا ۔ کسی روایت کی پاسداری میں نہیں بس اِس لیے کہ اب وہ نازنین کو ببانگ دہل اپنانا چاہتا تھا ۔
’’ رات کے کوئی پلانز تو نہیں ہیں تمہارے ؟ اگر ہیں تو کینسل کر دو ‘لٹس ہیو ڈنر ۔ ‘‘آج بل آخر وہ فون پر اُسے ڈنر کے لیے انوائٹ کر رہا تھا۔
’’ ڈنر ؟ کس خوشی میں ؟ ‘‘
’’ میری بیوی کے مرنے کی خوشی میں ۔ ‘‘
’’ شرم کرو ‘بیوی تھی تمہاری ۔ ‘‘ شرم دلانے کی کوشش کی گئی تھی۔شہریار نے جواباًقہقہہ لگایا تھا ۔
’’ شرم کس بات پہ ؟ میں نے تو نہیں مروایا ‘ خود مری ہے ۔ شرمانا تو غلط کام پر بنتا ہے خوش قسمتی پر کیا شرمانا ۔ ‘‘
’’ بہت ہی ہارٹ لیس نہیں ہوتے جا رہے تم ؟ ‘‘
’’ کچھ منافق سی نہیں ہوتی جا رہیں تم ؟ ‘‘وہ دو بدو بولا تھا ۔
’’ سچ بتاؤ تمہیں خوشی نہیں ہوئی تھی ہمدانی کے مرنے پر ؟ ‘‘ نازنین کو وہ لمحہ یاد آیا تھا جب اُسے ہمدانی کی موت کی اطلاع ملی تھی ۔ پہلا احساس تو آزادی کا تھا ۔ دوسرا احساس گو عدم تحفظ کا تھا ،اُس پرندے کی طرح جو پنجرے میں برسوں رہنے کے بعد اپنے پروں پر بھروسہ کھو چکا ہو ۔مگر یہ تو وہ نہیں کہہ سکتی کہ اُسے خوشی نہیں ہوئی تھی ۔
’’کہہ دو خوشی ہوئی تھی ۔اپنے آپ کو اوون کرو جیسے پہلے کرتی تھیں۔ ‘‘ اُس کی خاموشی محسوس کر کے وہ بولا تھا۔
’’ تمہیں پتا ہے شاید اِسی لیے ہم دونوں کہ بیچ یہ کنیکشن ہے کیونکہ ہم ایک جیسے ہیں ۔ ‘‘
’’کیا واقعی اُن کے بیچ یہ ’’کنیکشن‘‘ اِس لیے تھا کہ وہ دونوں ایک جیسے تھے ؟‘‘نازنین نے خود سے سوال کیا تھا ۔
’’اینی وے تیار رہنا میں آٹھ بجے آؤں گا پک کرنے ‘ اور سنو کچھ بلیک اینڈ وائٹ میں پہن لینا ۔ ‘‘ اُس نے فرمائش کی تھی ۔فون رکھنے کے بعد اُس نے الماری کھول لی تھی ۔ وہ جانتی تھی وہ اُسے سفید اور سیاہ میں کیوں دیکھنا چاہتا تھا ۔ پہلی بار جب اُس نے اُسے دیکھا تھا تو وہ ریسٹورنٹ کے سیاہ اور سفید یونیفارم میں ملبوس تھی ۔ پہلی نظر اُس کی ایک خوبصورت سیاہ ساڑھی پر پڑی تھی جس پر سفید موتیوں کا کام تھا ۔ساڑھی کے ملائم کپڑے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے چند لمحے اُس نے اُس ساڑھی میں ملبوس خود کوشہریار کے سامنے کھڑا تصور کیا تھا۔اپنے تصور میں وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی ،اتنی خوبصورت جتنی زندگی میں پہلے کبھی نہیں لگی تھی اور شہریار کی آنکھیں اُن حدت آمیز جذبوں سے دہک رہیں تھیں جو اُس کے لیے ایک ثمر ِممنوع تھے ۔مگر پھر اُس نے حقیقت کی دنیا میں آکر سیاہ کڑاھی والا ایک آف وائٹ کرتا اور ٹرائوزرنکال کر الماری بند کر دی تھی ۔ کچھ خوابوں کی خوبصورتی تبھی قائم رہتی ہے اگر وہ خواب رہیں ۔
آٹھ بجے جب وہ اُسے پک کرنے آیا تو اُس کے برعکس وہ عام سے حلیے میں نہیں تھا ۔ اُس کے انتظار میں اپنی سیاہ SUV سے ٹیک لگائے سیاہ پینٹ کوٹ اور سفید شرٹ میں بغیر ٹائی کہ اپنی دلکش مسکراہٹ اور ازلی اعتماد چہرے پر سجائے وہ اتنا وجیہہ لگ رہا تھا کہ اُس نے نظر بھر کر دیکھنے کی ہمت نہیں کی تھی ۔ شہریار نے اُس کا نظر چرانا شرم ،جھجھک سے تعبیر کیا تھا ۔ پیسنجر سیٹ کا دروازہ اُس کے لیے خود کھولا تھا اور اُس کے بیٹھ جانے کے بعد خود بند کرکے ڈرائیونگ سیٹ پر آیا تھا ۔ وہ اُسے ملکہ کی طرح ٹریٹ کرنا چاہتا تھا ۔ ساری دنیا کی خوشیاں اور سکھ اُس کے قدموں میں ڈھیر کر دینا چاہتا تھا ۔ اُسے اولاد نہیں چاہئے تھی مگر اب وہ سوچ رہا تھا کہ اگر نازنین چاہے گی تو وہ اُسے محروم نہیں رکھے گا ۔ وہ اُس کی ہر محرومی کا ازالہ کرنا چاہتا تھا ۔نجانے اُس جیساخود غرض شخص محبت میں اتنا سخی کیسے بن گیا تھا ؟اُس نے مسکرا کر سوچا تھا۔
اُس نے گاڑی ایک پرتعیش عمارت کے سامنے روکی تھی۔ وہ اُسے شہر کے سب سے پوش ریسٹورنٹ میں لایا تھا ۔ اُس ریسٹورنٹ کا پورا ہال اُس نے اُن دونوں کے لیے ریزرو کروایا تھا ۔ اُن کے لیے خصوصی طور پر سجائی گئی میز پر جب اُس نے خود بیٹھنے سے پہلے اُس کے لیے کرسی پیچھے کی تو اُس پر بیٹھتی نازنین نے حلق میں ضبط شدہ آنسوؤں کی نمی محسوس کی تھی ۔ وہ سامنے بیٹھا تو اُس کے چہرے پر پھیلی خوشی اور طمانیت سے نازنین کو اپنا دل کٹتا محسوس ہوا تھا ۔
’’کیوں لے کر آئے ہو مجھے تم یہاں؟‘‘اُس کا صبر تمام ہوا تھا ۔
’’تمہارا کیا خیال ہے میں کیوں لایا ہو ں تمہیں یہاں ؟ ‘‘اُس کی سنجیدگی نے بل آخر اُس کے خوشی کی بنیاد ہلائی تھی ۔ دل میں کسی خدشے نے سر اُٹھایا تھا ۔
’’تم کسی کو ڈیٹ کر رہی ہو؟مطلب کوئی سیریس انوالومنٹ ؟ ‘‘ نازنین نے نفی میں سر ہلایا تھا ۔مگر شہریار کو اُس کا ردعمل سمجھ نہیں آرہا تھا ۔وہ تو کچھ اور توقع کر رہا تھا ۔
’’نازنین میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔ول یو میری می ؟ ‘‘بے یقینی اُسے بلا تمہید مدعے پر لے آئی تھی ۔نازنین نے سر نفی میں ہلایا تھا ۔
’’نہیں کر سکتی میں تم سے شادی ۔‘‘
’’ کیوں ؟ کیا مطلب کیوں نہیں کرسکتی ؟ ‘‘شہریار کو اچنبھا ہوا تھا ۔
’’کیونکہ ہو نہیں سکتی ہماری شادی ۔‘‘نازنین اُداس مسکراہٹ کے ساتھ بولی تھی ۔
’’پریکٹسنگ ہوں یا نہیں مگر راسخ عقیدہ مسلمان ضرور ہوں میں‘ اور تم خدا کے وجود ہی سے منکر ہو‘کیسے ہو سکتی ہے ہماری شادی ؟ ‘‘ شہریار نے سر بے یقینی سے ہلایا تھا ۔
’’کم آن یار ‘کیا ہوگیا ہے ؟میرے شناختی کارڈ پر بھی اب تک مسلمان ہی لکھا ہے اور تم کہو گی تو کلمہ بھی پڑھ لوں گا تمہارے لیے ۔ ‘‘
’’ یہی تو مسئلہ ہے شہریار !میں جانتی ہوں تم جو چاہتے ہو اُسے پانے کے لئے کچھ بھی کہہ سکتے ہو اور کچھ بھی کر سکتے ہو ۔ ‘‘
’’تم اتنی رجعت پسند کب سے ہو گئی ہو ؟ ‘‘ شہریار جھنجھلایا تھا ۔
’’ہمیشہ سے تھی ۔‘‘
’’نہیں جھوٹ بول رہی ہو تم ‘تم مجھ جیسی ہو ۔ بس جو تم کرنا چاہتی تھیں ، جیسے کرنا چاہتی تھیں ہو نہیں پایا تم سے ۔ تم زندگی کی بساط پر اپنی مرضی کا کھیل نہیں رچا پائیں ۔ زندگی نے ہرا دیا تمہیں ‘تو خدا یاد آگیا ۔ تم اکیلی نہیں ہو اکثر ایسا ہی ہوتا ہے ہارنے والے اپنی ہار کو رب کی مرضی قرار دے کر خود کو پر سکون کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اپنی ناکامی اپنے غم کا بوجھ کسی مافوق الفطرت قوت پر ڈال کر خود کو ہلکا پھلکا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسے تو نہیںکہا گیا کہ خدا کا تصور مظلوم کے لیے افیم ہے ۔ تم مجھ جیسی تھیں ‘ترقی پسند ،حریص پھر میں جیت گیا اور تم ہارگئی ۔ ‘‘ آخری الفاظ اُس نے تمسخرانہ اندا زمیں کہنے کی کوشش کی تھی مگرآنکھوں سے جھلکتے اشتعال نے یہ کوشش ناکام کر دی تھی ۔
’’ میں تم جیسی کبھی نہیں تھی شہریار ۔ اِس دنیا میں آنے سے پہلے ہم سب جانتے تھے کہ اِس کائنات سب سے بڑا سچ کیا ہے ۔ مگر اِس دنیا میں آنے کے بعد کچھ لوگ بھول جاتے ہیں جیسے تم، اور کچھ لوگ میری طرح ہوتے ہیں جو بھولے ہوئے رہتے ہیں مگر بھولتے نہیں ہیں ۔ اِس دنیا کی لالچ سے دامن نہیں چھڑا پاتے کبھی ،بھٹکتے ، بہکتے برہتے ہیں مگر ایسی ڈگر پر قدم رکھنے سے ڈرتے ہیں جہاں وہ بچھڑ جائیں اپنے رب سے ۔ وہ واحدرشتہ کھو دیں جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہ سکتا ہے ۔بہت قربت بھی نہیں ہے میری اُس سے مگر اتنا دور نہیں جانا چاہتی کہ پلٹ کر آنا چاہوں تو پلٹ نہ سکوں ۔ ‘‘شہریار نے بے بسی سے اُسے دیکھا تھا جو سر جھکائے آنسو ضبط کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔ شہریار نے ہاتھ بڑھا کر تھوڑی سے پکڑ کر اُس کا چہرہ اُوپر کیا تھا ۔
’’میری طرف دیکھو ۔‘‘لہجے میں التجاء تھی ۔ نازنین نے نظر اُٹھائی تو وہ اپنے تمام تر جذبوں کی حدت اپنی آنکھوں میں سمو کر اُسے دیکھ رہا تھا ۔
’’ میں تم سے … ‘‘نازنین نے اُس کا جملہ مکمل ہونے سے پہلے اُس کا ہاتھ ہٹا کر سر نفی میں ہلا کر اُسے مزید بولنے سے روکا تھا ۔
’’ مجھے کمزور نہ کرو شہریار ‘میں اتنی مضبوط نہیں ہوں ہار جاؤں گی ۔ پگھل جاؤں گی اپنے جذبوں اپنی خواہشوں کے سامنے ‘مگرپھرجب خوشیوں کا نشہ اُتر جائے گا تو نفرت کروں گی خود سے اپنی اِس کمزوری کے لیے ۔ اِس تعلق کو میرے لیے ندامت میں مت بدلو ۔ ‘‘اُس نے التجاء کی تھی ۔ شہریار اُٹھ کھڑا ہوا تھا ۔
’’ چلو تمہیں گھر چھوڑ دیتا ہوں ۔ ‘‘ بولا تو لہجہ سپاٹ تھا ۔ واپسی کے سفر میں نازنین چوری چوری نم آنکھوں سے اُسے دیکھتی رہی ۔ چہرے پر تناؤ تھا ،آنکھوں کے کنارے غصے سے سرخ تھے ۔ ایک الاؤ تھا جو اُسے اپنے اندر جلتا محسوس ہو رہا تھا‘مگر غصہ اُسے نازنین پر نہیں تھا ۔ بات عجیب تھی مگر غصہ تو اُسے اُس پر تھا جس کے وجود سے ہی وہ منکر تھا ۔ کب کا منہ پھیر چکا تھا وہ اُس سے ،کب کا جھٹلا چکا تھا وہ اُ سے، تو پھر کیوں اُس کا تصور آج بھی اثرانداز ہو رہا تھا اُس کی زندگی پر ۔
٭٭٭٭

پچھلا صفحہ 1 2 3اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page