ہجرووصال : قسط نمبر 5
ہمدانی کے انتقال کی خبر اُس تک سوشل میڈیا کے ذریعے پہنچی تھی۔
’’ فائنلی آگڈ نیوز ۔ ‘‘ اُس نے مسرت سے خودکلامی کی تھی ۔بلآخر وہ آزاد تھی ‘اگرچہ وہ آزاد نہیں تھا ۔ عظیم شیخ اُسے بہت سے معاہدوں میں باندھ گیا تھا ۔ وہ دوسری شادی نہیں کرسکتا تھا نہ شامین کو طلاق دے سکتا تھا ۔ ایسا کرنے کی صورت میں نہ صرف اُس کا شیخ گروپ آف انڈسٹریز پر کوئی حق نہیں رہتا بلکہ اُس کے ذاتی اثاثے بھی شامین کے نام منتقل ہو جاتے ۔ شیخ گروپ آف انڈسٹریز کا وارث صرف شامین کے بطن سے پیدا ہونے والی اولاد ہی ہو سکتی تھی ۔ اُن دونوں کی اولاد نہ ہونے کی صورت میں ساری جائداد اُن کے مرنے کے بعد خودبخود ٹرسٹ میں چلی جانی تھی ۔ ایک بات پر وہ اور شامین سو فیصد متفق تھے کہ یہ دنیا اتنی اچھی جگہ ہرگز نہیں تھی کہ مزید کسی معصوم کو یہاں لایا جائے ۔ اُس کے مرنے کے بعد جائدا د کس کے پاس جاتی اُسے کوئی دلچسپی نہیں تھی مگر جیتے جی وہ ایک انچ سے بھی دستبردار نہیں ہو سکتا تھا ۔ یہ تو طے تھا کہ وہ نازنین کو کھلم کھلا نہیں اپنائے گا مگر اب جو ہمدانی کے نام کا کانٹا نکل گیا تھا تو کسی طرح تو وہ ‘ وہ خواب پورے کر ہی سکتا تھا جو بن چاہے اُس کی آنکھوں میں اُترے تھے ۔
٭٭٭٭
وارث ہمدانی کے سوئم کی نظر نیاز ابھی ابھی نمٹی تھی ۔ رات کے گیارہ بج رہے ہونگے جب وارث ہمدانی کا بڑا بیٹا اُس کے پاس آیا تھا ۔
’’ ڈیڈی نہیں رہے سو تمہاری بھی اب یہاں کوئی ضرورت نہیں ۔ یہ گھرمیں سیل کر رہا ہوں اپنا انتظام کر لو ۔ ‘‘ عمر میں وہ اُس سے کئی سال بڑا تھا رشتے کا لحاظ اُس نے کبھی پہلے بھی نہیں کیا تھا سو اِس لہجے کی وہ عادی تھی مگر اتنی بے مروتی ! وہ اور وارث ہمدانی پچھلے دو سال سے اِس گھر میں رہ رہے تھے ۔ دونوں بیٹے عائشہ بیگم کہ جیتے جی ہی اپنے الگ گھروں میں شفٹ ہو گئے تھے ۔
’’مگر میں فوری طور پر ایسے…‘‘
’’ وہ ہمارامسئلہ نہیں کہ تم کہاں جاتی ہو ۔یہ گھر میری مما کا تھا اور ان کا رہے گا ہمیشہ ۔‘‘
’’ میں بھی قانونی بیوی ہو ں وارث ہمدانی کی تم ایسے نہیں نکال سکتے مجھے ۔ ‘‘ اُس نے مستحکم لہجے میں کہنے کی کوشش کی تھی مگر اپنے الفاظ کا کھوکھلا پن اُسے خود سنائی دیا تھا۔
’’ ہاہاہاہا ۔ اوہ رئیلی ؟ قانونی بیوی ہو تو قانونی راستہ اختیار کرو ‘ کورٹ میں جا کر لے لو جو لے سکتی ہو ۔ ‘‘وہ جیسے محظوظ ہو کر بولا تھا نازنین کو یقین ہو چلا تھا کہ وہ کچھ نہیں کر سکتی ۔
’’ صرف تین دن ہیں تمہارے پاس خود چلی جاؤ ‘نہیں تو دھکے دے کر نکالنا پڑے گا ۔ ‘‘وہ کہہ کر چلا گیا تھا ۔اوروہ پیچھے ڈھے سی گئی تھی ۔
وہ کہاں جا سکتی تھی ؟وہ ایک فلیٹ جو ہمدانی نے حق مہر میں اُس کے نام کیا تھا اُس کے بھی کاغذات نہیں تھے ۔ جیتے جی تو وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ اپنے پاؤں پر کبھی کھڑی ہو سکے ‘مگر کیا وہ چاہتا تھا کہ اس کے مرنے کے بعد بھی وہ سر اُٹھا کر نہ جی پائے ۔ وارث ہمدانی کو اُس سے محبت ہے یہ خوش فہمی پالنا ہمیشہ مشکل لگا تھا اُسے، مگر آج تو لگ رہا تھا کہ شاید وہ اس سے نفرت کرتا تھا ۔
وہ چھوٹی بہن نرما کو ساتھ لیے اپنی شادی شدہ بہن ثانیہ کے گھر چلی آئی تھی ۔ ثانیہ کا شوہر اچھا آدمی تھا ۔ کچھ نازنین کے احسانات بھی یاد تھے ۔ عدت اُس نے کاٹ لی تھی ان کے گھر میں مگرشادی شدہ بہن کے گھر میں وہ کب تک رہ سکتی تھی ۔ اُسے پھر زیرو سے شروع کرنا تھا ۔ ہمدانی خاندان کے وکیل کے دفتر کے باہر کئی دن گھنٹے انتظار کے بعد ہوئی مختصر ملاقات اُسے سمجھا گئی تھی کہ اُس کے لیے کچھ نہیں تھا ۔ اگر وہ اپارٹمنٹ ہی اُسے مل جاتا جو حق مہر میں اُس کے نام ہوا تھا تو کچھ تو آسرا ہو جاتا مگر اُس کے بھی کاغذات نہیں تھے ۔ چند سرکاری دفتروں کے چکروں اور ایک وکیل سے صلاح مشورے کا حاصل صرف مایوسی تھی ۔ نہ اُس کے پاس لمبی رشوتوں کے پیسے تھے اور نہ وہ لمبے مقدمے لڑ سکتی تھی ۔ وہ بڑے بارسوخ لوگوں میں اُٹھتی بیٹھتی رہی تھی مگر اُن میں کوئی ایسا نہیں تھا جسے وہ دوست کہہ سکتی ،مشکل وقت میں پکار سکتی،جو بنا غرض کے اُس کی مدد کر تا ۔ یا شاید کوئی تھا !دل نے ایک نام کی سرگوشی کی تھی ۔ جس کا نام بے درد بیوپار کا استعارہ تھا ، اُس کے دل کو اُس شخص سے تھی بے غرض عطاء کی اُمید۔
٭٭٭٭
وہ اپنے کام میں مصروف تھا کہ انٹرکام کی بیل بجی تھی ۔ اُس کی پرسنل اسسٹنٹ نے اُسے کسی خاتون کی آمد کی اطلاع دی تھی ۔
’’ کس سلسلے میں ملنا ہے؟ میں بزی ہوں ۔ ‘‘وہ لیپ ٹاپ کی سکرین سے توجہ ہٹائے بغیر مصروف انداز میں بولا تھا۔
’’ سر کہہ رہی ہیں کوئی پرسنل کام ہے ۔ نازنین ہمدانی نام بتا رہی ہیں۔‘‘
لیپ ٹاپ پر چلتی اُس کی انگلیاں یکدم رکیں تھی ۔ سینے میں دل اُسے قلابازی کھاتا محسوس ہوا تھا ۔ وہ تو ابھی ’’کب ‘‘اور ’’کیسے ‘‘میں اُلجھا تھا، اور وہ خود ہی چلی آئی تھی ۔ اسسٹنٹ کو اُسے اندر بھیجنے کی ہدایت دے کر اُس نے اپنے فون کافرنٹ کیمرہ آن کرکے خود کو دیکھا تھا ۔ جل سے سیٹ شدہ بالوں پر ہاتھ پھیر کر نادیدہ بے ترتیبی دور کی تھی اور پھر اپنی اِس حرکت پر خود ہی مسکرا دیا تھا ۔ کیسی اِن سیکیور ‘ ٹین ایجرز والی حرکت تھی۔
وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی تو لحظہ بھر کو نظریں ملی تھیں ‘مگر پھر اُس نے نظریں جھکا لی تھیں اور یونہی نظریں جھکائے جھکائے اُس کی طرف بڑھی تھی ۔ شہریار نے لمحے بھر کو بھی نظر اُس سے نہیں ہٹائی تھی ۔ خواب سا لگ رہا تھا اُسے اپنی جانب بڑھتے دیکھنا ۔ سادہ سا حلیہ ،میک اپ سے مبرا چہرہ ،اور ایسا بھی نہیں تھا کہ تیرہ سال اُسے چھوئے بغیر دیکھے گزر گئے تھے مگر اُس کے زیریں لب کے دائیں جانب موجود اس چنچل سے تل نے آج بھی دل کے تار چھیڑے تھے۔ کتنے عرصے بعد وہ اپنی رگوں میں زندگی کو ،شوق کو بھاگتے دوڑتے محسوس کررہا تھا۔وہ میز کی دوسری جانب رکھی کرسی کے پاس آن کھڑی ہوئی تھی ۔
’’ زہے نصیب ۔‘‘اُسے تذبذب میں کھڑے دیکھ کر اُس نے مسکراتے ہوئے کرسی کی طرف اشارہ کیا تھا۔
’’ کیسے ہیں آپ ؟ ‘‘ہونٹوں پر زبان پھیر کر کچھ نروس سے انداز میں اُس نے رسمی جملے سے بات کا آغاز کرنے کی کوشش کی تھی ۔
’’ ایٹ دا مومنٹ تو‘بہت ہی اچھا ہوں ۔‘‘وہ نگاہِ شوق اُس پر جمائے بولا تھا۔
’’ میں آپ کے پاس دراصل اِس لیے آئی ہوں ملک صاحب … ‘‘ اُس نے مدعے پر آنے کی کوشش کی تھی مگر شہریار نے اُس کی بات کاٹ دی تھی ۔
’’ ملک صاحب ؟تم یہاں جو بھی کہنے آئی ہو یا کرنے آئی ہو میں نہیں جانتا ‘مگر ایک بات میں جانتا ہو ں‘مسز ہمدانی ،ملک صاحب سے ملنے نہیں آئی ‘ نازنین آئی ہے شہریار سے ملنے ۔ سو یہ آپ جناب رہنے دو تو بہتر ہے ۔ ‘‘ نازنین نے جواباً کچھ نہیں کہا تھا ۔ شہریار نے اُس تکلف کی دیوار کو محسوس کیا تھا جو وقت نے اُن کے بیچ کھڑی کر دی تھی ۔ یا شاید اب وہ وہ نازنین نہیں رہی تھی جو بے دھڑک سب کہہ دیا کرتی تھی ۔
شہریار نے اُس کے تاثرات جانچنے کی کوشش کی تھی ۔اُس کے چہرے پر نئی بیوہ سا حزن تو نہیں تھا مگر بلا کی سنجیدگی تھی ۔وہ یہاں کیوں آئی تھی وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔
’’ کافی پیو گی ؟کہو تو وہی پیسٹریز منگوا لیتا ہوں جو تم شیف سے نظر بچا کر اُڑا لیا کرتی تھیں ۔ ‘‘تکلف کا پردہ ہٹانے کی شہریار کی یہ کوشش کچھ کامیاب رہی تھی ۔ نازنین کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی تھی۔
’’ پیسٹریز کھانا چھوڑ دیا ہے میں نے ۔ ‘‘
’’ کیوں ؟ ‘‘اُس کے سوال پر نازنین کی مسکراہٹ میں پہلے تلخی گھلی تھی اور پھرمسکراہٹ غائب ہو گئی تھی ۔
’’ہمدانی صاحب کا خیال تھا کے مجھے نہیں کھانی چاہئیں۔‘‘
’’ مجھے تم سے ایک فیور چاہئے ۔ ‘‘بل آخر وہ مدعے پر آئی تھی ۔ شہریار نے اُسے سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا ۔
’’وارث ہمدانی کے وارثوں نے مجھے ہمدانی ہاؤس سے نکال دیا ہے اور باقی بھی اُن کے بقول میرے لیے اُن کا باپ کچھ چھوڑ کر نہیں مرا ‘مگر ڈیفنس میں ایک اپارٹمنٹ تھا جو حق مہر کے طور پر میرے نام ہوا تھالیکن مسئلہ یہ ہے کہ اُس کے کاغذات میرے پاس نہیں ہیں آپ میرا مطلب ہے تم کوئی مدد کر سکتے ہو میری ؟‘‘
’’ کہاں ہیں کاغذات ؟ ‘‘
’’مجھے نہیں پتا ۔‘‘
’’تمہارا پارٹمنٹ ہے ‘تو کاغذات کیوں تمہارے پاس نہیں ؟ ‘‘ اُس کے سوال پر نازنین کے لبوں پر تلخ مسکراہٹ آئی تھی ۔
’’لمبی کہانی ہے ۔‘‘
’’ میں سن سکتا ہوں ۔ ‘‘ وہ سننا چاہتا تھا کیا گزری تھی ،کیسی گزری تھی ۔ وہ کرسی کی پشت سے یوں ٹیک لگا کر بیٹھ گیا تھا جیسے اسے فرصت ہی فرصت ہو ۔
’’وارث ہمدانی کی پہلی شادی جب ہوئی تو وہ بائیس سال کا تھا ۔ بیوی روپے پیسے حسب نسب کے ساتھ عمر میں بھی اُس سے کئی سال بڑی تھی ‘سو ہمیشہ حاوی رہی ۔ ساری عمر میں جو واحد بغاوت وارث ہمدانی نے کی ،وہ میں تھی ۔ ‘‘ وہ تلخی سے ہنسی تھی ۔
’’ مگر یہ بغاوت بھی وہ الاعلان نہیں کر سکا ۔ مجھے ایک شرمندہ کردینے والے راز کی طرح اُس نے زندگی میں ہمیشہ چھپا کر رکھا ۔ گو میرا اندازہ ہے کہ وہ جانتی تھی ۔مگر جیسے کوئی بڑا جان بوجھ کر بچے کی کسی شرارت کو نظر انداز کر دیتا ہے، ایسے ہی اُس نے بھی وارث ہمدانی کی اِس بغاوت کو فراموش کیے رکھا ۔ ازدواجی تعلق میں کسی قسم کے اختیار سے محرومی نے وارث ہمدانی کو نفسیاتی طور پر اُس نہج پر پہنچا دیا جہاں وہ مکمل اختیار چاہتا تھا ۔ سامنے والے کو اپنے سامنے پوری طرح بے بس اور محتاج دیکھنا چاہتا تھا ۔ سو ہر وہ چیز جو کسی عورت کو مضبوط کر سکتی ہے ،روپیہ ،جائداد،معاشی ،خود مختاری ،اولاد ہر اُس چیز سے مجھے محروم رکھا گیا ۔ حتی ٰکہ قیمتی کپڑے ،زیور،جوتے اور پرس بھی مجھے ہر موقع کی مناسبت سے دیے جاتے تھے اور پھر اُس کے خاص ملازمین انہیں سنبھال کر محفوظ مقام پر رکھ دیتے تھے ۔ بڑا پسند تھا مرحوم کو میرا گڑگڑانا ،ہاتھ پھیلانا ۔ میرے بہن بھائیوں اور ماں کی ہر ضرورت پوری ہو جاتی تھی ‘ بس میری عزت نفسْ کی قربانی لگتی تھی ۔ ‘‘آواز آنسوؤں سے بھاری ہوئی تو وہ خاموش ہو کر خود کو نارمل کرنے کی کوشش کرنے لگی تھی۔
وہ خاموشی سے اُسے آنسو ضبط کرتے دیکھتا رہا ۔ وہ کوئی ہیرو نہیں تھا ‘وہ تو شاید ولن تھا ۔ اسے ہیرو بننے کا کوئی شوق بھی نہیں تھا ، مگر زندگی میں کئی بار اُس نے سوچا تھا کہ کاش وہ اِس لڑکی کی کہانی کا ہیرو بن سکتا ‘کسی الف لیلوی کہانی کا شہزادہ بن سکتا جو اُسے دور کسی ایسے جزیرے پر لے جاتا جہاں زندگی کی سفاکی اُس تک نہ پہنچ پاتی ‘خوابوں کی ایسی نگری میں رکھ لیتا جہاں حقیقت کی تپش اُس کی اُمید وں اور اُمنگوں کو جھلسا نہ پاتی مگر زندگی سے ،اِس کی تلخ حقیقتوں سے کون بچ پایا ہے ؟ اور کس کو بچا پایا ہے ؟یہ بھی اِس جفاکار زندگی کی عنایت تھی کہ آج اگر وہ مدد مانگنے آئی تھی تو وہ مدد کرسکتا تھا۔