ہجرووصال : قسط نمبر 5
’’ امی ہمدانی صاحب کہہ رہے ہیں فرحان کو بھی پڑھنے کے لیے باہر بھجوا دیں گے ۔‘‘
’’پڑھنے کے لیے؟رہنے دو تم اپنے ہمدانی صاحب کو ۔ یہ بولو انگلینڈ بھجوا دیں گے کہ جا کر ٹیکسی چلا سکے نعمان کی طرح یہ بھی۔ ‘‘ فرزانہ ناگواری سے بولی تھی ۔ نازنین بغیر قصور کے ہی شرمندہ ہو گئی تھی ۔ وارث ہمدانی نے نعمان کو اُس کے کہنے پر سٹوڈنٹ ویزا پر باہر بھجوا دیا تھا مگر پھر سپورٹ کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ سو پڑھائی چھوڑ کر اُسے چھوٹی موٹی نوکریاںکرنی پڑیں تھیں۔
’’ بیویاں کیسے میاں کو اشاروں پر چلاتی ہیں بڑی بڑی باتیں منوا لیتی ہیں ۔ تم بس اپنے گھر والوں کے لیے تھوڑی سی بھیک لے کر خوش ہو جایا کرو ۔ ‘‘ ماں کی بات سن کر نازنین کا پارہ ہائی ہوا تھا ۔
’’اتنا آسان نہیں ہے ‘یہ بھیک بھی …‘‘خود پر ضبط کر کے وہ خاموش ہو ئی تھی چند لمحوں بعد رسان سے اُمید افزا لہجے میں بولنے کی کوشش کی تھی ۔
’’نعمان کہہ رہا تھا کہ اگر ہمدانی صاحب نے ہاتھ کھینچ بھی لیا تو وہ کسی نا کسی طرح اُسے اتنا سپورٹ کر لے گا کہ وہ پڑھائی پوری کر لے ۔ پھرایک ڈیڑھ سال میں نعمان کو نیشنیلٹی بھی مل جائے گی تو چیزیں آسان ہو جائیں گی ۔‘‘
’’ اللہ خوش رکھے میرا بچہ ،میرا نعمان ۔‘‘فرزانہ نے آنکھیں پونچھی تھیں۔
’’ اور میں ؟ ‘‘ نازنین کے دل میں بیساختہ ہی شکوہ اُبھرا تھا ۔
دس ،گیارہ سال پرانی بات تھی جب آخری باراُس کی ماں نے اُس کے لیے فکرمندی دیکھائی تھی ۔ اُس کی شادی کو تب چند ہی مہینے گزرے تھے ۔ وہ جاتے ہوئے اُسے خرچے کے پیسے پکڑا رہی تھی ۔ فرزانہ نے پیسے پکڑنے کے بجائے اُسے غور سے دیکھا تھا۔ جو نظر آیا اُس نے دل دُکھایا تھا ۔
’’ تمہارے ساتھ سلوک تو اچھا ہے نا تمہارے میاں کا ؟ ‘‘ نازنین نے مسکرا کر سر اثبات میں ہلایا تھا ۔مگر اُس کی تسلی نہیں ہوئی تھی۔
’’ مجھے لگتا ہے میں نے بیٹی بیچ دی ہے ۔‘‘آواز بھرا گئی تھی ۔
’’ خفیہ نکاح بھی کوئی نکاح ہوتا ہے ۔ ‘‘
’’افوہ امی! اعلان بھی ہو جائے گا انشاء اللہ‘ بس پہلے وہ اپنی فیملی کو منانا چاہتے ہیں ۔‘‘
’’اللہ کرے۔ ‘‘فرزانہ نے دعا کی تھی مگر لہجہ مایوس تھا ۔ نازنین نے دونوں ہاتھوں سے اُس کا چہرہ تھاما تھا ۔
’’آپ کیوں گلٹی فیل کر رہی ہے امی جو بھی ہوا ہے اگر غلط بھی ہوا ہے تو میں نے کیا ہے ‘آپ نے توبلکہ مجھے روکا تھا اور سب ٹھیک ہے بس اتنا ہی مسئلہ ہے نا کہ وہ عمر میں مجھ سے کافی بڑے ہیں تو یہ بھی کوئی انہونی بات تو نہیں ‘میرا بہت خیال رکھتے ہیں ۔ ‘‘ اتنے پکے منہ سے جھوٹ بولا تھا اُس نے کہ اُس کی ماں اس کی نگاہیں بھی نہیں پڑھ سکی تھی۔ وارث ہمدانی کبھی بھی اِس نکاح کا اعلان نہیں کر سکتا تھا اگر چاہتا تب بھی نہیں ۔ اِس بات کا اندازہ نازنین کوصرف ایک بارہی اُسے اپنی پہلی بیوی سے فون پر بات کر تے سن کر ہو چکا تھا ۔ اُس کے سامنے مجسم حاکمیت بنا رہنے والا منمنا رہا تھا عائشہ بیگم کے سامنے۔ اور خوشی اور خیال … ہاہ !
مگر اُس کی ماں مطمئن ہو گئی تھی یا شاید آنکھیں بند کر لیں تھیں ۔ ہر انسان اُسی بیانیے پر یقین کرنے کی کوشش کرتا ہے جس سے اُس کی راتوں کی نیند متاثرنہ ہو ۔
وہ آج اپنی ماں کے گھر سے بہت دکھے ہوئے دل کے ساتھ نکلی تھی ۔ گھر کے سامنے ہی گلی میں ڈرائیور گاڑی کے پاس کھڑا تھا ۔ یہ گلی صاف ستھری تھی ،بہت کشادہ نہ سہی اتنی ضرور تھی کہ آمنے سامنے سے آتی دو گاڑیاں آرام سے کراس کر سکیں ۔ مسز ڈنشاء کے گھر سے نکل کر وہ جس محلے میں گئے تھے وہاں تو رکشہ بھی مشکل سے جاتا تھا ، ہلکی سی بارش پر گٹر کی بو دماغ مائوف کرنے پر تل جاتی تھی ۔ متوسط طبقے کے صاف ستھرے علاقے میں یہ گھر وارث ہمدانی نے ہی کرائے پر دلوایا ۔اتنا کافی تھا نا!
نم ہوتی آنکھوں کو سن گلاسز سے چھپا کر وہ گاڑی میں بیٹھ گئی تھی ۔زندگی سے زیادہ دکھ وہی اُٹھاتے ہیں جو زندگی سے زیادہ کی توقع رکھتے ہیں ۔ جنھیں خوش فہمیاں ہوتی ہیں دنیا کے بارے میں یا اپنے بارے میں ‘جیسے اُسے تھیں ۔ چند بیوقوف لڑکوں سے تحفے بٹور کر ،چند ٹھرکی بڈھوں سے ٹھرک جھاڑنے کی قیمت وصول کر کے وہ خود کو کھلاڑی سمجھنے لگی تھی ‘مگر جب اصل کھلاڑیوں سے ٹاکرا ہوا تو اسے منہ کے بل گرایا گیا تھا ۔ جب شہرت اور دولت کے لیے میدان میں اُتری تب بھی اور جب عزت اور تحفظ چاہا تب بھی۔
٭٭٭٭
وہ شہر کے مہنگے ترین ہسپتال کے کارڈیک کیئر یونٹ میں داخل ہوا تھا ۔دو گھنٹہ قبل اُسے شامین کی نرس نے اطلاع دی تھی کہ شامین کو انجائنا کا اٹیک ہوا ہے ۔ وہ کمرے میں داخل ہوا تو آنکھیں موندے لیٹی شامین نے دروازہ کھلنے کی آواز پر آنکھیں کھول کر اُسے اور اُس کے ہاتھ میں پکڑے گلدستے کو دیکھا تھا ۔ اُس کے لبوں پر استہزائیہ سی مسکراہٹ آئی تھی ۔
’’واؤ ‘تم تو اُڑ کر پہنچ گئے ۔مجھے تو لگا تھا کام نمٹا کر فرصت سے آؤ گے ۔بٹ یو آر سچ آلونگ ہسبینڈ‘لکی می (میں خوش قسمت ہوں‘ تم ایک اچھے شوہر ہو)‘‘وہ طنزیہ ہنسی تھی ۔
شہریارنے اُس کی بات پر کوئی ردعمل دیے بغیربوکے میز پر رکھا تھا اور اُس کے سرہانے جا کھڑا ہوا تھا ۔
’’کیسی ہو ؟‘‘نرمی سے پوچھا تھا ۔
’’ کیسی ہوں ؟‘‘ شامین کے اندر اُس کا سوال گونجا تھا ۔ تنہا ،پیاسی ٹوٹی ہوئی ،اپنی ذات سے بیزار اور اب تو جسمانی طور پر بھی دل کی مریض ،ہڈیوں کا ڈھانچہ ۔ ویسے کیا مناسب لفظ ہو سکتا تھا کسی کو مختصراًبتانے کے لیے کے وہ کیسی تھی ؟ اُس نے چند لمحے سوچا تھا ۔ ہاری ہوئی ؟ ہاں !
وہ ہاری ہوئی تھی زندگی سے ہاری ہوئی! مگر لفظوں میں کسی کو بتانے کی ضرورت ہی کہاں تھی ؟ خاص طور پر اِس شخص کو ۔ اُس نے بنا کچھ کہے آنکھیں موند لیں تھیں ۔ شہریار نے نرمی سے اُس کے گال کو چھوا تھا ۔
’’ ڈونٹ ڈو دس ٹو یور سیلف (خود کے ساتھ ایسا مت کرو)۔ ‘‘
شامین نے آنکھیں کھول کر اُسے دیکھا تھا ۔ وہ نگاہوں میں ترس لیے اُسے دیکھ رہا تھا ۔ شامین نے اذیت سے آنکھیں بند کر لیں تھیں ۔ اُس نے ہمیشہ اپنے لیے اُس کی آنکھوں میں ’’ترس یا بے نیازی‘‘ یہی پڑھا تھا ۔ وہ آج بھی یقین سے یہ نہیں کہہ سکتی تھی کہ اُس نے سبطین شاہ کی جگہ اُسے کیوں چنا تھا ۔ وہ عظیم شیخ کی پوتی تھی ‘ اتنی کم عقل کیسے ہو سکتی تھی کہ آنکھیں بند کر کے اُس کے فریب پر ایمان لے آتی ۔
اُس شام جب پہلی بار، بار کاؤنٹر پر کسٹم ٹیلرڈ سوٹ میں ملبوس ڈرنک سامنے رکھے سگریٹ کے کشش لگاتے دیکھا تھا تو اُسے کے ذہن میں برسوں پہلے دیکھی ایک فلم کا مرکزی کردار آیا تھا جو کان مین (نوسرباز ،فراڈیا)تھا ۔ وہ شام آج بھی اُسے ایسے یاد تھی جیسے چند لمحے پہلے کی بات ہو ۔ مغربی طرز کے اُس انڈر گراؤنڈ کلب میں وہ سبطین شاہ کے ساتھ گئی تھی ‘مگر کچھ دیر سے بار کائونٹر کے سامنے رکھے سٹول پر بیٹھی اکیلی ہی ریڈ وائن سے لطف اندوز ہو رہی تھی ۔
سبطین شاہ پچھلے آٹھ منٹ سے ایک اور حسینہ سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا‘جو سکول کے زمانے میں اُس کی کلاس فیلو رہ چکی تھی ۔ وہ اور سبطین تین مہینے سے ایک دوسرے کو ڈیٹ کر رہے تھے ‘اور وہ چاہتی تو بہت آسانی سے یہ رومانس شادی کے بندھن میں بدل سکتا تھا ۔ سیاہ میکسی میں ملبوس اس حسینہ یا کسی بھی اور لڑکی سے اُسے کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا۔
اِس لیے نہیں کہ سبطین اُس کے لیے کوئی خاص جذبات رکھتا تھا بلکہ اِس لیے کہ وہ جیک پاٹ تھی ۔ لڑکیوں کو عموماًاچھا وقت گزارنے کے لیے تو بہت لڑکے مل جاتے ہیں مگر شادی کے لیے سنجیدہ اُن میں خال خال ہی ہوتے ہیں ‘مگر اُس کا معاملہ اِس کے برعکس تھا ۔ اُس سے شادی سبھی کرنا چاہتے تھے ‘مگر باقی اُن میں سے اکثریت کی اُس میں دلچسپی ڈھونگ ہی ہوتی تھی ۔
بہت خوبصورت نا سہی خوش شکل لڑکیوں میں تو اُسے آرام سے شامل کیا جا سکتا تھا‘ مگر بدقسمتی سے ہر ایک کو اُس سے پہلے ’’شیخ گروپ آف انڈسٹریز ‘‘کے اثاثے نظر آ جاتے تھے۔
اپنے ڈرنک کا سپ لیتے ہوئے اُس نے ایک نظر بغور سبطین کو دیکھا تھا جو اپنی پرانی کلاس فیلو کے ساتھ کافی خوش نظر آرہا تھا ۔ سبطین خوش شکل تھا،دولت میں اُس کا ہم پلہ نا سہی مگر بہرحال دولتمندوں میں شمار کیا جا تاتھا ۔ اُس کے خاندان کا سیاسی مرتبہ عظیم شیخ کی نظر میں اس کی سب سے اہم خوبی تھی ۔ وہ چاہتی تو اُن کی یہ چند مہینوں کی ڈیٹنگ بڑے آرام سے شادی پر منتج ہو سکتی تھی ‘ مگر وہ ایسا نہیں چاہتی تھی اور شاید اُس کے یہ رشتہ نہ چاہنے کی وجہ عظیم شیخ کا ایساچاہنا بھی تھا ۔ اُس نے ایک نظر سبطین کے چہرے پر ڈالی تھی جو اپنی ہم کلام کی کسی بات پر ہنس رہا تھا اور پھر رخ موڑ لیا تھا ۔ لاپرواہی سے گلاس میں وائن گھماتے ہوئے اُس کی نظر اپنے بائیں جانب بیٹھے اُس شخص پر پڑی تھی ۔
دو ایک بار پہلے بھی دیکھ چکی تھی وہ اُسے کسی پارٹی میں ۔ سرکل میں شاید نئی انٹری تھی مگر نظر انداز کر دینے کے قابل تو ہرگز نہیں ۔ سیاہ جیکٹ کرسی کی پشت پر ڈالے سفید قمیض کے بازو فولڈ کیے اپنے مشروب سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کتنی ہی زنانہ ستائشی نظروں کا محور بنا ہوا تھا ۔ حسن پرست تو وہ بھی تھی مگر یہاں نجانے کیوں اُسے لگا کشش حسن سے گہری تھی۔ شاید بھوری ذہانت سے چمکتی آنکھوں میں کوئی راز بھی دفن تھے ۔سیاہ ہلکے سے خمدار بالوں کا سایہ صبیح ماتھے پر بنے اُس زخم کے نشان کی کہانی چھپا تامعلوم ہو رہاتھا۔ شاید حسین چہرے کے نیچے ایک اور بھی چہرہ تھا ۔ بے نیازی شاید صرف ڈھونگ ڈرامہ تھی ۔ چلوزندگی کے ڈرامے میں کچھ اور ڈرامہ شامل کرتے ہیں ‘وہ سوچ کر مسکرائی تھی اور پھر بار ٹینڈر کو بلایا تھا۔
’’اے ڈرنک، فار دا جینٹل مین‘‘
اُس کی ہدایت پر بار ٹینڈر نے چابک دستی سے ڈرنک بنا کر اُسے سرو کی تھی ۔ بار ٹینڈر کے بتانے پر اُس نے رخ پھیر کر شامین کو دیکھا تھا اور مسکراتے ہوئے اشارے سے شکریہ ادا کیا تھا ۔مگر بار ٹینڈر کے جاتے ہی وہ ڈرنک اُٹھائے اُس کی طرف چلا آیا تھا ۔
’’تھینکس سویٹ ہارٹ بٹ نو تھینکس ۔‘‘ وہ گلاس اُس کے سامنے رکھتے ہوئے بولا تھا۔
’’کسی اور کے ساتھ آئی لڑکی کی آفر کتنی ہی نشیلی کیوں نہ ہو میں ایکسپٹ نہیں کرتا ۔ پھر کبھی سہی… ‘‘ وہ بائیں آنکھ دبا کر مسکراتا ہوا پلٹ گیا تھا ۔شامین نے دلچسپی سے اُسے جا تے ہوئے دیکھا تھا ۔وہ جس کام سے آیا تھا آج کے حصے کا ہو گیا تھا سو مزید اُس کے پاس یہاں رکنے کی وجہ نہیں تھی ۔ کرسی کی پشت سے اپنی جیکٹ اُٹھا کر اُس نے باہر کی جانب قدم بڑھا دیے تھے۔مگر بہت جلد ایسی ہی’’ اتفاقیہ‘‘ ملاقات پھر ہو گئی تھی ۔
وہ جانتی تھی وہ اُس کے پیچھے کیوں آیا ہے ۔ پھر بھی اُسے اُس میں ایک عجیب کشش محسوس ہوئی تھی ۔ شاید اُسے کھوجنا چاہتی تھی‘ بے نیازی کے پردہ میں چھپا درد ڈھونڈ نکالنا چاہتی تھی ۔ شاید اس امید میں کے درد سے درد کا رشتہ جڑ گیا تو وہ ہر غرض سے پاک ہو گا ‘مگر شادی کے پانچ سال بعد اُسے نظر آرہا تھاکہ وہ سب اُس کی نظر کا دھوکا تھا ،اُس کا تخیل تھا ۔ کچھ نہیں تھا اِس شخص کے اندر ایک شاطر دماغ اور جذبوں سے عاری دل کے سوا ۔ محبت تو کیا وہ تو نفرت محسوس کرنے کے قابل بھی نہیں تھا یا شاید وہ ہی اتنی بے وقعت تھی کہ وہ اُسے نفرت کے قابل بھی نہیں سمجھتا تھا۔
’’چلے جاؤ یہاں سے ۔‘‘سپاٹ لہجے میں کہہ کر اُس نے پھر سے آنکھیں بند کر لیں تھیں۔
’’شامین…‘‘
’’آئی سیڈ …لیو‘‘ شہریار نے لمحہ بھر کو اُس کے زرد بے رونق چہرے کو دیکھا تھا اور پھر دروازے کی طرف قدم بڑھا دیے تھے ۔
’’نفرت تو ایک دن کرنی پڑے گی تمہیں مجھ سے …یہ وعدہ ہے میرا ۔‘‘اُس کے جانے کے بعد بند دروازے کو دیکھ کر شامین نے خود کلامی کی تھی ۔
٭٭٭٭
ایک تھکا دینے والے دن کے بعد بیڈ پر نیم دراز ہو کر اُس نے ایک نیوزچینل لگایا تھا ۔موجودہ حکومت کے ڈانواں ڈول قدم سٹاک مارکیٹ اور روپے کا پٹھا بیٹھا رہے تھے سو کاروباری دنیا میں آج کل سیاست اہم تھی ‘مگر چند ہی منٹوں میں وہ ٹاک شو میں ہونے والی لاحاصل بحث سے اُکتا گیا تھا ۔ ٹی وی بند کرنے کے لیے ریموٹ اُٹھایا ہی تھاکہ وقفے میں شروع ہونے والے اشتہار نے اُس کا ہاتھ روک لیا تھا ۔
اُس کی ہاؤسنگ سوسائٹی کا پورے تین منٹ پر مشتمل اشتہار تھا ۔ سپورٹس کی دنیا کا ایک سُپرسٹار ہاؤسنگ سوسائٹی میں موجود آسائشوں اور سہولیات کے گن گا رہا تھا ۔ شہریار کے ہونٹوں پر ایک استہزائیہ مسکراہٹ آئی تھی ۔ اِسی ٹی وی چینل پر کچھ عرصہ پہلے فرقان حسین کی خودسوزی کی خبر بریک کی گئی تھی اور یہ وہی ہاؤسنگ پروجیکٹ تھا جسے کے اگلے فیز کے لیے اُس نے فرقان حسین کی زمین حاصل کی تھی ۔ فرقان حسین کی کہانی لوگ اُس کی توقع سے بھی پہلے بھول گئے تھے ۔ واقع کے کچھ ہی دن بعد ایک سیاستدان کی ایک ٹک ٹاکر کے ساتھ نا زیبا ویڈیو وائرل ہوگئی تھی ۔ پھر عورت مارچ نے سوشل میڈیا پر رونق لگا دی تھی اور اُس کے بعد سیاسی سرکس عروج پر جا پہنچا تھا ۔
عوام الناس کو جب اتنے دلچسپ موضوعات میسر تھے تو کسی کو کیا پڑی تھی کہ فرقان حسین کا کیس فولو کرتا ؟ کس کو فرصت تھی کہ یہ سوچتا کہ زرعی زمینوں پر کھمبیوں کی طرح پھیلتے اِن رہائشی منصوبوں کے مستقبل میں کیا مضمرات ہو سکتے ہیں؟
٭٭٭٭
’’ تمہیں یقین ہے ؟ سبطین شاہ ہی کا کیا دھرا ہے یہ ؟ ‘‘وہ اپنے سامنے بیٹھے پرائیویٹ انویسٹی گیٹر سے پوچھ رہا تھا ۔
’’ سر حالات و واقعات سے صاف لگ رہا ہے۔ اور پھر اتنے کم حیثیت لوگ منہ پھاڑ کر اتنے بڑے لوگوں پر الزام یوں ہی تو نہیں لگا سکتے ۔ باپ تو اُس کا اب بھی بات دبانے کے چکر میں تھا ، ماں نے جذبات میں آکر سب کہہ دیا ۔ ‘‘ انویسٹی گیٹر پریقین تھا ۔
’’ اور لڑکی ؟‘‘
’’ بارہ تیرہ سال کی لڑکی ہے ‘ڈری سہمی ‘کیا بولے گی ۔ ‘‘ لمحے بھر کو اُس کے دل میں کوئی سوئی سی چبھی تھی ۔ مگر پھر دماغ حاوی ہو گیا تھا ۔ لڑکی کا انڈر ایج ہونا اس کے مطلوبہ بیانیے کو مظبوط کرنے کے لیے کارآمد ہو سکتا تھا ۔
’’ ہمیں ٹھوس ثبوت چاہئے‘ یہ لوگ کبھی بھی خاموش کرائے جا سکتے ہیں ۔ ثبوت اور شواہد کیسے پیدا کیے جائیں اِسے احتیاط سے پلان کرنا ہو گا ۔ ‘‘
’’ جی سر ۔ ‘‘وہ سعادت مندی سے سرہلا کر اُسے آگے کے پلان کی تفصیلات سے آگاہ کرنے لگا تھا ۔دس منٹ بعد وہ رخصت لے کر چلا گیا تھا ‘مگر شہریار اُس کے جانے کے کافی دیر بعد تک اِس معاملے پر سوچتا رہا تھا ۔ کیا اِس خبر کو واقعی اتنا بڑا بنایا جا سکتا تھا کہ کوئی خاطر خواہ اثرات پیدا کیا جا سکے ۔ چھ سال پہلے سبطین شاہ نے سونے کی چڑیا ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر ہاتھ پائوں مارے تھے ۔ شامین اور عظیم شیخ کو رجھانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی ‘یہاں تک ٹھیک تھا ۔ وہ اُس کی جگہ ہوتا تو وہ بھی یہی کرتا ‘مگر کاروباری دنگل میں ہارجیت نہیں ہوتی ،نفع نقصان ہوتا ہے جسے پرسنل نہیں لیا جاتا ۔ یہ بات سبطین شاہ سمجھ نہیں پایا تھا شاید اور اُس نے رقابت پال لی تھی ‘ موقع ملتے ہی اُسے نیچا دیکھایا تھا ۔ وہ غیر معمولی طور پر کینہ پرور تو نہیں تھا مگر اتنا’’ایوالوڈ‘‘(ترقی یافتہ) بھی نہیں تھا جتنا اُس کا دعویٰ تھا۔ وہ روایتی میاں بیوی نہیں تھے پھر بھی وہ اپنی بیوی کے تعلقات کسی اور مرد کے ساتھ برداشت نہیں کرسکتا تھا۔
٭٭٭٭