ہجرووصال : قسط نمبر 5
گراؤنڈ فلور پر لفٹ سے نکلتے ہی ثاقب مل گیا تھا ۔ثاقب اُس کے کالج کے زمانے کا دوست تھااور عظیم شیخ کے دفتر میں ملازمت کر رہا تھا ۔
’’کیسی رہی میٹنگ ؟چھوٹتے ہی اُس نے پوچھا تھا ۔
’’یار کچھ سمجھ نہیں آئی ۔‘‘ شہریار ایمانداری سے بولا تھا۔ ثاقب جواباًہنسا تھا۔
’’ بڈھا معمولی آدمی نہیں۔ پراسس کرے گا پہلے ساری انفارمیشن۔‘‘ شہریار نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اتفاق کیا تھا۔
’’معمولی آدمی ہوتا تو یہاں بیٹھا ہوتا ۔‘‘ شہریار کارپوریٹ آفسز پہ مشتمل چھ منزلہ اسٹیٹ آف آرٹ بلڈنگ کی طرف اشارہ کرکے بولا تھا ۔ یکایک ایک تیز رفتار کار تیزی سے ثاقب کے کے اتنے قریب آئی تھی کہ اگر وہ فوراًاُس کے راستے سے نہ ہٹتا تو شاید اُس کی زد میں آجاتا ۔ ثاقب پیچھے ہٹتے ہوئے لڑکھڑا گیا تھا ۔ سنبھلتے ہوئے اُس نے غصے سے تیزی سے دور جاتی زرد لمبوگینی کو دیکھ کر ،چلانے والی کو دو تین اخلاق سے گری ہوئی گالیوں سے نوازا تھا ۔ شہریار اُس کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے ہنسا تھا ۔
’’ شکر کر بچ گیا ہے نہیں تو جتنی قیمتی گاڑی تھی ،کسی نے ایکسیڈنٹ کی ایف آئی آر بھی نہیں کاٹنی تھی ۔‘‘
’’ صحیح کہہ رہا ہے ‘عام بندے کو تو یہ لوگ انسان ہی نہیں سمجھتے ۔‘‘
’’ تھی کون ؟‘‘شہریار کو تجسس ہوا تھا۔
’’عظیم شیخ کی پوتی ‘ سوٹالگاکر چاند پر پہنچی ہوتی ہے یادولت کے نشے میں دھت لوگوں پر گاڑیاں چڑھا رہی ہوتی ہے ۔ خیر دفعہ کر(گالی ) کو ۔‘‘ ثاقب نے موضوع بدلا تھا ۔
’’ ویسے اگر عظیم شیخ مان گیا تو تیری تو نکل پڑے گی ۔ ‘‘ گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے وہ بولا تھا ۔ شہریار مسکرانے پر اکتفاء کرتے ہوئے اپنی چمچماتی سیوک کی ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہو ا تھا ۔
’’ویسے نکلی ہوئی تو،لگتا ہے تیری پہلے سے ہے ۔ ‘‘ثاقب شہر کے مہنگے علاقے میں اُس کے سٹوڈیو اپارٹمنٹ اور اُس کی مہنگی گاڑی سے کافی مرعوب تھا ۔ شہریار نے اب کی بار بھی مسکرانے پر اکتفاء کیا تھا اُسے یہ نہیں بتایا تھا کہ اِن پرلگایا پیسا بھی دراصل انویسٹمنٹ ہی تھی ۔ جن لوگوں تک رسائی اُس کے لیے راہیں کھول سکتی تھی اُن تک پہنچنے کے لیے ’’فیک اٹ ٹِل یو میک اٹ‘‘ضروری تھا ۔رحمان بخش کے بیٹے کے دوستوں کے حلقے میں وہ ایسے تو نہیں پہنچا تھا ۔تین سال پہلے جب اُس نے اپنا ڈیفینس کا ایک پلاٹ بیچ کر رحمان بخش اور ایمپائر اسٹیس کی زمینوں کے بیچ پھنسی وہ زمین خریدنی شروع کی تھی تو کئی جاننے والوں کو اُس کی ذہنی حالت پر شبہ ہوا تھا ۔
’’ کیوں خرید رہے ہویہ زمین؟ ڈھنگ کی سڑک تک نہیں جاتی ۔ ایک طرف ایمپائر والوں نے رستہ روک رکھا ہے ۔ اور دوسری طرف رحمان بخش نے ؟ ‘‘ ایک خیر خواہ نے پوچھا تھا ۔
’’اِسی لیے تو کوڑیوں کے بھاؤ مل رہی ہے ۔‘‘وہ اطمینان سے بولا تھا ۔
’’کوڑیوں کے بھائو اِس لیے مل رہی ہے کیونکہ کوڑیوں کی ہے ۔‘‘سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی ۔
’’ہمیشہ نہیں رہے گی ۔ ‘‘ وہ اعتماد سے بولا تھا ۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ عظیم شیخ اُس کی آفر قبول کرنے والا تھا یا نہیں ‘مگر اُس کی زمین ہمیشہ کوڑیوں کی نہیں رہنے والی تھی ۔ یہ اعتماد اُس کا اب بھی قائم تھا ۔ یہ پلان نہ سہی کوئی اور سہی ‘ضرورت صرف حکمت عملی اور صبر کی تھی ۔ جلد باز وہ نہیں تھا اور پلانر تو بلا کا تھا۔
’’ عظیم شیخ کے اور کتنے پوتے پوتیاں ہیں ۔ بیٹا تو غالباًایک ہی تھا جس کی ڈیتھ ہو چکی ہے ؟‘‘اُس نے پوچھا تھا ۔
’’بس یہی ہے ایک ‘ایک پوتا تھا اُس کی بھی ڈیتھ ہو گئی تھی تین سال پہلے ۔ پوتے کی موت کے بعد بیچارے نے کوشش کی تھی ایک اور ولی عہد کے لیے بڑھاپے میں شادی کر کے مگر خوش خبری کی عمر نکل چکی ہے غالباًبڑے میاں کی۔ ‘‘ثاقب مزاق اُڑاتے ہوئے بولا تھا۔
’’ویسے اولاد کے معاملے میں بڑا بدقسمت ثابت ہوا عظیم شیخ ‘اتنا تخت و تاج کس کے لئے چھوڑ کر جا ئے گا ۔ہاہ !اوپر والے کی تقسیم جہاں اتنا کچھ ہے وہاں وارث نہیں اور جہاں پانچ پانچ وارث ہیں وہاں ایک سات مرلے کا مکان ۔‘‘ثاقب نے ٹھنڈی آہ بھرکر متوسط گھر کے پانچویں چشم و چراغ ہونے کا رونا رویاتھامگر شہریار کا دماغ اب کسی اور ٹریک پر دوڑ رہا تھا۔
’’گدی تو اہل ہی کو ملنی چاہئے ،کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی نااہل کو ملی تخت و تاج چیل ،کوؤں اور گدھوں کی نذرہو گئے۔ہر خوش قسمتی بندہ لے کر تو نہیں پیدا ہو سکتا مگر اچھی حکمتِ عملی سے اپنے لیے خود خوقسمتی کے در ضرور کھولے جا سکتے ہیں ۔‘‘ اُس عظیم و شان پلازے کی چوتھی بلڈنگ پر بیٹھا عظیم شیخ شہریار کے بزنس پلان کو جانچ رہا تھا۔اور اُس کی پارکنگ سے گاڑی نکالتے شہریار کے دماغ میں ایک نیا پلان تشکیل پانے لگا تھا۔
٭٭٭٭
وہ دن بھی ملک کے لیے روز کی طرح ایک مصروف دن تھا۔ لیپ ٹاپ کھولے وہ کچھ حساب کتاب اور کچھ سوچ بچار میں مصروف تھا۔
اچانک اُس کے فون کی گھنٹی بجی تھی ۔ باسل کا نمبر دیکھ کر اُس نے فون اُٹھایا تو دوسری طرف سے آتی آواز میں گھبراہٹ واضح محسوس کی جا سکتی تھی ۔
’’تم نے ویڈیو دیکھی ؟‘‘
’’کون سی ویڈیو ؟کیا ہوا؟‘‘اُس نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا تھا ۔
’’میں لنک بھیجتا ہوں خود دیکھ لو اور پھر بتاؤ کے کیا ہوا ہے اور کیا کرنا ہے ؟ ‘‘ باسل نے کہہ کر فون کاٹ دیا تھا ۔
اگلے ہی لمحے اُس کے واٹس ایپ پر لنک موجود تھا کوئی ویڈیو تھی جو پندرہ منٹ پہلے لائیو سٹریم ہوئی تھی ۔
’’ آپ لوگ مجھے کاشتکاری پر وی لوگنگ کی وجہ سے جانتے ہیں ۔ آج یہ میری آخری ویڈیو ہے کیونکہ اب میں کاشتکار نہیں رہا ۔ یہ دیوار جو آپ میرے پیچھے دیکھ رہے ہیں یہ دیوار میرے اور میری آبائی زمین کے بیچ کھڑی ہے ۔ ‘‘ اُس جانی پہچانی چار دیواری کے باہر فرقان حسین کھڑا تھا ۔ بے ترتیب بال ،شکن آلو، گرد آلود سا لباس ،بکھرے بال ،کھلا گریبان ۔ یہ فرقان حسین اُس فرقان حسین سے بہت مختلف لگ رہا تھا جسے اُس نے دیکھ رکھا تھا ۔ حلیے سے زیادہ جس چیز نے اُسے چونکایا تھا وہ اُس کی آنکھوں سے جھلکتی دیوانگی تھی ۔ کسی انہونی کے احساس سے اُسے اپنے رونگٹے کھڑے ہوتے محسوس ہوئے تھے ۔
’’ یہ زمین اب میری نہیں ہے ۔ میرے باپ دادا کی زمین پر اب میں قدم بھی نہیں رکھ سکتا ۔ میرے باپ نے گھٹنے ٹیک دیے ۔ جب اکلوتا بیٹا لاپتہ ہو اور بیٹیوں کو لا پتہ کرنے کی دھمکی ہو تو کوئی کھڑا رہ بھی کیسے سکتا ہے ۔ میرے باپ نے بھی دستخط کر دیے ۔ دو مہینے بعد جب مجھے حبسِ بے جاء سے رہا کیا گیا تو تمام ’’قانونی ‘‘کاروائی مکمل ہو چکی تھی ۔ ‘‘ وہ قانونی پر زور دے کر بولا تھا ۔
’’کوئی عدالت مدعا تک سننے کو تیار نہیں ‘ کوئی اخبار کوئی چینل خبر تک چلانے کو تیار نہیں ۔ ہر دروازہ کھٹکھٹا یا میں نے ‘نوکر کو اپنی تنخواہ سے غرض ہے ۔ حاکم کو اپنی کرسی سے اور قاضی ؟ اُس کا کام ہے قانون کے مطابق فیصلہ دینا‘انصا ف کرنا نہیں اور قانون تو لونڈی ہے طاقتور کے گھر کی ۔‘‘
’’اس زمین پر ہاؤسنگ سوسائٹی بنے گی اور بہت سی زرعی زمینوں کی طرح یہاں بھی امراء کے مکان بنیں گے ۔ ملکی پیداوار،غریب کی روٹی ،انصاف نا انصافی ایسی بیکار باتیں کس کے لیے مدعا ہو سکتی ہیں؟‘‘ وہ ہارے ہوئے انداز میں بول کر چند لمحوں کے لیے خاموش ہو گیا تھا ۔ پھر یکدم نظر اُٹھا کر عین کیمرے میں دیکھا تھا ۔
’’ شہریارملک … ‘‘شہریار ملک کو لگا تھا جیسے وہ اُس کو دیکھ رہا ہو ۔
’’ ٹھیک کہتے تھے تم‘یہ دنیا انصاف کے لیے بنی ہی نہیں ۔ یہاں حق وہ ہے جو طاقتور کرتا ہے اور سچ وہ ہے جو طاقتور کہتا ہے ۔مگر فرقان حسین اور شہریار ملک کے بیچ انصاف ہو گا!اِس زمین پر نہ سہی آسمانوں میں سہی !‘‘لمحے بھر کوخوف اور سنسنی کی ایک عجیب سی لہر شہریار ملک کو اپنی ریڑھ کی ہڈی سے گزرتی محسوس ہوئی تھی ۔ اگلے ہے لمحے فرقان حسین نے جھک کر زمین سے کچھ اُٹھا کر خود پر اُنڈھیلا تھا ۔ پھرجیب سے لائٹر نکال کر جلایا تھا ۔چند لمحے لگے اُسے شعلوں کی لپیٹ میں آنے کے ۔
فون کی سکرین پر پھر باسل کا نمبر جگمگایا تھا۔
’’دیکھ لی ‘اب بولو کیا کرنا ہے؟‘‘پریشانی اور جھلاہٹ کی ملی جلی کیفیت میں پوچھا گیا تھا ۔
’’ڈیمج کنٹرول ۔‘‘اُس نے چند لمحے سوچ کر جواب دیا تھا۔
’’ کیسے؟یو ٹیوب کے ڈیلیٹ کرنے سے پہلے لوگ ڈاؤن لوڈ کر کے وائرل کر چکے ہونگے ۔ کیسے کریں گے کائونٹر ؟‘‘
’’ریلیکس!حالات کے مطابق کریں گے جو کریں گے ‘پہلے تو کوشش کرتے ہیں میڈیا کم سے کم کوریج دے ‘پھر بھی اگرزیادہ ہائپ ملتی ہے تو انکوائری کمیشن بنوایا جا سکتا ہے ۔‘‘
’’اپنے خلاف تحقیق کرنے کے لیے ؟‘‘
’’نہیں اُن حق پرستوں کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے جو اپنے بیڈ روم میں بیٹھ کر کی بورڈ پر جہاد کرنے کے شوقین ہیں ۔ ڈونٹ وری زیادہ دن نہیں لگیں گے کوئی اور کہانی سامنے آجائے گی تو سب بھول بھال جائیں گے ۔ فرقان حسین کو بھی اور انکوائری کمیشن کو بھی ۔‘‘
’’ ہمم…‘‘باسل کو اُس کی بات سن کر تسلی ہوئی تھی ۔
’’مگر یار بیٹھے بیٹھے بلاوجہ مصیبت گلے پڑ گئی جان تو اُس نے اپنی ضائع ہی کرنی تھی‘خود ہی بھجوا دیتے ہم ‘ہماری اتنی پبلیسیٹی کر کے تو نا جاتا ۔‘‘
’’کہہ تو صحیح رہے ہو ‘میڈیا کامنہ بھی بند رکھنا اتنا آسان تو نہیں ہے۔ کافی بھرنا پڑے گا ۔ ‘‘اُس نے سوچتے ہوئے پیشانی کو مسلا تھا ۔
’’سارے بڑے چینلز کو اپنے آنے والے پروجیکٹس کی ایڈورٹائزمنٹ کے لیے ابھی سے رابطہ کر لیتے ہیں ۔ کاروباری تعلقات کا بھی کچھ احترام تو کریں گے ۔‘‘وہ استہزائیہ مسکراہٹ کے ساتھ بولا تھا۔
’’ہمم…ٹھیک ہے ۔‘‘ باسل کو کافی تسلی ملی تھی اُس سے بات کرکے ۔
’’باپ کو پیسے دیے تھے اسکے کون سا مفت میں لی تھی زمین ‘گلے پڑ گیا بلا وجہ ۔ ‘‘ باسل کو رہ رہ کر غصہ آرہا تھا ۔
’’اب تو جو ہونا تھا ہو گیا ‘ویسے میری چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ یہ بندہ کوئی تنازعہ لائے گا کہانی میں ۔‘‘
’’تو کروا دینا تھا نا اُس کا رول ختم اُس کے ٹویسٹ لانے سے پہلے ۔‘‘
’’ ہاہا۔کبھی کبھی کسی کردار کا رول ختم ہو جانا ہی کہانی میں ٹویسٹ لے آتا ہے ۔ اینی وے ریلیکس ‘کچھ ہو،ہا ہو بھی گئی تو تاریخ گواہ ہے کہ عوام الناس کی یاداشت ہمیشہ کمزور ہی ثابت ہوئی ہے ۔‘‘
’’اوکے چلو ایڈورٹائزمنٹ کے لیے میں الطاف صاحب سے بات کرتا ہوں۔‘‘
’’ اوکے ۔‘‘ کال کاٹ کر شہریار نے سگریٹ سلگایا تھا ۔ دھواں اُڑاتے ہوئے اُس کی نظر سامنے پڑی کرسی پر جا ٹھہری تھی ۔ چند مہینے پہلے وہاں ‘ زندگی سے بھرپور فرقان حسین بیٹھا تھا ۔ اُس نے ایک گہری سانس بھری تھی ۔پتا نہیں لوگ اتنے جذباتی کیوں ہوتے ہیں ۔نفع ،نقصان کے حساب میں اتنے کچے کیوں ہوتے ہیں ۔
٭٭٭٭