ہجرووصال : قسط نمبر 4
شکیل احمد آج صبح صبح ہی کافی چڑ چڑے ہو رہے تھے ۔دوکان پر ملازمین کو چھوٹی چھوٹی بات پر ڈانٹ پڑ رہی تھی ۔ مگر کیا کرتے پریشر ہی اتنا تھا ۔ کل ثمینہ کا پہلے نکاح اور پھر مہندی کی تقریب تھی ۔ بیٹوں کی غیر ذمہ دار فطرت سے وہ اچھی طرح واقف تھے سو سب انتظامات خود دیکھ رہے تھے ۔ فون بجا تو انجان نمبر دیکھ کر پہلے نہ اُٹھانے کا سوچا پھر یہ سوچ کر اُٹھا لیا کہ کہیں کام پر لگے بندوں میں سے کسی کا نہ ہو ۔
’’کیسے ہیں ماموں جان ؟‘‘جان پر زور دے کر بڑے میٹھے لہجے میں پوچھا گیا تھا ‘مگر شکیل صاحب کا پارہ مزیدہائی ہونے لگا تھا۔
’’ کیا بات ہے ؟ کیوں فون کیا ہے ۔ ‘‘درشت لہجے میں پوچھا تھا ۔
’’آپ کی بیٹی کی شادی ہے کل ۔ آپ نے بلایا تو نہیں پر میں نے سوچا مبارک باد دے دوں ۔‘‘وہ حظ اُٹھاتے ہوئے بولا تھا۔
’’تمہاری فضول بکواس سننے کے لیے وقت نہیں…‘‘
’’نہیں ‘نہیں ۔ماموں جان فون نہ رکھیئے گا صرف مبارک باد جیسے فضول کام کے لیے فون نہیں کیا میں نے ۔ ‘‘ وہ اُن کا ارادہ بھانپ کر بات کاٹ کر بولا تھا ۔
’’دراصل میں نے ایک بہت ضروری کام کے لیے فون کیا تھا ۔‘‘
’’اچھا؟ وہ کیا ؟‘‘طنزیہ لہجے میں استفار کیا تھا ۔
’’میرا خیال ہے اب وقت آگیا ہے کہ آپ نانا کی جائداد میں سے میرا حصہ سود سمیت مجھے واپس کر دیں۔‘‘
’’ تمہارا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ تمہاری ماں کو اچھا بھلا جہیز دے کر رخصت کیا گیا تھا ۔ وہی تھا اُس کا حصہ بس ۔ ‘‘ قطعیت سے کہا گیا تھا۔
’’ حصہ تو میر ا ہے اوراب آپ کو دینا پڑے گا ۔‘‘وہ بالکل ٹھنڈے مگر پریقین لہجے میں بولا تھا ۔
’’اچھا؟ ورنہ کیا کر لو گے ۔‘‘
’’اچھا سوال ہے یہ ! ‘‘ وہ یوں بولا تھا جیسے اُن کے سوال سے محظوظ ہوا ہو ۔
’’ یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ آپ کی بیٹی مجھے پسند کرتی تھی ؟اور یہ بھی آپ جانتے ہیں کہ میں کس قدر کمینی فطرت کا انسان ہوں ‘ایسا تو ہو نہیں سکتا تھا کہ میں موقع سے فائدہ نہ اُٹھاتا !سمجھ رہے ہیں نا آپ میری بات ؟ ‘‘ اُس کے لہجے میں کچھ ایسا تھا کہ دسمبر کے سرد سے دن میں بھی یکایک اُن کے ماتھے پر پسینہ آیا تھا۔ اور وہ انہیں ماتھے سے پسینہ پونچھتے جیسے دیکھ رہا تھا ۔
’’ارے ایسا بھی کچھ نہیں ہوا ہمارے بیچ ‘مگر آپ جانتے ہیں نا کل جگ چل رہا ہے آج کل تو ۔ یہ جو کیمرے والے فون ہیں ناں بڑی بری چیز ہیں ۔ کسی کمزور لمحے میں انسان کچھ نہ کچھ تو کر ہی بیٹھتا ہے ۔ سمجھ رہے ہیں ناں آپ ؟ ‘‘ شکیل صاحب کچھ نہ کچھ تو سمجھ ہی گئے تھے اِس لیے انہونی کے خوف نے انہیں سن کر دیا تھا ۔
’’ آپ کی بیٹی نے میری فرمائش پر کافی تصویریں بھیجی ہیں ۔ میری پسند کے کپڑوں میں بھی اور اُن کے بغیر بھی ‘ پوز بھی سارے …‘‘
’’ بکواس بند کرو ۔‘‘شکیل صاحب کے کانوں کی لویں سرخ ہونے لگیں تھیں ۔
’’ بکواس میں بھی زیادہ نہیں کرنا چاہتا … بس اب بچی سے جو غلطیاں ہو چکیں ‘ہو چکیں۔ اُن کا کیا زیادہ ذکر کرنا ۔ اب والد کی حیثیت سے آپ دل بڑا کر کے اُس کی غلطیوں کا کفارہ ادا کر دیجئے ۔ ‘‘وہ بڑے مدبرانہ انداز میں بولا تھا ۔ شکیل صاحب کا تو دماغ ماؤف ہو رہا تھا ۔کل شادی تھی اُس بے غیرت کی اور آج…
’’ ورنہ ایسا ہے کہ…میرے پاس سب کے نمبر ہیں ۔ آپ کے ہونے والے داماد کا ،سمدھی کا ،خاندان کے سارے لوگوں کے، گلی کے سارے لونڈے لپاڑوں کے ،حتیٰ کہ آپ کی دوکان کے ملازمین کے بھی ۔ چند لمحے لگیں گے اور سب کے سب آپ کی بیٹی کے جلووں سے لطف اندوز ہو جائیں گے ۔ ‘‘شکیل صاحب کی نظریں بے ساختہ ہی کام کرتے اپنے ملازم کی جانب اُٹھیں تھیں اور انہیں جھرجھری آگئی تھی ۔
’’کیا چاہتے ہو تم ؟‘‘وہ بے بسی کی انتہاہ پر تھے ۔
’’نارتھ ناظم آباد والا بنگلہ… ‘‘
’’وہ تو تمہاری ماں کے حصے سے زیادہ ہے ۔‘‘
’’ میں نے کیا ہے سارا حساب کتاب ‘اتنا کوئی زیادہ فرق نہیں اور یوں بھی اور بھی کافی حساب نکلتے ہیں میرے‘ آپ کی طرف ۔‘‘
شکیل صاحب کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کریں۔ایک طرف عزت تھی اور دوسری طرف قیمتی پراپرٹی ۔ شاید ایسی ہی بیٹیوں کے خوف سے لوگ بیٹیوں کو زندہ دفناتے ہوں گے ۔ اُن کا جی چاہ رہا تھا جا کر اپنے ہاتھوں سے گلا گھونٹ دیں ثمینہ کا ‘ اور گھونٹ بھی دیتے مگر ذلت تو اُس صورت میں بھی تاک میں بیٹھی تھی ۔ اگر وہ پولیس سے مدد لیں ؟مگر بات تو اُس صورت میں بھی نکل سکتی تھی۔
’’اچھا میں دیکھتا ہوں ۔‘‘انہیں سوچنے کے لیے کچھ وقت درکار تھا ۔مگر یہ وقت ہی تو شہریار انہیں نہیں دینا چاہتا تھا ۔
’’نہیں ’’ماموں جان ‘‘آپ کو کچھ دیکھنے کرنے کی ضرورت نہیں ۔ سب انتظام میں کر چکا ہوں ،خریدار تیار ہیں،کاغذات تیار ہیں ‘تمام قانونی کاروائی ہو چکی آپ کو صرف دستخط کرنے ہیں اور بیان حلفی جمع کرانا ہے ۔ اُس کی بھی تیاری میں کر چکا ہوں ۔آپ بس آدھے گھنٹے میں کچہری پہنچیں ۔‘‘
’’میں ابھی تو…‘‘
’’جی ابھی بالکل ابھی نکلیں … آپ کی دوکان سے کچہری تک بیس منٹ لگتے ہیں میں آپ کو آدھا گھنٹہ دے رہا ہوں ‘ بس آدھا گھنٹہ ۔‘‘اُس کا لہجہ اب دھمکی آمیز تھا ۔
’’زیادہ دماغ چلانے کی کوشش کریں گے تو اپنا نقصان کریں گے ۔ جا نے کو تو آپ پولیس کے پاس بھی جا سکتے ہیں ۔ کافی سنگین جرم ہے یہ ۔ مجھے سزا بھی ہو سکتی ہے ‘لیکن اگر جیل میں جاؤں گا تو اتنا انتظام میں کر چکا ہوں کہ سزا پھر نا حق نہ ہو ۔ سو ایسی حرکت اُسی صورت میں کیجیے گا جب اتنا دل گردہ ہو کہ اُن رشتے داروں اور جاننے والوں کا سامنا کر سکیں جو آپ کی بیٹی کی عریاں ،فحش تصویریں دیکھ چکے ہوں۔‘‘شکیل صاحب کے کندھے جھک گئے تھے ۔اتنی ہمت اُن میں نہیں تھی ۔
’’ اور یاد رکھیئے گا ‘میں جیل چلا بھی گیا تو کچھ سال میں واپس آؤں گا ۔ یہ جنگ دوبارہ لڑنے اور تب تک لڑوں گا جب تک جیت نہ جاؤں ۔ ہارنے کے لیے تو میرے پاس یوں بھی کچھ نہیں ہے۔‘‘ نفسیاتی دباؤ میں وہ کوئی کسر چھوڑنے کو تیار نا تھا۔
’’ اِس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ تم یہ گھر لینے کے بعد ہمیں تنگ نہیں کروگے ۔ ‘‘ جو جانا تھا وہ توجا رہا تھا ہاتھ سے‘ آگے کے اندیشے بھی ڈرا رہے تھے ۔
’’گارنٹی تو کوئی نہیں ۔ ہاں اگر میری زبان پر آپ یقین کر سکتے ہیں تو کر لیں ۔ ‘‘ وہ لاپرواہی سے بولا تھا ۔
’’میری نظر میں گناہگار آپ ہیں ‘آپ کی بیٹی نہیں ۔ آپ اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیں تو مجھے بلاوجہ کی دشمنیاں پالنے کا شوق نہیں ۔ ‘‘ اعتبار تو اُس کی زبان کا وہ کیا کرتے مگر اِس وقت چارہ کیا تھا اُن کے پاس ۔ آنے کی حامی بھری اور ٹھیک آدھے گھنٹے بعد وہ وکیل کے دفتر میں بیٹھے کاغذات پر یوں دستخط کر رہے تھے جیسے کوئی ہارا ہوا سپاہ سالار جنگ بندی کے معاہدہ پر کرتا ہے ۔ اور اُن کے چہرے کے بے بس تاثرات دیکھتے ہوئے شہریار کے رگوں میں پہلی بار جیت کا مزا ہی نہیں طاقت کا نشہ بھی اُترا تھا۔
٭٭٭٭
وہ رئیل اسٹیٹ کے ایک ایجنٹ کے دفتر میں بیٹھا اُسے نوکری کے لیے’’ انٹرویو‘‘دے رہا تھا ۔
’’بی بی اے کیا ہوا ہے تم نے ؟‘‘
’’جی‘ابھی فائنل سمسٹر کا رزلٹ نہیں آیا ۔‘‘اُس کے جواب پر رئیل اسٹیٹ ایجنٹ نے کچھ سوچتے ہوئے سر ہلایا تھا ۔
’’دیکھو بھائی !یہ نوکری کوئی بابو والی نوکری نہیں ۔ چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے بھاگ دوڑ کرنی ہوگی بغیر کسی نخرے کے‘کلائنٹ کو سائٹ وزٹ کرانی ۔ آفس کے چھوٹے موٹے کام ‘چائے ،بوتل لانا بھی اُن میں شامل ہے ۔ کر سکتے ہو تو بولو۔‘‘
’’ جی کوئی مسئلہ نہیں …‘‘وہ مسکرا کر تابعداری سے بولا تھا ۔
’’ ہوشیار لگتے ہو ویسے ‘چلو کل سے آجانا کام پر ۔ ‘‘وہ مسکرا کر بولا تو شہریار شکریہ ادا کرتا اُٹھ گیا تھا ۔
یہ کل سے چوتھا رئیل اسٹیٹ کا دفتر تھا جہاں وہ گیا تھا ۔ وہ گھر کی سیل سے حاصل شدہ رقم سے پلاٹ خریدنا چاہتا تھا ۔ اُس نے سن رکھا تھا کہ ڈیفنس کے کمرشل پلاٹوں کی قیمت بہت جلدی بڑھتی ہے ‘مگر خریدنے سے پہلے تحقیق کی غرض سے کئی رئیل اسٹیٹ ایجنٹس سے ملا تھا ۔ سب کی کہانیوں میں اپنے فائدہ کے اعتبار سے کچھ نہ کچھ فرق تھا۔ اِس آخری دفتر کے باہر اُس نے ’’ضرورتِ اسسٹنٹ‘‘ کا اشتہار پڑا تو بجائے مناسب پلاٹ کے بارے میں معلومات کرنے کے نوکری کی درخواست دے دی ۔اگلے دن سے حسب وعدہ نوکری شروع بھی کر دی ۔
چھ مہینے کے بعد اُس نے جب ’’چھوٹے ‘‘ کی یہ نوکری چھوڑی تو نہ صرف اپنے لیے دو ایسے پلاٹ خرید چکا تھا جن کی قیمت کو ڈبل ہونے میں سال سے کم عرصہ لگا تھا بلکہ رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کے پیچ و خم سے بھی کافی حد تک آشنائی حاصل کر چکا تھا ۔
آج چھ سال بعد وہ پھر ایک ’’انٹرویو‘‘دے رہا تھا مگر آج یہ انٹرویو ایک شاندار دفتر میں ہو رہا تھا ۔ اور سامنے بیٹھا شخص عظیم شیخ تھا جس کا شمار ملک کے بڑے سرمایہ داروں میں ہوتا تھا ۔ اِس دس منٹ کی ملاقات کے لیے اُس نے تین مہینے انتظار کیا تھا ۔ اُسے کسی باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا تھا کہ عظیم شیخ رئیل اسٹیٹ میں انویسٹ کرنے میں دلچسپی رکھتا تھا ۔ شہریار کافی عرصے سے ایسے ہی کسی سرمایہ دار اور مناسب وقت کی تلاش میں تھا ۔ عظیم شیخ نے سیاہ سوٹ میں ملبوس ذہانت سے چمکتی آنکھوں والے ستائیس سالہ نوجوان کو جانچتی نظروں سے دیکھا تھا ۔ جو اُس کے لیے ایک بزنس پروپوزل لایا تھا ۔
’’تمہاری بات یہاں تک تو سمجھ میں آتی ہے کہ یہ زمین ہاؤسنگ سوسائٹی کے لیے آئیڈیل ہے ‘مگر یہاں ہاؤسنگ سوسائٹی ہی بن رہی تھی جو تنازعات کا شکار ہو گئی ۔ دونوں پارٹیز تگڑی ہیں ’’نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے‘‘ پر دس سال سے قائم ہیں ۔ جہاں تک میری اطلاعات ہیں اپنی اپنی زمین بیچنے کی کئی آفرز ٹھکرا چکی ہیں ۔ ‘‘ عظیم شیخ اُسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
’’اب مجھے لگتا ہے کہ فاردا رائٹ پرائس بیچ دیں گے ۔‘‘اُس کا لہجہ پراعتماد تھا۔
ایک نامی گرامی رئیل اسٹیٹ کمپنی ’’ایمپائر سٹیٹس ‘‘نے بارہ سال پہلے ایک مقامی جاگیرداررحمان بخش کے ساتھ مل کر شراکت داری میں اِس ہاؤسنگ سوسائٹی کی بنیاد رکھی تھی ‘ مگر آپسی اختلافات کی وجہ سے بیل منڈھے نہ چڑھ سکی ۔ تمام تر اثر و رسوخ کے باوجود کمپنی کے لیے رحمان بخش کو راستے سے ہٹا نا نہ ممکن تھا کیونکہ رحمان بخش خود بھی کوئی معمولی آدمی نہیں تھا ۔ سیاسی خاندان سے تعلق تھا ‘خود صوبائی اسمبلی کا ممبر رہ چکا تھا ۔ اُس کے گھٹنے ٹیکنے کا انتظار کرتے کرتے اب کمپنی تھک گئی تھی ‘مگر دوسری طرف رحمان بخش بھی جلد باز بیٹوں کے سامنے وقت کے ساتھ کمزور پڑتا جا رہا تھا ۔ جن کے لیے اب لاکھوں کی فصلیں کافی نہیں تھی ‘کم وقت میں بہت سارا پیسہ چاہیے تھا ۔ شہریار کو یہ خبریں کچھ گھر کے بھیدی دے رہے تھے جن سے اُس نے تعلقات اِس کیس میں دلچسپی ہی کی وجہ سے بڑھائے تھے ۔
’’اگر رحمان بخش زمین بیچے گا تو ایمپائر اسٹیس سے بہتر قیمت تو اُسے کوئی نہیں دے گا ؟ پھر وہ انہیں ہی کیوں نہیں دے گا؟‘‘
’’ دے سکتا ہے ‘مگر اِس کے چانسز کم ہیں ۔ ایک تو رحمان بخش انا کا مارا ہوا ہے ۔ دوسری بات ایمپائر اسٹیٹس کے پاس اِس وقت لیکیوڈٹی کی فراوانی نہیں ہے ۔ وہ لاہور میں جو پراجیکٹ شروع کر رہے ہیں ‘ وہ میگا پراجیکٹ ہے ۔ اُن کا فوکس اِس وقت وہی ہے ۔ بلکہ میری اطلاعات کے مطابق وہ اِس ڈیڈ پراجیکٹ سے پیسہ نکال کر وہیں انویسٹ کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
گوعظیم شیخ کی شہرت کاروباری طبقوں میں ایک رسک ٹیکر کی تھی۔ یہی مہم جوئی کا شوق ہی تھا جس نے اُس کے وراثت میں ملے ایک لیدر ٹیننگ کے ا کارخانے کو عظیم انٹرپرائزز میں بدلا تھا‘ جس کے بینر تلے اب دسیوں مختلف کاروبار چل رہے تھے ۔ یہ بھی ٹھیک تھا کہ گزشتہ کچھ عرصے سے رئیل اسٹیٹ میں اُسے کافی دلچسپی محسوس ہو رہی تھی مگر پچھتر سال کی عمر میں ایک نئے کاروبار میں ہاتھ ڈالنا بہرحال کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا ‘ پھر ایک کم عمر لڑکا جس کے اپنے کریڈیٹ پر صرف قابلِ ذکر بات دو سال مینجریل پوسٹ پر ایک رئیل اسٹیٹ ڈیویلپمنٹ کمپنی میں نوکری تھی ،اُس کی بات کو کس حد تک سنجیدگی سے لیا جا سکتا تھا؟
’’ چلو فرض کرو … اگر وہ دونوں پارٹیز زمین بیچ دیتی ہیں اور میں خرید بھی لیتا ہوں ۔ تو صرف بیس فیصد زمین کی خاطر میں تمہیں پارٹنر کیوں بناؤں گا ؟ جہاں میں اُن کا اسی فیصد خرید سکتا ہوں وہاں تمہارا بیس فیصد بھی خرید سکتا ہوں ۔ ‘‘
’’آف کورس آپ خرید سکتے ہیں مگر میں بیچوں گا نہیں ۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا ۔
’’اور میری وہ تھوڑی سی زمین بائے پاس کر کے بنایا جائے تو زبردستی بن تو جائے گی پر وہ بات نہیں رہے گی ۔ کچھ رابطے بھی ہیں میرے جن کے ذریعے میں آپکی ڈیل فیسیلیٹیٹ کر سکتا ہوں دونوں پارٹیز کے ساتھ ‘نہیں توکسی اور کو بھی بیچ سکتے ہیں ۔ ‘‘دھیمے سے انداز میں اُس نے عظیم شیخ کو اپنی اہمیت کا احساس دلایا تھا۔
’’اوکے ‘آئی ول لیٹ یو نو ۔‘‘ عظیم شیخ نے مسکرا کر ملاقات ختم کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ وہ کھڑا ہوا تو الوداعی مصافحہ کے لیے ہاتھ عظیم شیخ نے بڑھایا تھا ۔
’’میں پچھلے چھ سال سے مختلف پوزیشنز میں اِسی انڈسٹری میں کام کر رہا ہوں ۔ میری زمین ہی نہیں میرا تجربہ بھی مفید ثابت ہو سکتا ہے آپ کے لیے۔‘‘وہ ہاتھ تھامتے ہوئے بولاتھا۔
’’تھینک یو ویری مچ فار یور ٹائم سر ۔‘‘
عظیم شیخ نے کمرے سے باہر جاتے شہریار کی پشت کو پرسوچ نظروں سے دیکھا تھا ۔ دس منٹ پہلے جب یہ نوجوان ہاتھ میں فائل اُٹھائے اُس کے آفس کے اندر آیا تو اُس نے اُسے ایسے ہی دیکھا تھا جیسے ایک منجھا ہوا ماہر ایک طفل مکتب کو دیکھتا ہے ۔ اُس کے شوق پر مسکراتے ہوئے ،اُس کی کوشش کو سراہتے ہوئے اُس کو اُس کی حدود یاد دلاتا ہے اور اپنی کامیابی کا سفر فخر سے سناتا ہے اور پھر دریا دلی سے قیمتی مشوروں کے ساتھ رخصت کرتا ہے ۔ کچھ ایسی ہی ملاقات اُس کے ذہن میں تھی ‘مگر پورا مدعا جاننے اور اُس سے بات کرنے کے بعدوہ اُس کے پروپوزل پر سنجیدگی سے سوچ رہا تھا ۔شاید اِس لیے کہ اُس لڑکے میں کچھ ایسا تھا جو اُسے پچاس سال پرانے عظیم شیخ کی یاد دلا گیا تھا ۔