ہجرووصال : قسط نمبر 4
’’چلو بھئی پریٹی وومن ، آرڈر لو جا کر اپنے رچرڈ گیئر سے ۔‘‘ اُسے ایک ساتھی نے آکر کہا تھا ۔ پہلی بار نازنین کو احساس ہوا تھا کہ ’’پریٹی وومن ‘‘ (رچرڈ گیئر کی فلم پریٹی وومن کی ہیروئن ) تو دراصل ایک طوائف تھی ۔ اُسے پریٹی وومن کہہ کر اُسے دراصل ایک طوائف سے ملایا جاتا تھا ۔ پہلے کبھی یہ بات اُسے بری کیوں نہیں لگی ؟
’’ میں دوبارہ آپ کو سرو نہیں کروں گی ‘کیونکہ میں کمفرٹیبل نہیں ہوں ۔ آپ کو میری شکایت کرنی ہو تو کر لیں مینیجر سے ۔ ‘‘وہ اُس کے پاس جا کر دو ٹوک انداز میں بولی تھی ۔
’’نہ میں یہ چاہتا ہوں کے تم مجھے سرو کرو ‘ نہ ہی تمہاری شکایت کرنا چاہتا ہوں ۔ ‘‘وہ اپنے ٹھہرے ہوئے انداز میں مدھم مسکراہٹ کے ساتھ بولا تھا ۔
’’ پھر ؟ ‘‘نازنین نے اُسے نہ سمجھی سے دیکھا تھا ۔
’’شادی کرنا چاہتا ہوں میں تم سے ۔ ‘‘ نازنین اُس کے سنجیدگی سے کہنے پر ششدر کھڑی رہ گئی تھی ۔
٭٭٭٭
وہ ایک سرکاری دفتر سے مایوس پلٹ رہا تھا ۔ جو وہ چاہ رہا تھا ہو نہیں پا رہا تھا ۔ کام ہو جانے کے بعد مکمل پیمنٹ کے وعدے پر اُس نے وکیل کو تو کسی حد تک راضی کر لیا تھا مگر اِن سرکاری دفتروں میں پہلے دام پھرکا م کارواج تھا ۔ وہ مایوس سا ریسٹورنٹ کے قریب ترین سٹاپ پر اُتر رہا تھا ۔ جب اُس نے نازنین کو کسی کی گاڑی میں بیٹھتے ہوئے دیکھا ۔ اِس شخص کو وہ ریسٹورنٹ میں کئی بار دیکھ چکا تھا ۔ پچپن کے لگ بھگ عمر کا گریس فل شخص تھا ۔ امارت نفیس لباس ہی سے نہیں عادات واطوار سے بھی جھلکتی تھی مگر تھاوہ نازنین کے متاثرین میں سے ۔
وہ اب فرنٹ سیٹ پر بیٹھی بلو ڈرائی بالوں کو ادا سے ایک طرف کرتی اُس سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی ۔ گاڑی زن سے اُس کی آنکھوں سے اوجھل ہوئی تھی ۔ مگر وہ ایک پھانس سی دل میں لیے کچھ دیر وہیں کھڑا رہ گیا تھا ۔ شام ڈھلنے کو تھی ۔ وہ اِس وقت اُس کے ساتھ کہاں گئی ہو گی ؟
کیا وہ اب اپنی نظر میں اتنی ارزاں ہو گئی تھی کہ مسکراہٹوں سے زیادہ کے دام وصولنے لگی تھی ؟ ریسٹورنٹ کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے اُسے اپنا دل درد کی ایک لہر کی لپیٹ میں محسوس ہوا تھا ۔ وہ دل، جسے اپنی دانست میں وہ ،کب کا اپنی ماں کی قبر میں اُس کے ساتھ دفنا چکا تھا ۔
٭٭٭٭
اخبار کے ایک کونے میں چھوٹی سی خبر لگی تھی ۔ ایک باپ بیٹی کو دن دھاڑے قتل کر دیا گیا تھا اور یہ دوہرا قتل ایک زمین کے ٹکڑے کی خاطر ہوا تھا ۔ ایک بااثر گروپ نے مقتولین کی زمین پر دعویٰ کر رکھا تھا ۔ دعویٰ کیا ؟ گزشتہ سال اُن کی فصل تک بیچ کر قیمت وصول کر چکا تھا ۔ مگر چند دن پہلے کسی سر پھرے جج نے فیصلہ مقتولین کے حق میں دے دیا تھا ۔ اور جج کی اِس’’ بد دماغی ‘‘کی قیمت کیس جیتنے والوں کو اپنا خون دے کر چکانی پڑی تھی ۔ خبر تو دکھ کی تھی ۔ ملک کو بھی پڑھ کر کوئی خوشی نہیں ہوئی تھی ۔ اب اتنا بھی وہ سنگ دل نہ تھا کہ ایک باپ بیٹی کے دن دھاڑے قتل کی خبرپڑھ کر خوش ہوتا ۔ مگر بہر حال بقول اُس کے ، اُس کا دنیا کو دیکھنے کا نقطہ نظر بہت مثبت تھا ۔
وہ اُن لوگوں میں سے تھا جوسانحات میں مواقع ڈھونڈنے پر یقین رکھتے ہیں ۔ زمین اُن کے کام تو نہ آسکی تھی جن کی تھی، مگر اُس کے کام تو آسکتی تھی ۔ اور وہ اُن کے کام آسکتا تھا جو اُس زمین کے دعویدار تھے ۔ جانے والے جا چکے تھے ۔ جو پیچھے رہ گئے تھے اُن کا تو ’’حالات ‘‘سے حسبِ تو فیق فائدہ اُٹھانا بنتا تھا ۔
٭٭٭٭
بہت دنوں بعدآج وہ اور نازنین ایک شفٹ میں کام کر رہے تھے ۔
’’ چلو اچھا ہوا تم آگئے آج ۔‘‘وہ اُسے دیکھ کر مسکرائی تھی۔
’’ کیوں آج کیا خاص بات ہے ؟‘‘
’’ بھئی آج میرا جاب پر آخری دن ہے ۔ آخری شفٹ میں میرے ساتھ کام کرنے کے شرف سے محروم رہ جاتے تم ۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے ہلکے پھلکے لہجے میں بولی تھی ۔ مگر وہ مسکرا نہیں پایا تھا ۔
’’کیوں چھوڑ رہی ہو تم نوکری ؟‘‘ دل میں اندیشوں نے سر اُٹھایا تھا ۔
’’بھئی ساری عمر ویٹرسنگ تو نہیں کرنی تھی میں نے ۔ ‘‘شہریار کے سنجیدہ تاثرات دیکھ کر اُس کی مسکراہٹ بھی تھم گئی تھی ۔
’’شادی کر رہی ہوں میں۔‘‘وہ دھیرے سے بولی تھی ۔شہریار فیصلہ نہیں کر پایا تھا کہ اُسے اِس لمحے زیادہ شدت سے کیا محسوس ہوا تھا ۔ اپنے بد ترین اندیشے غلط ثابت ہونے کا اطمینان یا دل میں پھیلتا اندھیرا ۔
’’کس سے کر رہی ہو شادی ؟وہی جس کے ساتھ آج کل ڈیٹنگ چل رہی ہے یا کوئی اور ؟‘‘
’’اب اتنی بھی دو نمبر نہیں ہوں میں کہ شادی کا پلان کسی اور کے ساتھ بنا کر کسی اور کے ساتھ گھومتی پھرتی رہوں‘وہی ہے ۔‘‘
’’نہ کرو اُس سے شادی ۔ ‘‘وہ سنجیدہ لہجے میں بولا تو نازنین نے اُسے چونک کر دیکھا تھا ۔ پتا نہیں لمحے بھر کو واقعی اُس کی آنکھوں میں کوئی بے نام اُمید ،کوئی ان دیکھی خواہش چمکی تھی یا پھر وہ شہریار کا وہم تھا ‘پرجو بھی تھا زیادہ دیر اُس کی آنکھوں میں ٹھہر نہیں پایا تھا ۔ خواب دیکھنے کی ،خواہش کرنے کی آزادی بھی زندگی ہمیشہ کب دیتی ہے ۔
’’کیوں ؟‘‘اُس نے اُداس سی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا تھا ۔شہریار یکایک اپنے لہجے میں لا پرواہی در لایا تھا ۔
’’ یار !تھوڑا اِس سے زیادہ عمر کا بندہ ڈھونڈو ۔ ہٹا کٹا ہے یہ‘ اتنے جلدی جان نہیں چھوڑے گا ۔ کیا فائدہ ہو گا امیر بیوہ بننے کا اگر اُس پیسے کو انجوئے کرنے کے لیے جوانی ہی نہ بچی ؟ ‘‘ شہریار کی بات پر اُس کے ہونٹوں کی مسکراہٹ سکڑی تھی اور آنکھوں کی اُداسی پھیلی تھی ۔
’’ میرا باپ یوں تو ڈیڑھ سال پہلے مرا ہے مگر ہمارے لیے وہ دس سال پہلے مر گیا تھا ! اچھا دن تھا وہ کافی مگر … بدقسمتی سے تب تک وہ پانچ بچے پیدا کر چکا تھا ۔ ‘‘ وہ تھوڑا سا ہنسی تھی ۔پھر سنجیدہ ہو گئی تھی۔
’’میں سب سے بڑی ہوں ۔مجھ سے چھوٹی ایک بہن ہے پھر ایک بھائی ہے ، دونوں پٖڑ ھائی کے بہت شوقین ہیں ۔ میں چاہتی ہوں ایک موقع انہیں مل جائے زندگی کو بہتر بنانے کا ۔ چھوٹے دو بہن بھائی جڑواں ہیں ۔ اُن کا کچھ بچپن ابھی باقی ہے ،میں چاہتی ہوں وہ بچا لوں ۔ ‘‘ اُس کے لہجے میں نمی در آئی تھی جسے لمحے بھر کو اُس نے خاموش ہو کر پیا تھا ۔ پھر اُس کے ہونٹوں پر ایک اُداس سی مسکراہٹ آئی تھی ۔
’’اِس جوانی کے بدلے میرے پاس بچانے کے لیے بہت کچھ ہے ‘یوں بھی مجھ جیسی لڑکی کی مارکیٹ ویلیو سے زیادہ ہی قیمت دے رہا ہے ۔نکاح بھی کر رہا ہے بھلے خفیہ ہی سہی ۔ ‘‘وہ اپنی آڈر بک میز سے اُٹھا کر اُٹھ کھڑی ہوئی تھی ۔ اور پلٹ کر ہال کی جانب چل دی تھی ۔
’’ نازنین !‘‘اُس نے آواز تو دی تھی ،مگر وہ پلٹی تو کچھ کہہ نہیں پایا تھا ۔ اُس کی سوالیہ نظروں کے جواب میں بس نفی میں سر ہلا کر رہ گیا تھا ۔ وہ بھی کچھ کہے بغیر دوبارہ چل دی تھی ۔ وہ کہتا تو کیا کہتا ؟ روکتا تو کیونکر روکتا ، اور اگر روک بھی لیتا تو کیا وہ رک جاتی ؟ اور اگر رک بھی جاتی تو آگے کیا ہوتا ؟ محبت ہر ایک کی منزل نہیں ہوتی اور نہ ہر بار ہم سفر بن سکتی ہے ۔ کبھی کبھی اُسے اپنا لیا جائے تو پاؤں کی بیڑی بن جاتی ہے ۔ راہ کی رکاوٹ بن جاتی ہے ۔ ایسے میں خرد مند،سود و زیاں کا حساب رکھنے والے لوگ اُس سے دامن بچا کر، نظرچرا کر گزر جاتے ہیں ۔ یہ فیصلہ پھر وقت کرتا ہے کہ ہاتھ میں سود آیا یا زیاں۔
٭٭٭٭
نفیس احمدکی طبیعت اچانک ہی خراب ہوئی تھی ۔ شوگر کا عارضہ تو کافی عرصے سے لاحق تھا ‘بلڈ پریشر بھی کبھی کبھی ہائی ہو ہی جاتا تھا ۔کھانے اور اچھا کھانے کا شوق صحت کی راہ میں کافی حد تک حائل تھا ۔ مگر آج کھانے کے بعد بدہضمی کے لیے دوا کی آدھی شیشی پی لینے کے بعد بھی آرام نہ آیا بلکہ درد مزید بڑھ گیا تو شہریار اُس کو لیے ہسپتال آگیا تھا ۔
یہاں آکر بد ہضمی دل کا دورہ نکلی تھی ۔ فوری طور پر اُسے داخل کیا گیا تھا ۔ جانچ پڑتال کے بعد پتا چلا تھا کہ دل کا دورہ کافی شدید تھا جس کی شدت شوگر کی تباہ کاری کی وجہ سے اُتنی محسوس نہیں ہوئی تھی ۔ مزید نقصان سے دل کو بچانے کے لئے فوری طور پر خون کی بند شریانیں کھولنے کے لیے آپریشن کیا گیا تھا ۔ چھتیس گھنٹوں میں ہسپتا ل کا بل لاکھوں میں پہنچ گیا تو نفیس احمد نے اُسے بینک سے پیسے نکالنے کے لیے چیک دیا تھا ۔ شہریار کو حیرت ہوئی تھی ۔ اُس نے اپنے کسی دوست کو کیوں نہیں بلایا ؟ اتنا اعتبار ؟اتنا اعتبار تو وہ کبھی خود پر نہ کرتا ۔
چیک لے کر وارڈ سے نکلنے سے پہلے ہی اُس کے رہے سہے ضمیر اور موقع پرست دماغ کے بیچ رسہ کشی شروع ہو چکی تھی اور پھر بینک سے نکلے تازہ نوٹوں کی خوشبو نے دماغ کو جیتنے میں مدد کی ۔ نفیس احمد کے اکائونٹ میں یقیناََ مزید رقم موجود ہو گی ‘وہ اپنے کسی دوست کو مدد کے لیے بلا لے گا ۔ اِن پیسوں کی ضرورت اُسے نفیس احمدسے کہیں زیادہ ہے ۔ وہ اپنا کام بن جانے کے بعد پیسے اُسے واپس کر دے گا ۔ ضمیر کو دینے کے لیے اُس کے پاس تسلیاں بہت تھیں ۔ وہ بینک سے نکلا تو ہسپتال نہیں گیا تھا ۔ اپنے کپڑے اور سامان اُٹھانے نفیس کے اپارٹمنٹ چلا آیا تھا ۔
یونیورسٹی تو وہ یونہی کچھ عرصے سے نہیں جا رہا تھا ۔ ریسٹورنٹ سے بھی چھٹی لے کر منظر عام سے کچھ دنوں کے لیے غائب ہو گیا ۔ اُس کے رکے کام روپے کا ایندھن پڑتے ہی چل پڑے تھے ۔ نفیس احمد کا حال جاننے کی دل میں بے چینی تو ضرور تھی مگر وہ کسی قسم کا رسک نہیں لینا چاہتا تھا ۔ پھر اُس نے خبر نہیں لی مگر اُس تک خبر پہنچ گئی ۔ نفیس احمد کا انتقال ہو گیا تھا ۔ فیس بک پر ایک کالج کے کلاس فیلو نے خبر شئیر کی تھی ۔
مختلف لوگوں کے کومنٹ کرنے کے بعد مزید تفصیلات سامنے آئیں تو پتا چلا وہ اُسی رات چل بسا تھا ۔ کسی رشتے دار ،عزیز سے رابطہ نہ ہو پانے کی وجہ سے لاش دو دن سرد خانے میں پڑی رہی ۔ دو دن بعد کسی دوست کو پتا چلا تو دفنانے کا اہتمام ہوا ۔ کچھ لوگوں نے پوسٹ پر اظہار افسوس کیا ۔ کچھ نے ایسے انجام کو مذہب سے دوری کا شاخسانہ قرار دیا ۔ اُس کے دل کے کسی کونے میں احساسِ ندامت نے سر ضرور اُٹھایا تھا ۔ آخر نفیس احمد اُس کا محسن تھا مگر ایک تسلی سی بھی دل کو ہوئی تھی کہ اُس پر کسی قسم کے فراڈ یا چوری کا مقدمہ کرنے والا اب کوئی نہیں بچا تھا۔
٭٭٭٭
نازنین نے اپنا آپ ڈریسنگ روم کے قدآور آئینے میں دیکھا تھا ۔دھلا ہوا چہرہ ،گیلے بال ۔ کیا نو بیاہتا دولہنیں ایسی ہی لگتی ہیں ؟ یا اُن کی آنکھیں اتنی خالی نہیں ہوتیں ۔ اُس نے عام لڑکیوں کی طرح دولہن بننے کے خواب نہیں دیکھے تھے ۔ اُسے خود کو اور اپنے گھروالوں کو غربت سے نکالنے کے خواب دیکھنے سے فرصت ہی کہاں ملی تھی ‘مگر پھر بھی کچھ آرزوئیں تو لاشعوری طور پر ہی در آئیں تھیں اس کے اندر ۔ وہ جو سمجھی تھی کہ کم عمر بیوی کے چاؤ چونچلے اُٹھائے گا اُس کا شوہر ،ویسا کچھ نہیں ہوا تھا ‘بلکہ نکاح کے بعد جو حاکمیت اُس کے انداز میں در آئی تھی وہ اُسے کچھ ڈرا رہی تھی ۔ وہ کپڑے بدل کر لاکر کھولنے کی کوشش کر رہی تھی ۔ اپنے شوہر کے کہنے پر اُس نے اپنا زیور ،سیونگ سرٹیفیکیٹس اور اپنے نام ہوئے فلیٹ کے کاغذات اُس لاکر میں رکھ دیے تھے ‘مگر اب وہ اُس کی دی چابی سے کھل ہی نہیں پا رہا تھا ۔
’’سنیں یہ لاکر نہیں کھل رہا ؟ ‘‘اُس نے پریشان ہو کر پوچھا تھا ۔
’’ کیا کرنا ہے کھول کر ؟‘‘سامنے سے اُلٹا سوال آیا تھا ۔ نازنین کا دل ڈوبنے لگا تھا ۔
’’جیولری نکالنی ہے پہننے کے لیے ۔‘‘
’’اپنی ماں کی طرف جا رہی ہو ۔ وہاں اتنا قیمتی زیور پہننے کی کیا تک ہے ۔ جہاں پہننے کی ضرورت ہو گی وہاں کے لیے مل جائے گا ۔‘‘
’’ٹھیک ہے نہیں پہن کر جاتی مگر ‘لاکر تو کھول دیں مسئلہ کیا ہے اِس کے ساتھ ؟ چابی تو لگ ہی نہیں رہی ؟‘‘
’’مسئلہ یہ ہے کہ … میرے ساتھ پہلے ہی قدم پر دھوکہ ہو چکا ہے۔‘‘ وہ اُس کے وجود پر معنی خیز نظر ڈال کر بولا تھا ۔
نازنین کا چہرہ سرخ ہوا تھا انکھیں اذیت سے بھر آئیں تھیں مگر کیاکہتی ؟غلط تو وہ بھی نہیں کہہ رہا تھا ۔
’’ اگر تم یہ سمجھتی ہو کہ تم کل کی بچی مجھے اپنی ناز و ادا سے انگلیوں پر نچا لو گی ‘تو تم خود کو اوور سمارٹ سمجھ رہی ہو ۔ یہ لاکر اب تبھی کھلے گاجب مجھے یہ یقین ہو کہ تم سب مال متاع سمیٹ کر رفو چکر نہیں ہو جاؤ گی ‘میں آفس کے لیے نکل رہا ہوں ۔ ڈرائیور چھوڑ آئے گا تمہیں جاتے ہوئے مجھ سے اپنے گھر والوں کے لیے مہینے کا خرچا لے جانا ۔ ‘‘ وہ کف لنکس بند کرتے ہوئے بولا تھا ۔نازنین حیرت سے دیکھتی رہ گئی تھی ۔
٭٭٭٭