سلسلہ وار ناول

ہجرووصال : قسط نمبر 4

ہجرووصال از ماریہ نواز

ملک اِس حملے کے لیے تیار نہ تھا منہ میں رکھا سگریٹ گر پڑا تھا ‘ مگر دوبارہ اپنے چہرے تک آتا ہاتھ اُس نے پکڑ لیا تھا ۔
’’دوبارہ ایسی ہمت مت کرنا۔ ‘‘ اُس کا بازو مروڑتے ہوئے وہ سختی سے بولا تھا ۔ شامین تکلیف کی شدت سے قالین پر آرہی تھی۔
’’چھوڑو مجھے ۔ ‘‘وہ بلبلائی تو ملک نے ہاتھ چھوڑ دیا ۔ اپنا بازو سہلاتے ہوئے شامین نے اُسے نفرت سے دیکھا تھا ۔
’’ کیوں کرتی ہو تم مجھ پر حملے ؟تم جانتی ہو میں گھریلو تشددکے کتنے خلاف ہوں ۔ ‘‘وہ مصالحتی انداز میں اُسے زمین سے اُٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولا تھا ۔ وہ اُس کا ہاتھ نظر انداز کر کے اُٹھ کھڑی ہوئی تھی ۔ اور پلٹ کر راہداری کی طرف چل دی تھی ۔ اب کی بار چال میں شکست خوردگی تھی ۔ چند قدم چلنے کے بعد اُسے رک کر دیکھا تھا ۔
’’ تمہارے لیے میرے دل میں جو بھی ہے نہ ملک ،بہت شدید ہے ۔ دعا کرو کہ یہ نفرت نہ ہو ورنہ تمہاری کشتی میں سوراخ یہی کرے گی ۔ ‘‘وہ کہہ کر چل دی تھی ۔ اُس کے جانے کے بعد ملک بھی اپنے کمرے میں چلا آیا تھا ۔ اُسے مسلسل جاگتے ہوئے اٹھائیس گھنٹے ہوچکے تھے ‘مگر تنے ہوئے اعصاب نیند کی چادر اُوڑھنے کو اب بھی راضی نہیں تھے ۔
وہ منی بار سے ایک بوتل اور برف لے کر کرسی پر جا بیٹھا تھا ۔ چند ہی لمحوں بعد اُس کا فون بجا تھا ۔ وہ اِسی فون کا منتظر تھا۔
’’ سر !سابق سپیکر سندھ اسمبلی کا بیٹا ہے ‘سبطین شاہ ۔ ‘‘ دوسری طرف سے اُس کی مطلوبہ تمام معلومات فراہم کر دی گئیں تھیں۔
’’ٹھیک ہے ۔نظر رکھو،کیا کرتا ہے ،کیا نہیں کرتا کیا شوق اور مشاغل ہیں کوئی چیز مس نہ ہونے پائے۔‘‘
’’جی سر‘ اور کچھ نہیں کرنا ؟ہر طرح کے کام کے لیے بندے ہیں میرے پاس ‘ہر کام رازداری سے ہو سکتا ہے ۔‘‘
’’ نہیں ‘ کچھ نہیں کرنا۔‘‘ملک نے فون بند کردیا تھا۔
’’ کچھ چیزیں جتنی ٹھنڈی ہوں اُتنا ہی مزا دیتی ہیں ۔‘‘ہاتھ میں تھامے مشروب میں تیرتی برف کو دیکھتے ہوئے اُس نے خود کلامی کی تھی ۔
٭٭٭٭
اِس ملک میں سیدھے سادھے قانونی کام کرنے کے لیے ’’مٹھیاں گرم ‘‘ کرنی پڑتی ہیں اور وہ جو کرنے جا رہا تھا وہ نہ قانونی تھا اور نہ سیدھا … خالی ہاتھ سے اس کا انجام پانا نہ ممکنات میں سے تھا ۔ ریسٹورنٹ کی نوکری کے ساتھ ساتھ اُس نے ٹیکسی بھی چلانی شروع کر دی تھی ۔
خوش قسمتی سے اپنے شوق اور کالج کے ایک دوست کی مہربانی سے ڈرائیونگ اُسے آتی تھی ۔ اپنے یسٹورنٹ کے اوقات کار کے علاوہ وہ ٹیکسی ہی چلاتا پایا جاتا تھا ۔ یونیورسٹی کی کلاسز وہ بنک کر رہا تھاکیونکہ وقت کم اور مقابلہ سخت تھا ۔ اگر سمسٹر ضائع بھی ہو جاتا تو چھ مہینے کی بات تھی ۔
مگر اِس موقع پراگر چوکا نہ لگ پاتا تو شاید ہی اتنا سنہری موقع دوبارہ ملتا ۔ آج اُس نے ایک سواری کو اُتار کر موڑ کاٹا تو فٹ پاتھ پر سامنے گرے عبایا میں سکارف باندھے ،سیاہ سن گلاسز پہنے کھڑی نازنین نظر آگئی تھی ۔
وہ دونوں اب الگ الگ شفٹوں میں کام کر رہے تھے سو آج کافی دن بعد نظر آئی تھی ۔ اُس نے ٹیکسی اُس کے سامنے روکی تھی ۔
’’ کہاں جانا ہے مس نیک پروین ؟ ‘‘اُس کے بدلے حلیے پر چوٹ کرتے ہوئے شہریار نے شرارت سے پوچھا تھا۔
’’دفع ہو جاؤ نہیں تو ہراسمنٹ کی کمپلین کر دوں گی تمہارے خلاف ۔ ‘‘ نازنین نے مسکراہٹ دبا کر دھمکایا تھا۔
’’نہ نہ یہ ظلم نہ کریں ‘آجائیں آپ کے لیے سپیشل ٹیکسی رکشے کے ریٹ پر ۔ ‘‘ وہ پیسنجر سیٹ کا لاک کھولتے ہوئے بولا تو وہ بغیر کسی پس وپیش کے اُس کے برابر آبیٹھی تھی ۔
’’بڑی ترقی کر لی تم نے تو ویٹر کے ساتھ ساتھ اب ڈرائیور بھی ۔ ‘‘
’’بس دیکھ لو‘تم ویٹرس کے ساتھ سپر ماڈل بن گئی تو مجھے لگا کچھ تو مجھے بھی اور کرنا ہی چاہئے۔‘‘
’’ کہاں یار ۔ ‘‘نازنین نے مایوسی سے سر ہلایا تھا۔
’’ اُس ایک اسائنمنٹ کے بعد ابھی تک کوئی اور کام نہیں ملا ‘پتہ نہیں کب تک مسکرا مسکرا کر بڈھوں کے آگے پیچھے پھرنا پڑے گا ۔‘‘
’’ تو جوانوں کو مسکرا کر دیکھ لیا کرو ۔ یقینا کم مشکل ہو گا وہ ۔ ‘‘نازنین نے اُس کی بات پر ایک تیکھی نگاہ اُس پر ڈالی تھی ۔
’’ ارے نہیں نہیں میرا مطلب ہے ۔ امیر کبیر لوڈڈ قسم کے جوانوں کو ۔ ‘‘ شہریار نے ہنس کر وضاحت کی تھی ۔
’’وہ جو جوان اور حسین لوڈڈہوتے ہیں ناں ۔ وہ صرف مسکراہٹیں نہیں مانگتے ۔ ‘‘
’’ مطلب ‘سیل پر صرف مسکراہٹیں ہیں ؟‘‘
’’ جب جیب میں کچھ ہوا ناں ۔پھر پوچھنا کہ سیل پہ کیا کیا ہے ۔‘‘ نازنین ایک تنقیدی نظر اُس پر ڈال کر بولی تھی ۔
’’ہاہ …‘‘شہریار نے ٹھنڈی آہ بھری تھی ۔
’’کیا ظالم دنیا ہے غریب کو تو ونڈوشاپنگ کا بھی حق نہیں۔ویسے جا کہاں رہی ہو ؟‘‘
’’فوٹو شوٹ ہے ۔ پورٹ فولیو کے لیے‘وہی فوٹوگرافر جس نے لان کے ایڈ کے لیے کی تھی فوٹوگرافی ‘ اُسی کے پاس جا رہی ہوں ۔ دیکھو اُمید تو دلائی ہے اُس نے کافی ۔ دعا کرو کچھ بن جائے ۔‘‘
’’دعا پہ یقین نہیں رکھتا میں دوا پر رکھتا ہوں ۔ بٹ بیسٹ آف لک ۔‘‘ نازنین کی منزل جلد ہی آگئی تھی ۔ ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کے اندر واقع ایک کمرشل سینٹر تھا ۔ شہریار اُس کو اُتار کر واپس ہو لیا تھا ۔ سواری کی تلاش میں ادھر اُدھر نظر دوڑاتے اُسے پیسنجر سیٹ کے سامنے پڑا شاپنگ بیگ نظر آیا تھا ۔ یقینا نازنین یہاں بھول کر چلی گئی تھی ۔ اُس نے اُٹھا کر دیکھا تو اندر دو تین طرح کے ٹاپ اور ایک سکرٹ تھا ۔ یقیناوہ فوٹوشوٹ کے لیے لائی ہو گی ۔
چند لمحے سوچنے کے بعد اُس نے نازنین کو فون ملایا تھا ۔ کئی بار بجنے کے بعد جب فون ریسیو ہوا تو کچھ بے معنی آوازوں کے بعد اُسے نازنین کی آواز سنائی دی تھی ۔
’’ کوئی ہے بچاؤ مجھے ‘خدا کے لیے چھوڑ دو ۔ ‘‘وہ چیخ رہی تھی ۔ اُس کی آواز میں کچھ ایسا تھا کہ شہریار کو اپنے رونگٹے کھڑے ہوتے محسوس ہوئے تھے۔
’’ ابے (گالی )بند کر اِسے ۔ ‘‘کسی مرد کی آواز آئی تھی ۔ کچھ گڑگڑاہٹ کے بعد نہ صرف فون کال منقطع ہوئی تھی بلکہ فون بھی آف ہو گیا تھا ۔ شہریار نے گاڑی پھر سے اُسے علاقے کی طرف گھمائی تھی ۔ ساتھ ہی کانپتے ہاتھوں سے مختلف ایمرجنسی نمبر ڈائل کرنے شروع کیے تھے ۔ کافی کوشش کے بعد ایک تھانے کا نمبر ملا تھا ۔
جہاں اُس سے سارا مدعا سننے کے بعد اُسے بتا یا گیا تھا کہ وہ جائے وقوعہ اُن کی حدود میں نہیں آتی ۔ پھر مطلوبہ تھانے میں کال کر کے مدد کے لیے منت کی تھی ۔ مگر چند منٹوں میں اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ صرف وقت ضائع کر رہا ہے ۔ وہ ٹیکسی کھڑی کر کے خود اُسے ڈھونڈھنے نکلا تھا ۔ مارکیٹ گو اتنی بڑی نہ تھی مگر اتنی چھوٹی بھی نہیں تھی کچھ اوسان بھی خطاء تھے ۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کس طرف جائے ۔ قریب ترین بلڈنگ میں گھسا تھا ،کئی در کھٹکھٹائے تھے ،دوکانداروں سے فوٹو گرافر کے سٹوڈیو کا پوچھا تھا ۔ راہگیروں سے گرے عبایا اور کالے سکارف میں ملبوس لڑکی کا‘ پر کسی کو کچھ پتا نہ تھا ۔ ایک ایک کر کے اُس نے ساری مارکیٹ چھان ماری تھی ۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا اُسے اپنی ٹانگیں بے جان ہوتی محسوس ہو رہیں تھیں ۔ تا حد ِنگاہ کوئی زیر تعمیر عمارت تھی ،نہ کہیں مرمتی کام ہوتا نظر آرہا تھا مگر کچے پلستر کی بو تھی کہ اُس کے نتھنوں میں گھسی چلی جا رہی تھی ۔
اپنے ہی مساموں سے پھوٹا پسینہ یوں چب رہا تھا جیسے کنکریٹ کی چھوٹی چھوٹی کنکریاں ہوں ۔ خوابوں میں وہ کئی بار یہ لمحے جی چکا تھا ‘مگر جاگتے ہوئے آج پہلی بار یہ خوف ،یہ اذیت پھر سے برداشت کر رہا تھا ۔ کاش یہ بھی خواب ہو اور وہ پسینے میں ڈوبا جاگ جائے ‘مگر یہ خواب نہیں تھا یہ حقیقت تھی ۔
گھنٹوں گزر چکے تھے اُسے در در بھٹکتے ‘پولیس کو نہ آنا تھا نہ آئی ۔ بلآخر سیمنٹ کے ایک تھڑے پر وہ تھک کر بیٹھ گیا تھا ۔ کیا پتا ویسا کچھ نہ ہو جیسا وہ سمجھ رہا تھا ؟ کیا پتا وہ کوئی ڈرامہ کر رہی ہو ؟ بے چارگی اور بے بسی کی انتہاہ پر اُس نے اپنے دل کو کوئی خوش فہمی دینی کی کوشش کی تھی ‘مگر پھر وہ نظر آگئی تھی ۔ وہی گرے عبایا تھا ‘ وہی کالاسکارف مگر چال میں بانکپن کی جگہ شکستگی تھی ۔ ارگرد سے بے نیاز وہ چلی جا رہی تھی ۔
اُس نے پاس جاکر آواز دی تھی ’’نازنین ! ‘‘نازنین نے چونک کر اُسے دیکھا تھا ۔ ایک نظر اُس کی آنکھوں میں جھانکنے کی دیر تھی اور شہریار کے اندر ہر اُمید نے دم توڑ دیا تھا ۔ وہ صاف دیکھ سکتا تھا کہ اُس کے اندر کوئی مر چکا ہے ۔ کیسے نہ دیکھ پاتا ؟ ایسی ہی ایک لاش وہ اپنے اندر بھی تو لیے پھر رہا تھا۔
’’ تمہارے کپڑے رہ گئے تھے میری ٹیکسی میں ۔ ‘‘وہ کچھ نہیں بولی تھی ۔
’’ کہاں جانا ہے ؟گھر ؟ہسپتال ؟ تھانے ؟میں لے جاتا ہوں ۔ ‘‘اُس نے تھکے تھکے سے لہجے میں کہا تھا ۔ نازنین نے خالی خالی نظروں سے اُسے دیکھا تھا پھر ساتھ چل دی تھی ۔ ٹیکسی کے پاس پہنچ کر شہریار نے اُس کے لیے دروازہ کھولا تو وہ کچھ دیر کھلے ہوئے دروازے کو گھورتی رہی ۔
’’میرے جیسی لڑکیوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے ناں ؟وہ کہہ رہا تھا اُسے تو میں نے خود دعوت دی تھی ‘بس ایک دوست وہ ساتھ اور لے آیا ! ‘‘وہ کھوئے ہوئے لہجے میں میں اُس سے سوال کر رہی تھی ۔ شہریار نے اُس کے پتھرائے ہوئے چہرے کو دیکھا تھا ۔ پھر نفی میں سر ہلایا تھا۔
’’نہیں۔‘‘نازنین نے نظر اُٹھا کر اُسے دیکھا تو اُس کی آنکھوں میں نہ تجسس تھا نہ تمسخر نہ ترس ۔ وہاں تو درد تھا ویسا ہی درد جیسا وہ اپنے رگ و پے میں محسوس کر رہی تھی ۔ لمحہ بھر کو تو لگا وہ اپنی ہی آنکھوں میں دیکھ رہی ہو ۔ ایک قدم بڑھا کروہ اُس کے قریب آیا تھا اور پھر اُس کا سر اپنے سینے سے لگا لیا تھا ۔ اردگرد چلتے لوگوں نے انہیں تجسس سے دیکھا تھا‘مگر اِس وقت وہ جس لمحے کے کرب میں مبتلا تھے اُس نے انہیں گرد وپیش سے بے نیاز کر دیا تھا۔
نازنین کی پتھرائی ہوئی آنکھوں سے چشمے پھوٹ نکلے تھے ۔ بہت کچھ تھااسے الزام دینے کے لیے، اُس کے چست کپڑے ، اُس کی بے باک ادائیں ،اُس کی چھوٹی چھوٹی بے ایمانیاں،ماڈلنگ جیسے شعبے کا شوق ‘مگر وہ کیسے دے سکتا تھا اُسے الزام، جس نے خودشرم کے مارے روح کا گھاؤ چھپا رکھا تھا ؟ ایک قطرہ اُس کی آنکھوں سے بھی ٹپکا تھا اور نازنین کے بالوں میں جزب ہو گیا تھا۔
شہریار نے اُسے اُس کے گھر سے کچھ دور اُتارا تھا ۔ گھر میں داخل ہونے سے پہلے اُس نے حتیٰ الامکان تاثرات نارمل کرنے کی کوشش کی تھی ۔ وہ نہیں چاہتی تھی اُس کی ماں کچھ جان پائے ‘مگر شاید اِس کی ضرورت نہیں تھی فکر معاش میں اُلجھی ہوئی عورت مامتا یونہی کچھ کچھ بھلائے بیٹھی تھی ۔
’’نازنین !مسز ڈنشاء کا بیٹا آیا تھا وہ یہ گھر بیچ رہا ہے بول کر گیا ہے کہ پندرہ دن میں ہم اپنا کوئی انتظام کر لیں ۔ ‘‘
’’اچھا کچھ کرتے ہیں ۔ ‘‘وہ نظریں جھکائے جھکائے ہی کہہ کر کمرے میں چلی آئی تھی ۔ اس کی ماں نے حیرت سے اُسے اپنے پیچھے دروازہ بند کرتے ہوئے دیکھا تھا ۔ کل کی فکر کرنی تھی اُسے مگر آج کے سوگ کے لیے کچھ وقت تو درکار تھا ۔ وہ دروازے کی پشت سے پیٹھ ٹکا کر زمین پر بیٹھ گئی تھی ۔ سکارف منہ میں ٹھونس کراُس نے اپنی سسکیوں کو گونگا کیا تھا ۔ اِس گھر کے درودیوار پہ پہلے کون سے سکھ رقص کرتے تھے ؟
اُس کی سسکیوں کا نہ گونجنا ہی بہتر تھا۔
٭٭٭٭

1 2 3اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page