سلسلہ وار ناول

ہجرووصال : قسط نمبر 3

نازنین کو بلآخر ایک ماڈلنگ اسائنمنٹ مل ہی گیا تھا ۔ لان کی ایک غیر معروف سی کمپنی کا چھوٹا سافوٹو شوٹ تھا پیسے بھی زیادہ نہ تھے۔ مگروہ ہواؤں میں اُڑ رہی تھی ۔
’’دیکھتے جاؤ‘ ایک دن سپر ماڈل ہوں گی میں ۔ آٹوگراف لے کر رکھ لو ابھی سے ۔ ‘‘وہ ادا سے بال ایک طرف کرتے ہوئے بولی تھی ۔
’’ تم ابھی مجھے ڈیٹ کر لو ۔ ‘‘شہریار شرارت سے بولا تھا ۔
’’جب تم سپر ماڈل ہو گی تو سپرماڈلز کا مقابلہ ہو ا کرے گا مجھے ڈیٹ کرنے کے لیے ۔‘‘
’’ہاہاہاویری فنی ۔ دیوانے کے خواب ۔‘‘
’’خواب دیکھنے کی ہمت تو دیوانے ہی رکھتے ہیں ۔ اینی وے بیسٹ آف لک ۔ فیوچر ماڈلنگ اینڈ ایکٹنگ کی سپر سٹار صاحبہ۔‘‘
’’ہنہ ایکٹنگ نہیں پسند مجھے ۔ ڈراموں کی روتی دھوتی ستی ساوتری نہیں بننا مجھے ۔ ‘‘ وہ تیار آرڈر ٹرے میں سیٹ کرتے ناک چڑھا کر یوں بولی تھی جیسے سارے کاسٹنگ ڈائریکٹر اُسی کو کاسٹ کرنے کے لیے مرے جارہے ہوں ۔
’’مجھے تو ریمپ کی ملکہ بننا ہے ۔ کوئی سویگ ہو کوئی ایٹیٹیوڈ ہو ۔ چاہنے والے بس دور سے سراہیں کسی کی رسائی نہ ہو ۔ ‘‘ وہ تفاخر سے گردن اُٹھا کر بولی تھی اور پھر یوں کیٹ واک کرتے ہوئے کچن سے نکلی تھی جیسے واقعی ریمپ پر چل رہی ہو ۔ شہریار بے ساختہ اُس کے انداز پر مسکرایا تھااور اپنے آرڈر کا اتا پتا پوچھنے شیف کی طرف گیا تھا ۔ چند ہی منٹوں بعد وہ کچن میں دوبارہ داخل ہوئی تو اکیلی نہیں تھی ۔
’’شہریار یہ تم سے ملنے …‘‘وہ اُس کی آواز پر پلٹا تو اُس کے ساتھ ثمینہ کھڑی تھی ۔ کالج کے سفید یونیفارم پر چادر اُڑھے کندھے پر بیگ لٹکائے کچھ گھبرائی کچھ بے تاب سی ۔ بیتاب تو وہ بھی تھا ۔ جس دن ثمینہ نے اپنے گھر بات کی تھی اُس دن کے بعد سے اُن کا رابطہ منقطع تھا ۔ اتنا اندازہ تو اُسے تھا کہ ردعمل کیا ہوا ہو گا ‘مگر اُس کے لیے حالات کی مکمل نوعیت جاننا ضروری تھی ۔
’’شہریار…‘‘وہ اُسے دیکھ کر بے تابی سے اُس کی جانب آئی تھی ۔
’’ تم یہ میرا آرڈر سرو کر دو گی پلیز ؟ ‘‘وہ نازنین کو اپنے آرڈر کے متعلق ہدایات دے کر اُسے لیے کچن کے ایک نسبتاً تنہا گو شے کی طرف بڑا تھا ۔ اُس کے ’’کیسی ہو ؟‘‘ کے جواب میں ثمینہ نے آنسوؤں کے درمیان الف تا ے ساری روداد سنا ڈالی تھی ۔ کیسے اُسے قید کر دیا گیا تھا اور کیسے وہ بظاہر اُن کی بات ماننے کا ناٹک کر کے کالج تک جانے کی آزادی لے پائی ہے ۔ آگے کا پلان بھی اُس کے پاس تیار تھا ۔
’’شہریار ہم نکاح کر کے تھوڑے عرصے کے لیے کہیں چلے جاتے ہیں اور کوئی راستہ نہیں ۔ میرے گھر والے کسی صورت نہیں مانیں گے‘ اُن کے لیے تو اپنی ضد اور انا بیٹی سے زیادہ قیمتی ہے ۔ وہ تو اپنی طرف سے رشتہ پکا کر چکے ہیں اِسی سال دسمبر یا جنوری میں شادی کا پکا پروگرام ہے ۔ ‘‘وہ غم و غصے سے چٹخ کر بولی تھی ۔
’’پاگلوں والی باتیں نہ کرو ‘میں کہاں لے کر جاؤں گا تمہیں ‘میرا تو اپنا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ ‘‘وہ مایوس افسردہ سے لہجے میں بولا تھا۔
’’ اُس کی تم فکر نہ کرو ‘میں تیاری کے ساتھ آئیں ہوں ۔ کچھ جیولری ‘کچھ کیش ملا جلا کر اتنا تو ہو ہی جائے گا کے ہمارا ایک آدھ سال آرام سے نکل جائے ۔ ہم یہاں سے کہیں دور چلے جائیں گے ۔ ایک آدھ سال میں میرے گھر والے بھی ٹھنڈے ہو چکے ہوں گے ان شاء اللہ ۔ ‘‘وہ آنسو پونچھ کر اب بہت اُمید افزاء لہجے میں اپنا پلان سنا رہی تھی ۔
’’اور اگر ٹھنڈا نہ پڑاغصہ تو ‘غیرت کے نام پر قتل تک کر بیٹھتے ہیں لوگ ۔ ماموں جان تو شاید پھر صبر کر لیں مگر تمہارے بھائی تو میری نفرت میں کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں ۔‘‘
’’تو پھر کیا کروں میں؟ کیا حل ہے تمہارے پاس تم بتاؤ؟ ‘‘ وہ روہانسی ہو کر پوچھ رہی تھی ۔ شہریار نے جواباًکچھ نہیں کہا تھا بس مایوس چہرے کے ساتھ دور کسی غیر مرئی نکتے تو دیکھنے لگا تھا ۔ اُس کی خاموشی ہی میں اُس کا جواب تھا ۔ وہ تڑپ اُٹھی تھی ۔
’’نہیں شہریار ‘ایسا مت کرو ۔ اب پیچھے مت ہٹو ‘میں نہیں رہ سکتی تمہارے بغیر مر جاؤں گی ۔ ‘‘
’’ آج تمہیں ایسا لگ رہا ہے مگر ایسا نہیں ہوتا ۔ میری ماں ،میرا باپ ،میرا بھائی سب چلے گئے مگر میں پھر بھی زندہ ہوں۔‘‘
’’مگر میں … ‘‘شہریار نے انگلی اُٹھا کر اُسے مزید کچھ نہ کہنے کا اشارہ کیا تھا ۔ پھر اُس کے دونوں کندھے تھام لیے تھے ۔
’’ ایسے جذباتی فیصلے عمر بھر کا پچھتاوا بن جاتے ہیں ۔ تمہیں محبت کے نام پر رسوا اور در بدر کرکے میں خود کو ساری عمر معاف نہیں کر پاؤں گا ۔ ‘‘ثمینہ نے بہتے آنسوئوں کے ساتھ نفی میں سر ہلاتے ہوئے آنکھوں ہی آنکھوں میں اُس کٹھور سے یہ ستم نہ کرنے کی التجاء کی تھی ۔ لمحے بھر کو شہریار کے دل میں ندامت نے سر اُٹھایا تھا۔
’’ اپنے گھر جاؤ ثمینہ ‘میں یہ نہیں کر سکتا۔‘‘وہ مستحکم لہجے میں بول کر رخ موڑ گیا تھا ۔وہ چند لمحے اُس ستمگر کی پشت کو دیکھتی رہی پھر تھکے تھکے مایوس قدموں سے لوٹ گئی ۔ اُس کے جانے کا یقین ہونے کے بعد وہ پلٹا تو سامنے نازنین کھڑی تھی ۔
’’you are disgussting (تم گھناؤنے ہو)۔ ‘‘وہ تاسف سے سر ہلاتے ہوئے بولی تھی ۔
’’کیوں ایسا کیا ہو گیا ؟ ‘‘
’’اتنا ہی بتا دیتے بیچاری کو کہ کھیل رہے تھے ۔ کم از کم تمہارے کمینے پن پر لعنت بھیج کر موو آن کرنا تو آسان ہوتا ۔ ‘‘نازنین کو واقعی اُس پر غصہ آ رہا تھا ۔
’’سب پتا چل جائے گا اُسے ۔ مجھ پر لعنت بھی بھیجے گی اور موو آن بھی کرے گی مگر ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے ۔ ‘‘وہ لاپرواہی سے بولا تھا۔
اُسے بس ایک فکر تھی دسمبر جنوری تک ٹائم کم تھا ۔ اور کام جو اُسے تب تک کرنے تھے وہ اتنے آسان نہیں تھے ۔
٭٭٭٭
ملک کی گاڑی عظیم مینشن کے وسیع و عریض ڈرائیو وے میں جا کر رکی تو رات ڈھل چکی تھی ۔ آسمان کے کناروں پر ہلکی سرخی نمودار ہونے کو تھی ۔ وہ پانچ دن کے ایک بزنس ٹرپ کے بعد گھر پہنچا تھا ۔استقبال ہاؤس کیپر نے کیا تھا ۔ ساتھ چلتے ہوئے چند رسمی جملوں کے تبادلے کے بعد اُس نے شامین کے متعلق پوچھا تھا ۔
’’میڈم کی تھراپسٹ آئی تھی ۔ ‘‘
’’جی سر پرسوں سیشن ہوا تھا ۔ ‘‘وہ مئودبانہ انداز میں بولا تھا ۔ مگر ملک کو اُس کے انداز میں کچھ بے چینی محسوس ہوئی تھی جیسے کچھ بتانا بھی چاہتا ہو اور چھپانا بھی ۔
’’ باقی سب ٹھیک رہا ‘کوئی مسئلہ میڈم کو لے کر ؟‘‘اُس نے نے ڈائریکٹ سوال کیا تھا ۔
’’ سر میڈم ابھی تک گھر نہیں آئی ہیں ۔‘‘
’’ کہاں ہیں ؟ ‘‘کرم الٰہی نے ایک لگژری ہوٹل کا نام لیا تھا ۔
’’ ڈارئیور اور گارڈ ساتھ ہے ؟ کھل کر بتاؤ مجھے اگر کوئی مسئلہ ہے ۔ کیا پہیلیاں بھجوا رہے ہو ۔ ‘‘ ملک اُس کے انداز پر جھنجلایا تھا ۔
’’ سر وہ وہاں کسی آدمی کے ساتھ گئی ہیں ۔ اور اُس کے ساتھ ایک ہی روم میں ٹھہری ہیں ۔ ‘‘ وہ لجاجت سے بولا تھا ۔
’’میں نے اُسی وقت آپ کو اطلاع دینے کی کوشش کی مگر آپ کا نمبر … ‘‘
’’ ٹھیک ہے ‘ٹھیک ہے تم جاؤ ۔ ‘‘وہ اپنے بیڈروم کے دروازے کے سامنے پہنچ چکا تھا ۔
’’ سر آپ کو کچھ چاہیے۔‘‘
’’ نہیں چاہئے کچھ … جاؤ ۔ ‘‘اُس کے لہجے میں اب جھلاہٹ تھی ۔ اپنے کمرے میں داخل ہو کر اُس نے بیڈ کو دیکھا تھا ۔ چند لمحے پہلے کتنی شدید طلب محسوس ہو رہی تھی اُسے اپنے آرام دہ بستر کی مگر اب گویا نیند بھک سے اُڑ چکی تھی ۔ وہ سمجھتا تھا کہ وہ اُسے جانتا ہے ،سب سمجھتا ہے وہ کیا کر سکتی ہے کیا نہیں ‘آج سے پہلے اُس کا کوئی بھی عمل اُسے حیران نہیں کر پایا تھا ‘ مگر آج وہ اُسے چونکانے میں کامیاب ہو گئی تھی ۔
اگلے دن دوپہر کے ایک بجے وہ گھر میں داخل ہوئی تھی ۔ اُس کی موجودگی سے بے خبر وہ لیونگ روم کے سامنے راہداری سے گزری تو نہ چال میں لڑکھڑاہٹ ،نہ کسی ’’ہینگ اوور‘‘ کا نام ونشان تھا ۔ چہرہ پر صاف پچھتاوہ تو کوئی نہیں تھا مگر سرشاری بھی کچھ مشکوک سی تھی ۔ جیسے کوئی خود سے لگائی بازی جیت کر آیا ہو ،کہ جیت تو ہو جائے مگرساتھ ہی مات بھی ۔
’’ شامین ! ‘‘ملک کی آواز پر اُس نے چونک کر مڑ کر دیکھا تھا ۔
’’ شامین … ؟‘‘شامین نے سوالیہ انداز میں ابرو اُٹھا کر دوہرایا تھا۔وہ اُسے اُس کے نام سے کم ہی مخاطب کرتا تھا ۔ ڈارلنگ، جانو ، بے بی، سویٹ ہارٹ جیسے کتنے ہی لفظ تھے جو اُس کے لبوں سے نکلتے تو شامین کو تھپڑ کی طرح لگا کرتے تھے ۔ اُس کے لبوں پر ایک فاتحانہ سی مسکراہٹ آئی تھی ۔ ادا سے چلتی ہوئی وہ اُس کے بہت قریب جا کھڑی ہوئی تھی ۔
’’ویلکم ہوم ڈیئر ہبی … ‘‘ لاڈ سے اُس کا کالر کھینچ کر بولی تھی ۔
’’ آج تو لگتا ہے میرا انتظار کر رہے تھے ۔‘‘
’’ کہاں سے آرہی ہو ؟ ‘‘ملک نے بظاہرعام سے لہجے میں پوچھا تھا ۔ مگر شامین کی مسکراہٹ اور گہری ہو گئی تھی ۔
’’ تم جانتے ہو میں کہاں سے آرہی ہوں ۔ پوچھ کیوں رہے ہو ؟ ‘‘ نہ ندامت نہ خوف اُس کے انداز میں تو گویا للکار تھی ۔ ملک کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ آئی تھی ۔ وہ اُسے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کر کے سگریٹ سلگانے لگا تھا ۔ اُس کا مطمئن انداز شامین کا نشہ توڑنے لگا تھا۔
’’ یو نو سویٹ ہارٹ!یہ جو مرد کے اندر ’’غیرت ‘‘کا trait (خصلت )ہے نا یہ theory of evolution (نظریہ ارتقاء) کے مطابق اُس نے خود سے کم تر جانوروں سے وراثت میں لیا ہے۔ جیسے ایک نر جانور اپنی ٹیریٹری مارک کرتا ہے اور اُس میں کسی اور نر کے داخلے کو اعلان ِجنگ تصور کرتا ہے ، ایسی ہی primitive (دقیانوسی ،قدیم) سوچ کا قیدی ایک عام مرد بھی ہے ۔ بٹ لکی یو …‘‘اُس نے رک کر کش لگا یا تھا۔
’’ میں ایک عام مرد نہیں ہوں ،منافق بھی نہیں ہو ں یا کم از کم غیرضروری منافقت سے گریز کرتا ہوں ۔ اِف آئی کین ہیو فن سو کین یو (اگر میں کچھ فن کرسکتا ہوں تو تم بھی کرسکتی ہو)بس کچھ گراؤنڈ رولز سیٹ کر لیتے ہیں ۔ ‘‘ وہ یوں اطمینان سے بول رہا تھا جیسے کسی عام سے معاملے پر رائے زنی کر رہا ہو ۔
شامین کی مسکراہٹ کب کی سمٹتے سمٹتے غائب ہو چکی تھی ۔ وہ خاموشی سے چلتی اُس تک آئی تھی ۔ چند لمحے کھڑی اُسے دیکھتی رہی تھی پھر اچانک ہاتھ اُٹھا کر اُسے ایک تھپڑ رسید کر دیا تھا ۔

پچھلا صفحہ 1 2 3

Related Articles

One Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے