ہجرووصال : قسط نمبر 3
’’کیسی ہیں آپ ؟‘‘اُس کا گریز محسوس کرنے کے باوجود وہ بات کیے بنا نا رہ سکا تھا۔
’’آپ پلیز … ایسے محفلوں میں مجھ سے بات نہ کیا کریں جب میں اکیلی ہوتی ہوں ۔ ‘‘وہ کچھ جھجھک کر بولی تھی ۔
’’کیوں ؟یہاں تو لوگ بہت براڈ مائنڈڈہیں ‘ہمدانی مائنڈ کرتا ہے ؟‘‘ وہ جواباًکچھ نہیں بولی تھی ۔
’’ڈرتی ہو اُس سے ؟‘‘
اُس نے پہلو بدلا تھا مگر ہنوز خاموش رہی تھی ۔ ملک نے اُس کے تاثرات کو غور سے دیکھا تھا ۔جب بھی وہ اُسے دیکھتا تھا اُس کے چہرے پر طمانیت تلاش کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا مگر ہر بار ناکام رہتا تھا۔
’’چھوڑ دو اُسے ‘میری بن جاؤ ۔‘‘وہ بے اختیار ہو کر بولا تھا ۔ وہ لمحے بھر کو چونکی تھی ۔ پھر ایک استہزائیہ مسکراہٹ اُس کے لبوں پر آن ٹھہری تھی ۔
’’جہاں تک میں جانتی ہوں بیوی کی پوزیشن تو خالی نہیں آپ کے پاس ‘ کیا بن جاؤں میں ؟خفیہ بیوی ؟ یا رکھیل ؟‘‘
’’رشتہ جو بھی ہو ہمارے بیچ‘ہمدانی سے زیادہ خوش رکھوں گا میں تمہیں ۔ ‘‘وہ جذب سے بولا تھا ۔
’’اچھا!‘‘وہ مسکرائی تھی ۔
’’خود خوش ہیں آپ ؟ ‘‘ملک اُس کے سوال پر سوچ میں پڑگیا تھا ۔ زندگی میں ایسے لمحے آتے تھے جب اُس کی رگوں میں سرور دوڑتا تھا ۔ مگر پھر وہ لمحے گزر جاتے تھے اور سروربے چینی میں بدل جاتا تھا ۔ وہ کامیاب تھا اور مزید کامیابی کے حصول میں ازحد مصروف … مگر خوش؟؟؟؟
’’ڈیبنڈ(منحصرہے) کرتا ہے کہ تم خوشی کسے کہتی ہو۔‘‘
’’جب خوشی اتنی subjective(نفسی)چیز ہے کہ دو لوگوں کے لیے اُس کے معنی مختلف ہو سکتے ہیں ،تو پھر کوئی کسی سے یہ وعدہ کیسے کر سکتا ہے کہ وہ اُسے خوش رکھے گا ؟‘‘اُس کے سوال نے ملک کو لا جواب کیا تھا ۔
’’اینی وے ‘دا آفر از سٹل آن دا ٹیبل(بہرحال پیشکش ابھی بھی موجود ہے) ۔ ‘‘ وہ کندھے اُچکا کر بولا تھا۔
’’Thanks i am flatterd but… no thanks‘‘
(پیشکش کا شکریہ مگر… معذرت ) وہ اُس سے اجازت لے کر پلٹ گئی تھی ۔ اُسے جاتاہوا دیکھتے ملک کے دل کو پھر اُسی شناسا سے درد نے بے چین کیا تھا ۔
اگلے ہی دن اُسے اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا ۔وہ یقیناََ اتنا محتاط نہیں رہا تھا جتنا وہ سمجھ رہا تھا ۔
’’آج کل ہمدانی کی بیوی کے ساتھ بڑی ہیلو ہائے کرتے نظر آرہے ہو ۔ ‘‘ شامین پلیٹ میں سلاد ڈالتے ہوئے بظاہر دوستانہ لہجے میں بولی تھی ۔
وہ بہت کم کھانا ساتھ کھاتے تھے ۔الگ کمروں میں رہتے تھے ۔ جن سماجی تقریبات میں وہ شرکت کرتا تھا اُن میں جانے میں نہ شامین کو کوئی دلچسپی تھی اور نہ اُسے ساتھ لے جانا کسی طور مناسب لگتا تھا ۔ اور جن پارٹیز کی وہ دلدادہ تھی ‘اُن میں اُسے کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ سو نہ وہ گھر کے اندر ساتھ رہتے تھے نہ گھر کے باہر ساتھ دِکھتے تھے ۔ ہاں وہ اُس کی خبر ضرور رکھتا تھا اور اُس سے زیادہ بے خبر وہ بھی نہیں رہتی تھی ۔ کسی اور عورت کی بات ہوتی تو اُسے چنداں فکر نہ ہوتی مگر یہاں وہ رسک نہیں لے سکتا تھا ۔ سچ کو جھٹلانا حماقت تھی سو اُ س نے حقیقت کو نیا رنگ دینا مناسب سمجھا۔
’’بس تمہارے مخبر کی نظر لگ گئی ہماری ہیلو ہائے کو ۔ ‘‘وہ ٹھنڈی آہ بھر کر تاسف سے بولا تھا ۔
’’جب تک عشق حسن کی تعریفوں میں لگا رہا تب تک وہ بھی مسکراتی رہی ۔ پرذرا جو بات بڑھانے کی کوشش کی میں نے تو چھو منتر ۔ کچھ زیادہ ہی ڈرتی ہے ہمدانی سے، سو نو چانس۔‘‘ اُس نے مایوسی سے کہہ کر کانٹے کی مدد سے مچھلی کا ٹکڑا منہ میں ڈالا تھا ۔
’’ہو سکتا ہے تم سے ڈر گئی ہو ؟‘‘وہ پلیٹ میں بے مقصد کانٹا گھماتے ہوئی بولی تھی ۔
’’مجھے سے کیسا ڈرنا ۔ میں تو بس اُسے پیار ہی پیار دینا چاہتا تھا ۔ ‘‘وہ بائیں آنکھ دبا کر عامیانہ سے انداز میں بولا تھا ۔
’’ ویسا ہی پیار جیسا مجھے دیا ؟ ‘‘وہ بظاہر مسکرا کر پوچھ رہی تھی مگر مسکراہٹ سے تلخی صاف جھلک رہی تھی ۔
’’ نہیں جان ِمن!‘تم سے تو میرا بندھن عمر بھر کا ہے ۔ یہ تو بس آتے جاتے ہوئے موسم ہیں ۔ زمانہ تو تم ہو ۔‘‘وہ بظاہر رومانٹک انداز میں بولا تھا ۔ شامین کے چہرے سے وہ تلخ مسکراہٹ بھی غائب ہو گئی تھی ۔
’’ یور آباسٹرڈ ۔‘‘وہ غصے سے چیخی تھی ۔ پھر اپنی پلیٹ اُٹھا کر غصے سے اُس کی طرف اُچھال دی تھی ۔ ملک کی پھرتی نے اُسے چینی کی پلیٹ کانشانہ بننے سے بچا یا تھا ۔ ٹیبل سے چند اور چیزیں اُٹھا کر پٹخنے کے بعد وہ پیر پٹختی اُس وسیع ڈائننگ ایریا سے باہر کی جانب چل دی تھی ۔
’’کیوں کرتی ہو تم میری مخبری ؟ کیا ملا ہے تمہیں اس سے ۔ اتنی انٹیلی جنس نہ لڑاتی تو میں نے تو بھرپور کوشش کی تھی تمہاری نظر میں ایک پیار کرنے والا شوہر بنے رہنے کی ۔دھوکہ خوبصورت ہو ناں‘ تو آنکھیں اور کان بند کر لینے چاہئے ۔ ‘‘ملک کے لہجے میں کہیں تاسف کی بھی ہلکی سی جھلک تھی۔
شامین نے لمحے بھر کو غصے اور بے بسی کی ملی جلی کیفئت میں اپنی مٹھیاں بھینچی تھیں ۔ وہ اُسے کیا بتاتی کہ لمحہ بھر کو بھی اگر اُس کا دھوکہ اُسے مکمل طور پر سچ لگا ہوتا تو وہ خود کو اُسی لمحے میں قید کر لیتی ۔ اُس کا جی چاہاتھا وہ کہیں دور بھاگ جائے ۔ جہاں نہ اُس کا ماضی ہو ،نہ اُس کا حال ہو ،نہ یہ شخص ہو ۔ حتیٰ کہ وہ خود بھی نہ ہو ۔ اپنی ذات کے بوجھ سے بھی وہ آزاد ہو جائے ۔
٭٭٭٭
’’ چلو بھئی پریٹی وومن جا کر رچرڈ گیئر سے آرڈر لے لو ۔ ‘‘نازنین کو اُس کی ایک ساتھی ویٹرس نے آکر بتا یا تھا ۔ پچاس پچپن سال کے اُس ریگولر کسٹمر کو اُن لوگوں نے اپنے سیاہ، سفید کھچڑی بالوں اور گریس فل پرسنالٹی کے باعث رچرڈ گیئر کا خطاب دے رکھا تھا۔
شروع شروع میں نازنین کو بھی وہ پسند آیا تھا ۔ اُس کی ’’خوش اخلاقی ‘‘سے وہ لطف اندوز ضرور ہوتا تھا ‘ٹپ بھی اچھی دیتا تھا ۔ مگر باقی بڈھوں کی طرح رال نہیں ٹپکتی تھی اُس کی ۔ جتنی باوقار اُس کی شکل و صورت اور نشست وبرخاست تھی ، ویسی ہی بات چیت بھی تھی ‘مگر پھر نازنین کو لگنے لگا اُس کی آنکھوں میں اُس کے لیے کچھ زیادہ دلچسپی پیدا ہونے لگی تھی ۔ اور آخری ملاقات میں اُس نے اُسے اپنا کارڈ دیا تھا اور رابطہ کرنے کو کہا تھا ۔ وہ اچھی ٹپس کی تلاش میں ضرور رہتی تھی مگر ’’شوگر ڈیڈی ‘‘نہیں چاہئے تھا ۔ اُسے یہ مسئلہ مینیجر کے سامنے رکھ کر اُسے سروو کرنے سے انکار کرناچاہئے یا نظرانداز کرنا چاہئے فی الحال؟ وہ اِسی شش و پنج میں تھی کہ اُس کا فون بجا تھا ۔
’’مسز ڈنشاء کا انتقال ہو گیا ہے ۔‘‘اُس کی ماں بھرائی ہوئی آواز میں بولی تھی ۔ نازنین چند لمحوں کو شل ہو گئی تھی ۔ اِس خبر پر پہلا احساس چھت چھن جانے کا تھا ۔ اپنے باپ سے فرار ہو کر وہ اِس شہر میں اپنے نانا کے گھر آئے تھے جو اب نانا کے انتقال کے بعد ماموں کا بن چکا تھا ۔ ماموں اُس کی ماں کے ہمدرد سہی سرکاری سکول میں کلرک تھے ،پانچ بچے اُن کے اپنے تھے ۔ دو کمرے کے مکان میں دس بچوں کی کفالت حرام ،حلال ملا کر بھی کرنا ایک مشکل امر تھا ۔
مسز ڈنشاء ایک پارسی سکول کی پرنسپل تھیں ۔ نانا اُس سکول میں مالی رہ چکے تھے ۔ اُس کی ماں اِسی تعلق ‘واسطے کی بنیاد پر اُن کے پاس نوکری مانگنے گئی تھیں ۔ مسز ڈنشاء نے اُس کی ماں کو نا صرف چپڑاسن کی نوکری دی تھی بلکہ رہنے کے لیے اپنے گھر کے سرونٹ کواٹر میں جگہ بھی دی تھی ۔ اُن کا اکلوتا بیٹا انگلینڈ منتقل ہو چکا تھا اور میاں کا انتقال ہوئے چند سال ہوچکے تھے۔
گھر کے معمولی سے کام کاج کے عوض انہیں سرچھپانے کی جگہ مفت میں مل گئی تھی ۔ مسز ڈنشاء اُن کے لیے چھت تھیں ۔
’’اب کیا ہو گا ؟‘‘ نازنین نے فکر مندی سے سوچا تھا۔
٭٭٭٭
’’ آپ پلیز ابو سے بات کریں ۔ پلیز شہریار !پلیز …‘‘ ثمینہ فون پر روتے ہوئے التجاء کر رہی تھی ۔
’’میرے بات کرنے سے کیا فائدہ ہو گا‘اُٹھ کر گلے لگا لیں گے مجھے ماموں ؟ تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دیں گے ؟ ‘‘وہ جھلائے ہوئے لہجے میں بولا تھا ۔ ثمینہ کے لیے ایک رشتہ آیا تھا ۔ جان پہچان والا ،اچھا خاندان،مناسب شکل صورت کا کماؤں لڑکا ۔ گھر میں سبھی کو پسند آیا تھا ۔ اور وہ رو رو کر ہلکان ہوئی جا رہی تھی ۔
’’تو پھر کیا سوچا تھا آپ نے کبھی بات نہیں کریں گے آپ ابو سے ۔ کیسے ہو گی ہماری شادی ؟‘‘شہریار کے جواب پر وہ جھلاہٹ سے بولی تھی۔
’’سوچا تو میں نے یہ تھا کہ مجھے وقت مل جائے گا اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا ‘کسی قابل ہو کر ماموں سے تمہارا رشتہ مانگوں گا ۔ ‘‘وہ مایوس لہجے میں بولا تھا ۔
’’مگر ابھی تو میرا BBA مکمل ہونے میں بھی کچھ مہینے باقی ہیں ۔ ایک ریسٹورنٹ میں بیرے کی نوکری کر رہا ہوں ۔ کس منہ سے مانگوں میں اُن کی بیٹی کا رشتہ ؟‘‘
’’اب کیا ہو گا شہریار ؟ امی ابو تو تیار بیٹھے ہیں رشتہ قبول کرنے کے لیے ۔ میں کیا کہہ کر انکار کروں ؟ ‘‘وہ پھر رو پڑی تھی ۔
’’وہی کہو جو سچ ہے ۔ بتادو کے تم مجھ سے پیار کرتی ہو اور ہم شادی کرنا چاہتے ہیں ۔ اگر اُن کا دل کچھ نرم پڑا تو میں خود آجاؤں گا بات کرنے ۔ ‘‘وہ سمجھانے والے انداز میں بول رہا تھا ۔
’’ وہ مان جائیں گے ؟ ‘‘ثمینہ جیسے دل کو بہلانے کے لیے اُس سے تسلی مانگ رہی تھی ۔ شہریار کے لبوں پر ایک تمسخراُڑاتی مسکراہٹ آئی تھی ۔
شکیل صاحب کو جب پتا چلے گا کہ اُن کی بیٹی کس’’ ملعون ‘‘ سے پیار کرتی ہے تو اِس رشتے سے انکار کی کوئی گنجائش ہو گی بھی تو ختم ہو جائے گی ۔ ثمینہ نے حسب سابق اِس بار بھی اُ س کی ہدایات پر من و عن عمل کیا تھا ۔ اُس کی ماں تو بچپن سے شہریار سے خار کھاتی تھی ۔سو مدعا براہ راست باپ کے سامنے رکھا تھا کہ آخر شہریار اُن کا بھانجا تھا ‘اُن کے دل میں کچھ تو گنجائش ہو سکتی تھی ۔ مگر وہ سنتے ہی بھڑک اُٹھے تھے ۔
’’پاگل لڑکی مہرہ بنا رہا ہے وہ تمہیں صرف جائیداد پر قبضہ کرنے کے لیے ۔ اول درجے کا نوسرباز فراڈیا ہے ۔‘‘
’’مگر ابو … ‘‘وہ منمنائی تھی ۔
’’ بس دوبارہ اُس کا نام لیا تو زبان حلق سے کھینچ لوں گا ۔ ‘‘بیٹی سے ہمیشہ نرم لہجے میں بات کرنے والا باپ گرجا تھا ۔ چند لمحوں کو وہ سہم بھی گئی تھی مگر عشق کا بخار اتنا ہلکا کہاں ہوتا ہے کہ ذراسی گرج چمک سے اُتر جائے ۔ کم عمری کی منہ زور محبت نے اُس کے منہ میں بھی زبان ڈال دی ۔
’’اگر وہ جائیداد میں حصہ چاہتا ہے تو کیا غلط ہے ۔ اُس کا حصہ بنتا ہے۔ پھوپھو کے سارے حصے کا وہ وارث … ‘‘اُس کی بات مکمل ہونے سے پہلے اُس کے بال خدیجہ بیگم کے ہاتھ میں تھے جو شوہر کی اُونچی آواز سن کر بیٹی کے بچاؤ کو آئی تھیں مگر مدعا جان کر خود اُس پر ٹوٹ پڑی تھیں۔
’’ تجھے اُس بے دین فراڈیے کے علاوہ کوئی نہیں نظر آیا اِس دنیا میں ؟ خاک ڈالے گی اِس عمر میں ہمارے سروں پر ؟ وہ ایک ہاتھ سے اُس کی چٹیا پکڑے دوسر ے ہاتھ سے چپل کے وار کرتے پوچھ رہی تھیں ۔ ‘‘شکیل صاحب ہی نے کچھ دیر اُسے پٹتے دیکھنے کے بعد بیوی کو روک کر اُسے کمرے میں جانے کو کہا ۔
’’آرام سے سمجھاؤ اِسے ‘سختی سے بات اور خراب ہو گی ۔ ‘‘وہ خود پر قابو پاکر بولے تھے ۔
’’دیکھ لیا یتیم بہن اور بھانجے کی کفالت کا صلہ ؟ ‘‘ خدیجہ بیگم نے توپوں کا رخ اُن کی جانب کیا تھا۔
’’ اپنی تربیت کے بارے میں نہ سوچنا ! کیسی بیٹی پالی ہے تم نے جو یہ گل کھلا رہی ہے ؟ ‘‘وہ بھی غصے میں کپڑے جھاڑتے باہر کو چل دیے تھے ۔ پھر پیار ،مار، رسان ہر طریقے سے ‘ ہر ایک نے اُسے سمجھایا تھا ۔ مگر وہ اپنی بات سے ایک انچ پیچھے نہ ہٹی تو موبائل لے کر کہیں آنے جانے پر پابندی لگا دی گئی ۔
آج وہ بیڈ پر بیزار سے پڑی تھی ۔بہت دن بعد خدیجہ نے اُس کے سرہانے بیٹھ کر نرمی سے اُس کے بال سہلائے تھے۔
’’تم کیا سمجھتی ہو اِس دنیا میں کوئی ماں باپ سے زیادہ سگا ہو سکتا ہے؟ کیوں اپنی زندگی تباہ کرنا چاہتی ہو؟‘‘وہ سیدھی ہو کر اُٹھ بیٹھی تھی۔
’’امی وہ ویسا نہیں ہے جیسا آپ لوگ سمجھتے ہیں ۔ صرف تھوڑا منہ پھٹ ہے اور جتنی اُس نے پریشانیاں اور دکھ اُٹھائے ہیں اُس کے بعد اتنا تو فطری سی بات ہے۔‘‘ خدیجہ سر پیٹ کر رہ گئی ۔ اِس لڑکی نے تو واقعی عقل بیچ کھائی تھی ۔ جی چاہا کھری کھری سنائیں بلکہ دوچار جڑ دیں مگر صبر کا گھونٹ پی لیا کہ سختی کے کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے تھے ۔ اُلٹا لڑکی مزید باغی ہوتی جا رہی تھی۔
’’ثمینہ !تیری خوشی سے بڑھ کر نہیں ہے کچھ ہمارے لیے مگر جسے تو خوشی سمجھ رہی ہے وہ صرف دھوکہ ہے ۔ ‘‘ثمینہ خفگی سے پھر منہ پھیر کر بستر پر دراز ہو گئی ۔
’’تم ایک بار اپنے ماں باپ پر بھروسہ کر کے تو دیکھو ۔ ‘‘ماں اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے نرمی سے بولی تھی ۔ اُس نے اُٹھ کر چادر کھولی تھی اور سر ڈھک کر لیٹ گئی تھی ۔ خدیجہ غم و غصے سے سر جھٹکتی باہر کو چل دی تھی ۔ پورا دن یونہی پڑے رہنے کے بعد شام کو وہ خود ہی خدیجہ کے پاس گئی تھی ۔
’’ٹھیک ہے کرا دیں شادی جس سے میری کرانی ہے ۔ مگر یاد رکھیں منہ تک نہیں دیکھاؤں گی میں پھر آپ لوگوں کو ۔ جن ماں باپ کو میری خوشی سے زیادہ اپنی انا پیاری ہے اُن سے تعلق کیوں رکھوں میں ۔ ‘‘وہ روتے ہوئے نروٹھے پن سے بولی تھی ۔ مگر شکیل اور خدیجہ نے اِس ناراضگی بھری رضا مندی کو بھی غنیمت جانا تھا ۔اُس کا رشتہ شکیل صاحب کے دوست کے بیٹے سے طے کر دیا گیا تھا۔
٭٭٭٭
Zabardast Kahani hai. Thori si underrated hai mgr hai zabardast. It deserves an applaud.