ہجرووصال : قسط نمبر 3
ہجرووصال از ماریہ نواز
’’ایسا کوئی قانون نہیں جو میری مرضی کے بغیر مجھ سے میری زمین کا حق ملکیت چھین سکتا ہو ۔ ‘‘ملک پھر مسکرایا تھا اور بہت دھیمے لہجے میں گویا ہوا تھا ۔
’’تمہیں پتا ہے یہ دنیا ایک chain of predation (شکار کا سلسلہ) ہے ۔ جہاں کمزور یا طاقتور کی خوراک ہے یا اُس کے مقاصد کے حصول کا ذریعہ ۔ انصاف کے لیے تو یہ زمین بنائی ہی نہیں گئی ۔ یہاں کوئی ایسا قانون نہیں ہے جسے طاقتور اپنے فائدے کے لیے توڑ نہ سکتا ہو یا مروڑ نہ سکتا ہو۔ قابل سزا جرم صرف ایک ہے … جانتے ہو کیا ؟ ‘‘فرقان خاموشی سے نظروں میں نفرت اور غصہ لیے اُسے دیکھتا رہا ۔
’’جرمِ ضعیفی ‘ یہاں سچ وہ ہے جو طاقت ور کہتا ہے اور حق وہ ہے جو طاقت ور کرتا ہے ۔ ‘‘وہ کہہ کر محفل برخاست کرنے والے انداز میں کھڑا ہو گیا تھا ۔
’’میں تمہارا نقصان نہیں کرنا چاہتا ‘تم مجھے مجبور نہ کرو ۔ اب تم جاسکتے ہو ‘میری کچھ اور بزنس میٹنگز ہیں ۔ ‘‘ فرقان حسین بغیر کچھ کہے اُٹھ کھڑا ہوا تھا اور چند لمحوں میں وہاں سے چلا گیا تھا ۔ اپنی کرسی پر واپس براجمان ہو کر پرسوچ انداز میں بالوں میں انگلیاں چلاتے ملک کے چہرے پر تفکر نمایاں تھا ۔
شام تک اُن کی ملاقات کا نتیجہ آچکا تھا ۔ فرقان حسین نے اپنے یوٹیوب چینل پر ایک ویڈیو اپلوڈ کی تھی جس میں زرعی زمینوں پر رہائشی منصوبے بنانے پر نہ صرف ایک لمبی تقریر کی گئی تھی بلکہ اختتام پر وزیر اعظم ،وزیر اعلیٰ اور آرمی چیف سے اِس ظلم کو روکنے کی التجاء بھی کی گئی تھی ۔ ملک نے فوراًدو تین جگہ فون گھمائے تھے ۔ اِس شخص کا منہ بند کرنا بہت ضروری تھا۔
٭٭٭٭
’’جی سر وہ میں نے آڈیشن دیا تھا ‘فیشن شو کے لیے ۔ ‘‘ شہریار کچن میں داخل ہوا تو فون پر بات کرتی نازنین کی آواز کان میں پڑی تھی ۔
اُسے ماڈل بننے کا شوق تھا مگر کافی کوششوں کے باوجود اب تک کہیں دال نہیں گلی تھی ۔ شاید وجہ اُس کااوسط قد اور بھرپور سراپا تھا ۔ جو پرکشش ہونے کے باوجود دور حاضر کے ’’ماڈل فگر ‘‘میں شمار نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ آج بھی اس نے مایوسی سے فون بند کیا تھا ۔
’’کیا ہوا پھر فیل ہو گئیں ۔ ‘‘ شہریار بظاہر افسوس کرنے والے انداز میں بولا تھا مگر آنکھوں میں شرارت تھی ۔ اُس نے جواباًایک خشمگیں نظر ڈالی تھی ۔
’’ ہونہہ ۔اپنی ہوتی سوتیوں کو رکھتے ہیں ‘نئے کسی بندے کو چانس نہیں دیتے ‘ ایک تو اِس ملک میں بغیر کسی رشوت سفارش کے کہیں بھی موقع ملنا مشکل ہے ۔ ‘‘ آج تو شاید کچھ زیادہ ہی صدمہ ہوا تھا ۔ اچھی طرح دل کے پھپھولے پھوڑ رہی تھی ۔
’’ویسے اگر تم کسی اور ملک میں بھی ایسے ہی پیسٹریز چرا چرا کر کھا رہی ہوتی ‘تو موقع ملنا مشکل ہی تھا ۔ ‘‘شہریار نے اُس کے قدر ے بھرے بھرے سراپے اور میٹھے کے شوق پر چوٹ کی تھی ۔
’’ ہاں لڑکی سے بانس کا ڈنڈا بن جائے انسان ‘ایسے ہڈیوں کے ڈھانچے اچھے کسے لگتے ہیں ؟ ‘‘وہ سخت جھلائی ہوئی تھی ۔
’’مجھے تو نہیں لگتے ۔‘‘شہریار ایک بھرپور نظر اُس پر ڈال کر بوالا تھا ۔
’’مگر کیا کیا جائے اب سائز زیرو ہی اِن ہے ۔‘‘
’’تم کچھ زیادہ فری نہیں ہو رہے مجھ سے ؟‘‘اُس کے انداز پر وہ تپ کر بولی تھی
’’Let me tell you, nothing about me is free ‘‘
وہ اُس کی بات پر مسکرایا تھا۔
’’جانتا ہوں اِس دنیا میں یا بالکل بے کار چیزیں مفت ہوتی ہیں یا پھر انمو ل چیزیں …جو چیزیں ’’بس ٹھیک ہوتی ہیں‘‘ اُن پر کوئی نہ کوئی پرائس ٹیگ ضرور ہوتا ہے ۔ ‘‘
’’ویسے یہ کنگلا پن ‘فلسفے بہت سیکھاتا ہے ۔ ‘‘وہ جلے کٹے انداز میں تیکھی نظروں سے اُسے دیکھ کر بولی تھی
’’یہ تو پھر ہے ۔‘‘اُس نے مسکراتے ہوئے اتفاق کیا تھا۔
٭٭٭٭
آج نفیس احمد کا لنگوٹیا برہان چیمہ آیا بیٹھا تھا ۔ دونوں کی گاڑھی چھنتی تھی مگر نظریاتی اختلاف کے باعث اکثر بحثیں بڑی گرماگرم ہوتی تھیں ۔ نفیس احمد کٹر سوشلسٹ اور پکا دہریا تھا ۔ جبکہ برہان نے اپنے لبرل جدیدیت پسند انداز فکر کے باوجود مذہب کے لیے گنجائش نکال رکھی تھی ۔ سرمایہ دارانہ نظام کو بھی وقت کی ضرورت سمجھتا تھا ۔ آج بھی اشتراکی نظام بمقابل سرمایہ دارانہ نظام پر گفتگو لڑائی میں بدلنے کے دہانے پر تھی ۔
وہ چائے بناتے ہوئے زور دار دلائل سنتا رہا ۔ پلاسٹک کی ٹیبل پر دو کپ چائے رکھ کروہ پلٹنے ہی والا تھا کہ نفیس احمد نے اُسے بھی گفتگو میں گھسیٹ لیا ۔
’’چلو تم بتاؤ، تم ایک عام آدمی ہو ۔ تم کیسی دنیا میں پیدا ہونا پسند کرتے جہاں سوشلسٹ نظام ہوتا اور ہر بندہ کسی حد تک برابری کی سطح پر رہ رہا ہوتا ؟ یا یہ سرمایہ دارانہ نظام جہاں رائٹ ٹو پراپرٹی کی آڑ میں غریب ابن غریب ابن غریب ہوتا اور امیر ابن امیر ابن امیر ہوتا ؟ ‘‘ شہریار نے چند لمحے سوچا تھا ۔
’’میں کسی اور دنیا میں پیدا نہیں ہو سکتا سو یہ سوچنا تو بے کارہے ۔ البتہ جس دنیا میں میں رہ رہا ہوں وہاں سرمایہ دارانہ نظام ایک حقیقت ہے ۔ اور قانون فطرت کے ساتھ موافق بھی ۔ ‘‘برہان کو اُس کا جواب پسند آیا تھا ۔
’’ دیکھا ! یہ اُسی کلاس سے تعلق رکھتا ہے جس کے تم برانڈ ایمبیسڈر بنے پھرتے ہو ۔ سرمایہ دارانہ نظام میں خامیاں ضرور ہیں مگر اور آپشن کوئی نہیں ‘ مغرب کی ترقی اِسی نظام کے ساتھ شروع ہوئی ‘ضرورت اس بات کی ہے کہ اِسی نظام میں رہ کر ایسے قوانین اور ضابطے لائے جائیں جن کے ذریعے پسے ہوئے طبقات کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکے ۔ ‘‘ شہریار کی تائید سے برہان کو اپنا پلڑا بھاری محسوس ہونے لگا تھا مگر شہریار نے نفی میں سر ہلا دیا تھا ۔
’’نہیں ایسے قوانین نہ لائے جا سکتے ہیں نہ نافذ کئے جاسکتے ہیں ۔‘‘ شہریار کی اگلی بات نے اُسے اچھنبے میں ڈال دیا تھا ۔
’’ کیوں ؟‘‘
’’ اِس لیے کہ یہ قانون فطرت کے ساتھ موافق نہیں ۔ ‘‘برہان اور نفیس احمد دونوں اُس کی بات پر کچھ چونکے تھے ۔
’’اور تمہارے خیال میں قانونِ فطرت کیا ہے ۔ ‘‘نفیس احمد نے پاس پڑی کرسی اُس کی طرف دھکیل کر بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا۔
’’قانونِ فطرت سروائیول آف دی فیٹسٹ(سب سے بہترین کی بقا )ہے ۔ کمزور کو فطرت تلف کر دیتی ہے یا ذلیل و خوار ۔ ‘‘
’’اُف خدایا ‘اتنی سی عمر میں ایسا نقطہ نظر۔‘‘برہان اُس کے جواب پر تھوڑا سا ہنسا تھا ۔
’’میں سمجھتا ہوں ینگ مین ۔تمہاری زندگی مشکل ہے مگر اتنی بھی اندھیر نہیں اِس دنیا میں اور جہاں تک کمزور طبقے کے حقوق کی بات ہے تو ایسی بات نہیں ‘مہذب دنیا میں ایسے قوانین ناصرف لائے گئے ہیں بلکہ نافذبھی کئے گئے ہیں ۔‘‘
’’ہاں آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔کچھ علاقوں کی حد تک ’’فلاحی قوانین ‘‘ضرور نافذ کئے گئے ہیں ‘مگر وہی ’’مہذب دنیا‘‘تصویر کے دوسرے رخ پر اُن قوانین کو بھول جاتی ہے ۔‘‘
’’کیسے ؟‘‘
’’مثلاً سزائے موت کے قانون کو دیکھ لیجیے ‘مہذب دنیا اِس قانون پر عمل دار آمد کرنے والے ممالک کو نا صرف جاہل اور وحشی تصورکرتی ہے‘ بلکہ کچھ اقتصادی مراعات کو بھی اِس سزا کو کالعدم کرنے سے مشروط کرتی ہے ‘مگر قاتلوں اور ریپسٹس کے ساتھ ہونے والے اِس’’ ظلم ‘‘پر چیخ پڑنے والی دنیا ‘چند’’ ملزموں‘‘کے شبے میں ہزاروں بے گناہ لوگوں سے حق زندگی چھین لینے اور ملکوں کے ملک تباہ کر دینے کو ضروری سمجھتی ہے ۔‘‘
’’کسی حد تک تمہاری بات میں وزن ہے ۔ ‘‘نفیس احمد نے رک کر سگریٹ کا کش لگایا تھا۔
’’مگر اب ایسا بھی نہیں کہ انسان کے بنائے قوانین سے اِس دنیا میں بہتری نہیں آئی ۔ کیا تم سمجھتے ہو؟ کہ پتھر کے دور میں رہنے والے انسان کے قائم کردہ سماجی نظام سے آج کا نظام بہتر نہیں ؟ آج سے سو دو سو سال پہلے اگر تم غلام پیدا ہوتے تو زندگی کیا ہوتی تمہاری ؟ آخر انسان ہی نے ایک پسے ہوئے طبقے کے تحفظ کے لیے قانون بنا کر اِس غیر انسانی روایت کو ختم کیا ۔‘‘
’’غلامی کیا ہوتی ہے ؟؟ اپنے وسائل اور قوت اور محنت کافائدہ خود نہ اٹھا پانا‘یہی ہے ناغلامی ؟ پہلے تو افراد غلام ہوا کرتے تھے اب تو قوموں کی قومیں غلام ہیں ‘اور غلامی انفرادی طور پر بھی کسی ناکسی صورت موجود ہی ہے ۔ یقین کیجئے پتھر کے دور کا انسان بھی خود کو مہذب ہی سمجھتا ہو گا ۔ ہم آج اُس سے بہتر ہیں ‘ یہ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا ۔ کچھ قاعدہ قانون تب بھی ہو گا ۔کچھ لوگ اور اُن کے مفادات تب بھی محفوظ ہوں گے ۔ اکثریت کے لیے دنیا کا نظام نہ تب انصاف پر مبنی تھا نہ اب ہے ۔‘‘
’’ یہ اپروچ تو غلط ہے جوان کہ بس اندھیرا ہی اندھیرا ہے ۔‘‘ برہان چیمہ ایش ٹرے میں سگریٹ سے ایش جھاڑتے ہوئے بولا تھا۔
’’تم بتاؤ کیا کرنا چاہئے ؟‘‘
’’حقیقت کو مان لینا چاہئے دیوانے کے خواب نہیں دیکھنے چاہئے نہ دکھانے چاہئے ۔ انسان بنیادی طور پر خودغرض ہے ۔ ہر خواب اور خیال کو آگے چل کر ایسی شکل دے دیتا ہے جسے وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کر سکے ۔ ہر تحریک بلآخر طاقتور کے ہاتھ کا کھلونا بن جاتی ہے سو اپنے لیے سوچیں ۔ چھوڑیے قوم اور انسانیت کی فلاح کو ۔ میرا تو یہی موٹو ہے ۔ ‘‘ وہ اُٹھتے ہوئے بولا تھا ۔
’’لو بھئی گل ہی مک گئی ۔‘‘برہان چیمہ نے تاسف سے سر ہلایا تھا
٭٭٭٭
گلشن یاد میں گرآج دم باد صبا
پھر سے چاہے کہ گل افشاں ہو تو ہو جا نے دو
عمر رفتہ کے کسی تاک میں بسرا ہوا درد
پھر سے چاہے کہ فروزاں ہو تو ہو جانے دو
مغنی کی سریلی آواز ہوا میں خوبصورت الفاظ بکھیر رہی تھی ۔فارم ہائوس پر منقعد اِس پارٹی میں محفل غزل کا خاص انتظام کیا گیا تھا ۔ملک کوشیر و شاعری سے کوئی خاص شغف تو نہ تھا مگر اِس وقت وہ پری رو سامنے تھی تو بامعنی لگ رہے تھے مغنی کے منہ سے نکلے الفاظ۔
جیسے بیگانے سے اب ملتے ہو ویسے ہی سہی
آئو دو چار گھڑی میرے مقابل بیٹھو
گرچہ مل بیٹھیں گے ہم تم تو ملاقات کے بعد
اپنا احساس زیاں اور زیادہ ہو گا
ہم سخن ہونگے جو ہم دونوں تو ہر بات کے بیچ
ان کہی بات کا موہوم سا پردہ ہو گا
کوئی اقرار نہ میں یاد دلاؤں گا نہ تم
کوئی مضمون وفا کا نہ جفا کا ہوگا
گردایام کی تحریر کو دھونے کے لیے
تم سے گویا ہو دمِ دید جو میری پلکیں
تم جو چاہو تو سنو اور جو نہ چاہو نہ سنو
ا ور جو حرف کریں مجھ سے گریزاں آنکھیں
تم جو چاہو تو ،کہو اور جو نہ چاہو نہ کہو
کچھ دیر پہلے وہ ہمدانی کے پہلو میں کھڑی اُس کے کسی کاروباری ساتھی کی بیوی سے ہنس ہنس کر بات کر رہی تھی تو آنکھوں کی اُداسی سے دلکش مسکراہٹ نے توجہ ہٹا رکھی تھی ۔ ویسے ہی جیسے اس کے سفید لباس کی متانت کو سرخ لپ سٹک کی شوخی نے متوازن کر رکھا تھا ۔ مگر اب برآمدے کے منقش ستون کے ساتھ کھڑی نظم کے بولوں میں کھوئی وہ خود بھی کسی اُداس غزل کا خوبصورت مصرع لگ رہی تھی ۔ ہمدانی منظر سے اِس وقت غائب تھا ۔ وہ اُس کے برابر جا کھڑا ہوا تھا ۔ اُس کی موجودگی محسوس کرکے وہ اپنی اُس کیفیت سے نکل آئی تھی ۔ ذرا سا رخ موڑ کر اُس کی جانب دیکھا تو وہ مسکرایا تھا ۔ جواباً اُس کے لبوں پر ایک پرتکلف سی مسکراہٹ آئی تھی۔
Zabardast Kahani hai. Thori si underrated hai mgr hai zabardast. It deserves an applaud.