سلسلہ وار ناول

ہجر و وصال: قسط نمبر 2

رات کے بارہ بجنے والے تھے ۔بہت دنوں بعد فراغت ملی تھی ۔ وہ ٹی وی پر فلم دیکھ رہا تھا ۔ فون بجا تھا ۔ ثمینہ کا نمبر دیکھ کر اُس نے ناگواری سے منہ بنا یا تھا۔
’’اب یہ دماغ کھائے گی ۔ ‘‘فون اُٹھانے سے پہلے وہ بڑبڑایا تھا ۔ مگر ہیلو کہتے ہوئے لہجہ شہد آگیں ہوا تھا ۔
’’کیسے ہیں آپ ؟دو دن سے فون نہیں کیا آپ نے ۔‘‘
’’سوری یار بہت بزی تھا ۔ ابھی بھی اسائنمنٹ بنا رہا ہوں ۔‘‘
’’مطلب میں نے ڈسٹرب کیا ؟ ‘‘
’’ڈسٹرب تو تم مجھے ہر وقت کر تی ہو ۔ ‘‘وہ لہجہ خمار آلود بناتے ہوئے بولا تھا ۔ دوسری طرف ثمینہ کے لبوں پر شرمگیں مسکان بکھری تھی ۔
’’ رہنے دیں بس۔ دو ‘دو دن فون نہیں کرتے آپ ۔ ‘‘وہ مصنوعی ناراضگی کے ساتھ بولی تھی ۔
’’ یار یہ ساری محنت تمہارے لیے ہی توکر رہا ہوں ۔ کسی قابل نہ ہوا تو کس منہ سے ماموں کے سامنے کھڑا ہو کر تمہارا ہاتھ مانگوں گا۔‘‘
ثمینہ اُس کی بات پر کچھ شرمندہ سی ہو گئی تھی ۔
’’ اچھا چلیں یہ بتائیں ۔ کل ہم مل سکتے ہیں ؟ ‘‘
’’نہیں یار کل تو میرا آف نہیں ہے ۔ ‘‘ اس کے ساتھ اتوار برباد کرنے کا ایک ذرا جی نہیں کر رہا تھا ۔
’’اچھا !چلیں ‘پھر پرسوں؟‘‘ وہ کچھ مایوس ہوئی تھی ۔
’نہیں یہ ویک تو پورا ہی بزی جائے گا ۔ اگلے ویک میں دیکھ لیتے ہیں ۔ ‘‘ اُس نے جان چھڑائی ۔
’’اوکے ‘جیسے آپ کو سوٹ کرے پلان کر لیں ۔ ‘‘وہ تابعداری سے بولی تھی ۔
’’ میں نے فون اِس لیے کیا تھا کہ …‘‘وہ آدھی بات کر کے خاموش ہوئی تھی اسی اثناء میں گھڑی نے بارہ بجائے تھے ۔
’’ہیپی برتھ ڈے ٹو یو… ‘‘وہ جوش سے بولی تھی ۔
’’تھینک یو ۔ ‘‘اُسے خود تو واقعی یاد نہیں تھا ۔
’’ میں اِسی لیے ملنا چاہ رہی تھی کہ ہم مل کر سیلیبریٹ کریں گے ۔ ‘‘ثمینہ کو بھی نئے ’’نبی ،نباؤں‘‘ کی طرح دنوں کا بخار چڑھتا تھا ۔ کبھی برتھ ڈے ،کبھی ویلنٹائن ڈے،کبھی فرینڈ شپ ۔ اُس کو اپنے پیدا ہونے کی کوئی اتنی خاص خوشی نہیں تھی جو سالہا سال مناتا رہتا ۔ سرپرائز بہرحال ثمینہ نے دے ہی دیا تھا ۔ اگلے دن اُسے ریسٹورنٹ سے ایک ساتھی کا فون آیا تھا کہ اُس کے نام پیکج آیا ہے ۔ وہ پہنچا تو کیک ،پھول اور تحفہ انتظار کر رہے تھے ۔ کیک تو ساتھی ورکرز نے نکال کر سامنے رکھ دیا تھا کہ یہیں کاٹ کر جاؤ تاکہ ہم بھی مستفید ہو سکیں ۔ اُس نے اور کہاں لے جانا تھا وہیں کاٹ لیا ۔
’’پیاری ثمینہ ‘‘کو ہماری طرف سے بھی بہت پیار ‘ کیک بڑا اچھا بھیجا ہے ۔ ‘‘ نازنین کیک کے پیس سے انصاف کرتے ہوئے بولی تھی ۔
’’ویسے بندی لگتا ہے محنت کر کے ڈھونڈھی ہے ۔ دل والی ہے یا پھر بہت پیسے والی ‘خرچہ کیا ہے کافی ۔ ‘‘
’’کزن ہے میری ۔‘‘
’’اوہ !پھر تو شادی وادی کا ارادہ ہو گا ۔‘‘
’’فی الحال تو نہیں ہے ۔‘‘وہ لاپرواہی سے بولا تھا ۔
’’نہ کرو‘خاندان کی لڑکی سے بھی کھیل ہی رہے ہو ؟‘‘
’’ زندگی ایک کھیل ہے ۔ جو کھیلتے نہیں ہیں، وہ ہار جاتے ہیں ۔ ‘‘وہ بظاہر سنجیدگی سے بولا تھا ۔
’’واہ !کیا بات ہے ‘کیا بات ہے ۔ ‘‘نازنین نے ہنستے ہوئے داد دی تھی ۔
’’ ویسے ‘بہت ہی کوئی کمینے ہو ۔ ‘‘شہریار ہنس دیا تھا۔
٭٭٭٭
’’یہ مورتی تم نے اپنی جگہ سے کیوں ہلائی ؟ ‘‘نفیس احمد پہلی بار کسی چیز کے بارے میں برہم لہجے میں استفار کر رہا تھا ۔بک شیلف کے اندر رکھی ہندو دیوتا کی مورتی اور چھوٹی سی گھنٹی شہریار نے اُٹھا کر شیلف کے اوپر رکھ دی تھی اور اوپر پڑی کتابوں کو شیلف میں لگا دیا تھا ۔
’’سر مجھے لگاکتابیں اندر اور شو پیس اوپر بہتر لگے گا ۔ ‘‘
’’شو پیس نہیں ہے یہ ۔ ‘‘وہ درشت لہجے میں بولا تھا ۔ شہریار کو اپنی غلطی کا احساس ہو اتھا ۔ یہ مورتی یقیناً اپنی آنجہانی بیوی کی یاد میں سجا رکھی تھی ۔ نفیس احمدنے کتابیں نکال کر دوبارہ مورتی وہیں سجائی تھی ۔
’’دوبارہ اِس کو ہاتھ مت لگانا۔‘‘ تنبیہ کی تھی ۔
رات میں وہ سٹنگ روم میں بیٹھا ٹی وی پر کوئی پروگرام دیکھ رہا تھا جب نفیس احمد آکر اُس کے برابر میں بیٹھ گیا ۔
’’مجھے تم سے ایسے لہجے میں بات نہیں کرنی چاہئے تھی ۔ ‘‘نفیس احمدکے لہجے میں کچھ شر مندگی تھی ۔
’’کوئی بات نہیں سر …مجھے سوچنا چاہئے تھا آپ کی جذباتی وابستگی ہو سکتی ہے ۔ ‘‘نفیس اسلم نے سر ہلایا تھا ۔
’’شیما پریکٹسنگ ہندو تھی ۔ اپنے مندر کے لیے اُس نے یہ شیلف چنی تھی ۔ ‘‘ نفیس احمد شیلف میں لگی مورتی کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا کر بول رہا تھا ۔ مگر مسکراہٹ کے پیچھے کھو دینے کا درد بڑا واضح جھلک رہا تھا ۔ کہانی محبت کی تھی، گہری محبت کی ‘ شہریار کے دل میں ایک تجسس جاگا تھا۔
’’ایک بات پوچھوں سر برا تو نہیں مانیں گے ؟ ‘‘ وہ پوچھتے ہوئے کچھ جھجھک رہا تھا۔
’’نہیں پوچھو۔‘‘
’’ عشق میں کافر ہوئے تھے آپ ؟ ‘‘جواباًنفیس احمد کا قہقہہ گونجا تھا۔
’’ نہیں میں کبھی مومن ہو ہی نہیں سکا ۔میرا باپ مسجد کا ایک سخت گیر امام تھا ۔ سخت گیر کیا ،سمجھو میں اپنی زندگی میں کسی ایسے شخص کو ذاتی حیثیت میں نہیں جانتا جو ‘اُس سے زیادہ ظالم لگا ہو مجھے ۔ میں ،میرے بہن بھائی ،میری ماں ، مدرسے کے بچے ، ہر کمزور شخص، اُس سے خوفزدہ رہتا تھا ۔ اور وہ اپنے ہر ظلم کو خدا کا حکم کہتا تھا ۔ عربی کے مشکل لفظوں پر اٹکنے پر پتلی لچکدار چھڑی کی ضربیں کھاتے ہوئے ، سخت سردی کی راتوں میں ٹھنڈے یخ پانی سے وضو کرتے ہوئے دل میں بغاوت ہی نہیں نفرت بھی پیدا ہو گئی تھی ۔ بعد میں فلسفہ پڑھا ،تاریخ پڑھی تو پتا چلا مذہب بھی ایک ہتھیار ہے لوگوں کو بے وقوف بنانے کا ،قابو میں رکھنے کا ۔ کوئی وجہ نہیں رہی میرے پاس مذہب کو ماننے کی ۔ جس چیز کا واضح کوئی ثبوت نہیں اُس کی خاطر میں اُن پابندیوں کو کیوں برداشت کروں ‘جو مجھے قطعاََبے جا لگتی ہیں ؟‘‘
’’تو گویا آپ پابندیوں سے گھبرائے تھے ؟‘‘
’’ ہمم …کسی حد تک پابندیاں بھی مشکل تھیں میرے لیے ‘مگر اور بھی بہت کچھ تھا جو مجھے سمجھ نہیں آیا ۔ ‘‘
’’مگر سمجھ تو بہت کچھ نہیں آتا ‘کتنا کچھ ایسا ہے جو وقت کے ساتھ سمجھ میں آنے لگتا ہے اور کتنا کچھ ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ عقل سے بالاتر لگنے لگتا ہے ۔ ضروری تو نہیں جو آج غلط لگ رہا ہو وہ غلط ہی ہو ۔ یا جو آج صحیح لگ رہا ہے وہ کل بھی سچ لگے ۔ ‘‘
’’ ہاں انسان کی عقل ارتقائی عمل سے گزرتی ہے اور اِس پراسس میں کئی سچ جھوٹ اور جھوٹ سچ بنتے ہیں مگر ‘میرے آج کا سچ یہی ہے کہ مذہب کا تصور میری سمجھ سے بالاتر ہے ۔ اور پھر میرا مرشد بھی تو یہی کہتا ہے کہ یہ دنیا ایک کثیف نکتے سے پھیلی ہے ۔ جس میں ہر قوت کو نفی کر دینے والی قوت موجود ہے ۔ ہر مثبت چارج کے برابر منفی چارج موجود ہے ۔ ہر پہاڑ کے برابر کھائی موجود ہے ۔ گویا حاصل جمع صفر ہے ۔ صفر سے شروع ہوئی تھی یہ کائنات اور ایک دن صفر ہو جائے گی ۔ کیسے شروع ہوئی اُس کی تاویل سائنس میں موجود ہے اور کیسے ختم ہو گی وہ بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے تو پھر کسی غیبی چیز میں جواب ڈھونڈھنا تو ہم پرستی نہیں تو کیا ہے ؟ ‘‘
’’تم بتاؤ ‘تم کیا سوچتے ہو ؟ تمہیں کس چیز نے متنفر کیا ؟ ‘‘
’’ہمم … مجھے آپ کے مرشد سٹیفن ہاکنگ کی ایک بات سے مکمل اتفاق ہے کہ اگر خدا ہے بھی تو وہ ایک قوت ہے جو سائنسی اصولوں کے مطابق اِس دنیا کو چلا رہی ہے ۔ اِس کائنات کی وسعت کو دیکھتے ہوئے سوچنا کہ وہ ایسی کوئی ہستی ہے جس کا تصور مذاہب دیتے ہیں ، جس کے ساتھ ہر انسان کا ایک ذاتی تعلق ہو سکتا ہے ،ممکن نہیں ہے ۔ اُس کے پاس بہت بڑی کائنات ہے سنبھالنے کے لیے ۔ میری آپ کی سننے کے لیے اُس کے پاس وقت نہیں ہے ۔ اور جب سننے کے لیے وقت نہیں تو جواب مانگنے کے لیے بھی وقت نہیں ہونا چاہئے ۔ ‘‘ وہ لاپرواہ لہجے میں بولا تھا۔
٭٭٭٭
اپنے پرتعیش آفس میں بیٹھا وہ سامنے لیپ ٹاپ پر کھلی ایک ایکسل شیٹ پر غور کر رہا تھا ۔انٹر کام بجا تھا ۔
’’ سر وہ مسٹر فرقان حسین آئے ہیں ۔ جن کے ساتھ آپ کی میٹنگ طے تھی ۔ ‘‘ سیکٹری نے اطلاع دی تھی ۔ وہ اُسی کا نتظار کر رہا تھا مگر یہ بات اُسے پتا چلنے کا مطلب تھا اُسے اُس کی اہمیت کا احساس دلانا ۔ جو ایک اچھی حکمت عملی ہر گز نہ تھی۔
’’ٹھیک ہے پندرہ منٹ کے بعد اندر بھیج دیں انہیں ۔ ‘‘ اُس نے بہت کوشش کی تھی کہ اِس ملاقات کے بغیر اُس کے مقاصد کا حصول ہو جائیں مگر فرقان حسین نے ایسا ہونے نہیں دیا تھا ۔
وہ ایک پڑھا لکھادرمیانے درجے کا زمین دار تھا جو زراعت ہی میں ڈگری لے کر اب جدید طریقوں اور آلات کا نہ صرف خود استعمال کررہا تھا ‘بلکہ دیگر کاشتکاروں کو بھی اُن سے متعارف کروا رہا تھا ۔ یقینا یہ قابل تعریف بات تھی ۔ کوئی اور حالات ہوتے تو ملک بھی یقینا اُسے سراہتا ‘مگر اب مسئلہ یہ تھا کہ اُس کی زمین چاہئے تھی ملک کو اپنی نئی ہاؤسنگ سوسائٹی کے لیے ۔ وہ نا صرف خود زمین نہ بیچنے پر ڈٹا ہوا تھا بلکہ اُس علاقے کہ کئی اور زمینداروں کو بھی زمین نہ بیچنے کے لیے اُکسا رہا تھا ۔ جن میں سے کچھ واقعی زمین نہیں بیچنا چاہتے تھے اور باقی اپنی قیمت بڑھانا چاہتے تھے ۔ اُسے پہلے بھی رابطہ کر کے بہتر آفر کی گئی تھی مگر اُس کا آئیڈیلزم اور ایکٹیوزم اُسے اُس کا فائدہ دیکھنے نہیں دے رہا تھا اور اُن کے لیے الگ درد سر بنا ہوا تھا ۔ دھونس دھمکی سے یہ کام آرام سے ہو سکتا تھا مگر مسئلہ فرقان کی سوشل میڈیا فالوونگ تھی ۔ یو ٹیوب پر ستر ہزار سے زیادہ اُس کے فالوورز تھے ۔ ویڈیو زپر لاکھوں میں ویوز آتے تھے ۔ ملک کو زیادہ بہتر لگا کہ گھی سیدھی اُنگلی ہی سے نکالا جائے ۔
سترہ منٹ بعد اُس نے اپنی سیکرٹری کو اُسے اندر بھیجنے کو کہا تھا مگر انتظار کروانے کے لیے معذرت کرنا نہیں بھولا تھا۔
’’مسٹر فرقان آپ متاثر کن نوجوان ہیں ‘جو آپ کر رہے ہیں یقیناقابلِ تعریف ہے ۔ ایگریکلچرجیسے کم منافع بخش شعبے کے لیے آپ کے جذبے کی میں دل سے قدر کرتا ہوں ۔ اور میں چاہتا ہوں ایسا حل ہو جو آپ کے لیے بھی فائدے مند ہو اور ہمارے لیے بھی ۔‘‘
’’اچھا !ایسا کون سا حل نکل سکتا ہے ؟ ‘‘فرقان کے انداز سے لگا رہا تھا وہ بغیر سنے ہی اُس کا ’’ سلوشن ‘‘ ریجیکٹ کر چکا ہے ۔
مگر ملک کوشش کیے بغیر ہار ماننے والوں میں سے ہر گز نہیں تھا ۔
’’ہم اِس زمین کے متبادل آپ کو زرعی زمین آفر کر رہے ہیں ۔ اور ساتھ معاہدے اور اِس سب پریشانی کے لیے ہم آپ کو ایکسٹرا کمیشن دینے کو تیار ہیں ۔ ‘‘
’’اور باقی زمینداروں کا کیا ہو گا ؟ ‘‘وہ ماننے کے موڈ میں ہرگز نظر نہیں آرہا تھا اور ملک کو نظر آنے لگا تھا کہ وہ محض اپنا وقت ضائع کر رہا ہے ۔
’’ہم کسی سے بھی زمین مفت نہیں لے رہے ۔ ‘‘ملک اپنی جھنجھلاہٹ کو بمشکل چھپا کر بولا تھا۔
’’چلو زمیندار کو تو آپ کچھ نہ کچھ پیسے دے دیں گے ۔ اُن حاریوں کا کیا ہو گا جو کئی نسلوں سے اِن زمینوں پر کھیتی کرتے آرہے ہیں ؟ جن سے راتوں رات روزگار ہی نہیں راتوں رات سر کی چھت بھی چھن جائے گی ؟‘‘
’’دیکھیے کنسٹرکشن بھی ایک انڈسٹری ہے ‘جس سے لاکھوں لوگوں کو روزگار ملتا ہے ۔‘‘
’’آپ اپنی ہاؤسنگ سوسائٹی کے لیے کوئی بنجر زمین کیوں نہیں ڈھونڈ لیتے ؟‘‘
’’جیسے ہر جگہ زراعت کے لیے مناسب نہیں ہو سکتی ویسے ہی ہر جگہ ہاؤسنگ سوسائٹی بھی نہیں بن سکتی ۔‘‘
’’تو کچھ امراء کو اچھا طرز رہائش دینے کے لیے ۔ ذرخیز زمینوں کو کنکریٹ کے جنگل میں بدل دیا جانا چاہئے ؟ ‘‘
’’بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے مناسب رہائش بھی ایک ضرورت ہے ۔ ‘‘ ملک اکتا گیا تھا۔مقابل یا کوئی سیاسی عزائم رکھتا تھا یا اُس کے ذہن میں آئیڈیلزم کا کیڑا تھا ۔
’’اور فوڈ سیکیورٹی کا کیا ؟ اگر ایسے ہی زرخیز زمینیں بنجر کی جاتی رہیں تو یہ بڑھتی ہوئی آبادی آنے والے وقت میں کھائے گی کیا ؟ مگر آپ جیسے لوگوں کو یہ سوچنے کی کیا ضرورت ہے ؟اگر ملک میں روٹی نہ ہو تو بھی آپ تو کیک امپورٹ کر کے کھا سکتے ہیں ۔ ‘‘واہ استہزائیہ انداز میں مسکراتے ہوئے بولا تھا ۔
’’سو باتوں کی ایک بات مسٹر ملک ! میں اپنی زمین کسی صورت نہیں بیچوں گا ۔‘‘ وہ مصمم لہجے میں بولا تھا۔
ملک اُس کی بات پر مسکرایا تھا۔
’’میں تمہارے جذبات کی قدر کرتا ہوں ۔ اگر تمہاری زمین کی لوکیشن اتنی مرکزی نہ ہوتی تو میں پیچھے بھی ہٹ جاتا مگر مسئلہ یہ ہے کہ وہ زمین مجھے چاہئے ۔ اب یہ تم پر ہے کہ تم عقل کا استعمال کرو اور باہمی نفع کا سودا کرو ۔ یا جذبات میں آکر مجھے مجبور کرو ایسے ہتھکنڈے استعمال کرنے کے لیے جو میں نہیں کرنا چاہتا ۔ ‘‘
’’دھمکی دے رہے ہو ؟ ‘‘ملک جواباًصرف لاپرواہی سے کندھے اُچکا کر مسکرایا تھا ۔
’’یاد رکھو‘میں بھی آخری حد تک جاؤں گا اپنی زمین بچانے کے لیے۔‘‘وہ جذبے سے سلگتی آواز میں بولا تھا۔

پچھلا صفحہ 1 2 3

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page