ہجر و وصال: قسط نمبر 2
’’یار تمہیں ایک ضروری بات نہیں بتائی میں نے !‘‘
’’جی سر ؟‘‘
’’ اِس گھر میں رہ کر ایک ملحدکے خیالات سے اپنے ایمان کو بچانا تمہاری اپنی ذمہ داری ہے ۔ ‘‘وہ تنبیہی انداز میں بولا تھا ۔ شہریار کے لبوں پر ایک استہزائیہ مسکراہٹ آئی تھی ۔
’’فکر نہ کریں سر! میرے پاس گنوانے کے لیے کچھ بھی نہیں۔‘‘
’’پھر تو مجھے ڈرنا چاہئے تم سے ۔ ‘‘وہ ہنستے ہوئے بولا تھا ۔
’’خیر کسی سے ڈرنے کے قابل احوال میرا بھی نہیں ۔‘‘شہریار کو اُس کی بات کا مطلب اُس کے اپارٹمنٹ میں پہنچ کر پتا چلا تھا ۔ جون ایلیا کا شعر یاد آیا تھا ۔ نہ تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ تھا اور نہ کمرے میں کتابوں کے سوا۔
کتابوں سے بھری چند الماریوں کے علاوہ فرنیچربرائے نام ہی تھا ۔ اُن دونوں کے علاوہ اِس مکان کی ایک مکین ایک بدمزاج سی لنگڑی بلی تھی ۔جس کی بد دماغی کی وجہ سمجھنا مشکل تھا کیونکہ نصب و نسل سے بھی اعلی ٰمعلوم نہیں ہوتی تھی ۔ غالباًمعذوری پر ترس کھا کر اُسے گود لیا گیا تھا۔شہریار کو چند دن میں ہی معلوم ہو گیا تھا کہ وہ بھی ایسے ہی خیراتی خیال کے تحت یہاں لایا گیا تھا ۔ نام کے برعکس نفیس ا حمد کا صفائی کا معیار وہی تھا جو لاپروا طبیعت کے مردوں کا ہوتا ہے ۔ وہ کچھ جھاڑ پونچھ کر دیتا تو ٹھیک نہیں تو نہ سہی ۔ پکانے اور کھانے کا شوق وہ خود رکھتے تھے سو اِس شعبے میں اُس کی خدمات کی ضرورت نہ تھی ۔ روزانہ کی بنیاد پر چند برتن ہی دھونے ہوتے تھے جن میں سے آدھے اُس کے اپنے زیر استعمال ہوتے تھے ۔
ہاں مہینے میں ایک آدھ بار ہم خیال دوستوں کی نشست بلائی جاتی تھی ۔ بڑے سے پتیلے میں کچے گوشت کی بریانی بنتی تھی ۔ اور پھر فرشی نشست پر براجمان ہو کر ترقی پسند شعرا ء کی شاعری سے لے کر آسٹروفزکس تک سب کچھ زیر بحث آتا تھا۔کارل مارکس اور فریڈرک اینگلزکی سوانح عمری اور کارنامے دوہرائے جاتے ۔ فرانسیسی اور روسی انقلاب کا موازنہ کیا جاتا ۔ کبھی سرمایہ دارانہ نظام کو لتاڑا جاتا اور کبھی مذہب اور ملا کو ترقی کی راہ میں روکاوٹ گردانا جاتا ۔ اِس پر روشنی ڈالی جاتی سیکولرزم کو ترویج دینا کیوں ضروری ہے اور نیو سوشلزم دنیا کو کیسے بچاسکتاہے ۔
شہریار کو دنیا کو بچانے میں قطعاََکوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ سو وہ چائے کے کپوں سے لدی ٹرے رکھتا اور اپنے کمرے میں چلا جاتا ۔ ہاں اِن محفلوں کا ایک فائدہ یہ ہوا تھا کہ اُسے نفیس احمدکے ایک جاننے والے کے توسط سے ایک ہائی اینڈ ریسٹورنٹ میں نوکری مل گئی تھی جہاں ایک انگلش میڈیم بیرہ درکار تھا۔
’’سنو ! کیا نام ہے تمہارا ؟‘‘ مصروف سے انداز میں یہ سوال اُس لڑکی نے کیا تھا ‘ جسے یہاں آنے کے بعد بار بار اُس نے نظر بچا کر دیکھا تھا۔
’’شہریار ۔‘‘اُس نے ہاتھ سے صاف کیا ہوا گلاس رکھتے ہوئے جواب دیا تھا۔
’’آٹھ نمبر ٹیبل سے جا کر آرڈر لو ۔انگریزی میں بات کر نا جب تک یہ نہ لگے کہ کسٹمر کو بالکل ہی کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔ ‘‘شہریار نے اثبات میں سر ہلا کر نوٹ پیڈ اُٹھا لیا تھا ۔
’’اور سنوفارغ ہو کر ایک بار فرصت سے تاڑ لینا ۔ ‘‘ وہ پونی ادا سے پیچھے کرتے ہوئے بولی تھی ۔
’’بار بار چوری چوری دیکھتے رہو گے تو کام سے دھیان ہٹتا رہے گا ۔ ‘‘شہریار نے اُس پر ایک نظر ڈالی تھی ۔ کھلتی ہوئی گندمی رنگت ،سیاہ آنکھیں ،چھوٹی سی ناک گلابی لب اور چست یونیفارم میں عیاں ہوتا نسوانیت سے بھرپور سراپا۔کوئی ایسی ماہ جبیں بھی نہیں تھی مگر کوئی بات تو تھی ۔ شاید اُس کی ادا ،یا وہ روشن آنکھیں ، یا شاید زیریں لب کے نیچے چمکتا چنچل سا تل ! بے ارادہ ہی اُٹھی تھیں اُس کی آنکھیں ‘جب بھی اُٹھی تھیں۔
’’آفر کا شکریہ مگر دیکھ لیا جو دیکھنا تھا ۔ اب ایسا بھی کچھ نہیں ہے جس کے لیے فرصت چاہئیے ہو ۔ ‘‘وہ لاپرواہی سے کہہ کر ڈائننگ ایریا کی جانب بڑھا تھا ۔ وہ لڑکیوں کے ’’اکھڑ بیڈ بوائے ‘‘والے ذوق سے واقف تھا مگر اتنی بے مروتی بہر حال اُس نے کسی لڑکی کو پہلی ملاقات میں نہیں دیکھائی تھی ۔ شاید وجہ یہ تھی کہ کشش اپنی جگہ مگر وہ اس کے مطلب کی بندی نہیں تھی ۔ کھاتے پیتے گھرانوں کی لڑکیوں کا شوقیہ ہوٹلوں میں بیرہ گیری کا کہاں رواج تھا ؟
’’ہنہ کنگلوں کے سستے بھرم ۔ ‘‘نازنین بھی سر جھٹک کر اُس کے انداز پہ بڑبڑائی تھی ۔ وہ بھی یقینااُس کے مطلب کا لڑکا نہیں تھا ۔
٭٭٭٭
’’یہ پلان تو آپ کا فلاپ ہی لگ رہا ہے ملک صاحب ۔ ‘‘ باسل رحمانی فائل اُس کے ٹیبل پر رکھ کر سامنے کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا تھا ۔
’’یہ کیا ہے ۔ ‘‘ملک نے فائل کھولی تھی ۔
’’یہ فیزیبلٹی رپورٹ ہے ۔ جس کے مطابق ہائی وے کا پلان فائنلائز ہو رہا ہے ۔ ہماری والی رپورٹ پہ نقطہ اعتراض لگا کر فارغ کر دیا گیا ہے کہ سرکاری خزانے کو نہ صرف اربوں کا نقصان ہو گا بلکہ راستہ بھی طویل ہو جائے گا ۔ میری معلومات کے مطابق شارٹسٹ پاسبل روٹ ہی پر کام شروع ہو رہا ہے ۔ اگر ہائی وے وہاں سے نہیں گزرتی ‘تو پھر تو شہر کے مرکز سے اتنی دور کوئی پاگل ہی خریدے گا پلاٹ ۔ مجھے تو لگ رہا ہے پیسہ پھنس گیا ہے میرا ۔ ‘‘ملک نے ایک لاپرواہ سی مسکراہٹ کے ساتھ اپنے دوست کو دیکھا تھا جو اِس پروجیکٹ میں اُس کا پارٹنر بھی تھا۔
’’تو آپ اپنا پیسہ نکال لیں۔‘‘سگریٹ کی ڈبی کھول کر باسل رحمانی کو سگریٹ آفر کیا تھا ۔ باسل نے سگریٹ لینے کے بجائے اُس کے لاپرواہ انداز کو کوفت سے دیکھا تھا۔
’’پیسہ نکال لوں ؟ یہ حل ہے تمھارے پاس؟‘‘
’’ہر چھوٹی بڑی رکاوٹ پر جس کے اُوسان خطا ہوجائیں اور خطرے پر ٹانگیں کانپنے لگیں اُسے لمبی چھلانگ مارنے کی کوشش ہی نہیںکرنی چاہئے ۔ ‘‘ ملک سگریٹ سلگاتے ہوئے بولا تھا ۔ اُس کے انداز پر باسل کے تنے اعصاب ڈھیلے پڑنے لگے تھے ۔ اگر وہ پر اعتماد تھا تو یقیناً اُس کے پاس پلان تھا ۔ وہ خالی شیخیاں بھگارنے والوں میں سے نہیں تھا ۔ زیرو سے آغاز کرکے چونتیس سال کی عمر میں جہاں وہ پہنچا تھا اُس کا خواب بھی کسی شیخ چلی کے بس کی بات نہیں تھی ۔ یہ ٹھیک تھا کے اُس کے کارناموں میں سے ایک اہم کارنامہ ایک بڑے بزنس ٹائیکون کی اکلوتی وارث کو پھانسنا تھا مگر جاننے والے جانتے تھے کہ اُس کی اُڑان اُس سے قبل بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی ۔
’’اوکے کیا کرو گے تم ؟‘‘باسل نے سامنے رکھی سگریٹ کی کھلی ڈبی سے سگریٹ نکالتے ہوئے سوال کیا تھا۔
’’پلان بننے اور اُس پر عمل در آمد ہونے میں کئی مرحلے ہوتے ہیں ۔ہر جگہ ایسے کچھ افسر موجود ہوتے ہیں جنہیں ملک و قوم کے مفاد کی کچھ زیادہ ہی پڑی ہوتی ہے ۔ مگر اُن کو بائے پاس کرنے کے بھی کئی طریقے ہوتے ہیں ۔ جو ،جو رپورٹ بنا رہا ہے ‘بنانے دو ۔ آخرمیں جس پلان پر عمل در آمد ہو گا ‘ وہ ہمارا ہی ہو گا ۔ وقت آنے پر سرکاری رکارڈ میں بھی درستگی کر دی جائے گی ۔ البتہ کچھ زمیندار مسائل پیدا کر رہے ہیں ۔ ‘‘اب کہ اُس کے لہجے میں سنجیدگی تھی ۔
’’نہیں نہیں ۔ اِن کسانوں کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ‘زمین نہیں بیچیں گے تو کریں گے کیا ۔ ‘‘باسل رحمانی نے کان سے گویا مکھی اُڑائی تھی ۔
’’بس ہائی وے وہاں سے پاس ہونی ضروری ہے ۔‘‘
’’ یہ جو یوٹیوب چینل والا ماڈل کاشتکار ہے ،یہ مسئلہ بن بھی سکتا ہے !‘‘
’’ چلو ‘سیدھی انگلی سے نہ نکلا گھی ٹیڑھی سے تو نکل ہی جائے گا ۔ ‘‘باسل رحمانی کو اُس کا اندیشہ بے جا لگا تھا۔
’’سوشل میڈیا کا دور ہے ۔ اس کی اچھی بھلی فین فالونگ ہے ۔ احتیاط سے معاملہ ہینڈل کرنا پڑے گا ۔ ‘‘وہ جو دیکھ رہا تھا شاید باسل رحمانی دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا ۔
’’ویسے تمہیں اِس پلان میں میں کبھی شامل نہ کرتا اگر یہ چینل نہ سٹارٹ کر رہا ہوتا ۔ ‘‘ملک ہلکے پھلے انداز میں بولا تھا ۔
’’اب یہ نہ کہنا کہ شیخ انٹرپرائزز کا کرتا دھرتا فنڈز کی کمی کا شکار ہے !‘‘باسل کش لگاتے ہوئے بولا تھا ۔
’’بات تو رسوائی کی ہے مگر سچ ہے ۔ بڈھا بورڈ آف ڈائریکٹرز میں پھنسا کر گیا ہے ۔ توڑ تو ہو جائے گا اُس کی چال کا پر کچھ وقت لگے گا ۔ ‘‘ملک ایش ٹرے میں سگریٹ بجھاتے ہوئے بولا تھا۔
٭٭٭٭
ریسٹورنٹ میں آج معمول سے کچھ زیادہ رش تھا ۔ وہ آرڈر لینے کے لیے ایک کسٹمر کے پاس گیا تھا ۔ ادھیڑ عمر شخص تھا ‘شکل و صورت عام سی مگر امپورٹڈبوٹ بیش قیمت سوٹ اور کامیابی اوردولت کا عطا کردہ اعتماد گواہ تھے کہ وہ کسٹمر عام سا نہیں تھا ۔ شہریار نے مسکرا کر مؤدب انداز میں آرڈر کا پوچھا تھا ۔ جواباً اُس نے موبائل سے نظر اٹھا کر ایک اچٹتی سی نظر اُس پر ڈالی تھی ۔
’’نازنین نہیں آئی آج کیا ؟‘‘
’’نو سر شی از ہیئر ‘میں بھیجتا ہوں۔‘‘وہ مؤدب انداز میں کہتا پلٹ گیا تھا ۔تو یہ بڈھا بھی نازنین کے ’’متاثرین ‘‘میں سے تھا ۔ شہریار نے مسکراتے ہوئے سوچا تھا ۔ اس کے ایسے دیوانے اور بھی تھے ۔ وہ آرڈر لیتے لیتے کبھی بے نیازی سے پونی جھٹکتی ‘کبھی بھولپن سے پین دانتوں میں دبا لیتی ۔ نقوش ایسے تھے کہ چہرے سے معصومیت جھلکتی تھی ۔ مگر چند گھنٹے لگے تھے شہریار کو اِس ’’معصومیت ‘‘کی حقیقت جاننے میں ۔
وہ اُس قسم کی لڑکی تھی جسے عرفِ عام میں ’’چالو‘‘کہا جاتا ہے ۔ کچن میں داخل ہوا تو وہ سامنے ہی کھڑی نظر آگئی تھی ۔
’’ٹیبل نمبر پانچ والے صاحب صرف مس نازنین کو آرڈر دیں گے ۔ ‘‘ نازنین نے ناگواری سے آنکھیں گھمائیں تھیں مگر آرڈر بک اُٹھا کر باہر نکلنے سے پہلے بہت بشاش مسکراہٹ سجا لی تھی ۔ اور اب اپنائیت سے شکوہ کیا جا رہا تھا۔
کتنے دنوں بعدآئے ہیں…کہاں تھے آپ‘مجھے تو لگا آپ ہمیں بھول ہی گئے ہیں ۔ ‘‘کچھ دیر پہلے تک سنجیدہ اور بارعب نظر آنے والے کی بھی اب باچھیں کھلی ہوئیں تھیں ۔
’’آؤٹ آف کنڑی تھا ۔ آپ کو کیسے بھول سکتا ہوں ۔ ‘‘ وہ بھی ’’ڈُل ‘‘رہا تھا ۔ اِس چاہ اور ادا کے بیچ آرڈر لیا بھی گیا تھا اور سروو بھی کیا گیا تھا ۔ اور اِس ’’رومانٹک فلم ‘‘کا کلائمکس ہوا تھا ایک تگڑی ٹپ پر ۔
چند گھنٹے بعد وہ ساتھ کھڑے ڈش واشر سے نکلی پلیٹیں کپڑے سے صاف کر رہے تھے۔
’’تنخواہ سے زیادہ تو ٹپ مل جاتی ہوگی ۔ ‘‘شہریار نے مسکراتے ہوئے پوچھا تھا ۔ اُس نے آگے سے تیکھی نظروں سے گھورا تھا ۔
’’تو تمہیں کوئی مسئلہ ہے ؟‘‘
’’اتنا ناراض کیوں ہو رہی ہو ؟جج نہیں کر رہا ۔ ‘‘شہریار جارہانہ انداز کے جواب میں دوستانہ لہجے میں بولاتھا۔
’’میں تو یہ سوچ رہا تھا کہ میں اگر لڑکی ہوتا تو شاید تم جیسا ہوتا ۔‘‘
’’ اچھا ! ‘‘نازنین نے اب کہ اُسے دلچسپی سے دیکھا تھا۔
’’ شوقین آنٹیاں بھی آتی ہیں یہاں کافی … تم بھی کوشش کر کے دیکھ لو شکل تو ٹھیک ہی ہے تمہاری ۔‘‘
شہریار نے یوں سر ہلایا تھا جیسے اُس کا مشورہ پسند آیا ہو۔
’’ ویسے …ایسی شکل کو صرف ٹھیک کہنا توبہرحال زیادتی ہے ۔‘‘
’’بڑی خوش فہمی ہے تمہیں اپنے بارے میں ۔ ‘‘
’’خوش فہمی نہیں اعتماد ہے ۔ آئینے کی صداقت پر ۔‘‘
٭٭٭٭