ہجر و وصال: قسط نمبر 2
’’میں کہتا ہوں نکلو یہاں سے ابھی اِسی وقت ۔‘‘بیٹے کو گرتا دیکھ کر ماموں کو مزید طیش آگیا تھا ۔ نبیل اُٹھ کر جارحانہ انداز میں آگے بڑھا تھا ۔ ساتھ سمیع بھی ہو لیا تھا ۔ شور ہنگامہ سن کر ثمینہ بھی نکل آئی تھی ۔ مگر اُس کے حق میں اُٹھی اُس کی دھیمی سی ملتجی آواز کو مامی کی جھڑکی نے فوراًدبا دیا تھا۔
’’نکل یہاں سے …‘‘نبیل دھاڑکر بولا تھا ۔ وہ دونوں اُس پر بیک وقت پل پڑے تھے ۔اُسے جوابی کاروائی کرتا دیکھ کر ماموں بھی بیٹوں کی مدد کو آگئے تھے ۔ الاؤ تو اُس کے اندر کب سے جل رہا تھا ‘ سو لڑا تھا نتائج سے بے نیاز ہو کر مگر کسی فلم کا ہیرو تو نہیں تھا جو اکیلا تین ہٹے کٹے مردوں کو چت کر دیتا ۔ اُسے گھسیٹ کر گیٹ تک لایا گیا تھا اور پھر باہر دھکا دے کرگیٹ بند کر دیا گیا تھا ۔ وہ منہ کے بل گرا تھا گلی میں ۔ محاورتاً نہیں حقیقتاََ اسے دھول چٹادی گئی تھی ۔ اُس نے نظر اُٹھا کر اپنے آس پاس موجود لوگوں کو دیکھا تھا ۔ کچھ آنکھوں میں تجسس تھا کچھ میں تمسخر ،مگر شوقِ تماشا سب میں تھا ۔ ذلت کے احساس سے اُس کا چہرہ سرخ ہوا تھا ۔
یہاں پینتالیس سال سے حاجی عقیل احمد کا خاندان آباد تھا ۔ آس پاس رہنے والے عشروں سے انہیں جانتے تھے ۔ دیوار سے دیوار ملی ہوئی تھی ۔ کچھ ڈھکا چھپا نہیں تھا ۔ پیٹھ پیچھے بیٹھ کر باتیں کی جاتی تھیں کہ کیسے کسم پرسی میں رکھا ہے شکیل احمد نے بہن کو ۔ باپ کی ساری جائداد پر قابض ہے ۔ سب جانتے تھے کہ نکالنے والوں کو کوئی حق نہ تھا اُسے نکالنے کا مگر وہ جانتا تھا کہ اگر اُن سے سوال بھی کرلیا جاتا تو سب کے پاس توجیہات موجود تھیں ،ناانصافی دیکھ کر خاموش رہنے کی ۔ حق صرف اُس کا ہوتا ہے ،جو حق چھین لینے کی قدرت رکھتا ہے ۔ وہ اُٹھا تھا اور جس قدر ممکن تھا جذبات پر بے نیازی کا پردہ ڈالے اُس گلی سے نکلنے کے لیے قدم بڑھائے تھے ۔ چلتے چلتے ایک وعدہ ضرور کیا تھا اپنے آپ سے کہ اگلی بار جب وہ اور شکیل احمد آمنے سامنے ہونگے تو بے بس شکیل احمد ہو گا اور طاقت اُس کے ہاتھ میں ۔
بس سٹاپ کے ساتھ بنے شیڈ کے نیچے بینچ پر بیٹھ کر اُس نے جیب سے نکال کر اپنے پاس موجود پیسے گنے تھے ۔ صرف پانچ سو روپے تھے ۔ اِن پیسوں میں فی الحال عارضی چھت کی عیاشی حماقت تھی ۔ اُس کا فون بجا تھا ۔ مہرین کا نام دیکھ کر اُس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی تھی۔
’’بڑے اچھے وقت پر یاد کیا جان من ۔ ‘‘اُس نے فون اُٹھانے سے پہلے خود کلامی کی تھی پھر حتیٰ الامکان پرسوز آواز میں ’’ہیلو ‘‘کہاتھا ۔ مگر دوسری طرف موسم بدل چکا تھا ۔
’’ربیعہ کو جانتے ہو تم ؟‘‘ اُس کے ہیلو کے جواب میں سوال داغا گیا تھا
’’لو!یہ راز بھی آج ہی منکشف ہونے تھے۔‘‘ دل میں سوچا گیا تھا۔
’’کون ربیعہ ؟‘‘وہ انجان بنا تھا۔
’’وہی ربیعہ جسے تم نے سونے کی نقلی چین دے کر مہنگے مہنگے تحفے بٹورے تھے۔‘‘سامنے سے بھرپور طریقے سے یادداشت تازہ کروائی گئی تھی ۔
’’اچھا وہ ربیعہ وہ بھی بالکل ڈفر تھی تمہاری طرح ۔ ‘‘اب ہاتھ تو کچھ نہیں آنا تھا تو وقت اور دماغ ضائع کرنے کا فائدہ ؟
’’تم کتنے گھٹیا انسان ہو ‘میں نے تم سے سچے دل سے پیار کیا تھا ۔‘‘وہ روپڑی تھی ۔
’’اگلی بار سچا پیار کرنے سے پہلے تھوڑی جانچ پڑتال کر لینا ۔بلکہ وہ جو تمہاری پھوپھی کا بیٹا ہے نا کپڑوں کی دوکان والا،اُسی سے کر لو شادی ۔ میرے جیسے کھلاڑی ہی نکلتے ہیں ۔ ‘‘اُس نے مفت مشورہ دے کر فون بند کردیا تھا ۔
’’یہ لڑکیاں اتنی (گالی )کیوں ہوتیں ہیں ۔ کوئی تمہیں چونا لگا کر چلا گیا یہ کون سی ایسی فخر کی بات ہے جو تیسرے محلے تک پہنچائی جائے ۔‘‘ وہ نمبر بلاک کرتے ہوئے سوچ رہا تھا ۔فون پھر بجا ۔کوئی انجان نمبر تھا ۔اُس نے ریسیو کر کے بیزاری سے ہیلو کیا تھا۔
’’آئی ایم رئیلی ساری ۔‘‘شرمندہ سی آواز ثمینہ کی تھی ۔
’’کس بات کے لیے ؟‘‘روکھے سے لہجے میں اُس نے پوچھا تھا۔
’’جو کچھ ابو اور بھائیوں نے آپ کے ساتھ کیا۔‘‘
’’جو کیا انہوں نے کیا تم کیوں معذرت کر رہی ہو ۔ ‘‘کافی دیر تک ثمینہ سے جواب نہ بن پڑا دونوں طرف خاموشی رہی ۔
’’آپ کو کچھ چاہئے گھر سے ؟ ‘‘چند لمحوں بعد وہ بولی تھی۔
’’چاہئے تو مجھے بہت کچھ‘ تم کیا کر سکتی ہو میرے لیے ؟ ‘‘سوال کا جواب سوال سے دیا گیا تھا۔
’’کچھ بھی جو آپ چاہیں۔‘‘وہ بولی تھی ۔
’’کچھ بھی جو میں چاہوں ؟ واقعی؟ ‘‘
’’ہاں ۔‘‘وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے بولی تھی ۔ شہریار کے لبوں پر بیساختہ مسکراہٹ دوڑ گئی ۔ شہریار دن رات لڑکیاں گھوماتا تھا ۔ اُس کے لیے ثمینہ کی خود میں دلچسپی بھانپنا ہرگز مشکل نہ تھا ۔سوال یہ تھا کہ وہ کس حد تک جا کر اُس کے لیے کیا کر سکتی تھی۔
آدھے گھنٹے کے بعد جب اُس نے فون بند کیا تو اُس کے لبوں پر معنی خیز مسکراہٹ تھی ۔
’’چلیں ماموں جان ! آپ مجھ سے محبت نہیں کر سکے تو کیا ہوا؟آپ کی بیٹی کرے گی ۔‘‘
رات اُسی بینچ پر کٹی تھی ۔ صبح ایک دوست کی مہربانی سے صاف کپڑوں کا جوڑا اور نہانے کے لیے غسل خانہ میسر آیا تھا ۔مگر آگے کا لائحہ عمل جلد مرتب کرنا ضروری تھا ۔ اگر منت سماجت کر لیتا تو شاید چند شرائط کے ساتھ اُسے چھت پھر میسر آجاتی ۔ مگر وہ قائم تھا اُس عہد پر جو گزشتہ رات اُس نے خود سے کیا تھا ۔ یونیورسٹی جا کر ہاسٹل کا پتہ کیا ۔ ایڈوانس فیس اور سیکیورٹی ڈیپوزٹ ملا کر جتنی رقم بن رہی تھی‘ اُس کا انتظام فی الحال ناممکنات میں سے تھا ۔ پھر میس کا بل دینا ضروری تھا چاہے کھانا کھاؤ نہ کھاؤ ۔ کھانا تو وہ دو ٹائم ڈھابے میں مفت کھا لیتا تھا ۔
ڈھابے ہی کے ایک ملازم سے بات کی تو اُس نے قریب ہی چند سستے کمروں کا بتایا ۔ چھوٹا سا کمرہ تھا جو تین اور لوگوں کے ساتھ شیئر کرنا تھا ۔ ایک چھوٹی سی کھڑکی تھی جو بہت تنگ سی گلی میں کھلتی تھی ،سو ہوا کا گزر خاطر خواہ نہ تھا ۔ مگر بہرحال چھت کا پردہ موجود تھا ۔سامان اُٹھانے کے لیے اُس نے دانستہ اُس وقت کا انتخاب کیا تھا جب ماموں اور اُن کے بیٹوں کے گھر میں ہونے کااحتمال نہ تھا ۔
ثمینہ سے بات چیت کر رکھی تھی ۔ اُس نے دروازہ کھولا ۔ جب تک مامی کو کاروائی کا علم ہوتا وہ اپنے کمرے میں جا کر دروازہ بند کر چکا تھا ۔ پھر باہر سے دروازہ پیٹا گیا ۔ پولیس کی دھمکی دی گئی ۔ ماموں کو فون ملا کر فوری پہنچنے کی تلقین کی گئی ۔ مگر وہ اندر اطمینان سے اپنا سامان سمیٹتا رہا ۔ کپڑے کتابیں ، کاغذات اور کچھ روز مرہ استعمال کا چھوٹا موٹا سامان ‘سب بیگ میں بھر کر الوداعی نظر اِس کمرے پر ڈالی جس کا وہ برسوں مکین رہا تھا ۔
ہر طرف اُس کی ماں کی یادگاریں بکھری تھیں ۔ پلنگ کے ہیڈ بورڈ پر اُس کی تہہ شدہ سفید چادر دھری تھی ۔بستر کی لٹکتی چادر کے نیچے سے اُس کی چپل جھانک رہی تھی ۔ سائیڈ ٹیبل پر اُسکی کنگھی پڑی تھی ، ساتھ ہی سیاہ دانوں والی تسبیح ۔ آنکھیں نمکین پانیوں سے بھرنے لگیں ۔ کتنا برا لگتا تھا اُسے یہ کمرہ باربار وہ اپنی ماں سے کہا کرتا تھا کہ گھر کا بدترین کمرہ اُن کو دیا گیا تھا ۔مگر آج چھوڑتے ہوئے لگ رہا تھا جیسے اپنی ذات کا بھی کوئی حصہ چھوڑ ے جا رہا ہو ۔
اُس نے تسبیح اُٹھا کر غور سے دیکھی ۔ مگر اُس کے کالے منکے پھیرتے ہوئے اپنی ماں کی لاحاصل اُمیدیں،بے ثمر ریاضتیں اُس کی نگاہوں کے سامنے گھوم گئیں ۔ اُس نے سر جھٹک کر اُسے واپس ٹیبل پر رکھا اور باہر چلا آیا۔
’’ہمت کیسے ہوئی ہمارے گھر میں بغیر اجازت گھسنے کی ؟ ‘‘باہر خدیجہ بیگم بپھری کھڑی تھیں ۔ شہریار نے انہیں سرد نظروں سے دیکھا تھا۔
’’ابھی صرف سامان اُٹھانے آیا تھا ۔مگر جو میرا ہے وہ سب لے کر جاؤں گا‘ سود سمیت ۔ ‘‘وہ مصمم لہجے میں کہہ کر آگے بڑھ گیا تھا۔
’’جاؤ ‘جاؤ ۔‘‘پیچھے سے خدیجہ بیگم کی تمسخراُڑاتی آواز آئی تھی ۔
٭٭٭٭
وہ بھاگ رہا تھا مگر آگے راستہ ہی بند تھا ۔ اُس کے پیچھے آتی عفریت نے اسے دبوچ لیا تھا ۔ کنکریٹ کی چھوٹی چھوٹی کنکریاں اُس کے جسم میں کھب رہیں تھیں ۔ سیلا سا لمس ،پسینے اور تازہ ہوئے پلستر کی بدبو … اس کا دم گھٹ رہا تھا ۔وہ چیخنا چاہتا تھا مگر آواز نہیں نکل رہی تھی ۔
پسینے سے شرابوروہ اُٹھ بیٹھا تھا ۔ کمرے کے دوسرے کونے میں دن بھر کا تھکا کرم دین بے سدھ پڑاتھا ۔ پسینہ کی بو شاید خود اُس کے اپنے جسم سے آرہی تھی اور کچا پلستر تو کہیں نہیں تھا ۔ پھر بھی اُسے سانس لینے میں دشواری محسوس ہوئی تھی ۔وہ اُٹھ کر کمرے سے باہر آگیا تھا ۔
گرم حبس بھری راتوں میں جب بجلی بھی چلی جاتی تو وہ اکثر منزل کے زیریں حصے میں بنے چائے ناشتے کے چھوٹے سے ڈھابے کے بینچوں پر کھلے آسمان تلے سو جاتا تھا ۔ مگر کچھ راتیں ایسی ہوتیں تھیں جب چلتا پنکھا بھی اس کے اندر کی حبس کے سامنے ناکام ہو جایا کرتا تھا ۔ وہ رات بھی ایسی ہی تھی ۔
’’اُٹھ جاؤ استاد ۔ ‘‘ڈھابے کے ایک ملازم نے کندھا تھپتھپا کر اُسے اُٹھایا تھا ۔ اُس نے اُٹھ کر مندی مندی آنکھوں سے اپنے اطراف کا جائزہ لیا تو نظر چائے پیتے ایک شناسا چہرے پر پڑی تھی ۔ چالیس پینتالیس سالہ بڑی بڑی ذہین آنکھوں اور گول مٹول جسے کا مالک نفیس احمد‘ کالج میں اُس کا فزکس کا اُستاد رہا تھا ۔ پڑھاتا بہت اچھا تھا مگر کچھ خبطی سا تھا ۔ لڑکے بڑا مذاق اُڑایا کرتے تھے اُس کی چال ڈھال اور اُوڑھنے پہننے کا ۔ بائیں بازو کے نظریات سے متاثر تھا ۔ افواہ تھی کہ شادی بھی کسی ہندو عورت سے کی تھی ۔فزکس ڈیپارٹمنٹ میں ایک جمعیت کا بندہ بھی تھا اور اِن دونوں کی مقابلہ بازی کے قصے بھی مزیدار تھے ۔ اُس نے نظر چرا کر دیکھے کو ان دیکھا کرنے کی کوشش کی تھی مگر وہ نظر انداز کرنے کو تیار نہ ہوا ۔ اُٹھ کر اُس کے پاس ہی چلا آیا۔
’’کیا بات ہے ہیرو ؟ نشے وشے پر تو نہیں لگ گئے ۔ ‘‘اُس کے قریب بینچ پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
’’نہیں سر ایسی کوئی بات نہیں ۔ ‘‘ وہ خجل سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا تھا ۔ پھر مختصر قصہ احوال سنا ڈالا تھا۔
’’ہمم ! روٹی پکانی آتی ہے تمہیں ؟ ‘‘کچھ سوچنے کے بعد پوچھا گیا تھا۔
’’ جی ؟ نہیں‘‘شہریار نے نفی میں سر ہلایا تھا ۔
’’ تندور سے لانی تو آتی ہو گی ۔ ‘‘شہریار بے ساختہ مسکرایا تھا ۔
’’جی سر !‘‘
’’اکیلا رہتا ہوں میں دو کمروں کے اپارٹمنٹ میں ۔ صفائی کرنی پڑے گی اور روٹی بھی لانی پڑے گی تندور سے ۔ کھانا ،رہائش میرے ذمے ‘ تنخواہ برائے نام ہی ہو گی ۔ منظور ہو تو بولو ۔ ‘‘شہریار کو اُس کی آفر اِس گھٹن زدہ مشترکہ کمرے سے کہیں بہتر لگی تھی ۔ اُسی شام شہریار نفیس احمدکے ساتھ اُس کی بلڈنگ کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا کہ اچانک وہ رکا تھا ۔