ہجر و وصال: قسط نمبر 1
’’ویسے تمہیں پتا ہے اگر پارو اور دیو داس کی شادی ہو جاتی تو کیا ہوتا؟‘‘ وہ جواباً خاموش رہی تھی۔
’’پارو کوئی چھ آٹھ بچے پال رہی ہوتی۔ سسرال والوں کے ٹکڑوں پر یا محنت مزدوری کر کے یا ’’کچھ‘‘ اور کر کے۔ دیو بابو کسی اور بات پر بیوڑا بنا پھر رہا ہوتا… مسئلہ محبت نہیں تھی۔ خود کو تباہ کرنے کی صلاحیت تھی… سقم اُس کے دماغ میں تھا۔ جسے محبت کے نام پر رومینٹسائز کر کے ’عشق کی عظیم داستان‘ بنا کر بیچا گیا۔‘‘ وہ اُٹھ کر باہر نکلنے کے لیے کمرے کے دروازے تک گیا تھا۔ دروازہ کھولنے کے لیے ناب گھمایا تھا مگر نکلنے سے پہلے پلٹ کر اُس کی طرف دیکھا تھا۔
’’جس انسان میں خود کو تباہ کرنے کی صلاحیت موجود ہو…زندگی موقع اُسے فراہم کر ہی دیتی ہے۔‘‘ وہ کہہ کر باہر نکل گیا تھا۔ اُس کے پیچھے بند دروازے کو دیکھتے ہوئے شامین کو اپنے دادا کی چار سال پہلے کی گئی گفتگو یاد آئی تھی۔
’’غلطی کر رہی ہو تم… ملک سو فیصد تمہارے پیسے کے پیچھے ہے۔‘‘
’’تو؟ سب میرے پیسے ہی کے پیچھے ہیں۔ گولڈ ڈگرز ہی کی لائن لگی ہے میرے لیے۔ تخت و تاج کے مالک خاندانی شہزادوں کے لیے مائیں نشئی بہویں نہیں ڈھونڈ تیں۔‘‘ وہ لاپرواہی سے بولی تھی۔
’’حیدر شاہ کا بیٹا پھر بھی بہتر ہے اِس سے… ٹھیک ہے لالچ انہیں بھی ہے مگر پھر بھی رکھ رکھاؤ، خاندانی اقدار والے لوگ ہیں۔‘‘
’’جب لالچی دونوں ہیں، تو پھر آپ کی مرضی کا کیوں؟ میری مرضی کا کیوں نہیں؟‘‘
’’تم سمجھ نہیں رہی ہو۔ دولت اور طاقت کی بھوک انسان کو سفاک بنا دیتی ہے۔‘‘ انہوں نے سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی، سمجھتا تو وہ ہے جو سمجھنا چاہتا ہو۔
’’میں ملک ہی سے شادی کروں گی۔ اگر آپ نے اُسے نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو… آپ جانتے ہی ہیں مجھے زندگی میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔‘‘ اُس نے بے لچک انداز میں تنبیہ کی تھی۔ عجیب بات یہ نہیں تھی کہ ایک رئیس زادی خود سے معاشی اور سماجی طور پر کمتر مرد کے لیے سب داؤ پر لگانے کو تیار تھی۔ عجیب بات یہ تھی کہ وہ جانتی تھی کہ اُس کا دادا صحیح کہہ رہا تھا۔ وہ یہ تک جانتی تھی کہ اُن کی پہلی ملاقات بھی اتفاق نہیں تھی۔ ملک کا ایک سوچا سمجھا پلان تھا۔ صحیح کہتا تھا وہ۔ سقم اُس کے دماغ میں تھا۔ خود کو تباہ کرنے کی صلاحیت شاید اُسے اپنے جواری باپ سے وراثت میں ملی تھی۔
٭…٭…٭
’’تم جانتی ہو، میری زندگی میں گھٹن ہی گھٹن ہے۔ صرف ایک جھونکا ہے تازہ ہوا کا… تم۔‘‘ وہ اُداس لہجے میں بولا تھا۔
کچھ مامتا سے جذبات اُمڈ آئے تھے مہرین کے دل میں۔ خمدار پلکوں سے سجی اُس کی بھوری آنکھیں اُسے بچوں جیسی لگتی تھیں۔ جب وہ اُداس ہوتا تو معصوم سی اور جب اچھے موڈ میں ہوتا تو شریر سی۔
’’میرا بس چلے تو تمہارے سارے غم میں سمیٹ لوں۔‘‘ وہ پارک کے بینچ پر رکھے اُس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی تھی۔شہریار نے اُس کا ہاتھ تھام لیا تھا۔
’’نہیں پاگل میں تو تمہیں خوشیاں دینا چاہتا ہوں۔ اتنی کہ تم سنبھال نہ پاؤ۔‘‘ وہ اُس کی انگلیوں کے درمیان اپنی انگلیاں اڑستے ہوئے بولا تھا۔
’’پتہ نہیں کب دے پاؤں گا۔ دے بھی پاؤں گا یا نہیں۔ ابھی تک تو تم سے بس لے ہی رہا ہوں کچھ نہ کچھ۔‘‘ وہ پھر اُداس ہوا تھا۔
’’میری خوشی تو صرف تم ہو شہریار۔‘‘ مہرین نے ہاتھ بڑھا کر اُس کے صبیح ماتھے سے پریشان زلفیں سمیٹیں تھیں۔
’’جذبات پر قابو رکھیں میڈم یہ پبلک پارک ہے۔‘‘ وہ شرارت سے مسکراتے ہوئے پیچھے ہوا تھا۔ اپنے ہاتھ کی قید سے اُس کا ہاتھ بھی آزاد کر دیا تھا۔ مہرین کچھ خجل سی ہوئی تھی۔
’’بہت جلد وہ وقت آئے گا مہرو… جب میں حق سے تمہارا ہاتھ تھام کر چلوں گا۔ بس تب تک میں چاہتا ہوں کوئی میری مہرو کو غلط لڑکی نہ سمجھے۔‘‘ وہ گھمبیر لہجے میں بولا۔ مہرین نے اُسے مسکراتے ہوئے دیکھا تھا اور نئے سرے سے اُس کی محبت میں مبتلا ہوئی تھی۔ ہلکے خمداربال، کھڑی ناک، گورے رنگ پر بڑھی شیو، رف سے حلیے میں بھی کتنا اچھا لگ رہا تھا وہ۔ مہرین کو رشک آیا تھا خود پر کہ وہ اُس سے محبت کرتا تھا۔
’’یہ تم واپس لے لو میں اتنا قیمتی تحفہ تم سے نہیں لے سکتا… جب تک میری تمہیں ایسا تحفہ دینے کی حیثیت نہیں۔‘‘ وہ ڈبہ پیک موبائل اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا تھا۔
’’اپنا بھی کہتے ہو پھر غیریت بھی برتتے ہو۔‘‘ وہ ذرا ادا سے ناراض ہوئی تھی۔
’’تم میری ہو… مگر یہ موبائل تمہارے باپ کے پیسوں کا خریدا ہوا ہے۔‘‘
’’اُنہوں نے مجھے خود اپنی خوشی سے خرچ کرنے کو دیئے تھے… سو میں نے اپنی خوشی پر خرچ کر دیئے۔‘‘ وہ لاپرواہی سے بولی تھی۔ پھر یکدم سنجیدہ ہوئی تھی۔
’’شہریار جس طرح کل انہوں نے تمہیں صحیح بات کہنے پر دکان سے نکال دیا… میں بہت شرمندہ ہوں۔ اُن کی طرف سے معافی مانگتی ہوں۔‘‘ شہریار چند لمحے اُسے دیکھتا رہا پھر اُس کی گود میں رکھا اُس کا ہاتھ اُٹھا کر چوم لیا تھا۔
’’اب کوئی نہیں دیکھ رہا۔‘‘ مہرین نے مصنوعی خفگی سے اپنا ہاتھ کھینچتے ہوئے کہا تھا۔
’’محبوب اتنا پیارا ہو تو عاشق کبھی کبھی بے قابو ہو ہی جاتا ہے۔‘‘ وہ اُسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا تھا۔ مہرین کے چہرے پر گلابیاں بکھر گئیں تھیں۔
٭…٭…٭
’’نازنین… تم آج بھی کام پر جاؤ گی؟‘‘ اُس کی ماں کے لہجے میں حیرت تھی جو اُس کے حساب سے بنتی نہیں تھی۔
’’کیوں آج کیا ہے؟‘‘ فرزانہ کو اپنے سوال کی نامعقولیت کا کچھ احساس ضرور ہوا تھا۔ پھر بھی اپنا مدعا کہہ ڈالا تھا۔
’’ہم چھ لوگ خود ہی گھر میں کوئی قرآن خوانی… فاتحہ کر لیتے تمہارے…‘‘
’’میں بہت سال پہلے پڑھ چکی فاتحہ… یوں بھی یہ خبر کئی مہینے پرانی ہے۔‘‘ وہ لاپرواہی سے بول کر دروازے سے نکل گئی تھی۔ بس کی بمپرسیٹ پر بیٹھے اُسے سامنے بیٹھے باپ بیٹی آج لاشعوری طور پر متوجہ کر رہے تھے۔
چار پانچ سال کی بچی ہو گی۔ باپ کی گود میں بیٹھی اُس کے سینے سے سر تکائے سوتی ہوئی۔ باپ نے اُس کے چہرے کے سامنے ہاتھ رکھا ہوا تھا کھڑکی سے آتی دھوپ سے بچانے کے لیے۔ کیا محسوس کر رہی ہو گی یہ بچی؟ کیا اِسے احساس بھی ہو گا کہ کوئی کیسے اِس کی حفاظت کر رہا ہے۔ کیوں نہیں ہو گا۔ یہ تحفظ کا احساس ہی تو تھا جو اُسے اتنی سکون کی نیند میسر تھی۔ اُسے تو یاد نہیں تھا آخری بار کب اُس نے سفر کیا تھا لاپرواہی سے۔ کسی کے ہوس بھر ے غلیظ ہاتھوں کے لمس سے اپنے وجود کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنے گرد و پیش سے خبردار رہنے کی مشقت سے آزاد۔ پانی کے چند قطرے چلے ہی آئے تھے کہیں سے آنکھوں میں۔ باپ کی موت کی خبر کافی دیر بعد اثر کر رہی تھی یا شاید وہ اُس رشتے کے نہ ہونے پر رو رہی تھی جو اُس کا باپ نشے اور جوئے کی لت میں مبتلا ہو کر کبھی بنا ہی نہیں سکا۔ بچپن میں کبھی کبھی گھر میں سودا لاتے دیکھا تھا اُسے مگر وقت کے ساتھ یہ کم سے کم ہوتا گیا۔
اُس کی ماں انٹر پاس تھی۔ ایک پرائیویٹ اسکول میں تھوڑی سی تنخواہ پر ملازمت کرتی تھی۔ کھانا بھی اچھا پکاتی تھی تو کچھ جاننے والے تقریبات کے لیے اُسے بلوا کر کھانا پکوا لیتے تھے۔ نانا جب تک زندہ تھے کچھ مدد وہ بھی کرتے تھے۔ سو زندگی کی گاڑی گھسٹ رہی تھی۔ مار پیٹ گالیاں گھر کے ماحول کا حصہ تھیں۔ جنہیں اُن کی ماں اور اُس سمیت بھائی بہنوں نے زندگی کا حصہ سمجھ کر قبول کیا ہوا تھا۔ پھر ایک رات ایسی آئی کے اُس کے باپ نے اُس کی ماں کے پاس موجود ساری تنخواہ پہلی تاریخ ہی کو مار پیٹ کر ہتھیا لی۔ راشن ختم تھا۔ اگلے دن دوپہر کے بعد سے فاقہ شروع ہوا جو چوبیس گھنٹے بعد ٹوٹا جب ماں کسی سے خیرات مانگ کر لائی۔ وہ صرف کھانا نہیں لائی تھی۔ شہر چھوڑ جانے کا کرایہ بھی مانگ لائی تھی کہیں سے۔ اُس رات کے بعد اُس نے کبھی نہیں دیکھا تھا اپنے باپ کو نہ کبھی دیکھنا چاہا تھا۔ اب اِن آنسوؤں کی تک ہی کیا تھی۔ اُس نے ریسٹورنٹ کے سامنے اُترنے سے پہلے آنکھوں کو بے دردی سے رگڑا تھا۔
٭…٭…٭
آج پھر اماں کو خون کی اُلٹی شروع ہو گئی تھی۔ اُس نے انہیں اسپتال لے جانے کے لیے ماموں سے پیسے مانگے تو ہاتھ پر ہزار روپے رکھ دیئے گئے۔
’’ماموں آنے جانے کا خرچا… ساری دوائیں باہر سے خرید کر لانی پڑتی ہیں۔‘‘ اُس نے کوفت اور غصے کی ملی جلی کیفیت میں ہاتھ پر رکھے ہزار کے نوٹ کو دیکھا تھا۔ ماموں نے پھر جیب میں ہاتھ ڈالا تھا اور کمال فیاضی سے مزید پانچ سو کا نوٹ اُس کے ہاتھ پر رکھ دیا تھا۔
’’دوائیاں ہوتی ہیں حرامیوں کے پاس اندر… دوا ساز کمپنیوں سے پیسے کھائے ہوتے ہیں اِس لیے کہتے ہیں باہر سے خرید کر لاؤ۔ ذرا پیچھے پڑو گے تو دے دیں گے اندر سے ہی۔‘‘ شہریار نے صرف ایک تاسف بھری نظر اُن پر ڈالی تھی۔ ایک دوست تیار تھا اُس کا نیا موبائل خریدنے کو۔ اچھے پیسے دے رہا تھا۔ ضرورت ہوئی تو اُسے کہہ دوں گا اسپتال آ کر پیسے دے جائے۔ اُس نے دل میں خود کو تسلی دی اور ماموں کی بیٹی ثمینہ کی مدد سے اماں کو گاڑی میں بٹھانے لگا تھا۔ ایک وہی تھی جو پلاسٹک کے دستانے چڑھا کر اور منہ ڈھانپ کر آ جاتی تھی کبھی کبھی ایسے وقت میں ساتھ دینے۔ ورنہ مامی نے تو اماں کو چھوت کا ایسا مریض مشہور کر رکھا تھا جس کے پاس سے گزرنا بھی خطرے سے خالی نہ تھا۔
اماں حواسوں میں نہیں تھیں۔ ایسا اکثر ہوبجاتا تھا۔ آج اسپتال کے بستر پر لیٹے لیٹے وہ برسوں پہلے کی دنیا میں چلی گئی تھیں۔
’’انوار سفید کرتا پہن لیں اچھا لگتا ہے۔ شہریار اسفند کو بلا کر لاؤ۔ پورا دن گلی میں کھیلتا رہتا ہے۔‘‘ وہ بولے جا رہی تھیں۔
’’جی اماں… بلاتا ہوں۔‘‘ شہریار نے آنسوؤں کا نمک حلق میں اُتارتے ہوئے ان کے بال سہلائے تھے۔ وہ نہیں چاہتا تھا اُن کا یہ خواب ٹوٹے۔ پھر اُن کی مدہوشی بے ہوشی میں بدلی تھی۔ اسپتال والوں نے انہیں داخل کر لیا تھا۔ تین دن وہ ماں کے ساتھ رہا، کسی نے فون کرنے کی زحمت نہیں کی۔ جیسے ہی وہ انہیں لے کر واپس گھر میں داخل ہوا ایک بھگدڑ مچ گئی تھی۔
”ہائے فون کر کے بتا تو دیتے… ثمینہ جلدی آ کے سامنے سے صفائی کرواؤ میرے ساتھ۔ کام والی نے تو پتہ نہیں کب آنا ہے۔ابھی لوگ اکٹھے ہونے شروع ہو جائیں گے۔ تمہاری پھوپھو کا انتقال ہو گیا ہے۔‘‘ مامی گھبرائی ہوئی اندر بھاگی تھیں۔
’’مجھے بتا تو دیتے فون کر کے۔‘‘ ماموں افسردہ سے لہجے میں بولے تھے۔ وہ بغیر کچھ کہے اپنی ماں کی لاش ایمبولینس سے چار پائی پر منتقل کرنے لگا تھا۔ پھر چاندنیاں بھی بچھی تھیں، دیگیں بھی چڑھی تھیں۔ دعا، ختم سب دھوم سے ہوا تھا۔ آخر عزت کا سوال تھا۔
’’اے تم یہ ٹرے اُٹھائے کہاں جا رہی ہو؟‘‘ ثمینہ کو اُس کے کمرے کی طرف بڑھتے دیکھ کر خدیجہ بیگم نے ناگواری سے پوچھا تھا۔
’’امی شہریار بھائی نے کھانا نہیں کھایا دوپہر میں بھی۔‘‘ وہ لجاجت سے بولی تھی۔
’’لے جاؤ، لے جاؤ۔‘‘ شکیل صاحب کا دل آج بھانجے کے لیے کچھ نرم تھا۔
’’ماں کا جنازہ تک نہیں پڑھا۔ لو بھلا بتاؤ… استغفار کوئی حد ہوتی ہے دہریا ہونے کی بھی۔ قبرستان سے آ کر کمرے میں پڑا ہے۔ جیسے یہ سب اُس کی ماں کے لیے نہیں ہو رہا، ہم نے اپنا کوئی میلہ ٹھیلہ لگایا ہوا ہے۔‘‘ مامی چمک کر بولیں تھیں۔
’’اچھا چھا بس۔ ایک کپ چائے ہی پلا دو، سر درد سے پھٹ رہا ہے۔‘‘ ماموں اُکتائے ہوئے لہجے میں بولے تھے۔
ثمینہ دروازہ کھٹکھٹا کر اندر آئی تو شہریار کی آنکھ کھلی تھی۔ ماں کو دفنا کر وہ اپنے بستر پر گرا تو کئی دنوں کے جاگے ہوئے کو لمحوں میں نیند نے اپنی آغوش میں لیا تھا۔ بریانی کی خوشبو نتھنوں سے ٹکرائی تو معدے کی فریاد بھی سنائی دی۔ثمینہ کے ہاتھ سے ٹرے لے کر اپنے سامنے بیڈ پر رکھی اور آرام سے آلتی پالٹی مار کر بیٹھ گیا۔ ثمینہ نے کچھ تعجب سے اُس بیٹے کو دیکھا تھا جو ماں کو دفناتے ہی نیند پوری کرنے میں مگن ہو گیا تھا۔ اب اُٹھتے ہی پیٹ پوجا میں۔ لیکن رقیہ ایک دن میں کہاں مری تھی۔ وہ تو قطرہ قطرہ کب سے مر رہی تھی اور وہ قطرہ قطرہ اُس کی موت کا غم کب سے جی رہا تھا۔ اچانک قہر کب ٹوٹا تھا جو بھوک اور نیند اُڑا دیتا؟ بلکہ آج تو اُسے اپنا آپ ہلکا پھلکا محسوس ہو رہا تھا۔ ماں کو مسلسل تڑپتے دیکھنے کی اذیت سے نجات جو مل گئی تھی۔ اُس نے پیٹ بھر کر کھایا تھا۔
خالی پلیٹ واپس ٹرے میں رکھی تھی جب پاس پڑے فون کی اسکرین جگمگا اُٹھی تھی۔ اُس نے ناگواری سے اسکرین پر چمکتے مہرین کے نمبر کو دیکھا اور نظر انداز کر کے بستر پر دراز ہو گیا۔ چند لمحے چت لیٹے اُکھڑے پینٹ والی سیلن زدہ چھت کو گھورتا رہا۔ پرانے وقتوں کے بنے اِس حویلی نماں کھلے ڈھلے گھر میں شاید یہی ایک کمرہ تھا جہاں ہوا اور روشنی کا گزر اتنا کم تھا۔ اُس نے اپنی ماں کے تکیے کو کھینچ کر اپنے منہ پر دھرا تھا اور گہری سانس لے کر اُس کی خوشبو محسوس کرنے کی کوشش کی تھی۔ جدائی کا درد بند آنکھوں کے کناروں سے بہہ نکلا تھا۔ بس چند دنوں کی بات تھی، پھر یہ خوشبو بھی کہیں کھو جانی تھی۔
ماں کی موت کے بعد باپ کی پنشن کا سلسلہ منقطع ہو گیا تھا۔ پلے کچھ تھا نہیں سو فوری طور پر جو نوکری ملی کر لی۔ ایک سستے سے ریسٹورنٹ میں شام کی شفٹ میں ریسیپشنسٹ کم ویٹر کا کام تھا۔ یونیورسٹی سے واپسی پر کچھ دیر آرام کر کے نکل جاتا تھا۔ رات کو گھر پہنچتے ایک دو بج جاتے تھے۔ اُس کے آنے تک عموماً گھر کے باقی مکین سو چکے ہوتے تھے یا اپنے اپنے کمروں میں ہوتے تھے۔ اچھا ہی تھا اُسے کون سا اُن میں سے کسی کی صورت دیکھنا پسند تھا۔ آج بدقسمتی سے جلدی آ گیا تھا۔ ماموں سامنے صحن میں تشریف فرما تھے۔ سلام کے قابل وہ انہیں سمجھتا نہیں تھا اور کلام صرف بوقت ضرورت کرتا تھا۔
’’روزہ نماز تو دور کی بات، تم تو ایسے ملعون بن چکے ہو کہ سلام سے بھی گئے۔ تمہاری یہی لا دینی میری بہن کے جگر کا ناسور بن گئی۔‘‘
وہ خود کو نظر انداز کرنے پر برہم ہوئے تھے۔ شہریار کے دل میں ہمہ وقت جلتی آگ پر تیل کا چھینٹا پڑا تھا۔
’’اُس ناسور کا علاج ممکن تھا، اگر اُن کا دین دار بھائی اُن کے شرعی حصے پر ناگ نہ بن کر بیٹھا ہوتا۔‘‘ وہ سلگتے لہجے میں بولا تھا۔
’’زبان سنبھال کر بات کرو۔ میرے گھر میں کھڑے ہو تم۔ یہ جو آدھی رات کے بعد گھر میں گھستے ہو نا یہ حرکتیں نہیں چلیں گی میرے گھر میں۔‘‘ وہ جواباً گرجے تھے۔
’’نوکری کرتا ہوں میں آدھی رات تک۔ آپ کے دونوں مشٹنڈوں جتنا خوش قسمت نہیں۔‘‘
’’سب جانتا ہوں۔ خبریں ملتی رہتی ہیں تمہارے کرتوتوں کی۔ ایک بات کان کھول کر سن لو۔ بہت برداشت کیا میں نے تمہیں رقیہ کی وجہ سے… اب اگر میرے گھر میں رہنا ہے تو شرافت سے رہنا پڑے گا۔‘‘
اُس کے ’’کرتوت‘‘ مامی کا پسندیدہ موضوع تھا۔ کچھ سچائی اور بہت سارے مبالغے کے ساتھ وہ ماموں کے کانوں میں یوں ڈالا جاتا کہ وہ کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہو جاتے۔ حالانکہ اپنے سپوت بھی کم ہرگز نہ تھے۔ اُسے نہ اپنی صفائی میں کچھ کہنا تھا نہ کسی کو الزام دینا تھا۔
یہاں کوئی منصف تھا نہ اُس کا ہمدرد مگر گھر سے بے دخلی کی دھمکی وہ کیونکر خاموشی سے سنتا۔
’’میں آپ کے گھر میں نہیں رہتا۔ یہ موروثی گھر ہے جس میں تیسرا حصہ میرا بنتا ہے۔‘‘
’’ہائے ہائے میں نے کہا تھا نا حاجی صاحب۔ جائیداد کے چکروں میں ہے یہ۔ لو ہم نے یتیم سمجھ کر گھر میں جگہ دی یہ ہمارے بچوں کے حق پر ہی نظر رکھ کر بیٹھا ہے۔ کہا تھا نا میں نے… آپ ہی مرے جا رہے تھے بہن اور بھانجے کی محبت میں۔‘‘
’’صحیح کہہ رہی ہیں حاجن بی حاجی صاحب، میں اپنا حق سمجھ کر یہاں رہتا ہوں۔ سو جیسے جی چاہے گا رہوں گا۔ جب جی چاہے گا، آؤں گا۔ جب جی چاہے گا، جاؤں گا۔ اِس گھر کے علاوہ بھی جس چیز پر میرا حق ہے وہ سب بھی وصولوں گا۔ ‘‘وہ چبا چبا کر بولا تھا۔ صحن میں لگے اِس تماشے کی آواز سن کر ماموں کے دونوں سپوت بھی باہر آ گئے تھے۔ ایک طرف وہ کھڑا تھا، دوسری طرف وہ چاروں انگشتِ بدنداں کھڑے تھے۔ جیسے اُس نے نہ جانے کیسی نامناسب بات کہہ دی ہو۔ نبیل (ماموں کا بڑا بیٹا) آگے بڑھا۔
’’پھر جا تو عدالت، ابھی تو نکل ہمارے گھر سے۔‘‘ وہ زور سے دھکا دیتے ہوئے بولا تھا۔
’’ہاں ہاں نکلو بس بہت ہو گیا اب۔‘‘ ماموں نے بھی تائید کی تھی۔
’’کیوں نکلوں، یہ میرا بھی گھر ہے۔‘‘ اُس نے جواباً نبیل کو اتنے زور سے دھکا دیا تھا کہ وہ پیچھے جا گرا تھا۔
’’میں کہتا ہوں نکلو یہاں سے ابھی اِسی وقت۔‘‘ بیٹے کو گرتا دیکھ کر ماموں کو مزید طیش آ گیا تھا۔ نبیل اُٹھ کر جارحانہ انداز میں آگے بڑھا۔