سلسلہ وار ناول

ہجر و وصال: قسط نمبر 1

’’تو آپ ڈرنک نہیں کرتیں؟؟ اور ڈانس؟؟‘‘ اُس نے جواباً نفی میں سر ہلایا تھا۔ ملک کی نظر ڈانس فلور کے ایک کونے میں کھڑے وارث ہمدانی پر گئی جو ایک حسینہ کی کمر میں ہاتھ ڈالے بہت خوشگوار موڈ میں نظر آ رہا تھا۔
’’مسٹر ہمدانی تو بڑے شوقین مزاج واقع ہوئے ہیں۔‘‘ ملک کی نظروں کے تعاقب میں اُس کی نظر بھی گئی تھی۔
’’وہ وہ ہیں، میں میں ہوں۔‘‘ وہ لاپرواہی سے کندھے اُچکا کر بولی تھی۔ ملک کی نظر لمحے بھر کو اُس کے کان میں لٹکتے لمبے آویزے میں اُلجھ گئی تھی جو اُس کے گندمی کاندھے کو بار بار چھو رہا تھا۔ شاید اُس کی نظر کا ارتکاز محسوس کر لیا گیا تھا۔

’’آپ کی وائف کیوں نہیں آئیں؟ بہت کم نظر آتی ہیں؟‘‘ ملک دھیرے سے ہنسا تھا۔
’’یہ سوال ہے یا یاد دہانی؟‘‘ ملک نے ایک پل کو سوچا تھا۔
’’وہ یو ایس گئی ہیں۔ ایک دو ہفتوں میں آ جائیں گی۔‘‘

’’ایک بات پوچھوں اگر آپ برا نہ مانیں۔‘‘ وہ اپنے لباس سے نادیدہ سلوٹیں ہٹاتے ہوئے بولی تھی۔
’’پوچھ تو آپ کچھ بھی سکتی ہیں۔‘‘ وہ اپنا گلاس گھماتے ہوئے بولا تھا۔
’’جواب نہ دینے کا حق البتہ میں محفوظ رکھتا ہوں۔‘‘
’’اپنی بیوی کے اِن متواتر ’’فارن ٹرپس‘‘ کی وجہ آپ خود تو نہیں ہیں۔‘‘ جواباً وہ بولی۔
’’آپ بھی ایسا سوچتی ہیں؟‘‘ ملک نے اسے استہزائیہ انداز میں دیکھا تھا۔
’’کچھ لوگوں کا خیال ہے۔‘‘ وہ مدافعانہ انداز میں بول تھی۔
’’اور آپ کیا سمجھتی ہیں؟‘‘ ملک نے اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کیا تھا۔
’’میں کچھ نہیں سمجھتی… انسانوں کو سمجھنے کا کوئی دعویٰ نہیں میرا۔‘‘
’’اچھی بات ہے اِس دعوے نے بہتوں کو ڈبویا ہے۔‘‘ وہ اتفاق کرتے ہوئے ہاتھ میں پکڑے گلاس سے گھونٹ بھرنے لگا تھا۔
سامنے سے وارث ہمدانی چلتا ہوا اُن دونوں کی طرف آیا تھا۔
’’ہیلو مسٹر ملک۔‘‘ اُس نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا تھا۔ حلق سے اُترتا گھونٹ یکدم بہت کڑوا لگا تھا ملک کو مگر رسمِ دنیا تو نبھانی تھی۔ اُس نے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ بڑھا ہوا ہاتھ تھاما تھا۔ چند رسمی جملوں کا تبادلہ ہوا تھا۔
’’سوری, مگر اب آپ کو میری گورجس وائف کو ایکسکیوز کرنا پڑے گا.” وارث ہمدانی مسکراتے ہوئے شگفتگی سے بولا تھا.
وارث ہمدانی کے اشارے پر اُس کی بیوی نے اُٹھنے میں دیر نہیں لگائی تھی۔ وہ دونوں اُس کی جانب پشت کیے آگے بڑھ رہے تھے۔ استحقاق سے اُس کی کمر کے گرد حمائل وارث ہمدانی کا بازو دیکھتے ہوئے دل میں جو چبھن ہوئی تھی، تھی تو نا حق…
مگر دل حق، نا حق کب سمجھا ہے۔
٭…٭…٭
وہ گھر میں داخل ہوا ہی تھا کہ صحن میں شکیل ماموں سے ٹاکرا ہو گیا۔ انہیں سلام کرنا تو عرصہ دراز سے اُس نے چھوڑ رکھا تھا سو براہ راست تلخ کلام سے آغاز ہوا تھا۔
’’حاجی صاحب کی دکان سے بھی نکال دیئے گئے تم آخر؟ کیا ضرورت تھی بھلا گاہکوں کے سامنے انہیں بے ایمان کہنے کی؟‘‘
’’میں نے کب کہا کسی کو بے ایمان؟؟ وہ تو گاہک مجھے کہہ رہا تھا کہ مجھے صحیح تولنا نہیں آتا ہر بار اصل وزن سے کم ڈالتا ہوں۔ میں نے کہا حاجی صاحب سے کہو ترازو صحیح کرا لیں۔‘‘ وہ لاپرواہی سے کندھے اُچکا کر بولا تھا۔
’’ہاں ہاں تم پر تو ختم ہے صاف گوئی اور ایمان داری ہونہہ…جیسے مجھے نہیں پتہ۔ جہان کا اُچکا… نوکری کرنی ہے کرو ،نہیں کرنی نہ کرو۔ لیکن ایک بات یاد رکھنا، ایک پائی نہیں ہے میرے پاس تمہاری یونیورسٹی کے خرچے کے لیے… ہزار ذمہ داریاں ہیں میری اپنی، اوپر سے آپا کا علاج۔‘‘ وہ بے زاری سے بولے تھے۔
’’یہی تو میں کہتا ہوں آپ نہ کروائیں آپا کا علاج… بس اُنہیں باپ کی جائیداد میں سے اُن کا حصہ دے دیں۔ پھر علاج ہو جائے گا۔‘‘ وہ اُن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سپاٹ لہجے میں بولا تھا۔
’’سب سمجھتا ہوں میں تمہیں نوسر باز… آپا کے علاج کے بہانے جو تم چاہتے ہو۔‘‘ وہ بڑبڑا کر تن فن کرتے آگے بڑھ گئے تھے۔
شہریار نے چند گہری سانسیں لے کر اپنے اندر اٹھتے اُبال کو قابو کرنے کی کوشش کی تھی۔ آخر اندر جا کر اپنی ماں کو منہ دکھانا تھا۔ اُس ماں کو جو موت اور زندگی کے بیچ کی اذیت میں کب سے مبتلا تھی۔ ایک سال پہلے اُنہیں پتہ چلا تھا کہ ہیپٹائیٹس سی اُن کا جگر مکمل طور پر تباہ کر چکا ہے۔ ڈاکٹروں کے بقول صرف جگر کی پیوندکاری ہی واحد علاج تھا۔ اُس نے بھاگ دوڑ کر کے سب پتہ کروا لیا تھا۔ یہ آپریشن بھارت میں ہونا تھا، ڈونر کے طور پر وہ خود تیار تھا۔ پر آپریشن کا لمبا چوڑا خرچا اور مہنگی دوائیوں کی تفصیل جاننے کے بعد ماموں نے بس ’’دعا‘‘ ہی موزوں علاج تجویز کیا تھا۔ اُس نے ہزار بار ماں کو سمجھایا تھا کہ وہ کسی وکیل کی مدد لے لیں۔ ڈیڑھ کنال سے زیادہ پر بنا یہ گھر، کرایے پر چڑھا مکان، چلتی ہوئی دکان، ایک بڑ ے کاروباری مرکز میں کئی دکانیں اور اچھی بھلی جائیداد چھوڑی تھی نانا نے۔ انہیں اپنے حصے کا آدھا بھی دے دیا جاتا تو با آسانی علاج ہو سکتا تھا۔
’’نہیں نہیں شہریار… کون دیتا ہے بہنوں کو حصے… مجھ بیوہ کو تو پھر اُس نے سہارا دیا۔‘‘ وہ کسی صورت تیار نہیں تھیں۔
’’کون سا سہارا اماں… چند مہینوں میں ہم ماں بیٹے کو ایک چولہا دے کر اِس کمرے تک محدود کر دیا گیا تھا۔ ابو کی تھوڑی سی پنشن میں ہم وہ مرغ مسلم افورڈ نہیں کر سکتے تھے جو اِس گھر میں پکتے تھے… اور یہ چھت۔‘‘ اُس نے نظر اُٹھا کر جگہ جگہ سے اکھڑے پینٹ والی بد رنگی چھت کو دیکھا تھا۔ یہ تو نانا کی بنائی ہوئی ہے۔‘‘
’’پھر بھی شہریار مجھے سہارا تھا کہ میرا بھائی میرے ساتھ ہے۔‘‘ شہریار نے تاسف سے سر ہلایا تھا۔ اِس ذہنیت کا کوئی علاج نہیں تھا۔
’’پھر تیرے جگر سے ٹکڑا کاٹیں گے۔ سوچ میں ایسا ہونے دے سکتی ہوں؟‘‘ اُن کی آواز بھرا گئی تھی۔
’’کچھ نہیں ہوتا اماں۔‘‘ وہ اُن کے ہاتھ تھامتے ہوئے بولا تھا۔ وہ آنسو ضبط کرتے ہوئے نفی میں سر ہلاتی رہیں۔
’’ڈاکٹر تو یہ بھی کہہ رہا تھا کہ آپریشن ناکام بھی ہو سکتا ہے اور نئے جگر میں بھی وائرس آسکتا ہے۔ مجھے لگتا ہے یہ بھارت والوں نے پاکستانیوں کو لوٹنے کے لیے کوئی نئی سازش کی ہے۔‘‘ آنسو پونچھتے ہوئے اماں دور کی کوڑی لائی تھیں۔ اُس نے وہیں اماں کے پلنگ پر لیٹ کر آنکھیں موند لیں تھیں۔ یہ بحث لا حاصل تھی۔

’’تو بس نماز پڑھ کے دعا کیا کر میں ٹھیک ہو جاؤں گی۔‘‘ وہ اُس کے بال سہلاتے ہوئے بولی تھیں۔ شہریار نے لب بھینچ کر وہ الفاظ اندر روکے تھے جو انہیں چوٹ پہنچا سکتے تھے۔
٭…٭…٭
ایک لمبے مصروف دن کے بعد وہ گھر آیا تھا۔
’’سر وہ…‘‘ اُس کا سامان اُٹھائے اُس کے ساتھ چلتا بٹلر کچھ کہنا چاہتا تھا۔
’’ہمم…؟‘‘ اُس نے رخ موڑ کراُسے دیکھا تھا۔
’’سر وہ میڈم کل رات کے بعد سے روم سے نہیں نکلیں۔‘‘
ملک نے ناگواری سے سر ہلایا تھا۔
’’کوئی آیا تھا؟‘‘
’’نہیں سر مگر میڈم خود کل شام میں تھوڑی دیر کے لیے کہیں گئی تھیں۔‘‘ اُس نے بے زار چہرے کے ساتھ قدم ’’میڈم‘‘ کے کمرے کی طرف بڑھا دیے تھے۔ دروازہ بند تھا، دستک دینے پر بھی نہ کھلا تو اُس نے چابیاں منگوائی تھیں۔ دروازہ کھلتے ہی وہ سامنے نظر آ گئی تھی۔
بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر ایک دھاتی پنی پر سفید سفوف رکھے اسٹرا کی مدد سے زہر سونگھتی ہوئی۔ بٹلر کو جانے کا اشارہ کر کے وہ کمرے میں داخل ہوا تھا۔
’’ایک مہینہ تو نکال لیتیں پچھلی بار کی طرح… ابھی تو صرف پندرہ دن ہوئے ہیں تمہیں ریہیب سے واپس آئے ہوئے۔ ‘‘ وہ استہزائیہ انداز میں بولا تھا۔ اُس نے جواباً کھوکھلا سا قہقہہ لگایا تھا اور چلتی ہوئی اُس تک گئی تھی۔
’’اووو… ہنی… کتنی فکر ہے نا تمہیں میری۔‘‘ اپنی بانہیں بظاہر لاڈ سے اُس کے گلے میں ڈالتے ہوئے بولی تھی۔
’’ڈارلنگ یہاں ہر ایک کو اپنی فکر خود کرنی پڑتی ہے۔‘‘ وہ نرمی سے اُس کے بانہیں ہٹاتے ہوئے بولا تھا۔ پھر اُس کا رخ دیوار پہ نصب آئینے کی طرف موڑا تھا۔
’’ورنہ یہ ہوتا ہے…‘‘ کہہ کر اُس نے آئینے میں اُس کے عکس کی طرف اشارہ کیا تھا۔ شامین نے اپنے آپ کو دیکھا۔ آنکھوں کے گرد نیلگوں ہلکے، پچکے گال، بکھرے بال اور سلیپنگ سوٹ میں وہ واقعی کتنی اُجڑی کتنی تباہ حال لگ رہی تھی۔
’’یو… سن آف بچ۔‘‘ وہ غصے سے اُس کی طرف پلٹی تھی۔ ہاتھ اُس کے چہرے کی طرف بڑھائے تھے جیسے منہ نوچ لینا چاہتی ہو۔ جواباً اُس نے سختی سے اُس کے ہاتھ تھام کر جھٹکے سے پیچھے کیے تھے۔
’’یو نو بیب، میں گھریلو تشدد کے سخت خلاف ہوں۔ مہذب انداز میں پیار سے بات کیا کرو اور کچھ کھا پی لو۔ تمہاری یہ ’روح کی غذا‘ جسم کی ضرورتیں پوری نہیں کرتی۔‘‘ ہاتھ چھوڑ کر اُس کا گال تھپتھپایا تھا اور پلٹ کر باہر کی طرف قدم بڑھا دیئے تھے۔
’’تم نے پہنچایا ہے مجھے اس حال میں۔ اپنے جھوٹ اور دھوکے سے۔‘‘ وہ غصے سے بولتی اُس کے پیچھے چلی آئی تھی۔
’’شادی سے پہلے… بلکہ ہمارے ملنے سے بھی پہلے کی ڈرگ ابیوز کی ہسٹری کا ریکارڈ تو کچھ اور کہہ رہا ہے۔‘‘ وہ استہزائیہ مسکراہٹ کے ساتھ بولا تھا۔
’’اس بارے میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔‘‘ وہ اب کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔ شامین کو غصے کی جگہ مایوسی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ وہ جیسے تھک کر بیڈ کے کنارے پر ڈھے سی گئی۔
’’آخری سیشن کب ہوا ہے تمہارا تھراپسٹ کے پاس؟‘‘ سگریٹ سلگانے کے بعد وہ اب سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔
’’اگر تم نے واقعی مجھ سے پیار کیا ہوتا تو میں اِس حال میں نہ ہوتی۔‘‘
’’اگر تمہارے ماں باپ کی طلاق نہ ہوتی تو شاید تم اِس حال میں نہ ہوتی۔ اگر تمہاری ماں تمہیں تمہارے عیاش جواری باپ کے متھے مار کر نہ چلی جاتی تو تم اِس حال میں نہ ہوتی۔ اگر تمہارے مرحوم بھائی کو سارا بچپن تم پر فوقیت نہ دی جاتی تو تم اِس حال میں نہ ہوتی۔ اگر پھر تمہارا وہ نہ ہونے کے برابر باپ اور جس سے تم ہمیشہ جلتی رہیں وہ بھائی مر نہ جاتا تو تم اِس حال میں نہ ہوتیں۔ںاگر تمہارا دادا بزنس سے سر اُٹھا کر تمہیں بھی دیکھ لیتا تو تم اِس حال میں نہ ہوتیں۔ پھر میں نے سچ مچ تم سے پیار کیا ہوتا تو تم اِس حال میں نہ ہوتیں… رائٹ؟‘‘ وہ سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھ رہا تھا۔ وہ جواباً کچھ نہیں بولی تھی۔ بس خالی خالی آنکھوں سے اُسے دیکھتی رہی تھی۔
’’یہ دنیا ایسی ہی ہے ڈارلنگ یہاں وہ سب ہوتا ہے جو نہیں ہونا چاہیئے۔“ وہ سگریٹ بجھاتے ہوئے بظاہر تاسف سے بولا تھا۔

پچھلا صفحہ 1 2 3اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے