ہجر و وصال: قسط نمبر 1
وہ بھاگا بھاگا مسجد کی طرف جا رہا تھا۔
ابو کہتے تھے جمعہ کے خطبے سے پہلے مسجد پہنچنا چاہیئے، اللہ خوش ہوتا ہے۔ مگر آج اسے تاخیر ہو گئی تھی۔ اذان ہوئی تو اُس کی بیٹنگ کی باری آ گئی۔ پھر وہ باری لے کر ہی نماز کی تیاری کے لیے گھر بھاگا تھا۔ ابو اور بھائی مسجد جا چکے تھے۔ اب وہ دوڑ رہا تھا۔ دل میں یہ ڈر بھی تھا کہ نماز اُس کے مسجد پہنچنے سے پہلے شروع نہ ہو جائے۔ کہیں کہیں یہ کسک بھی تھی کہ اُسے اپنی بیٹنگ کی باری اللہ کی خوشنودی سے زیادہ ضروری لگی تھی۔
کینچی چپل میں تیز بھاگنا مشکل ہو رہا تھا سو اُس نے اتار دی تھی۔ ایک ہاتھ سے سر کی ٹوپی سنبھالے اور دوسرے میں چپل پکڑے وہ پوری رفتار سے دوڑ رہا تھا۔ مسجدکے قریب ہی تھا کہ ایک زوردار آواز آئی۔ ایک نادیدہ قوت کے دھکیلنے پر وہ پیچھے گرا تھا۔ اُس کی حیرت اور خوف سے پھیلی آنکھوں نے گرد اور دھوئیں کا ایک طوفان اُٹھتا دیکھا تھا، اُس مسجد سے جس کے اندر اُس کا باپ بھی تھا اور بھائی بھی۔
٭…٭…٭
اسکول سے واپسی پر اب یہ مسجد والا راستہ اُسے بہت لمبا پڑتا تھا۔ وہ اور اُس کی ماں نانا کے گھر میں جو رہنے لگے تھے۔مگر وہ پھر بھی روز اِسی رستے سے آتا تھا۔ ابو اور اسفند بھائی کے بعد اُس کی زندگی بہت بدل گئی تھی۔ اپنے گھر میں میں ابو کے لاڈلے کی جگہ اب وہ ماموں کے گھر میں وہ دوسرے درجے کا شہری تھا۔ ماموں کے بیٹے مذاق مذاق میں اُس کی پھینٹی لگا دیا کرتے تھے۔ مامی اُٹھتے بیٹھتے اُسے اور اُس کی ماں کو بوجھ ہونے کے طعنے دیا کرتیں تھیں۔ یہاں وہ دل ہلکا کرنے آتا تھا۔ نماز کھڑی ہو تو شامل ہو جاتا تھا۔دیر سویر ہو جائے تو بس چند لمحے دیکھ کر گزر جاتا تھا۔ وہ ماں کے کہنے پر بھی کبھی اپنے باپ بھائی کی قبر پر نہیں گیا تھا۔پتہ نہیں جو چیتھڑے وہاں دفنائے گئے تھے وہ اُن کے تھے بھی یا نہیں۔ اُسے تو لگتا تھا وہ دونوں یہیں دفن تھے۔ دوبارہ جو مسجد تعمیر ہوئی تھی اُس کی بنیادوں میں کہیں وہ بھی شامل تھے۔ کبھی کبھی نماز پڑھتے ہوئے لگتا تھا کہ ابو اور بھائی بھی کھڑے ہیں اُس کے ساتھ صف میں۔ اِس راستے پر زیادہ رونق یوں بھی نہیں ہوتی تھی۔ گرمیوں کی دوپہر میں تو اور بھی سناٹا ہوتا تھا۔ اُس کی ماں اُسے اتنا لمبا اور سنسان رستہ لینے پر بار بار ٹوکا کرتی تھی۔ مگر اُسے کبھی ڈر نہیں لگتا تھا۔ یہاں تو ابو اور بھائی کی خوشبو تھی۔ پھر سب سے بڑھ کر وہ تھا جس کے سہارے وہ دونوں اُسے چھوڑ گئے تھے۔ مگر آج کچھ کچھ فاصلے پر بنی زیر تعمیر چند عمارتوں اور ایک پرانے ڈاک خانے کے قریب سے گزرتے ہوئے اُس کی چھٹی حس نے کسی انہونی کا اشارہ دیا تھا۔
تین لڑکے اُس کے پیچھے آتے ہوئے سیٹیاں بجا رہے تھے۔ اُس کی دھڑکن تیز ہوئی تھی۔ پہلے قدموں کی رفتار تیز کی تھی اُس نے، پھر بھاگنا شروع کر دیا تھا مگر بھاگ نہیں پایا تھا۔ ایک نے اُسے پکڑ کر سختی سے اُس کے منہ پر ہاتھ رکھا تھا اور باقی دونوں کی مدد سے اُسے گھسیٹتا ہوا زیر تعمیر عمارت کے اندر لے گیا تھا۔ وہ بارہ سال کا پتلا دبلا لڑکا تھا، وہ تین مشٹنڈے…
اُس کا منہ تک دبوچ رکھا تھا کہ مدد کے لیے چیخ نہ پائے۔ مگر وہ اُسے تو بلا سکتا تھا جو خاموشی کی آواز بھی سن سکتا تھا۔ جو دھڑکنوں کی التجاء سے بھی غافل نہ تھا۔ سب سے قوی تھا، سب پہ قادر تھا۔ اُس نے اُسی کو پکارا تھا۔ گھٹی ہوئی چیخوں سے، بہتے اشکوں سے، ملتجی دھڑکنوں سے۔ مگر کچھ بھی تو نہیں ہوا تھا۔ نہ آسمان نے غیرت کھا کر کوئی بجلی گرائی تھی، نہ زمین نے ہی آگے بڑھ کر ظالموں کو نگلنے کی کوشش کی تھی۔ جو قیامت تھی اُسی پر گزر گئی تھی۔
’’چل چکنے کل پھر ملنا۔ ‘‘ اُن میں سے ایک نے اپنے کپڑے جھاڑتے ہوئے کہا تھا۔ باقی دونوں کے قہقہے گونجے تھے اُس خالی مکان میں۔ وہ چلے گئے تھے مگر وہ بہت دیر تک وہیں پڑا رہا تھا۔ پھر اپنا بسمل وجود سمیٹ کر کسی طرح اُٹھ آیا تھا۔مسجد کے سامنے کھڑے ہو کر اُس نے اُسے پتھرائی ہوئی بے یقین آنکھوں سے دیکھا تھا۔ دو سال پہلے جسے راکھ کیا گیا تھا۔ آج چمکتے شفاف پتھروں سے سجی ، اونچے مینار ماتھے پر سجائے پہلے سے کہیں زیادہ شان و شوکت سے کھڑی تھی۔مجروح، تنہا، تاراج تو صرف وہ رہ گیا تھا۔ عصر کی اذان کی آواز بلند ہوئی تھی مگر وہ رخ پھیر کر چل دیا تھا۔ کبھی واپس نہ پلٹنے کے لیے۔
٭…٭…٭
محل نما گھر کے اُس وسیع ہال میں مختلف رنگوں کی جلتی بجھتی روشنیاں رات کی رنگینی کی عکاس تھیں۔ محفل کا سنجیدہ پہلو اب سمٹ چکا تھا۔ جو جس سے ملنے آیا تھا، مل چکا تھا۔ اب موسیقی کی آواز بلند تھی اور رگوں میں دوڑتی مہ کا تناسب بھی۔ سو بڑے بڑے معززین بھی کچھ کچھ کھلنے کے موڈ میں نظر آ رہے تھے۔ ڈانس فلور پر کچھ جوڑے اور کچھ ’’پریاں‘‘ اور اُن کے پروانے جلوے بکھیر رہے تھے۔ وہ جس مقصد کے لیے آیا تھا، کسی حدتک پورا ہو چکا تھا۔ اب باقی کی اِس محفل میں اُسے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ وہ عمر کے اُس حصے سے نکل چکا تھا، جہاں ڈانس پارٹیز زیادہ اچھی لگتی ہیں یا صنف ِمخالف سے ’’لکا چھپی‘‘ رگوں میں ایک سرور آمیز توانائی بھرتی ہے۔ عمر کے اُس حصے سے ابھی کافی دور تھا جہاں زندگی کو رنگین کرنے کے لیے ’’سنجیدہ‘‘ کوشش کرنا پڑتی ہے۔ فی الوقت اُس کا محور اُس کی اُڑان تھی۔ وہ نکلنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ کسی نے ہاتھ پکڑ کر روکا تھا۔
’’ہائے ملک، کہاں ہوتے ہو تم؟ لونگ ٹائم نو سی یو۔‘‘ اُس کا ہاتھ تھامے بے تکلفی سے پوچھتی یہ شرمین حیات تھی۔ وہ ایک با اثر بیورو کریٹ حیات خان کی بیوی تھی۔ اینٹی ایجنگ ٹریٹمنٹس نے عمر کو پینتیس پر روکنے کے ساتھ چہرے کو بھی کچھ سپاٹ کر رکھا تھا۔ مگر اُس کی رنگین طبع اِس نقص پر حاوی تھی۔ وہ مسکرایا تھا۔
’’ہم نے کہاں جانا ہے۔ آپ ہی کے فارن ٹرپ ختم نہیں ہوتے۔‘‘ وہ اُس کا ہاتھ لبوں تک لے جاتے ہوئے بولا تھا۔ شرمین نے ہنستے ہوئے ہاتھ واپس کھینچا تھا۔
’’بس کرو ظالم۔ آدھی گھائل تو اِن لیڈی کلر لکس سے میں ویسے ہی ہو چکی ہوں۔ مزید چارم سہہ نہیں پاؤں گی۔‘‘ وہ آنکھ مار کر شرارت سے بولی تھی۔ جواباََ ملک کا قہقہہ بلند ہوا تھا۔
’’میں خود کو فلرٹ میں اُستاد سمجھتا تھا تم سے ملنے سے پہلے۔‘‘
’’ڈانس کرو گے میرے ساتھ؟‘‘وہ ہاتھ اُس کی جانب بڑھا کر مسکراتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔ ملک نے ہاتھ تھاما تھا مگر سر نفی میں ہلا دیا تھا۔
’’نہیں بس میں نکلنے کا سوچ رہا تھا۔‘‘
’’کم آن… تمہیں پتہ ہے ویسے ہی گڈلکنگ مردوں کا کال پڑا ہوا ہے یہاں۔ تم بھی چلے جاؤ گے تو مزید اندھیرا ہو جائے گا۔‘‘ انکار زبان کی نوک پر تھا مگر پھر نگاہوں کی زد میں ایک شناسا چہرہ آ گیا تھا۔ یک دم محفل اتنی غیر دلچسپ نہیں رہی تھی۔ وہ شرمین کو ساتھ لیے ڈانس فلور پر آیا تھا۔ اُسے نظروں میں رکھ کر جھومنے لگا تھا۔ وہ با اثر بیگمات کے حلقے میں بیٹھی تھی۔ پھر بھی اُن میں سے نہیں تھی، یہ سمجھ پانا کچھ اتنا دشوار بھی نہ تھا۔ شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا گیا تھا مگر پھر بھی نوشتہ دیوار صاف تھا۔
ہم ’’خاندانی بیویاں‘‘ ہیں تم نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والی ایک گولڈ ڈگر۔‘‘ وہ وارث ہمدانی کی دوسری بیوی تھی۔ غیر سرکاری طور پر تو یہ اعزاز اُسے بارہ سال سے حاصل تھا مگر وارث ہمدانی کی پہلی بیوی عائشہ ہمدانی کا تعلق بہت با رسوخ خاندان سے تھا۔ حلقہ احباب میں اُس کی اپنی مقبولیت بھی خاطر خواہ تھی۔ سو جب تک وہ زندہ رہیں، اُس کی حیثیت سنی سنائی افواہ سے زیادہ نہ ہو سکی۔ اب بھی بیگمات اُسے شرف قبولیت بخشنے کو تیار نہ تھیں۔ اُس کی وجہ آنجہانی عائشہ ہمدانی سے وفاداری نہیں تھی۔ وہ دوسری عورت تھی۔
کم عمر، خوبصورت، حریص…
اُس کی شکل میں اُن میں سے اکثر کو اپنے خوف چلتے پھرتے نظر آتے تھے۔
’’کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ… کہاں گم ہو، کسے دیکھ رہے ہو؟‘‘ شرمین نے اُس کے بازو کو ہلکا سا جھٹکا دے کر پوچھا تھا۔
’’کسی کو نہیں۔‘‘
’’رئیلی؟؟‘‘ شرمین نے معنی خیزی سے آنکھیں مٹکائی تھیں۔
’’خیر اس تحفے کے لیے شکریہ، ہمیں بہت پسند آیا ہے۔‘‘ وہ ہاتھ میں بندھی رولیکس کی اسپیشل ایڈیشن کی طرف اشارہ کر کے بولی تھی۔
’’یو آر ویلکم۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا۔ شرمین اور اُس کے شوہر کے لیے یہ بیش قیمت گھڑیوں کا سیٹ وہ انگلینڈ سے لایا تھا۔ کیونکہ وہ ’’دوست‘‘ تھے اور دوست دوستوں کے لیے تحفے تو لاتے ہیں۔ حیات خان نے اُس کے کہنے پر سرکاری کاغذات میں تحریف کروا دی تھی۔ کیونکہ وہ ’’دوست‘‘ تھے اور دوست دوستوں کے کام تو آتے ہیں۔
اِس محفل میں بیشتر لوگ ایسے ہی دوست تھے یا دوستوں کے دوست تھے۔ ان دوستیوں ہی کی کرامت تھی کہ اِن محفلوں میں بیٹھے بیٹھے کبھی کبھی ہزاروں لاکھوں حتٰی کہ کروڑوں لوگوں کی زندگیوں پر اثر انداز ہونے والے فیصلے بھی ہو جایا کرتے تھے۔ وہ ریاست و قانون جس کا کام اُن بے خبر لوگوں کے حقوق کا تحفظ تھا، اِس ’’دوستی‘‘ اور بھائی چارے کے سامنے دست بستہ کھڑے رہ جاتے تھے۔
خود کو نظر انداز کرنے والیوں کو نظر انداز کر کے وہ نسبتاً ایک تنہا کونے میں جا بیٹھی تھی۔ سیاہ آف شولڈر گاؤن میں صراحی دار گردن تفاخر سے اُٹھائے، گداز لبوں پر بے نیاز مسکراہٹ سجائے وہ بے خانماں ہرگز نہیں لگ رہی تھی بلکہ مزید نگاہوں کا محور بن گئی تھی۔ ملک کے لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ آئی تھی۔ خود کو ممتاز کرنا اُسے بہت اچھی طرح آتا تھا۔ وہ شرمین سے معذرت کر کے اُس کی طرف چلا آیا تھا۔
’’ہائے… مسز ہمدانی۔‘‘ وہ اُس کے برابر کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا تھا۔
وہ اُس کی آواز پر چونکی تھی۔ پھر اک ادا سے مسکرائی تھی۔
’’ہیلو مسٹر ملک۔‘‘
’’بہت عرصے بعد نظر آئیں آپ، کیسی ہیں؟‘‘وہ ویٹر کی پیش کردہ ٹرے سے وائٹ وائین اُٹھاتے ہوئے بولا تھا۔
’’آپ کو کیسی لگ رہی ہوں؟‘‘ اُس کی آنکھوں میں جھانک کر سوال کیا گیا تھا۔ ملک کو اُس کی آنکھوں میں اُس کی ذات کے کئی پہلو نظر آئے تھے۔ لیکن اُس نے اُن میں سے صرف ایک کا نام لینا مناسب سمجھا تھا۔
’’خوبصورت۔‘‘ ویٹر کی پیشکش ہاتھ کے اشارے سے مسترد کرتے ہوئے وہ بے ساختہ ہنسی تھی۔ اس ہنسی میں کچھ کھوکھلا پن تھا۔