گلاس سلپیرز : فہرین فضل
اگست کے اوائل دن تھے ، گرمی اور حبس سے شہری بے حال تھے ۔ ملک بھر میں سمارٹ لاک ڈائون کی وجہ سے ورکنگ پلیسز معمول سے پہلے بند ہو جایا کرتی تھیں ۔ اُس وقت بھی چھٹی کا وقت تھا ۔ کئی ورکرز کام سمیٹتے گھروں کو جا چکے تھے ، جبکہ کئی جانے کی تیاری میں تھے ۔ رابیل نے اپنی اکڑی ہوئی گردن کو سہلاتے ہوئے سامنے دیکھا تو کیبنز میں چند ایک افراد ہی اُسے کام کرتے ہوئے نظر آئے ۔ اس نے لیپ ٹاپ اسکرین کی طرف دیکھا ۔ تھوڑا سا ڈیٹا ہی تو باقی تھا ۔ کچھ دیر اوور ٹائم کر لیتی تو ویک اینڈ پر ہوم ورک لے جانے سے جان چھوٹ جاتی ۔ پھر وہ ہوتی ، اُس کا بیڈ ہوتا اور نیٹ فلیکس کا نیاسیزن ہوتا ۔ اپنے ہاٹ فیورٹ اداکار کو ایکشن ہیرو کے رول میں تصور کر کے ہی اُس کے گالوں پر سرخی دوڑ گئی تھی ۔سو وہ مسکراتے ہوئے دوبارہ جھک گئی ۔
اب کی بار رابیل نے ایک آسودہ سانس خارج کرتے ہوئے گردن اُٹھائی تو آفس تاریک اور خالی تھا ۔ ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے اُس نے سامان سمیٹا اور باہر نکل آئی ۔باہر آسمان سیاہ بادلوں کے گھیرے میں تھا ۔ یکا یک حبس کا زور ٹوٹا اور بارش کی موٹی موٹی بوندیں زمین پر گرنے لگیں۔سر پر ہاتھوں کا چھجا بنائے وہ تیزی سے پارکنگ کی طرف بھاگی ۔ اتنی سی دیر میں ہی اس کے بال مکمل طور پر بھیگ چکے تھے۔اُس نے بیگ میں سے موبائل نکال لیا ۔
’’مس رابیل، آپ اس وقت تک یہاں ہیں ، گئی نہیں ؟‘‘
وہ آواز پررکی ،پھر چونکی ، اُس نے گردن اٹھائی تو دیکھا تووہ سو ٹڈ بوٹڈ شخص ،جس کی موجودگی میں ہر چیز تھم سی جاتی تھی اُس کے قریب کھڑا تھا ۔اُس نے گردن اُٹھائی تو رائد نے دیکھا ،اس کی صراحی دارگردن پر بال ریشمی آنچل کی مانند لہرائے تھے ۔
’’ سر میں… بس نکل ہی رہی تھی، بارش کی وجہ سے …‘‘
زبان کسی کی نظروں کا تاب نہ لا سکی ۔ اسی لئے اُس نے الفاظ کا ساتھ چھو ڑ دیا تھا ۔
’’کیسے جائیں گی آپ ، بیٹھیں میں ڈراپ کر دوں ۔‘‘
اُس کی اس آفر پر دل کی دھڑکن تھمی ۔ وہ فورا انکاری ہوئی ۔
’’ نہیں سر میں کیب کروا رہی ہوں ، خود چلی جائوں گی ‘آپ کا شکریہ ۔ ‘‘
ریموٹ کی سے کار کا دروازہ کھولتا ہوا رائد کا ہاتھ تھما ۔ آہستگی سے دو قدم اُٹھا کر وہ اس کے مزید نزدیک ہوا ۔
’’آ پ اس شہر میں نئی نہیں ہیں ، جانتی ہیں اس موسم میں آپ کو کہیں سے آن لائن کنوینس نہیں ملے گی ۔پھر بھی آپ اپنا اور میرا وقت ضائع کر رہی ہیں ۔‘‘
’’میں ایسا کرنے کا سوچ بھی …‘‘
وہ نہیں بول سکی ۔ بول ہی نہیں سکتی تھی ۔سو چپ چاپ نظریں جھکا گئی ۔
’’آپ ہماری ایمپلائی، ہماری ذمہ داری ہیں ۔ اسی لئے چلئے میرے ساتھ ۔ ‘‘
اب کی بار بولا تو آواز میں تحکم تھا ۔ وہ مزاحمت نہ کر پائی تھی ، سو گاڑی میں جا کر بیٹھ گئی ۔برستی بارش میںونڈا سکرین بھیگنے لگی ۔کلون سے مہکتی گاڑی میں حبس بھری خاموشی کا راج تھا ۔ شہر کی سب سے بڑی کمپنی کے متوقع مالک کے سامنے اپنے تنگ و تاریک محلے کا نام لینے کے بعد ، اس کی شرمندگی سے لدی ہوئی پلکیں نیچے پیروں پر مرکوز تھیں ۔
وہ جانتی تھی اُس کا وجود اس وقت کسی کی نظروں کا محور ہے ،تبھی د ل بے قابوہو کر دھڑک رہا تھا ۔ اگر وہ ذرا سا سر اُٹھا کر دائیں جانب دیکھ لیتی تو اسے ڈر تھا کہ ساتھ بیٹھا شاندار مرد اس کی منتشر دھڑکنوں کا راز نہ پا لے ۔ لیکن شاید وہ جان گیا تھا ، تبھی پوچھ بیٹھا ۔
’’ ویک اینڈ پر کیا کر رہی ہیں آپ ؟ ‘‘
ایک دم ہی دھڑکنیں ساکت ہوئیں ۔ اس نے ہمت کر کے نگاہوں کا رُخ موڑا ۔ رائد کی پر شوق نظریں اسی پر ہی ٹکی تھیں ۔
’’ کچھ خاص نہیں سر… می ٹائم ۔ ‘‘ بیلا نے بامشکل تھوک نگل کر کہا ۔
’’ چاہیں تو یہ می ٹائم میرے ساتھ بھی گزار سکتی ہیں ۔ ‘‘
اسٹیرنگ پر ہاتھ اور بیلا پر نظریں جماتے ہوئے اس نے کہا تھا ۔ اُس کا دل پوری شدت سے دھڑکا ۔ آنکھیں کھل کر حیران ہوئیں ۔
’’ وہ کیسے سر ؟ ‘‘
’’ میرے گھر پر… سیٹرڈے ایوننگ، ایک پارٹی تھرو کی ہے میں نے ، آپ خود کو میری طرف سے انوائیٹڈ سمجھیں ۔ ‘‘
اس غیر متوقع صورتحال پر چند ساعتیں بیلا کچھ نہ بول سکی۔
’’ آفس کے اور لوگ بھی ہونگیں کیا ؟ ‘‘
’’ اسٹاف ؟ ‘‘ اُس نے ابرو اچکا کر سوالیہ پوچھا ۔پھر کچھ سمجھ کر گردن نفی میں ہلائی ۔
’’ نہیں اسٹاف نہیں ،بہت ہی پرائیویٹ intimate سی گیٹ ٹو گیدر ہے ۔صرف قریبی لوگ ہی انوائیٹڈ ہیں تم آئو گی تو مجھے بہت اچھا لگے گا ۔ ‘‘
یہ پہلی بار تھا کہ رائد نے کو ئی تفصیلی جواب دیا تھا ۔دل خوش فہم سا ہوکر دھڑکا ۔سنڈریلا کو شہزادے کی طرف سے دعوت نامہ موصول ہوا تھا ۔ ’’کیا اسے جانا چاہئے ؟ ‘‘ یہ دل کی آواز تھی ۔
’’ بالکل جانا چاہئے ۔ ‘‘ یہ دماغ کا فیصلہ تھا ۔
مسکراتی ہوئی نظریں جب سینڈلز میں مقید پیروں سے ٹکرائیں تو اُن کی جوت بجھ گئی ۔ مٹیالے سے میرون سینڈلز ‘ جن کا اصلی رنگ اب اُڑنے لگا تھا ۔ شاید روز آ جا کر ورنہ ابھی دو ماہ پہلے ہی تو لئے تھے اسٹائلو سے ۔ اُس نے اداسی سے رائد کی طرف دیکھا ۔ اسے شہزادے کی طرف سے دعوت نامہ موصول ضرور ہوا تھا مگر دعوت میں جانے کے لئے اس کے پاس کوئی فیری گاڈ مدر تھی نہ کوئی گلاس سلیپرز ۔
’’ آپ کے گھر والوںکو میرا یوں آنا شاید اچھا نہ لگے ۔ ‘‘
اُس نے سبھائو سے منع کرنا چاہا تو رائد مسکرا دیا۔ اس کی مسکراہٹ میں ایسا تاثر تھا جسے وہ سمجھ نہ سکی تھی ۔
’’کسی کو کچھ برا نہیں لگے گا ، ٹرسٹ می ۔تم ہوگی تو اٹ وِل بی اے گریٹ فن۔ ‘‘
اس کی آنکھوں میں آنکھیںدیے وہ نرمی سے کہہ رہا تھا ۔رابیل مسکرائے بغیر نہ رہ سکی ۔
’’ شیور سر ۔ میں ضرور آئوں گی ۔ ‘‘
رائد کی مسکراہٹ گہری ہوئی ۔
’’ میرا ڈائیور آپ کو پک کر لگا ۔ ‘‘
سر کو خم دے کر کہتے ہوئے رائد نے اسٹئیرنگ موڑا ۔ جگنو بھری آنکھوں سے رابیل نے ونڈ اسکرین کے پاردیکھا تو گاڑی اس کے علاقے کی حدودمیں داخل ہورہی تھی ۔
٭…٭
ہفتے کی شام نے آسمان پر اپنے نارنجی پر پھیلا دئیے تھے ۔ ایسے میں وہ پیلے رنگ کا پھولدار فراک زیب تن کئے ، آئینے کے سامنے کھڑی اپنی تیاری کا حتمی جائزہ لے رہی تھی ۔
اسکرب ، ڈیپ کلینسنگ ، اسکن پالش ،اُس نے اپنا پورا دن لگایا تھا اس سب پر جب ہی چہرے کی جلد ہلکے سے میک اپ کے ساتھ ہی دمک رہی تھی ۔ شولڈر کٹ بالوں کی ٹرمنگ کے لئے اس نے ساتھ والے گھر سے جویریہ کو بلایا تھا ۔ اب وہی بال اسٹریٹ ہوکر اس کے شانوں پر بکھرے تھے ۔ کانوں میں پہنے ہوئے سونے کے ٹاپس ، اور صرا حی دار گردن پر دمکتی چین ، اس کی ماں کی نشانی تھے ۔ اپنے سراپے پر ایک مسکراتی ہوئی نظر ڈال کر وہ الماری کی جانب پلٹی ۔
نچلا پٹ کھولے وہ جوتوں کا جائزہ لے رہی تھی ۔ سرخ کھسے جن کے تلوے بُری طرح گھس چکے تھے ، پٹی اتری کولہا پوری چپلیں ، سیاہ اونچی سول جس کا ایک اسٹریپ ٹوٹ چکا تھا ، ادھورے نگوں والی سنہری ہیل ،سفید بند جوتے ،اور اسٹائلو سے لئے گئے میرون سینڈل ۔
وہ خود ترسی کی کیفیت کا شکار تھی جب ہی موبائل کی بیپ بجی ۔ ڈرائیور باہر آچکا تھا ۔ اُس نے ایک گہرا سانس لیااور پیروں میں میرون سینڈل پہن کر باہر نکل آئی ۔
اُس کے سامنے اسلام آباد سیکٹر، G-6 میں واقع ،جدیدطرز کے شیشوں سے مزین، سنہری روشنیوں کو منعکس کرتی، تین منزلہ شاندار گھر کی عمارت تھی۔ وہ مرعوب ہوئے بغیر نہ رہ سکی ۔ پورچ سے نکل کر جیسے ہی اس نے ڈرائیوے پر قدم رکھا ، تیز آواز میں بجتے انگلش میوزک نے اس کے کانوں کا استقبال کیا ۔
رنگین پارٹی لائٹس کا تعاقب کرتی جیسے ہی وہ عقبی حصے کی جانب پہنچی ، تو سامنے کا منظردیکھ کر اس کی نفاست سے سجی آنکھوں کی پتلیاں ساکت ہوئیں اور لبوں پر مچلتی مسکراہٹ سمٹ سی گئی ۔ بیگ کا اسٹریپ کندھے سے لڑھک کر زمین پر گرا تو اس کے صامت وجود میں حرکت پیدا ہوئی اور وہ پلر کی اوٹ میں ہوگئی ۔ دن بھر کی محنت کے بعد چہرے کی دمکتی رنگت اپنی ہیئت زرد کر چکی تھی ۔
’’ بہت ہی پرائیویٹ intimate سی گیٹ ٹو گیدر ہے ۔ ‘‘
سانسوں نے حلق میں پھندا کس لیا تھا ۔ اُسے لگا وہ اگلا سانس نہیں لے پائے گی ۔
’’ تم ہوگی تو اٹ وِل بی اے گریٹ فن۔ ‘‘
وحشت زدہ آنکھوں میں ندامت کی نمی ہلکورے لینے لگی تو اُس نے آخری بار پلٹ کے دیکھا ۔ نیون لائیٹس میں ہلکورے لیتا پول کا نیلگوں پانی ، اُس میں ڈبکیاں لے کر جام سے جام ٹکراتے چھ سات نیم برہنہ لڑکے اور غیر مناسب لباس وانداز میں سگریٹ کے کش لگاتی دو لڑکیاں ۔
’’ بہت ہی پرائیویٹ intimate سی گیٹ ٹو گیدر ہے ۔ ‘‘
’’ تم ہوگی تو اٹ وِل بی اے گریٹ فن۔ ‘‘
اس نے شرمندگی سے آنکھیں بند کیں تو گرم سیال اُس کے گالوں کو بھگوتا چلا گیا ۔ گالوں کو رگڑتی ، گہرے گہرے سانس لیتی وہ باہر نکل آئی ۔ سہ پہر میں ہونے والی بارش کی وجہ سے رات میں خنکی سی تھی ۔ اس نے ایک نظر اپنے جوتوں پر ڈالی اور بیگ سے موبائل نکال لیا ۔
‘‘ ہیلو عقیل، تمہاری ایف سیکٹر والی پراپرٹی بک گئی کیا؟اس کو ہٹا لو مارکیٹ سے ہاں ، میں اور ابا دونوں آئیں گے ۔ ‘‘
فون رکھتے ہوئے اس نے ایک نظراُٹھاکر بھیگے آسمان کو دیکھا اور نم سانس اندر کو کھینچ لی ۔ پھر اُس نے اپنے پیروں کی جانب دیکھا ۔ میرون ، مٹیالے ،گھسے ہوئے سینڈلز نہیں اُسے گلاس سلیپرز نہیں چھوڑنے تھے ۔ یہ اس کی بھول تھی کہ وہ ایسے جوتے پہن کر اونچے محلوں میںداخل ہوجائے گی ۔ محل کی خواہش رکھنے والوں کو خسارے بھی اُن کی دیواروں جتنے اونچے ادا کرنے پڑتے ہیں ۔
اسے انہی جوتوں کے ساتھ چل کر اپنی سلطنت خود بنانی تھی ۔ ذرا دیر پہلے ہوئے واقعے نے رابیل کریم سے وہ فیصلہ کروایا تھا جس کی ہمت شاید وہ ساری عمر نہ مجتمع کر پاتی ۔
ذرا سی ہمت …بس ذرا سی ہمت ہی تو کرنی تھی جو اُس نے کر لی ۔ بس ابا کو قائل کرنا باقی تھا ۔
عقیل اس کا خالہ زادکزن تھا جو کہ شہر کے کمرشل ایریا میں موجود اپنے والد کے برگر پوائنٹ سے پیچھا چھڑوانے کا خواہاں تھا ۔
اپنا چھوٹا سا بریک فاسٹ کیفے بنانے کا خواب رابیل کے ساتھ پل کر جوان ہوا تھا جو نہ جانے کیسے ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دب کر اپنی حیثیت کھو بیٹھاتھا مگر جس روزسے عقیل نے اپنی چلتی پھرتی پراپرٹی بیچنے کی بات کی تھی دل میں دبا شوق ایک بار پھر جاگ اُٹھا تھا۔ لیکن کیا ابا مان جاتے ؟ اسے یقین تھا ریٹائرمنٹ کے قریب باپ کے سامنے جب وہ اُن کے بڑھاپے کے تحفظات رکھے گی تو وہ مانے بغیر نہیں رہ پائیں گے ۔
اُس نے ایک بار پھر گہری سانس بھر کر اپنے پیروں کی جانب دیکھا ۔ وہ سنڈریلا نہیں تھی جو گلاس سلیپرز کا انتظار کرتی اسے انہی جوتوں کے ساتھ آگے بڑھنا تھا ، سفر آسان نہیں تھا مگر اُسے طے کرنا تھا ۔ اگر نیتوں میں خلوص ہو تو راستے منزلوں کی طرف لے ہی جاتے ہیں ۔ اُس نے سوچا اور قدم گھر کی جانب بڑھا دئیے ۔
ختم شد