افسانے

گلاس سلپیرز : فہرین فضل

’’ تمہاری سر رائد سے ملاقات ہوئی ۔‘‘
لیپ ٹاپ سکرین پر نظرں جمائے ، اعداد وشمار کا حساب کرتی رابیل نے آواز پر سر اُٹھا کر سامنے دیکھا تو بڑی بڑی آنکھوں والی فروا ٗ چائے کا مگ اس کی طرف بڑھائے پوچھ رہی تھی ۔
’’ نہیں، ابھی تک تو نہیں ۔ ‘‘
شولڈر کٹ والی رابیل نے چائے کا مگ تھامتے ہوئے سادگی سے جواب دیا ۔ دوسری طرف فروا کیبن کی دیوار سے ٹیک لگا کر، چائے کا سپ لیتے ہوئے سہولت سے بولی ۔
’’ پتہ ہے پورا آفس سٹاف انہی کے بارے میں بات کر رہا ہے ۔ ہمارے وائس پریزیڈنٹ کے اکلوتے بیٹے ہیں ، پہلے کراچی برانچ کو مانیٹر کرتے تھے مگر اب وہاں کا چارج باس کے داماد نے سنبھال لیا ہے تو یہ یہاں مین برانچ میں آ گئے ہیں ۔ ‘‘
’’اور آفس کی لڑکیوں میں تو آتے ساتھ ہی مشہور ہو گئے ہیں ۔ ‘‘
ساتھ والے ڈیسک پر بیٹھی مدیحہ نے بھی حصہ لیا ۔
’’ ہاں بھئی،بیرون ملک سے ڈگری حاصل کی ہے ، دولت ، امارت ، اسٹیٹس ، وجاہت، کیا نہیں ہیں ان میں ۔اسی سب کے تو خواب دیکھتی ہیں لڑکیاں ۔ ‘‘
فروا نے صاف گوئی سے تجزیہ کیا ۔ آفس میں لنچ بریک کے علاوہ چائے کافی کا وقفہ بھی چلتا رہتا تھا اسی لئے وہ سب مزے سے ، پچھلے کئی دنوں سے آفس کے ہاٹ فیورٹ ٹاپک یعنی باس کے اکلوتے بیٹے ’’ سر رائد افضل ‘‘ کو ڈسکس کر رہی تھیں ۔
’’ ہم عام گھرانوں کی لڑکیاں بس خواب ہی تو دیکھتی ہیں ۔ ‘‘
رابیل نے نچلے کیبنٹ سے کوکیز کا جار نکالتے ہوئے کہا ۔ کوکونٹ بسکٹ تھے جو اس نے صبح بیک کئے تھے ۔ اپنے لئے نکال کر اس نے جار باقی سب کی طرف بڑھا دیا ۔
’’ میری تو کل خاصی تفصیل سے ملاقات ہوئی ہے سر رائد سے ۔ ‘‘
سب کو سنتی سبین نے اپنے بلو ڈرائی کئے ہوئے بالوں کو پیچھے کی طرف کرتے ہوئے گفتگو کا آغاز کیا ۔
’’ اچھا پھر…‘‘
سب کے چہرے حیرت سے اس کی طرف مڑے مگر سبین نے پہلے بڑی بے نیازی سے چائے کوختم کیا ۔ سیاہ ماربل کے مگ پر اس کے کیوٹکس سجے ناخن دمکتے رہے ۔
’’ بڑے ہی ویل مینرڈ اور سینس ایبل سے ہیں ۔ میں ایک فائل سائن کروانے کے لئے گئی تھی اُن کے آفس بلکہ ایم ڈی صاحب نے بھیج دیا تھا ۔ پہلی دفعہ سامنا ہو رہا تھا تو تھوڑی سی نروس بھی تھی مگرسر رائد… انہوں نے شائستگی سے مجھے بیٹھنے کے لئے کہا ، کافی منگوائی ، مجھے کمفرٹ کرنے کے لئے پہلے ادھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے پھر فائل کا مطالعہ کیا ، کئی جگہوں پر میرے ریسرچ ورک کی تعریف کی اور ویک پوائنٹس کو ہائی لائٹ کر کے تحمل سے مجھے سمجھایابھی اور آخر میں مسکر کر کسی بھی قسم کی مد د کے لئے بلا جھجک کہنے کی پیش کش بھی کی ۔‘‘
سبین نے انگلی بالوں پر لپیٹتے ہوئے مسکرا مسکرا کر سارا حال کہہ سنایا ۔
’’ پھر تو بڑے ہی کوئی زبردست انسان ہیں سر رائد ۔ ‘‘یہ مدیحہ تھی ۔
اور نہیں تو کیا اب تم لوگ خود ہی بتائو کوئی اونچی پوسٹ کا انسان جو مستقبل قریب میں کمپنی کا مالک بھی ہو ، اپنے انڈر کام کرنے والوں کے ساتھ اتنا تعاون کرتا ہے کیا؟ ‘‘ سبین نے مزید تعریفوں کے پل باندھے ۔
’’ سر رائد کی بات ہی کوئی اور ہے ۔ ایسے ہی تو نہیں سارے آفس کو اپنا گرویدہ بنا لیا ۔ ‘‘ فروا نے ہونٹوں کو گول کرتے ہوئے کہا ۔
ان چاروں کے چہرے دوسری طرف تھے تبھی ڈائریکٹرز کی ہمراہی میںآتے ہوئے شخص کو دیکھ نہیں پائیں ، اور جب دیکھا تو جہاں کی تہاں رہ گئیں ۔ رابیل بھی مگ رکھتے ہوئے مشینی انداز میں اُٹھ کھڑی ہوئی ۔
پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے چلتا شخص ان کے قریب آکر رک گیا ۔ اُس کے بیش قیمت سوٹ سے اٹھتی ہوئی کلون کی مہک نے پورا کیبن مہکا دیا تھا ۔ اُس نے ایک سر سری نظر لب چباتی بیلا پر ڈالی اور گویا ہوا ۔
’’ ٹی ٹائم ، چھے منٹ ہوئے اوور ہو چکا ، گو بیک ٹو دی ورک ۔ ‘‘ نرمی سے تنبیہہ کر کے وہ آگے بڑھ گیا ۔
افضل انٹر پرائیزز کی معمولی سی ورکر ، رابیل کئی لمحوں تک ہل بھی نہ سکی ۔ پرسونا،پرسنالٹی کا چارم ، کرزما ، اوورا یہ سب اصطلاحات شاید اس بے نیازی سے چلتے شخص کے لئے بنی تھیں ۔
٭…٭
’’ بیلا یار ،تمہیں پروف ریڈنگ کے لئے اک فائل دی تھی ، ہو گئی کیا ؟ ‘‘
سبین بالوں کو لہراتے ہوئے آئی اور رابیل کے ڈیسک پر کہنیاں رک کے جھک گئی ۔
’’ ہاں ہو گئی…یہ لو ۔ ‘‘ مسکراتے ہوئے فولڈر اس کی طرف بڑھایا پھر رُک گئی ۔
’’ یہ نئے اوور سائزڈ فریم کے گلاسز سوٹ کر رہے ہیں تم پر ۔ ‘‘
سبین لاشعوری طور پر اپنا ہاتھ آنکھوں تک لے گئی اور پھر مسکرا کر بولی ۔
’’ اور لپ اسٹک کا یہ شیڈ تمہارے کمپلکشن کو مزید نکھار رہا ہے ۔‘‘
سیدھے ہوکر فولڈر لیا اور آگے بڑھ گئی ۔
اُسی سہ پہر جب سب اپنا اپنا کام تقریباََ سمیٹ رہے تھے ۔ رابیل، سبین کے پاس آئی ۔اُس کے ہاتھ میں چشمے کا کیس تھا ۔ اُس نے کیس سبین کی طرف بڑھایا ۔
’’ یہ تم سر رائد کی ٹیبل پر بھول آئی تھی ۔‘‘
مگر سبین ہاتھ آگے نہ بڑھا سکی ۔
’’ تمہیں یہ سر رائد نے خود دئیے ہیں ؟ ‘‘ رابیل کا سر نفی میں ہلا ۔
’’ نہیں میں کلیم ہولڈنگ کے ساتھ ہونے والی میٹنگ کی بریفنگ دینے گئی تھی جب مجھے یہ اُن کی ٹیبل پر نظر آئے ۔سوچا تم پریشان ہو رہی ہوگی اسی لئے سر رائد کو بتا کر باہر لے آئی ۔ ‘‘ سبین کے حلق میں گلٹی ابھر کے معدوم ہوئی ۔
’’ کیا کرتی ہو بیلا ،یہ گلاس سلیپرز ( Glass Slippers) تھے ۔ ‘‘
٭…٭
باہر رات گہری ہو رہی تھی ۔ نیند آنکھوں سے دور تھی ۔ دن بھر تھک ہار کر جب وہ سونے لیٹی تو کلون کی مانوس مہک نے اس کے ارد گرد حصار باندھ لیا ۔کسی کا شائستہ لہجہ سماعتوں میں اترنے لگا ۔ سیاہ آنکھیں اُس کے چہرے پر جم گئیں اور کوئی پاور سیٹ سے ٹیک لگا ئے،گال تلے انگلی رکھ کے غور سے اُس کی بات سنتا ہوا ذہن کی اسکرین پر منڈلانے لگا ۔رابیل نے گھبرا کر کروٹ بدلی ۔
ہائے یہ عام گھروں کی لڑکیاں ، اپنے خیالات پر بھی سو طرح کے پہرے لگا کر رکھتی ہیں ۔ ابھی اُس کی عمر ہی کیا تھی ۔ بمشکل بائیس سال ۔ تین ماہ ہی تو ہوئے تھے گریجویٹ ہوئے ۔ قریب تھا کہ اُس کے رشتے آنے لگتے ۔ ابا ٹہرے سیدھے سادے ، شریف النفس ،ریٹائر منٹ کے قریب سرکاری ملازم ۔ کوئی بعید نہ تھا کہ پھو پھو کے توسط آئے پہلے رشتے پر ہی ہاں کر دیتے ۔ مگراس دل اور اُس میں بستے خوابوں کا کیا …
کیا کچھ نہیں سوچ رکھا تھا اُس نے آنے والے وقت کے بارے میں ۔ ابا کی ریٹائرمنٹ کے پیسے آجاتے تو وہ…خیر …
ایک بوجھل سانس لے کر اُس نے خیالات کو بدلنے کی کوشش کی تو ذہنی رو بھٹک کر سبین کی طرف چلی گئی ۔ ایک متوسط طبقے کی کالونی میں ان کا گھر تھا ۔ بیوہ ماں شہر کی مشہور بوتیک میں سلائی کا کام کرتی تھی جبکہ مطلقہ بہن اپنی ہی علاقے میں بیوٹی پارلر چلاتی تھی ۔ محنت اورصبر کی گھٹن زدہ سی زندگی سے نکل کر ہائی سوسائٹی میں موو کرنا ، امارت کی چکا چوند سے اپنا اسٹیٹس بدلنا سبین کا خواب تھا ۔
’’ وقت بدل گیا ہے بیلا ، اب کے گلاس سلیپرز خود چھوڑنے پڑتے ہیں ۔ آج کل کے شہزادے سنڈریلا کو ڈھونڈنے اُس کے پیچھے نہیں جاتے ۔ سنڈریلا کو خود جانا پڑتا ہے ۔ ‘‘
آج آفس میں سبین نے اُس سے چشموں کا کیس لیتے ہوئے عجیب سے لہجے میں کہا تھا ۔ وہ سُن سی رہ گئی ۔
’’کیا واقعی خوابوں کو پانے کے لئے گلاس سلیپرز چھوڑنے پڑتے ہیں ۔‘‘
وہ مزید سوچ نہیں پائی ۔ آنکھوں کے غلاف پہ بھاری بوچھ آن پڑا تھا ۔تمام سوچوں کو لاشعور میں دھکیل کر اُس نے آنکھیں موند لیں ۔
٭…٭

1 2اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page