پاکستان کی فلم اور ڈرامہ انڈسٹری میں مزاح نگاری پر بہت کم کام ہوا یا یوں کہیے کہ اس پائے کا نہیں ہو ا۔ کیوں کہ مزاح اور پھکڑپن میں باریک لکیر ہے ۔ عامیانہ انداز اور فحش مکالموں کو آپ مزاح نہیں کہہ سکتے ۔چہرہ بگاڑ کر اوٹ پٹانگ حرکتیں کرنا بھی معیوب لگتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مزاح لکھنا مشکل کام ہے دوسرے الفاظ میں یوں کہنا چاہیے کہ عوام کو ہنسانا جاں جوکھوں کا کام ہے ۔ ایسا مواد پیش کرنا جس میں شستگی بھی ہو ، برجستگی بھی ہو اور وہ طبیعت پر گراں نہ گزرے بہت کم نظر آتا ہے ۔ گردوپیش کے مسائل کو ہنسی ہنسی میں پیش کرنا یقینا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے ۔ اسی لیے عموماََ ہمارے ڈرامہ،فنکار،یا قلم کار کا ادب پھکڑپن کا شکار ہو جاتے ہیں۔اسی کی دہائی میں ایک ایسا خاکوں پر مبنی سٹ کام پیش کیا گیا جو پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری کی تاریخ میں آنے والے مزاح نگاروں کے لیے پیش رو ہے اور سدا بہار کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔یہ ڈرامہ کراچی سینٹر کی پیش کش تھی اس کے ہدایت کار شعیب منصور صاحب تھے جو شاہکار پیش کرنے میں کمال رکھتے ہیں ۔رائٹر اس کے انور مقصود ہیں جن کا قلم تیکھا ہے ۔نمایاں اداکاروں میں زیبا شہناز ، اسماعیل تارا ، ماجد خان ، بشری انصاری ، فرید خان ، جہانگیر خان ، اشرف خان ، لطیف کپاڈیااور بہت سے دوسرے شامل تھے ۔اس کا دورانیہ ساٹھ منٹس پر مشتمل ہوتا۔یہ پروگرام محض ہنسنے ہنسانے پر مشتمل نہ تھا اس میں حالات حاضرہ پر بھی بات ہوتی تھی۔بشری انصاری نے مختلف گانوں کی جو پیروڈی پیش کی وہ سب کو یاد ہے ۔ بالخصوص میڈم نور جہاں کے گانے پر ۔یوں بشری انصاری نے ایک نیا ٹرینڈ متعارف کروایا ۔ جس کو بعد میں بھی کاپی کیا گیا ۔ مسرت نذیر،سلمی آغا اور میڈم نور جہاں کا گیٹ اپ کر کے ان کے گانوں کو مزاحیہ رنگ دینا ۔اسی طرح ایک مشہور گانا ڈسکو دیوانے پر اسماعیل تارا کا ٹوئسٹ بھی سب کو یاد ہو گا۔زیبا شہناز اور ماجد خان کا خبریں پڑھنے کا انداز…انور مقصود اور شعیب منصور کی ذہانت سب سے بڑھ کر اداکاروں کی پرفارمینس یادگار ہیں ۔ روز مرہ زندگی کے مسائل کو ہلکے پھلکے انداز سے پیش کرنا ۔ لطیف پیرائے میں طنز کرنا جو بے ساختہ ہنسنے پر مجبور کر دے اور توجہ مبذول کروا دے یقینا آسان کام نہیں ہے ۔ففٹی ففٹی ڈرامہ انڈسٹری میں ایک اکیڈمی کا درجہ رکھتا ہے ۔آج کل کے مزاح میں سب کچھ ہے سوائے شستہ مزاح کے ۔ پھکڑپن ، ذومعنی گفتگو،نامناسب جملے ۔ یقینا طبیعت پر گراں گزرتے ہیں آپ ایک بار دیکھ کر دوبارہ دیکھنا پسند نہیں کرتے۔اس دور کے بہت سے یادگار واقعات بھی اس کا حصہ بنے ۔ جیسے جاوید میانداد کا شارجہ میں یادگار چھکا ، اس پر بشری انصاری کی پیروڈی، لوڈشیڈنگ پر پر مزاح خاکے غرض کہ کے رائٹر اور ڈائریکٹر کی کامیاب کیمسٹری نے اس ڈرامے کو یادگار بنا دیا۔آج کی ڈرامہ انڈسٹری جو پہلے سے زیادہ وسائل رکھتی ہے ۔ مواقع بھی موجود ہیں تو ایسے پروگرام وقت کی ضرورت ہیں ۔ جہاں مسائل پر بات ہوہنسی اور کلام ہو۔ شستگی اور برجستگی ہمراہ ہو۔ عندلیب زہرا