عید تمہارے سنگ : رابعہ یعقوب
’’زندگی کے اتنے حسین پل تمہاری سنگت میں گزارنے کے باوجود بھی خود کو تنہا اور بے بس محسوس کرتی ہوں ۔ میں نے بہت کوشش کی تم سے نفرت کرنے کی،لیکن ہر کوشش ناکام ہوتی گئی ۔ ماضی کی یادیں کسی مقناطیس کی طرح میرے ذہن کو اس طرح جکڑ لیتی ہیں کہ میں خود کو بے بس محسوس کرتے ہوئے ان یادوں کے دھارے میں خود کو بہنے سے روک نہیں سکتی ۔ وہ حسین لمحے جہاں زندگی گنگناتی تھی۔زندہ ہونے کا احساس ہر پل میرے ساتھ ہوتا تھا ۔
تمہیں یاد ہے ایک دفعہ میری خواہش پر تم نے پھول چنتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو زخمی کر لیا تھا ۔ میں تمہارے ہاتھ سے بہتے ہوئے خون کو دیکھ کر تڑپ اٹھی تھی ، ایک ان دیکھے درد کی تکلیف میرے اندر بھی سرائیت کر چکی تھی ۔ میں نے آہستگی سے تمہارا ہاتھ تھاما تھا اور اسے اپنے ڈوپٹے کے پلو میں چھپا دیا۔
میں نے زندگی کے دوسال تمہاری سنگت میں گزار دئیے اور وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوا ۔ آج ان حسین لمحوں کو یاد کرتی ہوں تو میری آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔دل کسی ضدی بچے کی مانند مچلنے لگتا ہے خواہش کرتا ہے واپس انہی حسین لمحوں کو جینے کی ۔ میں نے اپنے دل کو تھپکی دے کر سلا دیا ہے لیکن اس کی دھڑکنیں میرے کانوں میں شور مچاتی ہیں ۔ اٹکھیلیاں کرتی ہوئی مجھے واپس انہی لمحوں میں لے جاتی ہیں ۔ لیکن میں چونک جاتی ہوں ۔ اور پھر زندگی کے انہی خاردار راستوں پر چلنا شروع کر دیتی ہوں جہاں تم مجھے اکیلا چھوڑ کر گئے تھے۔‘‘
٭…٭…٭
یہ موسم بہار کی ایک خوشگوار سہ پہر تھی ۔ ماہرہ لان میں لگے پودوں کو پانی دیتے ہوئے فریحہ بیگم کی باتوں کو سوچ رہی تھی جو مسلسل اسے شادی کے لیے مجبور کر رہی تھیں ۔ ابھی وہ انہی سوچوں میں گم تھی کہ وہ ایک بار پھر سے اس کے پاس آکر اسے پیار سے منانے کی کوشش کرنے لگیں۔
’’ دیکھو ماہرہ میں چاہتی ہوں کہ تمہاری جلد از جلد شادی ہو جائے،تم ہماری اکلوتی اولاد ہو تمہاری خوشیاں دیکھے بنا میں اس دنیا سے نہیں جانا چاہتی۔‘‘
’’ اماں آپ پھر سے شروع ہوگئیں کتنی بار کہہ چکی ہوں کہ میں شادی نہیں کرنا چاہتی ۔ شادی کا نام سنتے ہی میری سانسیں رک جاتی ہیں ۔ مجھے ایسا لگتا ہے جیسے وہ اک قید خانہ ہو گا جہاں میں قید کر دی جاؤں گی۔‘‘
دھوپ کے باعث چہرے پر پسینے کے ننھے ننھے قطروں کو دوپٹے سے رگڑتے وہ اٹل لہجے میں بولتی فریحہ بیگم کو غصہ دلا گئی ۔ مگر اس کے باوجود وہ ماہرہ سے نرمی سے مخاطب ہوتے ہوئے بولی۔
’’ تم ایسا کیوں سوچتی ہو ماہرہ ،شادی کا مطلب یہ نہیں کے آپ قید کر دیئے جائیں بلکہ یہ تو ایک مضبوط بندھن ہوتا ہے جہاں آپ کو اپنی خوشیاں،اپنا دکھ باٹنے کے لیے ایک ساتھی مل جاتا ہے۔‘‘
اس نے اپنی نم پلکیں اٹھا کر ماں کو دیکھا اور پھر مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔
’’ اماں آپ اس آسمان پر اڑتی ہوئی ان رنگ برنگی پتنگوں کو دیکھ رہی ہیں جن کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہوتی ہے، اور وہ اپنی مرضی سے اسے جس سمت چاہے موڑ دے ۔میں نہیں چاہتی کے میری زندگی کی ڈور بھی کسی کے ہاتھ میں ہو ۔ میں اپنی مرضی سے زندگی گزارنا چاہتی ہوں جہاں نہ کسی کے چھن جانے کا خوف ہو اور نہ ہی ڈر۔‘‘
انہوں نے پرسوچ نظروں سے اسے دیکھا ۔ وہ ماں تھی اس کے اندر پنپتے ہوئے خوف سے آشنا تھی ۔ اگرچہ وہ اپنے آپ کو کسی پر عیاں نہیں ہونے دیتی تھی لیکن وہ جانتی تھی کہ وہ کیوں شادی نہیں کرنا چاہتی ؟ اس لیے اس معمہ کو کسی اور دن اٹھا رکھتے وہ خاموشی سے واپس مڑگئیں۔
٭…٭…٭
’’میں ماہرہ جمشید جو بچپن سے ہی بہت سی محرومیاں کا شکار رہی ۔ میرا باپ میری ماں کو ناپسند کرتا تھا ۔ وہ اپنی پسند کی ہوئی لڑکی سے شادی کرنا چاہتے تھے ۔ لیکن خاندان کے دبائو میں آکر وہ اماں سے شادی کے لیے راضی ہوگئے لیکن انہیں وہ خوشیاں نہ دے سکے جن پر ان کا حق تھا ۔بچپن سے ہی میں اپنے باپ کی طرف سے عدم توجہی کا شکار رہی ہوں ۔ ایک جھجھک میرے اندر پیدا ہوچکی تھی ۔ میں لوگوں سے بات کرتے ہوئے ہچکچانے لگی ۔ کالج کے بعد میں نے پڑھائی کو خیرباد کہہ دیا۔
میں لوگوں کا سامنے کرنے سے کترانے لگی ۔ اماں آئے روز نت نئے رشتے میرے لیے تلاش کرتیں لیکن میں ان لوگوں کے معیار پر پورا نہ اترتی۔
ایسی ہی ایک سہانی شب تھی ۔ موسم ابر آلود ہورہا تھا ۔ بارش کے اثار لگتے تھے ۔ میں اپنی سوچوں کے جھروکے میں غلطاں تھی ۔ اردگرد سے یکسر بے نیاز اور لاعلم ۔جب اچانک دروازے پر ہونے والی دستک نے مجھے اپنی جانب متوجہ کیا ۔ میں نے حیرانی سے اس پل دروازے پر ہونے والی دستک سنی ۔ لیکن دروازہ کھولتے ہی جو انکشاف مجھ پر ہوا وہ یہ کہ کیا ایک نظر کسی کو دیکھنے سے بھی محبت ہو سکتی ہے ؟ وہ وہی تھا جسے میں بچپن سے جانتی تھی۔
ہاں وہ علی ابصار تھا جو میرا عم زاد تھا ۔ بچپن کی محبت جوانی کی دہلیز پار کرتی ہوئی ایک تناور درخت بن چکی تھی ۔ جسے میں ہر روز پانی دے کر پروان چڑھاتی اور اس درخت کو کبھی مرجھانے نہ دیتی ۔ لیکن اپنی کم مائیگی کی وجہ سے میں اسے کبھی آنکھ بھر کر نہ دیکھ سکی ۔ اس پل علی کو دیکھ کر میرے جذبات ناقابل بیان تھے ۔ خوشی تھی جو چھپائے نہ چھپ رہی تھی ۔ میں ہمیشہ سے اس میں ایک ساتھی کو دیکھتی تھی ۔ مجھے لگتا تھا کہ یہ وہی شخص ہے جو میری محرومیوں کو ختم کر کے مجھے زندگی کی لذتوں سے آشنا کروا سکتا ہے ۔لیکن اپنے باپ کی اپنی ماں سے نفرت کی بدولت میں شادی جیسے جذبہ سے خوفزدہ تھی۔
دوسری طرف اماں کی منہ زور خواہش پر میں چپ رہتی میں خود کو اس شخص کے قابل نہیں سمجھتی تھی ۔ وہ بھی ایک عام دن تھا جب اچانک اماں کی طبیعت بگڑگئی ۔ اپنی طبیعت کے پیش نظر انہوں نے آناً فاناً میری شادی علی سے کروا دی ۔ ہم اچھے دوست تھے لیکن اچانک ایک ایسے رشتے میں بندھ گئے تھے ۔ جہاں ایک فطری جھجھک ہر پل مجھے اپنے حصار میں لیے رکھتی ۔ میں اس نئے بننے والے رشتے سے مطمئن تھی ۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ میں اس رشتے کو نبھانے کی ہر ممکن کوشش کروں گی ۔ آہستہ آہستہ ہم ایک دوسرے کے قریب آتے گئے۔
وہ روز آفس سے آتے ہوئے میرے لیے گجرے لے کر آتا اور میں ان گجروں کی خوشبو میں خود کو بہکنے سے نہ روک پاتی ۔ زندگی ایک تسلسل سے آگے بڑھ رہی تھی جہاں خوشیاں ہی خوشیاں تھیں ۔ لیکن میری خوشیوں کی مدت بہت تھوڑی ہوتی ہے یہ جانتے ہوئے بھی میں اس سے محبت جیسے جرم کی مرتکب ہوئی۔
وہ دراصل مجھے بیوقوف بناتا رہا ۔ وہ صرف کچھ دن میرے ساتھ کا خواہاں تھا ۔ اور پھر سے ایک آزد پنچھی کی طرح اڑ جانا چاہتا تھا ۔وہ مجھے چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے بیرون ملک شفٹ ہو گیا ۔ میں ہر روز اس کی راہ تکتی لیکن اسے شاید نہیں آنا تھا اور وہ نہیں آیا ۔ لوگ مجھے ترحم بھری نظروں سے دیکھتے ۔ ان کی چبھتی ہوئی نظروں کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا ۔ میں آج بھی اس کی راہ تکتی ہوں لیکن شاید میرا یہ انتظار لاحاصل ہی رہے۔‘‘
لیمپ کی مدھم روشنی میں ڈائری پر اپنے دل کا درد منتقل کرتے ہوئے اس نے تھک کر کرسی کی پشت سے اپنا سر ٹکا دیا۔
٭…٭…٭
رمضان کا بابرکت مہینہ شروع ہو چکا تھا ۔
ہر طرف اللہ کی صدائیں بلند ہوتیں ۔ ہر کوئی اپنی عبادات میں مشغول رہتے ۔ اکثر اس مہینے میں اس کی عبادات طویل ہوجاتی ۔ وہ رب کے حضور اپنے سکون کی خواہاں تھی ۔ جو اس بیوفا کے جانے کے بعد سے ہی اس سے چھن گیا تھا ۔ ابا کو اپنی غفلت کا احساس ہوگیا تھا ۔ وہ ہر پل اس سے اور اماں سے شرمندہ رہتے ۔ اماں ہر وقت اس کے ساتھ رہتی ‘ بہلانے کی کوشش کرتی لیکن اس دل بے قرار کو کسی پل چین نہ تھا۔
آج آخری روزہ تھا ۔بچوں سے لے کر بڑھوں تک ہر کوئی چاند دیکھنے کے لیے پرجوش تھا ۔وہ بھی سوگوار دل کے ساتھ چھت میں بینج پر بیٹھی آسمان کی طرف دیکھ رہی تھی ۔ قدموں کی چاپ پر اس نے مڑ کر سیڑھیوں کی طرف دیکھا تو آنکھوں کی پتلیاں ایک دم سکڑ گئیں ۔ وہ وہی ستم گر تھا جس نے اس کی زندگی بنجر اور ویران کر دی تھی کہ اب کسی خوشی کا احساس نہیں ہوتا تھا۔
’’ سنا ہے جب شوہر واپس لوٹ آئیں تو بیویاں اپنی حسین مسکراہٹ کے ساتھ ان کا استقبال کرتی ہیں۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے لہجے میں بولا۔
’’ اور اگر کوئی ایسا سرا ہی تھما کر نہ جائے کہ ان کی واپسی کا یقین ہو تو بیویاں ایسی ہی بے یقینی کی کیفیت سے گزرتی ہیں ۔ ‘‘آنسوئوں کی ایک لڑی اس کی دائیں گال سے بہہ کر اس کے گود میں رکھے ہوئے ہاتھوں میں جذب ہو گئی۔
’’ معافی ملے گی۔‘‘ وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا۔
’’ چھوڑ کر کیوں گئے تھے۔‘‘
’’ مجھے لگا تھا کہ تم سے شادی کا فیصلہ سراسر جذباتی تھا ۔ جذبات میں بہہ کر میں خالہ امی کو انکار نہیں کر سکا ۔ اس لیے تم سے راہ فرار کے لیے میں نے یہاں سے جانا ہی بہتر سمجھا۔‘‘
’’ پانچ سال بعد آپ کو واپسی کا خیال آیا۔‘‘
’’ تم نے بھی تو کبھی رابطہ کی کوشش نہیں کی۔‘‘ وہ اس کا ہاتھ تھام کر استفسار کر رہا تھا ۔
وہ چپ تھی اور ایسی ہی چپ وہ اس وقت بھی تھی جب اسے اس کے چھوڑ جانے کی اطلاع ملی تھی ۔ لیکن جب بولی تو اس کی آواز میں نمی تھی آنسوئوں میں گھلی سرگوشی میں وہ فقط یہ ہی
کہہ سکی۔
’’ میں نے کبھی چاند رات نہیں منائی لیکن آج دل خواہش کر رہا ہے کہ آپ کے سنگ آسمان پر نمودار ہونے والے چاند کو دیکھوں۔‘‘
اس نے مسکراتے لہجے میں علی کی طرف ہاتھ بڑھا کر کہا جسے اس نے بنا تاخیر کے تھام لیا اور اسے اپنے حصار میں لیے چاند دیکھنے کے لیے بڑھا ۔ لیکن اس پل ایک احساس جو ہمیشہ ان کے ساتھ رہنے والا تھا وہ تھا محبت ۔ جہاں محبتیں ہوتی ہیں وہاں زندگی کی راہ گزر طویل ہونے کے باوجود بھی مختصر لگتی ہیں ۔ چاند نظر آنے کے بلند شور پر وہ دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے لگے جہاں ان کے لبوں پر مسکراہٹ اور دل ایک ہی لے پر دھڑک رہے تھے۔
’’ ماہرہ آج ہم ایک دوسرے سے عہد کرتے ہیں کہ ہمیشہ عید کی خوشیاں ایک دوسرے کے ساتھ منائیں گے ۔‘‘اس کے کندھوں کے گرد بازو پھیلا کر وہ پیار سے بولا۔
’’ عید تمہارے سنگ ۔ ‘‘ وہ شوخ لہجے میں ایک ساتھ بولے تو دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر کھلکھلا کے ہنس پڑے۔
ختم شد