افسانے

دیوانہ : نظیر فاطمہ

ڈیوڈ نے نیم پلیٹ پڑھ کر نام اور ایڈریس کی تسلی کی اور اپنے ہاتھ میں پکڑے بیگ کو اپنے پیروں کے پاس رکھا ۔ جس میں اس کے کپڑے جوتے اور دیگر سازوسامان تھا ۔ ایک بیگ پیک اس کی پشت پر جس میں اس کا لیپ ٹاپ، ضروری کاغذات وغیرہ تھے ۔ ڈیوڈ نے اطلاعی گھنٹی دبائی تو تھوڑی دیر بعد گیٹ کی طرف آتے کسی شخص کے قدموں کی چاپ اُبھری۔ یہ چاپ ایسی تھی جیسے کوئی پیروں کو قدرے گھسیٹ کر چل رہا ہو ۔ گیٹ کھلا تو سامنے ایک پچاس پچپن سال کی عورت کھڑی تھی۔
’’برخوردار میں آپ کی کیا مدد کر سکتی ہوں ؟ ‘‘قدرے فربہ عورت کا لہجہ تہذیب سے پر مگر قدرے سخت تھا۔
’’مجھے مس کیتھی سے ملنا ہے، مجھے مسٹر رابرٹ نے بھیجا ہے۔‘‘ ڈیوڈ نے شائستگی سے کہا۔
’’اچھا تم پے انگ گیسٹ کے طور پر آئے ہو؟‘‘مس کیتھی اسے دیکھ کر مسکرائیں۔ رابرٹ سے ان کی بات ہو چکی تھی
’’آئو اندر آئو۔ ‘‘وہ اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کر کے پلٹ گئیں وہ ان کے پیچھے پیچھے چلتا لونگ روم تک آیا۔
’’بیٹھو۔ ‘‘ اُنھوں نے ایک صوفے کی طرف اشارہ کیا۔
مس کیتھی نے اس سے سارے طے شدہ معاملات والے کاغذ پر سائن کروائے اور اسے بالائی منزل پر اس کے کمرے تک لے آئیں۔
’’تم فریش ہو جائو پھر آکر کافی لے جانا ۔ اصل میں میرے بار بار سیڑھیاں اُترنا چڑھنا مشکل ہے اس لیے کھانے، چائے کافی کے لیے تمہیں نیچے آنا ہو گا ۔ چاہو تو میرے ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ جایا کرو، چاہو تو اوپر اپنے کمرے میں لے جایا کرو۔ کمرے میں لے جانے کی صورت میں کھانے پینے کے فورًا بعد برتن تمہیں واپس نیچے چھوڑنے ہوں گے کیونکہ مجھے کسی قسم کی بے ترتیبی پسند نہیں ہے ۔ ‘‘ ڈیوڈ نے خوش دلی سے سر ہلایا ۔
اتنی سی دیر میں وہ جائزہ لے چکا تھا کہ مس کیتھی کا گھر سادہ مگر بے حد صاف ستھرا تھا ۔ پچیس سالہ ڈیوڈ کی جاب یہاں وڈ بریج(Woodbridge) میں ہوئی تھی۔ اگلے ہفتے اسے آفس جوائن کرنا تھا ۔ وہ ایک ہفتہ پہلے یہاں آگیا تھا ۔ مس کیتھی کے بارے میں اسے اس کے دوست کے بڑے بھائی نے بتایا تھا جو چند سال پہلے ان کے ہاں پے انگ گیسٹ کے طور پر رہ چکا تھا۔
٭…٭
ایک ہفتہ ڈیوڈ سارے علاقے میں خوب گھوما پھرا۔ مس کیتھی کے ساتھ اس کی اچھی انڈرسٹینڈنگ ہو گئی تھی۔مس کیتھی پھول دار لباس میں ملبوس نظر آتی تھیں ۔ زندہ دل،خوش مزاج اور زندگی سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت سے مالا مال تھیں ۔اپنی عمر سے قدرے کم دکھتی تھیں۔ مس کیتھی کچھ آن لائن پراجیکٹس کرتی تھیں جس سے انھیں معقول آمدنی ہوجاتی تھی ۔ جو ان کی گزر اوقات کے لیے کافی تھی ۔ مگر اس کے باوجود وہ اپنے ہاں ایک یا دو پے انگ گیسٹ ضرور رکھتی تھیں ۔اس سے بھی انھیں آمدنی تو ہوتی تھی مگر اصل مقصد اپنی تنہائی کو ختم کرنا تھا۔
وہ ہمیشہ نوجوانوں کو پے انگ گیسٹ رکھتی تھیں اور پھر اپنے بچوں کی طرح ان کا خیال رکھتی تھیں ۔ یہی وجہ تھی کہ جو بھی یہاں سے جاتا، انھیں ہمیشہ یاد رکھتا اور جب کبھی دوبارہ یہاں آتا تو ان سے ضرور ملتا اور دوسرے اگر ان کے کسی جاننے والے کو یہاں پے انگ گیسٹ کی حیثیت سے رہنے کی ضرورت ہوتی وہ فورا مس کیتھی کا نام لیتے ۔ یوں ان کے پاس سارا سال ہی کوئی نا کوئی پے انگ گیسٹ موجود رہتا تھا۔ان کے ارد گرد کے سارے گھرانے مس کیتھی سے واقف تھے اور ان کی عزت کرتے تھے۔ مس کیتھی ان کی ہر غمی خوشی میں شامل ہوتی تھیں۔
ڈیوڈ نے آفس جانا شروع کر دیا۔ روٹین سیٹ ہو گئی۔ مس کیتھی اتوار کو اس کے ساتھ گپ شپ کرتیں، کبھی اپنے ساتھ گھمانے لے جاتیں۔ چھے مہینوں میں ڈیوڈ کو یہاں کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں ہوئی تھی۔
’’ڈیڈ! میں یہاں سیٹ ہو گیا ہوں ۔ آپ پلیز ایک چکر لگا لیں میرے پاس تاکہ آپ کی تسلی ہو جائے ۔ ‘‘جب ڈیوڈ کے فادر کی کال آتی وہ ان سے یہی کہتا مگر وہ ابھی تک یہاں کا چکر نہیں لگا سکتے تھے ۔ وجہ ان کا سٹور تھا جسے وہ کسی کے بھروسے پر چھوڑ کر نہیں آسکتے تھے ۔ اسٹور کا مینیجر جاب چھوڑ کر جا چکا تھا اور ابھی تک انھیں کوئی قابل بھروسا آدمی بطور مینیجر نہیں ملا تھا۔
ٔ٭…٭
اتوار کی حسین صبح تھا۔ ڈیوڈ جی بھر کو سونے کے بعد آٹھ کر فریش ہوا اور اوپر کھڑے ہو کر نیچے جھانکا۔ نیچے خاموشی تھی ۔ ورنہ مس کیتھی اس وقت ناشتے کی تیاری میں مصروف ہوتی تھیں ۔ ڈیوڈ سیڑھیاں اُتر کر نیچے آیا ۔ مس کیتھی کے کمرے کا دروازہ آدھ کھلا تھا۔ اسے وہاں ان کی جھلک نظر آئی تو وہ دروازے پر پہنچ کر ہلکی سی دستک دے گیا۔صوفے پر بیٹھی مس کیتھی نے چہرہ موڑ کر اسے دیکھا تو ڈیوڈ ٹھٹک گیا۔مس کیتھی کا چہرا آنسوؤں سے تر تھا۔
’’آئو ینگ مین! رک کیوں گئے۔‘‘ انھوں ٹشو سے اپنا چہرا اور آنکھیں صاف کر کے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر پر ہاتھ پھیر کر پہلے سے سیٹ بالوں کو سیٹ کیا۔ ڈیوڈ ان کے قریب آیا۔
’’ سب خیریت ہے نا مس کیتھی؟ آپ کی طبیعت ٹھیک ہے ؟ آپ رو کیوں رہی ہیں؟‘‘وہ پریشان ہوا۔
’’ ہاں آئو۔اِدھر میرے پاس بیٹھو۔‘‘ ڈیوڈ کسی معمول کی طرح چلتے ہوئے ان کے پاس صوفے پر بیٹھ گیا۔ ڈیوڈ نے دیکھا ان کی گود میں ایک البم رکھا تھا۔
’’ آئو تمھیں ایک حسین دوشیزہ اور اس کے دیوانے سے ملائوں۔‘‘مس کیتھی نے اس کے سوالوں کا جواب دینے کی بجائے گود میں رکھاالبم کھولا۔
’’یہ میں ہوں ۔ ‘‘پہلے صفحے پر ایک نیم رنگین تصویر تھی۔
ڈیوڈ تصویر دیکھ کر حیران رہ گیا تقریبا 35 سال پہلے کی مس کیتھی تھی ۔ ان کی گلابی رنگت، خوب صورت ہونے اور شگفتہ چہرا تصویر میں بول بول کر ان کی خوب صورتی کا اعلان کر رہا تھا۔ان کی آنکھوں کی شرارت تصویر میں بھی زندہ تھی ۔ ایک ایسی تصویر جسے دیکھ کر عشق میں مبتلا ہونے والوں کی کمی نہیں ہو گی ۔ ڈیوڈ کا اپنا دل بھی تصویر دیکھ کر ایک لمحے کوڈولا تھا ۔ اب کی اور تصویر والی مس کیتھی میں زمین آسمان کا فرق تھا۔
’’ مجھے یقین ہے کہ اگر ماضی میں اس وقت تم مجھ سے ملتے جب میں جوان تھی تو تم بھی میرے عشق میں مبتلا ہو جاتے ۔ ‘‘ وہ شرارت سے بولیں۔
وہ خود بوڑھی ہو گئی تھیں مگر ان کی آنکھوں کی شرارت ابھی بھی جوان تھی ۔ ڈیوڈ ہچکچا کر مسکرا دیا تو وہ زور سے ہنس دیں ۔وہ البم کے صفحے پلٹتی گئیں ۔ وہ ہر تصویر میں چھائی ہوئی تھیں۔ نوجوان اور وجیہہ لڑکے لڑکیاں ان کے ارد گرد تھے۔کہیں پکنک پر کہیں ساحل پر۔ آخری چند تصویروں میں صرف مس کیتھی اور ایک نوجوان تھا ۔ نوجوان بالکل عام سی شکل و صورت کا تھا ۔ مس کیتھی اس کے پہلو میں کھڑی حور لگ رہی تھیں ۔ آخری تصویر والے صفحے پر مس کیتھی اس نوجوان کی تصویر پر کافی دیر ہاتھ پھیرتی رہیں۔
’’ یہ ایڈم تھا جو مجھے میری حسین دوشیزہ کہتا تھا ۔ ‘‘ ڈیوڈ کو لگا جیسے اس نے اس آدمی کی تصویر پہلے بھی کہیں دیکھی ہے مگر کہاں یہ یاد نہ آیا۔
’’ میں سمجھتی تھی اسے بھی باقیوں کی طرح مجھ سے غرض کا عشق تھا۔ لیکن میں غلط تھی اس کا عشق سچا تھا۔وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ میرے پیچھے پھرتا رہا۔خود منتیں کیں لوگوں سے کہلوایا کہ میں اس سے شادی کرلوں مگر میں اس وقت اپنی جوانی اور خو ب صورتی کے رتھ پر سوار تھی ۔ اس وقت میں سمجھتی تھی کہ میں اسے پسند کرتی ہوں مگر میں غلط تھی میں اس سے محبت کرتی تھی ۔ محبت جس کا احساس مجھے اسے کھونے کے بعد ہوا ۔ ‘‘ مس کیتھی کے چہرے پر گئے دنوں کی یادیں اور پچھتاوے سے بکھرے ہوئے تھے۔
’’میں اسے’’اگلے سال شادی کر لیں گے‘‘ کہہ کہہ کر ٹالتی رہی ۔ وہ پورے دس سال میرے پیچھے پھرتا رہا ۔ پھر شاید تھک گیا یا مایوس ہو گیا اور بنا بتائے کہیں چلا گیا ۔ کسی نے کہا کینیڈا چلا گیا ہے کسی نے کہا امریکا ۔ شروع میں میں نے اس کی کمی بالکل محسوس نہ کی ۔پھر نہ جانے کیا ہوا میں بھرے ہجوم میں اکیلی رہ جاتی وہ مجھے رہ رہ کر یاد آتا ۔ مجھے ہر شخص میں وہ نظر آتا ۔ میں اس کے شبے میں لوگوں کو پکڑ کر روک لیتی پھر شرمندہ ہو جاتی ۔ ‘‘وہ جیسے شرمندہ سی مسکرائیں۔ڈیوڈ خاموشی سے انھیں سن رہا تھا۔
’’ مجھے اس سے عشق ہوا مگر اس کے جانے کے بعد،میں نے اسے ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی مگر وہ مجھے نہیں ملا۔‘‘ایک سسکی جیسے ان کے اندر دم توڑ گئی تھی اور اس کے ماتم میں ان کی آواز ایک لمحے کولڑکھڑا گئی تھی۔
’’ بعض اوقات انسان بہت دیر کر دیتا ہے شاید وہ فیصلہ نہیں کر پاتا۔وہ اس لمحے کو گرفتار کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے جس میں اسے ’’ہاں مجھے بھی تم سے محبت ہے۔‘‘کہنا ہوتا ہے اور دیر ہوجاتی ہے‘میں نے بھی دیر کر دی ۔ تمھیں بتاؤں انسان کو اظہار محبت میں دیر نہیں کرنی چاہیے ورنہ انسان خالی ہاتھ رہ جاتا ہے ۔ ‘‘مس کیتھی نے البم بند کیا۔
’’ بس کبھی کبھی جب دل کا درد حد سے بڑھ جاتا ہے تو میں یہ البم نکال کر اس سے باتیں کرتی ہوں ۔ بد نصیب ہوں میں کہ مجھے اپنے دیوانے کی قدر اس کے جانے کے بعد ہوئی اور اب میں رونے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتی۔‘‘ مس کیتھی نے گہری سانس لے کر جیسے اپنے پچھتاوؤں سے جان چھڑائی۔
’’چلو میں بھی کیا باتیں لے کر بیٹھ گئی آئو ناشتہ کرتے ہیں۔‘‘ وہ اُٹھ گئیں تو ڈیوڈ بھی ان کے پیچھے چلا گیا۔
٭…٭
اطلاعی گھنٹی بجی مس کیتھی نے گیٹ کھولا اور سامنے کھڑے اپنے دیوانے کو دیکھ کر برف کی طرح جامد ہو گئیں ۔ وہ بدلا تھا مگر اتنا نہیں کہ وہ اسے پہچان نہ پاتیں اور وہ خود بہت بدل گئی تھیں مگر پھر بھی دیوانے نے انھیں پہچان لیا تھا۔
’’میری حسین دوشیزہ…‘‘ اُنھوں نے ہاتھ بڑھایا۔
مس کیتھی نے بے اختیار تھام لیا ۔ ان کے درمیان جیسے سالوں کی جدائی آئی ہی نہیں تھی ۔ وہ دونوں ابھی وہیں کھڑے تھے جب ڈیوڈ آفس سے واپس آیا اور باپ کو مس کیتھی کے ساتھ کھڑا دیکھ کر ’’ڈیڈی‘‘ کا نعرہ لگا کر ان سے لپٹ گیا۔
’’ تم نے شادی کر لی تھی تم تو کہتے تھے تم نہیں تو کوئی نہیں ۔ ‘‘ مس کیتھی نے جیسے طعنہ دیا اورایڈم کا ہاتھ چھوڑ دیا ۔
ڈیوڈ نے چونک کر دونوں کو دیکھا اور پھر اسے یاد آگیا کہ وہ تصویر اس کے ڈیڈی البرٹ ایڈم کی تھی ۔اس نے اپنے ڈیڈی کے پاس ان کی جوانی کی چند تصاویر دیکھ رکھی تھیں ۔ ڈیوڈ نے مس کیتھی کی ناراض اور ڈیڈی کے متبسم چہرے پر ایک نظر ڈالی۔
’’ مس کیتھی میں آپ کے دیوانے کی لے پالک اولاد ہوں ۔ ان کے دل کو بھی آپ کے بعد کوئی نہیں بھائی۔‘‘ ڈیوڈ کو خوشی تھی ایک دیوانہ اپنی حسین دوشیزہ سے مل گیا تھا،بھلے دیر سے سہی۔وہ دونوں ابھی تک کھڑے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔
’’اُصولاً تو آپ دونوں کو ایک دوسرے کے گلے لگ جانا چاہیے تھا مگر خیر…‘‘ ڈیوڈ آگے بڑھا۔ دونوں کے ہاتھ تھام کر ایک دوسرے کے ہاتھ میں دیے۔
’’ اور ہاںمس کیتھی اب آپ دیر مت کیجیے گا۔ آخر حسین دوشیزہ کو اپنے دیوانے سے ملنے کا دوسرا موقع ملا ہے اور اسے یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے کیونکہ زندگی میں دوسرا موقع ہر کسی کو نہیں ملتا۔‘‘ڈیوڈ نے کہا تو دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے مسکرا دیے۔

ختم شد

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page