مکمل ناول

ڈائجسٹ ریڈر : نازنین فردوس

شام کے پانچ بج رہے تھے ۔ انشا نے آج سارے گھر کی صفائی میں خصوصی طور پر دھیان دیا تھا ۔ وہ جب سے اس گھر سے ہو آئی تھی۔ اپنے گھر کو دیکھ کر شرمندہ سی تھی ۔ اُس گھر میں تو آنگن بھی اتنا صاف ستھرا تھا کہ دل لیٹ جانے کو جی چاہے ۔ پودوں کو صحیح ترتیب سے اور بہت کانٹ چھانٹ کر رکھا گیا تھا اور گملوں کو بھی خوبصورت پھول پتوں کے ڈیزائین میں پینٹ کیا گیا تھا ‘ جس سے گملوں کی خوبصورتی میں اضافہ ہو گیا تھا۔
گھر کو سجا کر رکھنا بھی ایک آرٹ ہو سکتا ہے یہ اس نے وہیں نوٹ کیا تھا۔
گھر نہ اتنا خالی ہو کہ بس دیواریں ہی دیواریں نظر آئیں نہ دیواروں کو اتنا سجاوٹی اشیا سے بھر دیا جاے کہ ساری دیواروں کو دیکھ کر دم گھٹنے لگ جائے ۔
اس کے اپنے گھر میں کئی قیمتی سجاوٹی اشیاء تھیں جسے اس نے بے ترتیبی سے ادھر ادھر رکھ دیا تھا ۔ وہاں جا کر آئی تھی تو ساری بے ترتیبی اب نظروں کو چبھ رہی تھی ۔ اس نے سب سے پہلے ڈرائنگ روم کو ہی چنا تھا ۔ وہاں نئے سرے سے صوفے سٹ کیے تھے اور ٹی ٹیبل پر نیا ٹیبل کور ڈالا تھا ۔ اس پر تازہ اخبار بھی رکھا اور ایک کونے میں گلدان بھی رکھ دیا تھا۔ صوفے کے کشن کور تبدیل کیے جو کئی مہینوں سے بدلے نہیں گئے تھے ۔ پھر دیواروں سے ساری پینٹنگز وغیرہ نکالی تھیں اور انہیں پونچھ کر نئے انداز میں سجا دیا تھا ۔ دو گھنٹے کی مسلسل محنت نے ڈرائنگ روم کو ایک نئے انداز سے سنوار دیا تھا ۔ جسے دیکھ کر وہ خود ہی خوش ہو گئی تھی۔
’’ گریٹ، بالکل نیا سا لگ رہا ہے ڈرائنگ روم ۔ ‘‘ وہ خود کو شاباشی دیتی باہر آگئی تھی۔ اب وہ نہا نے جا رہی تھی اس کے بعد وہ ایک لمبی نیند لینے کا پروگرام بنا چکی تھی۔
٭…٭…٭
جب سو کر وہ فریش سی اٹھی تھی تو ڈرائنگ روم سے آوازیں آ رہی تھیں ۔وہ سیدھا کچن میں گئی تھی جہاں امی چائے بنا رہی تھیں۔
’’ کون ہے امی… ‘‘
’’ وہی حلیمہ کا بھتیجا۔ ‘‘ امی نے مصروف انداز میں کہا تھا۔
’’ اوہ یوں کہیں ابو کا چہیتا۔ ‘‘ اس کے کہنے پر امی کو بھی ہنسی آئی تھی۔
’’ ہاں کہہ سکتے ہیں ۔ ویسے اس کے گھر سے جب سے ہو کر آئے ہیں ان لوگوں کی طرز زندگی سے کافی متاثر ہوئے ہیں ۔ ‘‘ امی نے اب پیالیوں میں چائے ڈالنی شروع کی تھی۔
’’ ہوں…وہ تو ہے ۔ ‘‘
’’ تم چلو گئی یا یہیں پی لوگی ۔ ‘‘ امی نے اب ٹرے لے لی تھی۔
’’ نہیں میں یہیں پی لوں گی آپ جائیں ۔ ‘‘ اس نے اپنی پیالی اٹھا لی تھی۔امی بھی سر ہلاتے چلی گئیں۔
وہ اپنی چائے گھونٹ گھونٹ پی رہی تھی۔ ابو کی آواز یہاں تک آ رہی تھی۔
’’ کتابیں ہماری زندگی میں بہت اہم رول پلے کرتی ہیں ۔آپ جیسی کتابیں پڑھیں گے آپ کے خیالات بھی اسی کی مانند ہو ں گے ۔ یونہی تو نہیں کہا گیا کتاب کو بہترین دوست۔ دوست کو دیکھ کر بندہ کی صحبت کیسی ہے پتہ لگ جاتا ہے ۔ اسی طرح ہم کیسی کتاب پڑھ رہے ہیں اسی سے ہماری فطرت ظاہر ہو جاتی ہے ۔‘‘
’’ جی انکل بالکل میرا بھی یہی ماننا ہے ۔ لیکن کتابیں صرف پڑھنے کے بجائے اس پر عمل بھی کرنا شروع کریں ، اس کی نصیحتوں پر غور کریں، اس کے اسرار و رموز جانیں تب ہی کتاب سے کچھ نفع حاصل ہوتا ہے ورنہ تو گدھے پر کتابیں لادنے والی بات صادق آتی ہے ۔ ‘‘ شاید یہ اسی کی آواز تھی۔
’’درست کہہ رہے ہو بیٹے ۔ تم سے بات کر تا ہوں تو دلی مسرت ہوتی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ بہت عرصہ بعدخودسے مل رہا ہوں ۔‘‘ ابو کی آواز میں جو کھنک تھی اس نے انشا کو حیران کر دیا۔
’’ میں خود کسی زمانے میں کچھ ایسی ہی سوچ رکھتا تھا بلکہ رکھتا ہوں ۔‘‘ ابو خوشدلی سے کہہ رہے تھے۔
’’جی یہ تو انکل آپ کی نوازش ہی ہے ۔ میرے نزدیک زندگی عمل کا نام ہے ۔ صرف اچھی کتابیں پڑھنے سے ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوتا جبکہ اچھے کام کرنے سے کتاب پڑھنے کا مقصد واضح ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
تو جہاں علم ہو عمل نا ہو وہ علم تو رائیگاں ہی ٹہرا۔
ایک اچھی کتاب سے بڑے بڑے انقلاب آ سکتے ہیں ۔اور ایک اچھے عمل سے زندگیاں بدل جاتی ہیں ۔ہمیں اچھی کتاب پڑھنا چاہیے جسے ہم اپنی زندگی کارآمد بنا سکیں نا کہ صرف وقت گزاری کرنے کے لیے ۔ پڑھنے کے عمل میں بھی آغاز ہم حروف تہجی سے کرتے ہیں ۔ اس کے بعد الفاظ جملے وغیرہ پھر ہم چھوٹی چھوٹی کہانیاں پڑھنے لگتے ہیں ۔ اور پھر ہم بچوں کی کہانیوں سے بڑوں کے افسانے ناول وغیرہ میں آ جاتے ہیں لیکن ہمارا یہ سفر اکثر ناولوں پر ہی ختم ہوتا ہے جبکہ اس کے بعد اعلیٰ معیار کی کتابیں پڑھنا ہمارا مقصد ہو نا چاہیے ۔ جس سے زندگی میں آ گے بڑھ سکیں ۔ اور مطالعہ کا ذوق بھی صاف ستھرا ہونا چاہیے ۔ کیونکہ ہر کتاب پڑھنے والی نہیں ہو تی ۔اپنے آپ میں انسان حد مقرر کر لے کہ کیا پڑھنا اور کیا نہیں پڑھنا ۔اسی طرح کیا لکھنا چاہیے اور کیا نہیں لکھنا چاہیے ۔اور کیا بات کرنا ہے اور کونسی بات نہیں کرنی چاہیے۔یہ ساری باتیں تو ہمیں سیکھنی ہی چاہیے۔‘‘
وہ بہت ادب سے بہت تفصیل سے بات کر رہا تھا۔اور جانے انجانے میں انشا کے کانوں میں یہ باتیں پڑ رہی تھیں۔اور وہ لاشعوری طور پر ان پر غور بھی کر رہی تھی۔
٭…٭…٭
’’ مجھے ابھی رحمان صاحب کا فون آیا تھا ۔ ‘‘ ابو امی سے مخاطب تھے جو اس وقت تسبیح پڑھ رہی تھیں۔
’’ رحمان صاحب… کون؟ ‘‘
’’ وہی بچہ جو اکثر آتا رہتا ہے ‘ اس کے والد ۔ ‘‘
’’ تو کیا کہا انہوں نے ۔ ‘‘ امی اب کچھ مستعد سی نظر آئیں۔
’’ انہوں نے اپنے بیٹے کے لیے انشا کا رشتہ مانگا ہے ۔ ‘‘ انہوں نے اپنی بات مکمل کی تھی۔
’’ ہیں،خدا کا خوف کریں ۔ ان کے بیٹے کو دیکھا نہیں کیا ۔ اس کے تو پیر میں نقص ہے‘ ہماری انشا کو کیا کمی ہے۔ ‘‘ امی تڑپ کر بولیں تھیں۔
’’ہمم لیکن بچہ اچھا ہے صرف اسی بات سے کہ اس کے پیر میں لنگ ہے میں کچھ گو مگو سا ہوںکہ پتا نہیں انشا کیا سوچے گی ۔‘‘ ان کے لہجہ میں ہچکچاہٹ تھی۔
’’ آپ خود سوچیں‘کیا کمی ہے ہماری بچی میں جو ہم اپنی اکلوتی بیٹی کو ایسے شخص سے بیاہ دیں جس کے پیر میں نقص ہو ۔ سارے خاندان میں مذاق بن جائیں گے ۔ آپ انہیں انکار کر دیں ۔ ‘‘ امی نے صاف جواب دے دیاتھا۔
’’لیکن اس کے کردار نے مجھے کافی متاثر کیا ہے‘ہر طرح سے بے مثال۔اور گھرانہ بھی بالکل ہماری طرح میانہ روی والا ہے نہ نمود نہ نمائش…لوگ کافی اچھے ہیں ۔ ‘‘ وہ پھر بھی تذبذب میں تھے۔
’’انشا سے پوچھ لو اگر وہ راضی ہو تو‘ میں اس رشتہ کو قبول کرنے میں دیر نہیں کروں گا ۔ ‘‘ اب کہ وہ حتمی لہجہ میں بولے تھے۔
’’ اس سے کیا پوچھنا ۔ وہ تو بچی ہے‘ بھلا اپنا اچھے برے کا کیا پتہ ۔‘‘امی کی کوشش یہی تھی کہ وہ یہ بات یہیں ختم کر دیں۔
’’ ہاں‘لیکن ایک بار اس کی مرضی معلوم کرلو ۔ ‘‘ ان کااصرار اب بھی باقی تھا۔
’’ ٹھیک ہے پوچھ لیتی ہوں مگر دیکھ لینا وہ بھی انکار ہی کرے گی ۔ ‘‘ امی نے یقین سے کہا تھا ۔مگر جب انہوں نے انشا کو اس رشتہ کے بابت پوچھا تو اس نے ہاں کہہ کر ان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔
’’ تم ہوش میں ہو‘تمہیں پتہ ہے، دیکھا ہے پھر بھی ۔ ‘‘ وہ تاسف سے بولی تھیں۔
’’ امی۔‘‘ اس نے پہلے ایک سانس بھری تھی۔پھر اس نے کہنا شروع کیا تھا۔
’’اب تک جتنا پڑھا جتنا جا نا جتنی کتابیں پڑھیں تو اس ساری کتابوں سے جو کچھ میں نے سیکھا وہ یہی کہ ڈائجسٹ اور حقیقی زندگی میں بہت فرق ہو تا ہے ۔ میں بھی ان تمام لڑکیوں کی طرح ایک لمبے چھ فٹ کے سرخ و سفید رنگت والے ہیرو کی امید لگا ئے بیٹھی تھی ۔ جو ایک بہت بڑی کمپنی کا سی ای او ہو یا اونر ہو مگر حقیقت کی زمین پر پاؤں کچھ دن پہلے رکھا ہے ۔ ابھی چلنا شروع کیا ہے ۔ قدم قدم آگے بڑھ رہی ہوں۔اور زندگی کی حقیقتوں سے روشناس ہو رہی ہوں ۔ حقیقت یہی ہے کہ ہماری زندگی میں ایسے کسی ہیرو کی کوئی گنجائش نہیں ۔ ہم مڈل کلاس لڑکیاں اور خواب شہزادوں کے دیکھتی ہیں ۔ تخیل میں ایک افسانوی زندگی کو آئیڈیلایزکرتی ہیں ۔ اور جب ہمیں ہمارے من پسند شخص نہ ملے تو پھر ٹوٹ پھوٹ سی جاتی ہیں ۔ اسی لیے مجھے یہی لگا کہ بجائے میں کسی ہیرو کے انتظار کرنے کے کسی کی زندگی کی ہیروئن بن جاؤں ۔ یہ میرے لیے زیادہ اچھا ہو گا ۔اور رہی بات جسمانی عیب وغیرہ کی تو بے عیب تو بس اللہ کی ذات ہو تی ہے ۔ ہر انسان میں کچھ نا کچھ نقص ہو تا ہے ۔ اگر میں اس شخص کے لیے انکار کر دوں تو کیا ضروری ہو کہ اگلا انسان مجھے بالکل بے عیب ہی ملے یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بظاہر بے عیب ہو لیکن کردار کا نقص ہو اس میں ۔ امی جسمانی عیب تو برداشت کر سکتے ہیں مگر کردار کا عیب نہیں برداشت ہوگا ۔‘‘ وہ بہت سنجیدگی سے اپنی بات کر رہی تھی۔بلکہ اپنی امی کو قائل کر رہی تھی۔
’’اور آپ ہی تو کہتی ہیں کہ وہ ابو کا چہیتا ہے ۔ ابو صرف میری وجہ سے خاموش ہیں ورنہ انہوں نے تو فوراً ہی اس رشتہ کو قبول کرنا تھا۔‘‘ وہ ہنسی تھی۔
’’ابو کو ایک بیٹے کی کمی ہمیشہ سے محسوس ہوئی ہے اور یہ بات میں نے کچھ دنوں پہلے ہی محسوس کی ہے ۔ اس لیے میں ابو کو ان کا بیٹا دینا چاہتی ہوں ۔ اس سے میں ہمیشہ آپ لوگوں کے قریب رہ سکوں گی ۔ بس میں آپ دو نوں سے دور نہیں جانا چاہتی۔‘‘ اس نے امی کے گلے میں اپنی بانہیں ڈالی تھیں۔
’’ ٹھیک ہے، اب تم راضی ہو تو میں کیا کہہ سکتی ہوں ۔ لیکن ضروری نہیں ہر خوبصورت انسان شہزاد جیسا ہی ہو ۔ ہو سکتا ہے کہ تمہیں کوئی اور اس سے بہتر شخص مل جائے ۔‘‘ امی نے پھر بھی جتانا ضروری سمجھا۔
’’ امی،میں کیوں ایک بہتر شخص کے انتظار میں ایک دوسرے بہتر شخص کو ٹھکراؤں،جبکہ یہ اللہ کے نزدیک بھی کفران نعمت جیسی بات ہو گی۔ جو ہمارے سامنے ہے بس اس کو ہی قبول کرنا چاہیے ۔‘‘ اس نے بالآخر اپنی ماں کو قائل کر لیا۔
’’ ٹھیک ہے،تو اب ان لوگوں کو ہاں کہلوادوں ۔ ‘‘ امی نے پو چھا۔
’’ جی امی ہاں کہہ دیں۔ ‘‘ اس نے روانی میں کہہ کر سر ہلا دیا۔
’’اپنے منہ سے ہاں کہہ رہی ہے کچھ شرم ورم ہے کہ نہیں۔ ‘‘ امی نے ایک دھموکا اس کی پیٹھ پر جڑ دیا۔
’’ امی،خود ہی تو پو چھا ناں۔ ‘‘ وہ کراہ کر رہ گئی۔
٭…٭…٭
رشتہ منظور ہوتے ہی دونوں خاندان کے لوگوں کی ہر دوسرے دن ملاقات ہو رہی تھی ۔ آخر یہی طے پایا کہ اگلے پندرہ دن میں منگنی رکھیں گے۔ اور اس رشتہ پر سب سے پر جوش ابو جی ہی تھے۔ ان کے اندر ایک گہرا سکون اترا تھا ۔
انشا آج اپنے چھوٹے سے آنگن میں گملا لیے بیٹھی تھی ۔ وہ ہر دن ایک ایک کمرے کی صفایٔ اور سجاوٹ پر دھیان دے رہی تھی۔ آج آنگن اور اس میں لگے پودوں پر اس کی نظر کرم ہو گئی تھی ۔ ایک چھوٹا سا اسٹول لیے وہ اپنے سامنے ایک گملا لے کر اس کو کھود رہی تھی ۔ اس کے قریب ہی گلاب کی ٹہنی بھی رکھی تھی جس کو اسے گملے میں لگانا تھا۔
’’ لوگوں میں کافی تبدیلیاں آگئی ہیں ۔ لگتا ہے اچھے دن آنے والے ہیں۔‘‘ اس مانوس آواز پر وہ یکدم پلٹی تھی۔
وہ سفید شرٹ اور بلیک جینز پہنے دروازہ پر ہی کھڑا تھا ۔ عام دنوں کے مقابل کیپ بھی پہنی تھی۔
’’ اف یہ… ‘‘ وہ دل ہی دل میں بڑ بڑائی۔
’’ کیا کروں اب میں؟ منگیتر کو گھر پر بلانا چاہیے کہ نہیں۔ویسے اسے آنا تو نہیں چاہیے تھا ۔ اب کیا کروں میں،جا کر امی کو اٹھاؤں جو رات شاپنگ کر نے کے بعد گھوڑے بیچ کر سورہی ہیں یا خود کہیں بھاگ جاؤں ۔ اف سمجھ ہی نہیں آرہا اندر بلاؤں کہ باہر ہی سے بھیج دوں ۔ ‘‘ وہ مقابل کو گھورتی اپنی ہی سوچوں میں الجھ گئی تھی۔
’’ اندر بیٹھنے کے لیے نہیں آ یا ۔ دو منٹ بات کرنی ہے۔انکل سے اجازت لے کر آیا ہوں ۔ ‘‘ وہ اس کے چہرے پر نظریں جمائے اس کے خیالات جیسے پڑھ رہا تھا۔
’’ ہاں،ہاں ابو نے تو اجازت دینی ہی ہے ۔ ان کا چہیتا لاڈلا جو ہے ۔ ابو کا بس چلے تو گود ہی لے لیں ۔ ‘‘
’’ویسے کیا بات کرنی ہوگی ،پھر کر کیوں نہیں رہا… ‘‘ وہ پھر سوچوں میں غلطاں۔
’’آپ اپنا کھودنے کا اور سوچنے کا عمل بند کریں گی تو بات کر پاؤں گا ناں۔ ‘‘
’’ اف ۔ ‘‘ اس نے اپنی آنکھیں میچیں ۔
’’ اب کچھ نہیں سوچوں گی ۔ یہ تو دماغ میں چل رہی ساری باتیں پڑھ رہا ہے ۔‘‘ اس نے اپنا ہاتھ روک لیا مگر سر نہیں اٹھا یا۔
’’ کیا۔ ‘‘ جھکے جھکے سر کے ساتھ ہی پوچھا۔
’’ اس رشتہ کو قبول کرنے کے لیے کیا کسی نے دباؤ ڈالا۔ ‘‘ بہت سنجیدہ انداز تھا۔
اس نے اپنے سر کو نفی میں ہلایا۔
’’ انکل نے؟ ‘‘ پھر سوال۔
’’ نہیں …‘‘ اس نے پھر نفی میں سر ہلایا۔
’’کسی اور قسم کا معاشرتی دباؤ وغیرہ۔ ‘‘ وہ سوال پر سوال کر رہا تھا اور اس کی جان جل رہی تھی۔
’’نہیں۔ ‘‘
’’اچھی طرح سوچ لیا ہے۔ ‘‘
‘‘ہمم…‘‘ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’پکا ؟ ‘‘
’’ کیا اب لکھ کر دوں کہ میں تمہیں…‘‘ اس نے چڑ کر کہا تھا۔اور قریب رکھی کدال اٹھا لی تھی۔
’’ارے،ارے ٹھیک ہے آرام سے‘ میں تو بس کنفرم کرنا چاہ رہا تھا۔ ‘‘ اس نے ہنس کر ذرا ڈر نے کی ایکٹنگ کی۔
’’مگر کچھ اور باتیں ہیں جسے میں ابھی کلئیر کروں گا ۔ کسی کی زندگی کی ہیروئن بننا ٹھیک ہے مگر میں بہت پریکٹیکل انسان ہوں اس لیے میں ہیروئن کی تعریف میں شاعری نہیں کر سکتا۔ ‘‘ وہ اب مکمل سنجیدہ تھا۔
’’ ہائے اللہ امی ۔ کیا سب بولنا ضروری تھا ۔ ‘‘ وہ دل ہی دل میں امی سے ناراض ہو گئی تھی۔
’’میری فی الحال ماہانہ تنخواہ چالیس ہزار ہے ۔ جس میں میں پندرہ ہزار گھر پر دیتا ہوں ۔ اور دس ہزار میرے اپنے خرچے ہوتے ہیں ۔اور ہر مہینہ دس ہزار سیو کرتا تھا ۔ اب آپ کو دس دیا کروں گا تو پانچ سیونگ ہوگی ۔ اس سے زیادہ کی امید مت رکھیں۔ ‘‘
’’ ہائے اللہ،یہ پہلا منگیتر ہوگا جو اپنی منگیتر کو یوں اپنا ماہانہ بجٹ سنا رہا ہوگا ۔ پتہ نہیں لوگوں کے منگیتر جو اپنی منگیتر کے لیے شاعری کرتے ہو ں گے وہ کیسے ہوتے ہوں گے ۔ ‘‘ وہ ابھی بھی نیچے دیکھے اس کی باتیں سن رہی تھی۔
’’ اس میں آپ کے ڈائجسٹ کی عیاشی افورڈ نہیں کر سکتا ۔ ‘‘ وہ اب جتاتی نظریں اس پر مرکوز کر چکا تھا۔
’’ ڈائجسٹ عیاشی کے زمرہ میں آتے ہیں۔‘‘ اس نے تحیر سے اسے دیکھا۔
’’ہاں، بھائی کی بہن نے تو پہلے ہی بتادیا تھا کہ بھائی تو ڈائجسٹوں کے سخت خلاف ہیں ۔ اب کیا کر سکتی ہوں ماسوائے صبر کے ۔ ‘‘ اس نے ٹھنڈی آہ بھری تھی۔
’’لیکن گنجائش نکل سکتی ہے ۔‘‘وہ رکا تھا ۔
’’مگر ایک شرط پر…‘‘ اب وہ اس کے تاثرات بغور دیکھ رہا تھا۔
’’ اب کو ن سی شرائط…‘‘ اس نے گھبراہٹ سے اسے دیکھا۔
’’اگر کچھ اچھی اسکل سیکھنے کی کوشش کریں گی تو ڈائجسٹ کے لیے گنجائش نکل سکتی ہے۔‘‘ اس کا لہجہ ابھی بھی سخت تھا۔پتہ نہیں کس مٹی کا بنا تھا ۔
’’اب کیا اسکل سیکھوں میں،پڑھ تو رہی ہوں ۔ابھی اور کیا کروں۔ ‘‘وہ رونے والی ہو گئی۔
’’ پڑھنے کے ساتھ ساتھ بہت کچھ کر سکتی ہیں لڑکیاں ۔ گھر بیٹھ کر ان لائن کورسز کر سکتی ہیں ۔ کچھ اچھے اسکلز سیکھ کر اس سے کچھ کما سکتی ہیں اس کے لیے آپ کو گائیڈ بھی کر سکتا ہوں۔ ‘‘ وہ روانی میں کہتے جا رہا تھا۔
’’اچھا جیسے کہ… ‘‘ وہ سچ مچ گھبراگئی ۔
’’ یوں توسلائی، پکوان،پینٹنگ ،ہوم فرنشننگ جیسے کورسزتو ہیں ہی ۔ اس کے علاوہ ٹائپنگ ،کانٹنٹ رائیٹنگ ، لوگو ڈیزائننگ ،گرافک ڈیزائنگ ،پروف ریڈنگ اور ایسے بے شمار کورسز ہیں جو آپ آن لائن سیکھ سکتی ہیں ۔ یا کسی سنٹر پر جا کر سیکھ سکتی ہیں ۔‘‘وہ مشینی انداز میں کہتے جا رہا تھا۔
’’ یہ سب مجھے سیکھنے ہوں گے۔ ‘‘ وہ تو اب ڈر کے مارے شرمانا ہی بھول گئی۔
’’ ارے نہیں،کوئی ایک چیزجس میں آپ کو دلچسپی ہومگر کام میں مہارت لانی ہو گی ۔ ‘‘ وہ مشین بنا بیٹھا تھا۔
’’ ٹھیک ہے جی، کوشش کروں گئی۔ ‘‘ وہ اب پھر سے گملے کی طرف متوجہ ہو گئی تھی۔
’’ شاید یہ مجھے جاب کرنے کے لیے کہے گا ۔ ‘‘ اس نے دل میں سوچا۔
’’ یہ سب آپ کو آنے والے ہر برے وقت کے لیے تیار رکھنے کی ایک کوشش ہے ۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں کیونکہ میں بیوی کی کمائی کھانے والا مرد نہیں ہوں۔ ‘‘ اس نے مضبوطی سے کہا تھا۔
’’اوکے، چلتا ہوں ویسے… ‘‘ وہ جاتے جاتے رکا۔
’’ تھینک یو،میری زندگی کی ہیروئن۔‘‘ اب وہ روبوٹ مسکرا رہا تھا ۔انشا کا چہرہ لال ہوا۔
’’ایک منٹ۔‘‘ انشا کو جانے کیا یاد آیا۔
وہ پلٹا تھا۔
’’وہ… تمہارا نام کیا ہے ۔مجھے نام ہی نہیں معلوم ۔ ‘‘ وہ جیسے مظلوم بن گئی تھی۔ظلم نہیں تو کیا ہے منگیتر کا نام نہیں معلوم۔
’’ مگر مجھے آپ کا نام معلوم ہے۔‘‘ وہ ہنسا تھا۔
’’انشا اللہ کے ساتھ ہم اور کیا لگاتے ہیں۔ ‘‘
’’انشا اللہ کے ساتھ… ‘‘ وہ سوچنے لگی ۔
’’ماشاء اللہ… ‘‘ وہ با آواز بلند دہرا رہی تھی۔
’’سبحان اللہ۔‘‘
’’ اور اور…‘‘
’’تبارک…‘‘ یہاں آ کر زبان ہی اٹک گئی۔
’‘ جی الحمدللہ…‘‘ اس نے اپنی کیپ ذرا سا نیچے کی تھی اور ایڑیوں کے بل گھوم گیا تھا۔
اور انشا بس’’ دھت‘‘ کہتی اپنے گملے میں اس گلاب کے پودے کو لگانے لگی جو آگے چل کر اس کی اپنی زندگی کی طرح بہت پھلنے پھولنے والا تھا ۔

ختم شد

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6 7 8

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page