ڈائجسٹ ریڈر : نازنین فردوس

وہ سب شہزاد کی دعوت میں جانے کے لیے تیار تھے ۔ انشا کا دل تو نہیں کر رہا تھا مگر امی کی ضد کے آگے اسے ہار ماننی پڑی تھی۔
’’آج یہ شادی کی دعوت ہو جائے گی۔اگلے دو دنوں میں وہ آپ کے چہیتے کی دعوت بھی ہے ۔ وہاں بھی جانا ہے‘‘۔ امی اپنی ساڑھی درست کرتیں ابو سے باتیں بھی کرتی جا رہی تھیں ۔ ان میں شہزاد کی دعوت میں جانے کا اشتیاق زیادہ تھا۔
انشا نے حسب معمول اپنی سادگی والی تیاری رکھی تھی ۔ کپڑے امی کے بقول کچھ زیادہ ہی ہلکے لگ رہے تھے ۔ جدید تراش خراش یا بھڑکیلے نہ ہونے پر وہ زیادہ قیمتی نہیں لگ رہے تھے۔
’’ایسا لگ رہا ہے ۔ سو دو سو کا سوٹ ہو، کلر دیکھو…اور اس رنگ کو پہن کر تم بالکل پھیکا شلجم لگ رہی ہو۔ ‘‘ امی کی لعن طعن جا ری تھی۔
’’امی مسٹرڈ رنگ کا بہترین سوٹ ہے ۔ یہ تو بالکل لیٹیسٹ برانڈ کا لیا تھا میں نے ۔ ‘‘ وہ بھی شلجم والی بات پر تڑپ اٹھی تھی۔ دل پر جیسے گھونسا سا پڑا تھا۔
’’اونہہ،رنگ تو اچھا لیتی ۔ کتنے اچھے اچھے رنگ ہوتے ہیں ۔ سرخ ،قرمزی، گلابی، میرون، نیلا ،ہرا، پیلا مگر نہیں یہ لیں گی تو اپنی مرضی سے۔‘‘امی کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اسے کوئی بھڑکیلا سا شرارہ غرارہ پہنا دیں۔
’’رنگین ہرے نیلے پیلے کپڑے پہنوں گی تو ہولی کا میدان لگوں گی ۔ مجھے نہیں بننا کوئی ہولی کا میدان۔‘‘اس نے ناک سکوڑی اور اپنا پرس لیے باہر آگئی۔
امی کی بڑبڑاہٹ تو وہاں جانے تک چلتی رہی ۔ لیکن وہاں پہنچنے کے بعد ان کے عزیز مل گئے تو ان کا ڈانٹ ڈپٹ کا سلسلہ رک گیا تھا ۔ وہ بھی سب بڑوں سے مل کر اپنی کزنز کی جانب آئی تھی ۔وہاں شہزاد بھی موجود تھے ۔ اپنے فارمل حلیہ سے ہٹ کر انہوں نے روایتی آف وائیٹ کرتا پہنا تھا ۔ اور ہمیشہ کی طرح ان کے چہرہ کیے خوبصورت نقوش انہیں سب میں ممتاز کر رہے تھے۔
’’شہزاد بھائی ، میں نے آج خاص آپ کی پسند پر یہ نیلا رنگ پہنا ہے ۔ اب بتائیں میں کیسی لگ رہی ہوں ۔ ‘‘ وہ فروا تھی جو نیلی لانگ فراک ، جیولری پہنے اور بالوں کو ہائی پونی سی بنا کر بہت پیاری لگ رہی تھی۔
’’آآآآسم۔‘‘ انہوں نے کہتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کیا۔
’’لیکن ان چند دنوں کے لیے میں کسی کا بھائی وائی نہیں ہوں ۔ اس لیے مجھ پر رحم کرنا ۔ آج سب لگ ہی خوبصورت رہی ہو تو ایسی خوبصورت لڑکیوں کا بھائی بننا کس کو پسند ہو گا۔‘‘ انہوں نے قہقہہ لگا یا تھا لیکن انشا کو ان کا یہ مذاق بالکل بھی پسند نہیں آیا تھا ۔جبکہ دوسری لڑکیاں ہنسنے لگی تھیں۔
’’اوہ۔‘‘ ان کی نظر اب انشا پر پڑی تھی۔
’’واؤ،انشا آپ تو آج بہت ڈیسنٹ سی لگ رہی ہیں۔‘‘ ان سب کے سامنے ان کی تعریف کرنے پر وہ کچھ نروس ہوئی تھی۔
’’بالکل ڈائجسٹ ہیروئن کی طرح…‘‘انہوں نے بات مکمل کی ۔
’’اوہ…ڈائجسٹ ہیروین…کیا انہیں کسی ہیرو کا انتظار ہے ۔‘‘ وہ ساری کزنز اب اس کی طرف متوجہ تھیں۔
’’جی، ایک میرے جیسے ہیرو کا انتظار ۔ ‘‘ شہزاد کے عامیانہ سے انداز پر انشا کا خون کھول اٹھا تھا۔ وہ ایکسیوز می کہتی وہاں سے ہٹ گئی تھی۔
باہر آکر اسے کچھ اچھا لگا تھا۔ یوں جیسے حبس سے باہر نکل آئی ہو ۔ شہزاد ان ساری لڑکیوں میں گھرے اپنے آپ کو شہزادہ مانے وہاں سے ہٹے ہی نہیں ۔ جیسے وہ سچ مچ کہیں کے شہزادہ ہوں ۔انشا پھر وہاں رکی نہیں۔اسے لگا وہ یہاں کچھ دیر اور رکی تو اس کا دم گھٹ جائے گا۔
٭…٭…٭
’’انشا،میں سامنے رشنا کے ہاں جا رہی ہوں ۔ دس منٹ ہی لگیں گے، تم جب تک دروازہ لگا لو۔ ‘‘ امی برقعہ پہنے اس کے پاس آئی تھیں۔
’’اچھاامی…‘‘ وہ ناشتہ کر چکی تھی اب چائے پی رہی تھی۔
رات میں کافی دیر بعد وہ سوئی تھی لیکن اب فریش تھی ۔ ایک اچھی سے چائے کے ساتھ وہ کچھ اچھا پڑھنے کی چاہ میں اب ڈائجسٹ کھنگالنے والی تھی ۔ بس امی کے جانے کی دیر تھی۔
امی چلی گئیں تو وہ کمرے میں ڈائجسٹ لینے آئی تھی ۔ ایک دو ریک کھنگالنے پر اسے کچھ سمجھ نہ آیا ۔ تبھی اس کی نظر اس گفٹ پر پڑی تو وہ اسے لیے باہر ہی آگئی ۔ بڑے شوق سے اس نے ناول کو کھولا ۔ لیکن سرورق پر نظر پڑتے ہی اس کے چہرے کا رنگ بدلااور ہاتھ کپکپاگئے ۔ اس کے سامنے ایک نہایت گھٹیا اور اخلاق سوز ناول تھا جس کا نام بھی مہذب نہ تھا۔
اس نے جلدی سے ورق پلٹا تھا اور ایک دو ورق پڑھتے ہی اسے اندازہ ہو گیا کہ یہ کس قسم کا ناول تھا ۔ اس نے ناول بند کیا۔اور اپنی آنکھیں کرب سے بند کر دیں اور یکدم رونے لگی ۔ اتنا وہ شاید کبھی نہ روئی تھی ۔ سارے تصوراتی ہیرو اس کی آنکھوں میں آ کر ناچنے لگے ۔اس کا دل جیسے بند ہونے لگا۔ دل چاہ رہا تھا کہ وہ چیخ چیخ کر اپنے اندر کی گھٹن کو نکالے ۔ اس کا ہیرو والا بت یوں ٹوٹا تھا کہ وہ سنبھل نہیں پا رہی تھی۔
’’ایکسکیوزمی ۔ ‘‘ اس آواز پر اچھل پڑی تھی۔
امی کے جانے بعد وہ دروازہ بند کرنا بھول گئی تھی۔ وہ دروازے میں کھڑا تھا اور وہی سے اس کی دگر گوں حالت اسے نظر آ رہی تھی اور وہ واقعتا پریشان ہو گیا تھا۔
اس کی آواز سن کر انشا جیسے ہوش میں آئی تھی ۔ اس نے اپنے سفید دوپٹہ کو اچھے سے سر پر لپیٹا تھا اور دروازے میں چلی آئی۔
’’کس نے دیا یہ آپ کو…‘‘ وہ اس کے ہاتھ میں پکڑا ناول دیکھ رہا تھا جسے انشا نے چھپانے کی ناکام کوشش کی۔ دروازہ پر کھڑے اس کے چہرے سے اس کے غصہ کا اندازہ لگانا آسان تھا۔
انشا نے کچھ نہیں کہا۔بس اپنی نگاہیں زمین پر مرکوز رکھیں تھیں۔
’’ یہ شاید وہی محترم ہیں جو محبت کے نئے نئے مفہوم سے آشناکررہے تھے۔ ‘‘ اس کے لہجہ میں ابھی بھی خفگی تھی۔
اس نے پھر بھی کچھ نہیں کہا۔ وہ اس وقت منتشر خیالات کی زد میں تھی۔
’’ یہی مسئلہ ہوتا ہے ڈائجسٹ پڑھنے والی لڑکیوں کا ۔ وہ زندگی میں آنے والے ہر واقعہ ، ہر موڑ کو کوئی خوشگوار انجام والا افسانہ سمجھنے لگتی ہیں ۔ اپنی زندگی میں وہی خواب بننے لگتی ہیں۔ جیسے کہ افسانوں میں ہوتا ہے ۔ ہر کردار میں اسی ہیرو کو ڈھونڈنے لگتی ہیں ۔ لیکن زندگی وہ افسانہ نہیں جس کا انجام آپ اپنی مرضی سے لکھ سکیں اور نہ وہ ناول ہوتی ہے جس کے کرداروں کو آپ اپنی زندگی میں اپلائی کر نے لگتی ہیں ۔اور محبت کے نام پر تو ،اکثر دھوکے کھاتی ہیں ۔ اگر آپ اپنی زندگی کے ہیرو میں کچھ اچھا ڈھونڈنا چاہتی ہیں تو بدلہ میں وہ بھی آپ میں ویسی ہی خصوصیات ڈھونڈے گا۔ آپ میں ہوتی ہے وہ صفت کہ جسے دیکھ کر ایک ہیرو آپ کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کا سوچے ۔ آپ کے اندر وہ خوبی ہونی چاہیے تا کہ وہ آپ سے جھک کر عزت سے بات کر سکے ۔ آپ کو عزت دینے والا مرد چاہیے تو آپ کو اپنی عزت کا خیال رکھنا چاہیے نا کہ کسی نام نہاد شخص کو ہیرو مان کر اس کے پیچھے خوار ہوں ۔ یاد رکھیں ایسی محبت صرف اور صرف خوار کرتی ہے۔ ‘‘ وہ ایک پیر دروازہ پر رکھے جانے کیوں اس سے یوں تفصیل سے بات کر رہا تھا۔ مگر انشا کو تو لفظ محبت پر غصہ آیا تھا۔
’’تم محبت ‘محبت کر رہے ہو ۔ میں نے کسی سے محبت وحبت نہیں کی ۔ ہاں کسی انسان کی ظاہر ی شخصیت سے متاثر ضرور ہوئی تھی ۔ لیکن یہ حقیقت بہت تلخ ہے کہ وہ انسان ہیرو تو کجا انسان جیسا بھی نہیں تھا۔ ‘‘اس کی آواز بھرا گئی ۔
’’ اس انسان کی حقیقت اپنے والدین کے سامنے لائیں ۔ یہ ناول بھی انکل کو دکھا دیں کہ کیسے کوئی اتنا بے ہودہ کام کر سکتا ہے ۔ ‘‘ اس نے مشورہ دیا تھا۔
’’کیسے بتاؤں ابو کو‘ وہ کیا سمجھیں گے ۔‘‘ اس کے آنکھوں میں پھر سے آنسو آنے لگے۔
’’ میں بتادوں ، اگر آپ نہیں بتا سکتیں تو … اگر نہیں بتائیں گی تو اپنا ہی نقصان کریں گی ۔ ‘‘ اس کی پلکوں پر اس کی نظر ٹھہر گئی تھی۔
’’ نہیں۔ ‘‘ وہ اٹھی تھی تو اب اس کی آواز میں اعتماد تھا۔
’’میں خود ہی کہہ دوں گی ۔ میرے دل میں کوئی چور نہیں ہے ۔ ‘‘ اس کے پر اعتماد سے لہجہ پر اس کی آنکھوں میں ایک ستائش کا جذبہ لہرایا تھا ۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا امی وہاں آ گئیں تھیں۔
’’ ارے بیٹے تم… ‘‘ امی کچھ حیران ہوئیں تھیں۔
وہ دروازہ میں ہی کھڑا تھا ۔ اس نے ایک قدم بھی اندر نہیں رکھا تھا ۔ جس سے امی کو یک گونہ سکون سا محسوس ہوا تھا ۔ امی کو اندازہ ہو گیا کہ وہ کمال کی احتیاط کر نے والوں میں سے تھا۔
’’ جی آنٹی، میں تو یہ مٹھائی دینے آیا تھا ۔ ‘‘ اس نے ایک مٹھائی کا ڈبہ امی کی جانب بڑھایا تو امی نے خوشگوار حیرت سے اسے دیکھا۔
’’ کہیں منگنی کر لی کیا تم نے۔ ‘‘ امی نے اسے مسکرا کر دیکھا تھا۔
وہ اب اندر آگئیں تھیں ۔ انشا نے اب اندر جانے کے لیے قدم بڑھادیے تھے۔اور ڈرائنگ روم میں ٹیبل پر وہ ناول رکھ چکی تھی۔
’’ ارے نہیں آنٹی، ہم جیسوں کو کون قبول کرتا ہے ۔ ‘‘ وہ ہنسا تھا تو امی نے اسے تاسف سے دیکھا تھا اور بے ساختہ اس کے پیروں پر نظر پڑی تھی۔ اس کے ایک پیر میں شاید کچھ نقص تھا جس سے وہ کچھ لنگڑا کر چلتا تھا گو کہ بہت کم محسوس ہوتا تھا۔
’’ پھر یہ مٹھائی ؟ ‘‘
’’ میرا کیمپس سیلیکشن ہو گیا ہے ۔ ایک اچھی کمپنی میں جاب لگ گئی ہے۔ ‘‘ اب وہ مسکراتے کہنے لگا تھا۔
’’تو اب یہ جاب چھوڑ دوگے۔ ‘‘
’’جی کچھ دنوں میں چھوڑ رہا ہوں ۔ انکل کو بتا دیں ۔ انہوں نے مجھے خصوصی طور پر کہا تھا کہ جاب ملے تو آ کر مل کر جانا ۔ ابھی تو گھر کی فنکشن کی تیاری میں مصروف ہوں بعد میں آ کر مل لوں گا ۔ ‘‘ اس نے مٹھائی کا ڈبہ امی کو تھمایا۔
’’اچھا خیر مبارک ہوبیٹے۔ ‘‘ امی بھی اب ڈرائنگ روم میں وہ مٹھائی کا ڈبہ ٹیبل پر رکھ چکی تھیں۔
شام میں ابو ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے ان کے قریب شہزاد بھی تھے ۔ وہ کچھ دیر پہلے ہی آئے تھے ۔ابو کی نظر مٹھائی پر پڑی تو انہوں نے وہیں سے امی کو آواز لگائی تھی۔
’’ یہ مٹھائی کون لایا ہے۔ ‘‘
’’وہ حلیمہ کا بھتیجا، ڈلیوری والا ۔ اس کی نوکری لگ گئی ہے اس لیے مٹھائی لایا تھا ۔ ‘‘ امی نے بھی و ہیں سے جواب دیا تھا۔
’’اوہ،یہ تو بہت اچھی بات ہے ۔ ‘‘ابو نے ایک ٹکڑا اٹھا یا۔
’’انکل ، دراصل میں بھی کچھ دنوں میں جا رہا ہوں تو آپ سے اجازت لینے آیاتھا۔‘‘ وہ اپنے مخصوص دھیمے لہجہ میں بات کر رہے تھے۔
’’اچھا چلو خیر سے طوبی کی شادی بھی ہوگئی ۔ ابھی کتنے دن میں جانا ہے دبئی ۔ ‘‘ ابو نے ان سے پو چھا تھا۔
’’ جی، چند دن میں تیاری کرنی ہے۔ ‘‘ وہ یہ کہتے اٹھنے لگے تھے۔
’’ ارے یہ ناول…‘‘ ابو کی نظر اب اس ناول پر پڑھی تھی ۔ شہزاد کے چہرے کا رنگ اڑا تھا۔
ابو اس ناول کو بغور دیکھنے لگے تھے اور اب ان کے چہرے کا رنگ غصہ سے سرخ ہونے لگا تھا۔
’’ یہ گھٹیا ناول یہاں کون لایا۔ ‘‘ ان کے لہجہ میں غصہ تھا۔
’’انکل، انشا پڑھتی رہتی ہے یقینا اسی نے منگوایا ہوگا۔‘‘ شہزاد کے چہرے پر گھبراہٹ تھی۔
’’اچھا، اب میں چلتا ہوں۔ ‘‘ وہ اب رک نہیں سکتے تھے اس لیے فوراً چلے گئے ۔ لیکن ابو کو تو غصہ میں سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا۔
انہوں نے اپنی بیوی کو آواز لگائی تھی ۔انشا اس وقت سو رہی تھی اسے شہزاد کے آنے جانے کی بھی خبر نہیں تھی۔
’’ کیا ہوا آپ نے ایسے کیوں آواز دی ۔ ‘‘ امی کچن سے گھبراتی آئی تھیں ۔ دوپٹے سے پسینہ صاف کرتی وہ اب انہیں دیکھ رہی تھیں۔
’’یہ ناول یہاں کیسے آیا ۔ ‘‘ انہوں نے سخت لہجے میں پوچھا۔
’’ یہ تو میں نہیں جانتی۔شاید مٹھائی دیتے ہوئے وہ حلیمہ کا بھتیجا جو ہے اس نے دیا ہو ۔ ‘‘ ناول کے سر ورق پر نظر پڑتے ہی امی کے بھی ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے تھے۔
’’ تو تم کہاں تھیں اس وقت ۔ ‘‘ ابو کو ضبط کرنا ہی مشکل لگ رہا تھا۔
’’ میں قریب میں دس منٹ کے لیے ہی گئی تھی ۔ جاتے ہوئے انشا کو دروازہ لگانے کا بھی کہا تھا۔ مگر جب آئی تھی تو وہ دروازہ میں کھڑا تھا ۔ ‘‘ امی ہچکچاتے بول رہی تھیں ۔
’’انشا کو ذرا ادھر بھیج دو۔ ‘‘ ابوپر ابھی بھی غصہ طاری تھا۔
کچھ دیر میں انشا وہاں آئی تھی۔
’’ جی ابو۔ ‘‘
’’ یہ ناول…‘‘ ابو نے ناول اٹھایا تو انشا کی نظریں جھک گئیں۔
’’ مجھے ذرا بھی اندازہ نہیں تھا وہ ہماری بیٹی کو ورغلارہا ہے ۔ ‘‘ امی نے کلس کر کہا۔
’’ شرافت کا ڈھونگ کس طرح کرتا تھا میں ابھی جا کر حلیمہ سے پو چھوںگی ۔ ‘‘
امی کی بات سن کر انشا کو احساس ہوا کہ کیا غلط فہمی ہو گئی ہے۔
’’ امی، یہ ناول شہزاد لائے تھے۔اس دن آپ کے سامنے کہہ رہے تھے ناں ان کے پاس ناول ہے ۔ مجھے پڑھنے کو دیں گے۔ ‘‘
’’ کیا … ‘‘ امی کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ۔
’’ شہزاد…‘‘ان کی زبان کو یکدم بریک لگ گئے ۔
’’ کیا…شہزاد؟ ‘‘ ابو کے غصہ کا پارہ پھر سے چڑھ گیا تھا۔
’’ آئندہ شہزاد اور شہزاد جیسے ہمارے گھر میں قدم نہیں رکھیں گے ۔ اتنی گھناؤنی حرکت کر کے بھی ڈھٹائی سے وہ میرے سامنے میرے مقابل بیٹھا تھا۔‘‘ ان کا لہجہ ایک بار پھر غضب ناک ہو گیا تھا۔
’’اور تم… ‘‘ انہوں نے انشا کی جانب نظریں کیں۔
’’ ماہانہ ڈائجسٹ تو لگا دیے تھے پھر کیوں اس سے مانگا ۔ ‘‘
’’ابو، انہوں نے خود ہی لا کر دیا تھا ۔ میں نے تو لانے کے لیے نہیں کہا تھا ۔ اس میں میرا کوئی قصور نہیں ۔ ‘‘ اس کی آنکھوں میں پھر سے آنسو آنے لگے۔
’’ قصور کیسے نہیں تمہارا، ایک غیر تمہیں کوئی دینی کتاب بھی دیتا تو لینا نہیں چاہیے تھا کجا کوئی ناول ۔ یہ ایک بہت بڑی غلطی تھی،بلکہ ایک فاش غلطی ۔ ‘‘ انہیں اس کے آنسو بھی نرم نا کر سکے تھے۔
’’ جی، مجھ سے یہ غلطی ہوگئی۔ ‘‘ اس نے اپنے آنسو پیے۔
’’اس کم ظرف شہزاد کی دیدہ دلیری تو دیکھو … ‘‘ انہیں نئے سرے سے شہزاد پر غصہ آنے لگا۔
’’ اب جاؤ آئندہ کے لیے احتیاط کرنا ۔ ‘‘ انہوں نے اسے انگلی اٹھا کر جیسے خبردار کیا۔
انشا تو بس ان کے اشارے کی منتظر تھی فورا اندر چلی گئی تھی۔ جبکہ امی ابھی تک صدمہ کی حالت میں تھیں ۔
٭…٭…٭
آج وہ امی کے ساتھ اس دعوت میں شریک تھی جس کی دعوت میں وہ بالکل بھی شریک نہیں ہونا چاہتی تھی ۔ لیکن امی کا کہنا تھا کہ گھر میں اکیلے رہنے سے بہتر ہے دعوت میں چلو ۔یہ ایک منگنی کی تقریب تھی جو اس ڈلیوری بوائے کی بہن کی تھی۔
ہمیشہ کی طرح اس نے ہلکے بادامی رنگ کے کپڑے پہنے وہ اس گھر کو اور ان کے مکین کو بغور دیکھ رہی تھی ۔ وجہ ان کی سادگئی اور سلیقہ تھا ۔ وہ یوں کہیں آتی جاتی نہیں تھی لیکن ان کے خاندان میں کسی کا گھر اتنا سادہ اور خوبصورت سجا یا ہوا نہیں ہوتا تھا جیسے کہ یہ گھر تھا ۔وہ یہاں جب سے آئی تھی ایک ایک چیز کو تک رہی تھی ۔ ایک عام سے گھر کو مکین کی سلیقہ مندی نے خوبصورت بنا دیا تھا ۔ گھر کا چپہ چپہ اتنا صاف ستھرا تھا کہ ڈھونڈنے پر بھی کہیں دھول نظر نہ آ رہی تھی ۔ خوبصورت دیدہ زیب پردوں نے گھر کی ر و نق بڑھا دی تھی ۔ ایک بڑے سے دالان میں بالکل سفید براق چادریں بچھائی گئی تھیں جس پر بنفشی بڑے بڑے دھاگے کے پھول کاڑھے ہوئے تھے ۔ ساتھ ہم رنگ گاؤ تکیہ سلیقہ سے لگائے گئے تھے۔
’’اچھا تو آپ ہو انشا ۔ ‘‘ ایک پیاری سی لڑکی اس کے قریب آئی تھی جو بہت دیر سے انشا کو دیکھ رہی تھی۔
’’جی مگر آپ … ‘‘ وہ اس لڑکی کو دیکھ کر کچھ حیران ہوئی۔ وہ بالکل اپنے بھائی پر گئی تھی۔
’’ ہم لوگ اتنے قریب رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے انجان تھے ۔ وہ تو امی سے پتا چلا کہ وہ آپ کی امی وغیرہ کو جانتی ہیں اور حلیمہ پھپھو سے بھی کافی سننے کو ملا کہ آپ کی امی اور وہ کالج کی سہیلیاں تھیں۔ ‘‘وہ ہنس کر بولنے لگی تو انشا بھی مسکرا نے لگی ۔
’’ ہاں کبھی اتفاق نہیں ہواآپ سب سے ملاقات کا ۔ ‘‘ انشا نے بھی خوشدلی سے کہا تھا۔
’’ اچھا آپ اندر چلیں۔میں آپ کو امی سے ملاتی ہوں ۔ آپ کی امی سے وہ پہلے ہی مل چکی ہیں ۔ ‘‘ وہ اسے اندر لے آئی تھی اور اب سب سے ملوا بھی رہی تھی۔
وہ سب بہت سادہ سے لوگ لگ رہے تھے ۔ سب اس سے اتنی اپنائیت سے ملے تھے کہ انشا جو ہر دعوت میں اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا لیتی تھی اب ان کے ساتھ مل کر فلک شگاف قہقہے لگا رہی تھی ۔ اس کے بے ساختہ پن نے سب کو اس کا گرویدہ کر دیا تھا ۔ امی بھی گھر میں اپنے خول میں لپٹی انشا کو یہاں ہنستے مسکراتے دیکھ کر مطمئن ہو گئی تھیں۔
٭…٭…٭