مکمل ناول

ڈائجسٹ ریڈر : نازنین فردوس

’’ تو آپ کو بھی ناول پڑھنے کا شوق ہے ۔‘‘ وہ اپنے ڈائجسٹوں کے ڈھیر سے ایک ڈائجسٹ نکال کر پڑھ رہی تھی جب وہاں شہزاد آئے تھے۔
’’ وہ … ‘‘انہیں یوں اپنے مقابل دیکھ کر جانے کیوں جھینپ گئی ۔ امی بھی ان کے ساتھ ہی تھیں ۔وہ اس کی کپڑوں کی الماری میں سر دیے جانے کیا ڈھونڈ رہی تھیں۔
’’کن رائٹرز کو پڑھا اب تک۔‘‘ انہوں نے ان تمام ڈائجسٹ کو دیکھا تھا جودیوار سے لے کر چھت تک چلے گئے تھے ۔
’’تقریباً جو آج کل ٹرینڈ میں ہیں اور پرانے رائٹرز سبھی کو ۔ میں تو جو بھی اچھا معیاری لکھتے ہیں ان کو چھوڑتی ہی نہیں۔‘‘ وہ اب جوش میں آگئی تھی۔
’’کچھ اچھے ناول میرے پاس بھی ہیں ‘وہ میں اگلی بار آپ کو لا کر دوں گا ‘ وہ پڑھ لیں۔‘‘ انہوں نے مسکرا کر اسے دیکھا۔
’’اوہ،شکریہ بہت… ‘‘انشا تو بس کھل اٹھی۔ ویسے بھی ایک ایسی شخصیت جو بالکل یونانی دیوتا جیسی تھی اس پر اثر کر رہی تھی۔
’’اچھا پھپھو میں چلتا ہوں، خداحافظ میں پھر آؤں گا ۔ ‘‘ وہ ایک نظر انشا کو دیکھتے ہوئے بولے۔
’’ہاں بیٹے اگلی بار آؤ تو بھابھی کو لے کر آنا۔ ‘‘امی نے انہیں تاکید کی تھی۔
’’امی…‘‘ وہ جب چلے گئے تو انشا نے امی کو دیکھا۔
’’وہ شہزاد کہیں انگیجڈہیں کیا۔ ‘‘ اس نے بڑی آس سے پوچھا ۔ بندے کی پرسنالٹی ہی اتنی اچھی تھی۔
’’نہیں،مگر تمہیں اس سب میں دلچسپی لینے کی قطعاََ ضرورت نہیں۔ ‘‘امی نے اس کو گھورا تو وہ کھسیا گئی ۔
’’میں تو ایسے ہی پوچھ رہی تھی ۔‘‘
’’تو اب ویسے ہی کچن میں چلو۔ بہت کام پڑے ہیں وہاں۔ ‘‘
امی اس کا دھیان بٹانا چاہتی تھیں۔
’’ ہاں چل رہی ہوں ۔ مجھے پتہ ہے وہ سارے کام مجھے ہی یاد کر رہے ہیں اور کچھ تو میرے فراق میں سنک میں ڈوب کر خودکشی بھی کر چکے ہو ں گے۔‘‘ وہ اب پیر پٹخ کر بو لی تو امی نے اسے دیکھا۔
’’کیا… کچھ بھی…کیا اوٹ پٹانگ باتیں کرتی ہو تم نہ سر کی نہ پیر کی۔‘‘
’’میں خود اوٹ پٹانگ ہوں ناں اس لیے ۔‘‘ وہ اب جل کر بولی تو امی کے لبوں پر دھیمی مسکراہٹ آ گئی تھی۔ وہ اس کے دل تک جیسے پہنچ گئی تھیں۔
’’اوٹ پٹانگ تو کم ہو،پاگل زیادہ ہو ۔ ‘‘ وہ اس کے سر پر چپت لگا کر ہنسی تھیں۔
٭…٭…٭
اتوار والے دن شہزاد دوبارہ آگئے۔ ابو سے بھی ملاقات ہوگئی۔
پڑوس والی آنٹی بھی آئی تو امی اور وہ دونوں زور و شور سے گفتگو میں مصروف ہو گئی تھیں ۔ بات ہو رہی تھی ایک اور آنٹی کی جنہوں نے ان چھت والی آنٹی کے گھر کے سامنے کچرا ڈال دیا تھا اور اب چھت والی آنٹی پر غیض و غضب چھا یا ہوا تھا ۔ اور بات بات پر’’تم بتاؤ ایسے کوئی کرتا ہے کیا ۔ ‘‘ پر ان کی بات ختم ہو رہی تھی ۔
انشا ان دونوں کی باتوں سے بور پوکر چھت پر آگئی اور آسمان پر نگاہیں جمادی۔
’’آسمان پر کیا ڈھونڈا جا رہا ہے ۔ ‘‘ وہ شہزاد تھے جو اوپر ہی آ گئے تھے۔
’’ اوہ آپ ۔ ‘‘ پہلے تو انہیں دیکھ کر وہ چونکی۔
’’ دن کا وقت ہے‘چاند تارے تو ڈھونڈنے سے رہی ۔ بس دیکھ رہی ہوں آسمان کو۔ ‘‘
’’میں ابھی ابھی ایک ناول پڑھ کر آ رہا ہوں ۔ محبت کے موضوع پرتھا۔‘‘ شہزاد چہکے۔
’’ہر ناول محبت پر ہی ہوتا ہے ویسے ۔ ‘‘ ان کی شاندار پرسنالٹی کے باوجود ان کی اس بے تکی بات پر وہ بیزار ہوئی تھی۔
’’ہاں،محبت پر ہی ہوتا ہے تو آپ بتائے کس پر ہونا چاہیے اگر محبت پر نہ ہو تو۔‘‘
’’سارے رائٹرز کو صرف محبت ہی نظر آتی ہے بس… انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور محبت ہو گئی یا لڑکی اتنی خوبصورت تھی کہ پہلی نظر میں محبت ہو گئی۔ اور بھی ایسے ہی کچھ، میرے خیال میں ایسا تو ہوتا نہیں حقیقی زندگی میں ۔ کبھی کبھی بھکارن کو بھی لوگ غور سے دیکھتے ہیں تو کیا محبت ہو جاتی ہے ۔اور اگر بھکارن خوبصورت ہو تو کیا اس سے بھی پہلی نظر میں پیار ہوتا ہے۔‘‘
’’ارے ارے آپ تو محبت جیسے جذبہ کو رد کر رہی ہیں ۔ محبت تو ہو تی ہے جو حقیقت میں ہوتا ہے وہی تو بتاتے ہیں یہ رائٹرز…جو بیتا ہے وہی تو بیان کرتے ہیں۔‘‘
’’وہ سامنے ان کبوتروں کو دیکھیں کیا کر رہے ہیں ۔‘‘ انہوں نے سامنے والے کی چھت پر بیٹھے دو کبوتروں کی جانب اشارہ کیا ۔ انشا نے ان کے ہاتھ کے اشارے کے تعاقب میں دیکھا۔
’’ہاں دونوں لڑ رہے ہیں۔ ‘‘ اس نے جیسے ججمنٹ پاس کیا۔
’’کیا…‘‘ وہ چیخے تھے۔
’’انشا،وہ محبت کر رہے ہیں۔ ‘‘انہوں نے بڑے تاسف سے اسے دیکھا تو وہ اطمینان سے بولی تھی۔
’’جس انداز سے وہ چونچیں لڑارہے ہیں اس سے تو یہی سمجھ آرہا ہے کہ لڑ رہے ہیں۔‘‘
’’ویری فنی۔‘‘ انہوں نے اسے جل کر دیکھا تھا۔
’’آپ کو اندازہ بھی ہے محبت تو بس ایک منہ زور ندی کی طرح ہو تی ہے اس پر بندھ باندھنا مشکل ہوتا ہے ۔ یہ ایسی آگ ہوتی ہے جو ہر دو کو بھسم کرتی ہے ۔ وہاں آسمان پر ان بادلوں کو دیکھیں کیسے آوارہ بنے جانے کس کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں ۔ اور اس ابھرتے چاند کو دیکھیں یوں لگ رہا ہے وہ ہمیں دیکھ کر مسکرا رہا ہے‘ہے ناں ۔ ‘‘ وہ ایک دھیمے انداز میں پر سکون ندی کی طرح بہہ رہے تھے۔اور انشا یکدم ان کے ٹرانس میں آگئی تھی۔
’’نہیں‘ وہ چاند تو ہمیشہ ہی مجھے دیکھ کر ہنستا ہے ۔ کبھی امی ڈانٹتی ہیں تب یا پھر جب میں سیڑھیوں سے دھپ دھپ گرتی ہوں تب…‘‘ اس نے ان کے فسوں سے جیسے اپنے آپ کو نکالا تھا۔
اس کی بات پر شہزاد کے چہرے کے تاثرات ہی بدل گئے ۔
’’آپ سے بات کرنا ہی فضول ہے۔‘‘
’’جی، امی بھی یہی کہتی ہیں۔ ‘‘
یہ کہہ کر انشا نے اس شخص کو دیکھا جو محبت پر بول رہا تھا تو ایسا لگ رہا تھا جیسے کہیں جگنو چمکنے لگے ہوں ۔ اور وہ کیا کرتی کہ جگنو کی حقیقت جانتے ہوئے بھی انہیں پکڑنے کو جی چاہتا ہے۔ جبکہ شہزاد اسے یوں دیکھ رہے تھے جیسے کہہ رہے ہوں۔
’’ ایسے کوئی کرتا ہے کیا…‘‘
٭…٭…٭
’’آنٹی جی یہ لیں ۔ آپ کے گھٹنوں کے درد کے لیے تیل امی نے بھیجا ہے ۔کہہ رہی تھیں کہ صبح شام لگائیں گئی تو کافی افاقہ ہوگا ۔ ‘‘ اس نے امی کو ایک تیل کی شیشی تھما ئی تو امی بے ساختہ اسے دعا دینے لگیں ۔ وہ کئی دن سے اس گھٹنوں کے درد سے پریشان تھیں ۔ابو کو کہا تو انہوں نے اسے فون کر دیا تھا ۔
انشا ایک کتاب پکڑے صحن میں اپنی سوچوں میں غرق تھی۔اس نے اس کے آنے کا نوٹس بھی نہیں لیا تھا۔
’’انشا چائے تو بنا لاؤ۔‘‘ امی نے اس کی محویت توڑی۔
’’ہاں، ابھی لاتی ہوں‘‘۔ وہ اٹھنے لگی تو مقابل نے بیساختہ روک دیا۔
’’آنٹی،اب رہنے دیں ۔ میں اب جاتا ہوں، مجھے کچھ کام ہے۔ ‘‘
’’ اچھا ٹھیک ہے مگر تمہاری امی کو ایک کرتا دینا تھا میرا ،انہوں نے کہا تھا کہ وہ اس پر کڑھائی کریں گی لا کر دوں ۔ ‘‘ امی نے اس سے پوچھا تو انشا اٹھی۔
’’ میں لاتی ہوں۔‘‘ وہ کتاب رکھ چکی تھی۔
’’الماری کی داہنی سائیڈ پر سب سے اوپر ہی رکھا ہے ۔ ہلکا کاسنی رنگ والا ۔ ‘‘ امی نے اسے دیکھ کر تفصیل سے بتا یا۔
’’اچھا لاتی ہوں ۔ ‘‘ وہ گئی تو تھی مگر اسے کہیں نہیں ملا تو اس نے امی ہی کو آواز دی تھی۔
’’پتہ تھا نہیں ملے گا اسے، میں ہی جاتی تو اچھا تھا ۔ اب تک تو اس نے سارے کپڑے اوپر نیچے کر دیے ہو ں گے۔ ‘‘ امی اپنے سر پر ہاتھ مارتی اٹھیں۔
وہ صحن میں آئی تو وہ اس کی کتاب پکڑے ہوئے تھا۔
’’ یہ کیا ہے۔ ‘‘ انداز میں حد درجہ خفگی تھی۔
’’کسی نے محبت کے بارے میں بات کی تو میں دیکھ رہی تھی کہ کیا واقعی محبت منہ زور ندی کی طرح ہو تی ہے ۔ اور بھی ایسے ہی کچھ تو وہی جانچ رہی تھی۔‘‘ اس نے لا پرواہی سے کہا تھا۔
’’ہممم اور کیا پایا آپ نے ۔ ‘‘ اس نے انشا کو گھورا۔
’’ شاید ٹھیک ہی ہے، بھلا محبت پر کس کا زور ہوتا ہے ۔ واقعی یہ تو بہت ہی منہ زور جذبہ ہوتاہے۔ اور…‘‘
’’ منہ زور ندی پر باندھ نہیں باندھے جاتے ؟ گھوڑے کو لگام نہیں لگائی جاتی ۔آگ پر پانی نہیں ڈالا جاتا ۔ ہر چیز کا توڑ ہوتا ہے ۔ یہ نہیں کہ آپ جذبات میں بہتے چلے جائیں کیوں؟‘‘ وہ کرخت سے لہجہ میں بولا تو وہ یکدم ہی چونک گئی۔
’’محبت ماں باپ کی ڈانٹ میں پنہاں… محبت بھائی کی عزت میں پنہاں…محبت ماں کی تربیت میں پنہاں … محبت عورت کی عصمت میں پنہاں اور جو محبت جذبات پر قابو نا رکھنے والی ہو وہ محبت نہیں بے حیائی ہوتی ہے ۔ محبت غرور ہو،شرمندگئی نہ ہو ۔محبت سر اٹھا کر جینے والی ہو، سر جھکانے والی نہیں ۔محبت عزت ہو ذلت نہیں اور بس…‘‘ وہ یکدم چپ ہو گیا۔
’’تم میری بڑی بہن بننے کی کوشش کر رہے ہو ؟‘‘ ان تمام باتوں کا انشا کے پاس یہ جواب تھا۔
’’بڑا بھائی کہتے ہیں ۔ ‘‘ وہ جھلایا تھا۔
’’مجھے کوئی شوق نہیں تمہیں اپنا بڑا بھائی بنانے کا ۔ میرا بھائی بھی بہت اسمارٹ سا ہو گا، چھ فٹ قد کا مالک۔ ‘‘ وہ اترا کر بولی تھی۔
’’چلیں،اچھی بات ہے ۔ میں تو انکل کے خیال سے سمجھا رہا تھا ۔ وہ بہت اچھے ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ ان کی فیملی کو کوئی نقصان پہنچے ۔ ویسے میری بچت ہو گئی۔‘‘ ایک مبہم مسکراہٹ اس کے لبوں پر سجی تھی۔
’’یہ لو،بیٹے مل گیا یہ کرتا ۔اس انشا نے تو پوری الماری الٹ پلٹ کر دی تھی۔‘‘ تبھی امی وہاں آئیں تھیں۔
’’اوکے آنٹی میں چلتا ہوں۔‘‘ وہ قمیض پکڑ کے دروازہ پار گیا۔
’’انشا،یہ کیا ہے ۔تم تب سے اس سے بات کر رہی تھیں ۔ یہ اچھی بات نہیں ۔ ‘‘ امی کی فکر حق بجانب تھی۔
’’امی، میں جا رہی تھی مگر اس کتاب پر بات نکلی تو مجھے رکنا پڑا ۔ ‘‘ وہ بھی اب واپس جانے کے لیے قدم بڑھا رہی تھی۔
’’ٹھیک ہے مگر آئندہ،ایسی کوتاہی مت کرنا ۔‘‘
’’جی امی۔‘‘
٭…٭…٭
وہ امی کے ساتھ ٹی وی لگا ئے بیٹھی تھی ۔ یہ چار بجے کا وقت تھا۔دھوپ بھی اب جانے کے مرحلے میں تھی ،جب شہزاد آئے ۔
’’پھپھو شادی کے کارڈ لے آ یا ہوں ۔ آپ کو شادی میں دو دن پہلے ہی آنا ہوگا۔ ‘‘وہ چہک رہے تھے۔
’’لیکن بھابھی نہیں آئیں۔ ‘‘ امی کا چہرہ کچھ پھیکا پڑا تھا۔
’’امی تو آنے کے لیے تیار ہی تھیں مگر آپ کو پتہ تو ہے شادی کے گھر میں کتنی مصروفیات ہوتی ہیں ۔ بس اس وجہ سے نہ آ پا ئیں ۔‘‘یہ کہتے انہوں نے انشا پر ایک نظر ڈالی۔
’’تم بیٹھو میں چائے بنا کرلاتی ہوں۔‘‘ امی اٹھ کر کچن میں چلی گئیں۔
’’کافی سست بیٹھی ہو ، کیا ہوا۔ ‘‘
’’کچھ نہیں۔ ‘‘وہ ان کے سرخ چہرے پر چمکتی مسکراہٹ سے کچھ خائف ہوئی تھی ۔
’’اچھا، آپ کو بھی ہر فنکشن میں آنا ہوگا ۔ کوئی بہانا نہیں چلے گا ۔ ‘‘ انہوں نے دھونس سے کہا ۔
’’امی آئیں گئی تو میں بھی آ جاؤں گئی ۔ ‘‘ انشا ان کی توجہ پر مسکرا اٹھی۔
’’ہممم اور یہ رہا آپ کا ناول۔ ‘‘ انہوں نے ایک گفٹ پیپر میں لپٹی کتاب اس کے نظروں کے سامنے کی۔
’’اوہ کون سا ہے مجھے دیکھنا ہے۔ ‘‘ وہ بے صبری ہوئی ۔
’’ تو لے لیں،میں نے کب منع کیا ہے۔‘‘ انہوں نے کتاب آگے کی۔
اس سے پہلے کہ انشا ہاتھ بڑھاتی انہوں نے اس کی کلائی پکڑ لی۔ان کی نظروں میں سطحی پن نظر آ رہا تھا ۔انشا نے ایک جھٹکے سے ہاتھ چھڑایا تھا ۔چہرہ پر غصہ یوں در آیا کہ شہزاد نے بھی فوراََ ہاتھ چھوڑ دیا۔
’’یہ رکھ رہا ہوں یہاں ،لیکن کیسا لگا مجھے بتانا ضرور ۔ میں انتظار کروں گا ۔ ‘‘
ان کے شہد آگیں سے لہجہ میں جانے کیا تھا کہ وہ ان نظروں سے اوجھل ہونا چاہ رہی تھی ۔اور تیزی سے انہیں اپنے سامنے سے ہٹاتی وہ اپنے کمرے کی طرف بھاگئی تھی۔شام تک بھی وہ اپنے کمرے میں چپ چاپ پڑی رہی ۔امی نے کھانے کا کہا مگر وہ سوتی بن گئی شہزاد چلے بھی گئے اور اسے پتہ بھی نہیں چلا تھا۔اتنا بوجھل دل یوں کبھی نہیں ہوا تھا۔
٭…٭…٭

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6 7 8اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے