مکمل ناول

ڈائجسٹ ریڈر : نازنین فردوس

’’اوہ ‘ یہ تو کافی پریشان کن صورت حال ہو گئی۔‘‘ ابو کو افسوس ہوا۔
’’جی مگر شکر ہے۔ جسے ہم دل کی تکلیف سمجھ رہے تھے وہ پیٹ کی تیزابیت نکل آئی ۔ دونوں کے علامات ایک جیسی ہوتی ہیں ۔ ‘‘وہ مسکرایا تھا۔
’’اب کہاں ہیں ابرار صاحب؟‘‘
’’انہیں وہاں ڈاکٹر کے کیبن میں بٹھا آیا تھا ۔ ابھی ڈاکٹر سے بات کرنی ہے۔ لیکن اتنا تو پتہ چل گیا ہے کہ ہارٹ وغیرہ کا مسئلہ نہیں ہے۔‘‘
’’چلو خیر ہوئی ۔ ‘‘ابو کو اطمینان سا ہوا۔
’’اچھا بیٹے خیر تم اپنا کام کر لو میں بھی اب چلتا ہوں ۔ آئی ڈراپس تو ہم فارمیسی سے لے لیں گے ۔ ‘‘ ابو کو بھی اسے اپنے کام کے لیے تکلیف دینا اچھا نہیں لگا تھا۔
’’نہیں ابھی دو منٹ میں لے آتا ہوں ۔ فارمیسی میں بھی کئی لوگو ں سے پہچان ہے میری۔ ‘‘وہ بتاتے اب واپس پلٹ رہا تھا۔
’’اور جیل کے قیدیوں ،پاگل خانے کے پاگلوں سے بھی اچھی جان پہچان ہو گی۔‘‘ انشا کے لبوں کو کھجلی سی ہوئی ۔ اسے یہ بات بالکل بھی ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ کوئی یوں بھی گھنٹوں کا کام منٹوں میں کر کے دے سکتا ہے۔
’’جی کچھ پاگلوں سے تو ابھی ابھی جان پہچان ہو ئی ہے ۔ ‘‘ وہ زیر لب بولتا وہاں سے ہٹ گیا تھا لیکن بیچاری انشا کے کان بڑے تیز تھے۔ جس نے یہ بات سن کر اپنے پیر زور سے زمین پر دے مارے تھے۔
’’آپی ‘آپ کے پیر پٹخنے سے اس ہاسپٹل میں زلزلہ آیا تو۔‘‘ وہ چھوٹا سا لڑکا اپنی انگلی ہونٹوں پر رکھے فکر مندی سے پوچھ رہا تھا۔
’’ یہ زلزلے نہیں سونامی لاتی ہیں۔ ‘‘ وہ پھر سے کہیں ٹپک گیا تھا اور اب ابو کو ایک لفافہ دے کر ساری تفصیل بھی بتا رہا تھا کہ کون سے ڈراپ کب ڈالنے ہیں ۔ اورابو بہت دل جمعی سے اسے سن رہے تھے۔
’’اچھا بیٹے تم نے تو آج میرا کام بہت آسانی سے اور کم وقت میں کیا ۔ اس کے لیے تو جتنا بھی شکر کروں کم ہے ۔ ‘‘ابو کو حقیقتاََ بہت خوشی ہوئی تھی۔
’’آپ تو یہ کہہ کر شرمندہ کر ہے ہیں انکل۔‘‘
’’میں آپ کے لیے آٹو لے کر آتا ہوں ۔ ‘‘ وہ عاجزی سے کہہ کر اب باہر جا نے لگا تھا۔
’’ ہم کیب بک کر لیں گے ۔ ‘‘ انشا نے جلدی سے کہا تھا۔
’’ کیب اس وقت بہت چارج کرتے ہیں ۔ اس لیے کہہ رہا تھا۔ آپ کو یہاں کے آٹو وا لے زیادہ سستے میں لے جا سکتے ہیں،کیوں انکل۔‘‘ اب وہ ابو کی جانب پلٹا تو ابو نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
’’ چلو ٹھیک ہے‘ ہم آٹو سے ہی جائیں گے ۔ ‘‘ ان کا فیصلہ حتمی ہوتا تھا اس لیے انشا کو خاموش ہو جانا پڑا۔
ابو آٹو میں بیٹھ کر بھی اس بندے کی تعریف کرتے رہے۔
’’سچ کہوں تو آج ایک بیٹے کی کمی شدت سے کھلی ۔ اگر میرا بیٹا ہوتا تو وہ بھی یوں ہی میرا ہر کام بڑھ بڑھ کر کرتا۔‘‘
ان کی آنکھوں کی چمک نے انشا کو آذردہ کر دیا ۔ انہوں نے کبھی یوں بیٹے کی کمی محسوس نہیں کی تھی۔
٭…٭…٭
’’ امی،ابو کو میری قدر ودر بالکل نہیں ۔ میں ان کے سامنے تھی ۔ وہ مجھے پہاڑ سر کر نے کے لیے کہتے اور میں کر دیتی۔وہ مجھے بولتے تو مگر نہیں جی انہیں وہ ’’شریف‘‘ ہی نظر آتا ہے۔ اس نے یہ کیا،اس نے وہ کیا ۔ ‘‘دوسرے دن وہ امی کے سامنے بیٹھی اپنی دل کی بھڑاس نکال رہی تھی۔
’’ پہاڑ…وہ کون سے پہاڑ ہیں جو تم سر کر سکتی ہو ۔ بس ایک ڈائجسٹوں کا پہاڑ ہے جو تم پوری دل جمعی سے سرکرتی ہو ۔ اس سے ہٹ کر تم نے کون سا کارنامہ سر انجام دیا ۔ کچھ بھی نہیں ۔ ‘‘ امی اپنے ہاتھوں میں قمیض لیے بیٹھی تھیں ۔ جس کے بٹن ٹو ٹ گئے تھے۔
’’ ہائے ، امی پہاڑ تو نہ بو لیں میرے ان معصوم سے ڈائجسٹوں کو ۔‘‘ وہ ان کی بات پر ایسے دکھ سے بولی کہ امی اسے گھورنے پر مجبور ہو گئیں۔
‘‘ معصوم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے وہ تمہارے بچے ہوں۔ ‘‘امی کی اس بات پر اسے یکدم کھانسی آئی ۔تبھی باہر دروازہ پر دستک سنائی دی۔ بلکہ دینے والا نظر آگیا۔
’’ انکل ہیں کیا۔ ‘‘
’’ نہیں،نماز کو گئے ہیں ۔ اور آپ یہاں کیا کر رہے ہیں ۔ ہم نے تو کوئی آرڈر نہیں کیا ۔ ‘‘وہ اسے یوں دروازہ پر کھڑا دیکھ کر کچھ خفیف سی ہوئی ۔ پتہ نہیں کیا کیا سن لیا اس نے۔
’’ ہم جیسے بندے کیا صرف آرڈر دینے آتے ہیں ۔ ‘‘ وہ برا مان گیا تھا۔
’’ہاں تو اور کیا دینے آتے ہیں ۔ ‘‘ مجال ہے جو انشا نے اس کے برا ماننے پر کچھ محسوس کیا ہو۔
’’ دعوت… دعوت دینے آیا ہوں ۔ ‘‘ اس نے کہا۔
’’مجھے ؟ ‘‘ وہ بہت حیران ہوئی۔
’’ نہیں جی ، آپ تو بن بلائے آ نے والی بلا…میرا مطلب ۔ ‘‘ وہ جلدی سے سنبھلا۔
’’انکل آنٹی کی دعوت ہے ۔ آپ بھی آنا چاہیں تو آ سکتی ہیں ۔ ‘‘ وہ اسے اندر ڈرائنگ روم میں بٹھا گئی کہ ابو کو جتنا پیار اس بندے پر آ تا تھا ۔ اس حساب سے اس کو عزت دینا پڑ رہی تھی۔
’’ ہونہہ‘ ہمیں تو کوئی شوق نہیں دعوت میں جانے کا ۔ ‘‘ وہ اب چڑ کر اٹھ رہی تھی۔
’’لیکن دعوت ہے کس چیز کی ۔ ‘‘ اس کے کریدنے پر وہ اپنی مسکراہٹ اپنے ہو نٹوں میں چھپا چکا تھا۔
’’ آپ تو آئیں گئی نہیں تو جان کر کیا کرنا ہے ۔ آپ بس یہ جان لیں کہ اگلے ماہ سے ڈائجسٹ کی قیمت بڑھنے والی ہے ۔ یعنی فضول وقت گذاری کر نے کے لیے آپ کو کچھ ایکسٹرا پیسے دینے پڑیں گے۔‘‘
’’ تو آپ کو کیوں چرکے لگ رہے ہیں ۔ اگر ڈائجسٹ کی قیمت بڑھی بھی تو وہ میرے ابو دیں گے ۔آپ تھوڑی دیں گے یا ایسا کچھ ارادے ہیں ۔‘‘ وہ اب کمر پر ہاتھ رکھے اسے لتاڑنے کا پورا پروگرام بنا چکی تھی۔
’’لاحول ولا قوۃ میرے پاس اتنا فالتو پیسہ نہیں ہے۔‘‘۔ وہ کچھ برافروختہ سا ہو ا تھا ۔ تبھی ابو نماز پڑھ کر ادھر ہی آگئے تھے اور وہ اٹھ گئی تھی۔
٭…٭…٭
آج صبح صبح اس کا پورا صحن دھونے کا پروگرام تھا اور وہ دل جمعی سے صحن دھونے میں لگی تھی۔ جب اس نے دستک کی آواز سنی تھی ۔
’’اوہ یہ لوگوں کو کچھ کام نہیں ہوتا ہوگا جو یوں ہر ایک کے در پر دستک دیتے ۔ ‘‘ اس نے جھٹکے سے دروازہ کھولا تھا اور اس کی بات منہ میں ہی رہ گئی تھی ۔
اپنے دونوں ہاتھ اپنی پشت پر جمائے وہ جو کوئی بھی تھا اس نے انشا کو چونکا دیا تھا ۔ اس کی بھوری آنکھیں اسی پر مرکوز تھیں۔ اپنے دراز قد سے وہ یوں بھی منفرد لگ رہا تھا سنہری رنگت سے سجے چہرہ پر ایک اشتیاق سجائے وہ اسے دیکھ رہا تھا۔
’’جی آپ کون۔‘‘ وہ ایک ایسے شخص کی بالکل بھی امید نہیں کر سکی تھی وہ تو افسانوی ہیرو جیسا کچھ لگ رہا تھا۔
’’ہاجرہ پھپھو ہیں۔ ‘‘ اس کی رعب دار آواز سے انشا کچھ اور متاثر ہوئی تھی۔
’’میں بلاتی ہوں۔ ‘‘وہ اندر بھاگئی۔
’’پھپھو… یہ امی کا کونسابھتیجا ہے جو اتنا ہینڈسم سا ہے۔‘‘ وہ امی کو بلاتی دل ہی دل میں سوچ رہی تھی۔
’’ارے شہزاد۔‘‘امی نے اسے دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا تھا اور اس کے جھک کر سلام کرنے پر اس کے سر کی بلائیں لینے لگیں۔
’’کمال ہے تم کب آئے دبئی سے ۔ ‘‘ وہ اب اسے اندر لے جا رہی تھیں۔
’’ذرا امی کا جوش تو دیکھو۔کم از کم مجھ سے تعارف تو کر واتیں۔ ‘‘وہ اب مایوس سی کچن میں گئی تھی کہ امی نے اشارہ سے ہی اسے چائے اور کچھ اسنیک لانے کے لیے کہا تھا۔
اس نے فریج سے کیک نکالے تھے ۔ اور کچن کیبنٹ سے بسکٹ اور نمکین ٹرے میں رکھے۔اور خود ڈرائینگ روم میں آ گئی تھی۔
’’آؤ آؤ ،انشا یہ تمہارے ماموں کے بیٹے ہیں ۔ اسجد ماموں کے بیٹے شہزاد۔‘‘ امی نے اسے دیکھ کر وضاحت دی۔
’’اور شہزاد یہ میری بیٹی ہے انشا۔‘‘ امی کو اب خیال آیا تو تعارف کروانے لگیں۔
’’جی اسلام علیکم۔‘‘ شہزاد نے دلچسپی سے اسے دیکھ کر سلام کیا تو اس نے بھی ان کی نظروں سے جھینپ کر وعلیکم کہا تھا اور وہاں سے ہٹ گئی تھی۔
’’ کسی کے نام شخصیت سے کتنا میل کھاتے ہیں ۔‘‘ وہ دل ہی دل میں سوچتی اپنے کمرہ میں چلی گئی تھی۔
شہزاد اس کی امی کے کزن اسجد کے بیٹے تھے ۔ کئی سالوں سے دبئی میں اپنی ملازمت کے سلسلے میں قیام پذیر تھے ۔ آج کل اپنے ملک آئے ہوئے تھے۔تو سب رشتہ داروں سے میل ملاقات کے لے جا رہے تھے۔
’’تو بھابی کیوں نہیں آئیں تمہارے ساتھ ۔ ‘‘ امی اپنے خوبرو سے بھتیجے پر دل و جان سے صدقے واری جارہی تھیں۔
’’وہ آج کل طوبی آپی کی شادی کی تیاریوں میں لگی ہیں ۔ اگلے ہفتہ کارڈ لے کر آنے کا کہا ہے۔ ‘‘ وہ اپنے مخصوص انداز میں بولے تو امی مسکرانے لگیں۔
’’چلو اس بہانے تو آئیں گئی‘ خیر تمہیں بھیجا یہ بھی اعزاز ہی ہے۔‘‘
’’کیا سرخاب کے پر لگے ہیں جو اعزاز کہہ رہی ہیں ۔ آپ تو مجھے شرمندہ کر رہی ہیں۔ ‘‘وہ اتنی عاجزی سے بولے کہ امی بھی نادم ہوئیں۔
’’چلو، اب شام تک رک جاؤ ۔ میں بریانی بناؤں گئی ۔ مٹن بریانی تو بہت پسند تھی ناں تمہیں۔‘‘ وہ پورے جوش سے اٹھیں تو وہ اثبات میں سر ہلاتے مسکرا دیے تھے۔
٭…٭…٭

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6 7 8اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے