مکمل ناول

ڈائجسٹ ریڈر : نازنین فردوس

’’ان کی انا اور خودداری کو تو دیکھو‘ ہو نہہ… ‘‘ وہ غصہ میں بڑ بڑاتی اندر آگئی تھی۔
’’ ارے کیا ہوا‘کیوں بڑ بڑ کرہی ہو ۔ ‘‘ امی کی آواز آئی تھی۔
’’ کچھ نہیں‘ڈائجسٹ آگیا ہے اس ماہ کا ۔ ‘‘ وہ اب اپنے کمرے میں جا رہی تھی ۔ بن پیسوں کے آیا ہے یہ سن کر جوتے ہی پڑنے تھے ۔اس لیے اس بات کو نظر انداز کرنا مناسب سمجھا تھا۔
شام میں وہ جب اپنے کپڑوں کے ڈھیر پر ڈائجسٹ رکھے لیٹ کر پڑھ رہی تھی تب امی آئی تھیں۔
’’انشا،جوس بنا دو ۔ تمہارے ابا کے کوئی دوست آئے ہیں۔‘‘
’’اوہ ہو،یہ ابا کے مہمان ۔میرے ڈائجسٹ پڑھتے ہوئے ہی آتے ہیں ۔ بعد میں نہیں آ سکتے تھے۔ ‘‘ وہ چڑ کر اب جوس بنا نے اٹھی تھی۔
جب جوس بنا کر ڈرائنگ روم میں گئی تو چونک گئی ۔ وہاں وہی ڈلیوری بوائے صوفے پر بڑے ادب سے بیٹھا تھا۔
’’ابو۔‘‘اس نے پکارا۔
’’ارے ہاں،آؤ انشا ۔ ‘‘ انہوں نے اسے اندر بلایا تو نا چار اسے جانا پڑا۔
’’بیٹا،یہ اپنے ہی محلے کا بچہ ہے ۔تم نے اسے خوا مخواہ ڈانٹ دیا ۔ کافی شریف اور دیانت دار بچہ ہے ۔ ‘‘ شاید ابا تک بات پہنچ چکی تھی۔ اس نے کھا جانے والی نظروں سے اس جوس پینے والے کو دیکھا۔
’’مگر ابا، انہوں نے پیسے دینے کے بجائے پیسے برابر کہا تھا ۔ اگر پہلے ہی صاف کہہ دیتے کہ میرے پاس چینج نہیں تو میں کیوں ان سے بحث کرتی ۔ میری بات بھی درست تھی ۔ ‘‘ آخر اتنے ڈائجسٹ پڑھنے کے بعد ایک مضبوط دلیل دینے اسے بھی آگیا تھا۔
’’لیکن بیٹے۔‘‘
’’انکل،یہ صحیح کہہ رہی ہیں ۔میں ہمیشہ چینج رکھتا ہوں ۔ آج اتفاقاََ میرے پاس کھلے پیسے نہیں تھے اور میں ذرا جلدی میں تھا ۔ اس لیے بغیر بات کلیئر کیے میں نکلنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ عجلت میں میں نے کہا تھا کہ وہ پیسے تو برابر ہو گئے ۔حالانکہ میرے ذہن میں وہ رقم محفوظ تھی جو واجب الادا تھی۔‘‘
’’اوہ… ذرا دیکھو،کیسے بات کور کر رہا ہے‘ شرافت کا پتلا۔ ‘‘ وہ دل ہی دل میں اسے کوس رہی تھی۔
’’اب جو بھی ہو بیٹا یہ ایسی بات نہیں تھی کہ تم کسٹمر کئیر کو شکایت کرنے کا کہتیں۔‘‘ ابا اس شرافت کے پتلے کے مکمل حمایتی بنے بیٹھے تھے۔
‘‘آپ اس کا کیا کہہ رہے ہیں پرسوں بازار گئی تھی ۔ وہاں بھکاری سے بقیہ پیسوں کے لیے لڑ رہی تھی۔ ‘‘امی بھی وہیں آ گئی تھیں۔
’’لو اب ان کی ہی کسر رہ گئی تھی۔ ‘‘اس نے ٹھنڈی سانس بھری۔
’’سچ میں۔‘‘ ابا حیران ہوئے ۔
جبکہ شرافت کا پتلا سر جھکائے اپنی ہنسی روکنے میں مصروف تھا۔
’’خیر،اب آئندہ سے ان باتوں کا دھیان رکھنا ۔ اور جو ان کی رقم بنتی ہے وہ انہیں لا کر دے دو ۔ ‘‘ ابو نے بات ختم کر نی چاہیے۔
’’جی۔‘‘ وہ اندر جا کر پوری رقم لے آئی اور اس کے حوالے کی ۔
’’شکریہ انکل،ویسے آپ کو کچھ بھی ضرورت ہو‘مجھے کال کر لیں ۔یہیں دو گلی چھوڑ کر ہی تومیرا گھر ہے۔‘‘ وہ اب اٹھتے ہوئے بولا۔
’’ہاں ضرور بیٹے،آتے رہا کرو ۔ ‘‘ ابو خوشدلی سے بولتے اسے دروازہ تک چھوڑنے گئے تھے۔
’’ اپنے ہی محلے کا نکلا یہ ڈلیوری بوائے۔ اور اچھے اخلاق والا ہے۔ انجنئیر نگ پڑھ رہا ہے ۔ گھر کا بڑا ہونے سے ذمہ داریاں ہیں تو یہ کام شروع کیا ہے ۔ جیسے ہی ڈگری مکمل ہو گئی۔ نئی جاب ڈھونڈ لے گا ۔‘‘ وہ واپس آ کر اب اس ڈلیوری بوائے کی تعریفیں کر رہے تھے۔
انشا نے سنا ان سنا کر دیا ۔ اس کو کیا غرض کہ وہ کیا کرتا ہے اور کیا نہیں ۔ البتہ آگے کے لیے اسے اس کے سامنے مہذب رہنا پڑے گا ورنہ شریف لڑکا کبھی بھی شکایت کر سکتا تھا ۔ وہ ڈرائنگ روم میں مونگ پھلی کھاتے اپنے پسندیدہ ناول جنت کے پتے پر نظر ماررہی تھی ۔ اس وقت چار بج رہے تھے ۔ صبح سے ہلکی بارش ہو رہی تھی اور بارش ہو اور محترمہ انشا مونگ پھلی نا کھائیں یہ نہیں ہوسکتا تھا۔ وہ ’’جنت کے پتے‘‘ میں کچھ اس قدر گم تھی کہ صوفہ پر آبیٹھے ،ٹی ٹیبل پر اپنے دونوں پاؤں جمائے ۔اپنی گود میں ڈائجسٹ رکھے مونگ پھلی چھیل چھیل کر کھانے لگی تھی ۔کانوں میں ہینڈ فری بھی تھے ۔ جس سے وہ اپنی پسندیدہ موسیقی سے بھی لطف اندوز ہو رہی تھی۔
وہ اس وقت بالکل وہیں تھی جب’’جہاں ‘‘ حیا کو پھول بھیجتا ہے اور وہ ڈر جاتی ہے کہ اس کے گھر کی بیل بھی بالکل ویسے ہی بجی۔
’’یا اللہ خیر ۔ ‘‘ اس نے اپنا ہاتھ سینے پر رکھ لیا۔
اس نے دونوں پیر زمین پر رکھے تو گود میں موجود پھلی کے چھلکے ساتھ ہی گرے ۔ وہ انہی چھلکوں پر پیر رکھتی باہر آئی تو وہاں شرافت کا پتلا کھڑاتھا ۔ اپنی کیپ اس نے آج ہاتھ میں لے لی تھی جس سے اس کے گھنگھریالے بال بکھرے بکھرے سے لگ رہے تھے ۔ وہ اسے دیکھ کر ہی تپ گئی۔
’’آپ کا پارسل ۔ ‘‘ وہ خود بھی منہ بنا کر اس کا پارسل اسے دے رہا تھا۔
اس نے پارسل لیا اور پھر سے وہی پانچ سو کا نوٹ اسے دیا تھا۔
’’چینج تو ہے ناں۔‘‘اس کا لہجہ خود بخود طنزیہ ہو گیا۔
’’یا آج بھی برابر کہو گے۔ ‘‘
’’ یہ پچاس آپ رکھ لیں اور اب آپ مجھے بقیہ پیسے واپس کریں ۔‘‘ اس نے پچاس روپے اس کے ہاتھ میں تھمائے ۔
’’آپ کے پاس تو چینج ہوگا ناں، آج مجھے کوئی جلدی نہیں ہے ۔‘‘ اس کے لہجے میں بھی اب طنز کی کاٹ تھی۔
’’دیکھتی ہوں ۔ ‘‘ اس نے اسے گھور کر دیکھا۔
مگر جب اندر امی کا بٹوہ ٹٹولا تو وہاں دس کے نوٹ نہیں تھے۔
’’امی، یہ کیا آپ کے پاس پچاس روپے کا چینج نہیں ہے۔‘‘ وہ اب جھلا کر امی کو پکار رہی تھی۔
’’دیکھ لو، شاید کہیں ہو ں ۔ ‘‘ امی اب اسی کے پاس آ رہی تھیں ۔
’’نہیں ہے ، سب بڑے بڑے نوٹ ہیں ۔‘‘ اس نے پورا بٹوہ خالی کر دیا تھا جہاں ہزار اور پانچ سو کے نوٹوں کے سوا کچھ نہیں تھے۔
’’یہ بڑے بڑے نوٹ کیا ہوتے ہیں۔ ‘‘ امی کی آواز آئی۔
’’بڑے بڑے لوگوں کے پاس بڑے بڑے نوٹ ہی ہوتے ہیں ۔ ہم جیسوں کے پاس نا بڑے نا چھوٹے نا چلر…‘‘ وہ جب خالی ہاتھ نا مراد سی واپس آئی تو اس کی دل جلانے والی بات سننی پڑیں۔
’’ ہاں مگر تمہاری طرح’’ برابر ہو گئے ‘‘نہیں کہوں گئی ۔ جب ہوں گے تب دے دوں گئی ۔ ‘‘ اس نے ایک کڑی نظر اس پر ڈال کر کہا تھا۔
’’ارے بیٹا،تم ہو‘اندر آؤ۔ ‘‘ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا امی وہاں آگئیں تھیں اور اسے دیکھ کر خوش ہو گئیں۔
’’مجھے پتہ چلا کہ تم حلیمہ کی بڑی بہن کی نند کے بیٹے ہو ۔ حلیمہ تو میری اسکول کی ساتھی تھی ۔ ‘‘امی اسے اب اندر ڈرائینگ روم میں لے کر آ رہی تھیں۔
’’جی جی آنٹی، حلیمہ آنٹی سے بھی بات ہو تی رہتی ہے میری ۔ اب کبھی ملا تو آپ کا سلام ضرور پیش کروں گا ۔‘‘
ووخوشدلی سے ان کے ساتھ اندر قدم رکھ چکا تھا۔لیکن اندر کا حال تو …
وہاں صوفہ کے کشن یہاں وہاں بکھرے بکھرے، ٹی ٹیبل پر جھوٹا چائے کا کپ اور مونگ پھلی رکھی ہوئی تھی جبکہ اس کے چھلکے تو یہاں وہاں بکھرے ہوئے پڑے تھے ۔ اس کے ساتھ ماہانہ ڈائجسٹ بھی اوندھے پڑے ہوئے تھے جس سے صاف پتا چل رہا تھا کہ ساری کارستانی انشا کی ہے۔
’’جاؤ چائے بنا کر لاؤ،انشا۔‘‘ امی سارے ڈرائینگ روم پر ایک نظر ڈال کر شرمندہ سی دوسرے صوفہ پر مہمان کو بٹھا رہی تھیں جو نسبتاً زیادہ صاف ستھرا تھا ۔ لیکن ان کا پلٹ کر چائے کا کہنا انشا کو اپنی شامت بلانے جیسا لگا تھا۔
وہ سر پٹ بھاگئی تھی ۔ اور کچن میں چائے کا پانی چڑھانے لگی ۔
’’کیا ہماری انشا کی طرح اور بھی بے وقوف ہیں جو یہ ڈائجسٹ پڑھتے ہیں ۔‘‘ امی اپنا ماضی بھول کر اب اس سے پوچھ رہی تھیں۔
اور اندر کچن میں ٹہری انشا پر تپ ہی چڑھ گئی۔
’’یہ امی بھی ناں ۔ اپنی ہی بیٹی کو بے وقوف کہہ رہی ہیں۔ ‘‘ اسے اپنی امی کی سادہ لوحی پر غصہ آنے لگا۔
’’جی آنٹی بہت سے گھر ہیں جہاں ڈائجسٹ آتے ہیں اور پڑھے بھی جاتے ہیں ۔ مگر آنٹی کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔ اب دیکھیے برا مت مانیے۔‘‘وہ رکا تھا۔
’’ہاں ہاں بولو بیٹے ۔ ‘‘ امی نے اسے ایسے حوصلہ دیا۔جیسے وہ بہت اہم مدعے پر بات کر رہا ہو۔
’’اس ڈرائنگ روم کی حالت دیکھیں ۔ کسی ڈائجسٹ میں ڈرائنگ روم کا ایسا نقشہ نہیں ہوتا ۔ ایک گھر کو صاف ستھرا رکھنا گھر کی بیٹیوں کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ ہر چیز سلیقہ طریقے سے رکھی ہو، کہیں دھول کا شائبہ نہ ہو تو گھر اسی کو کہتے ہیں ۔ یہ کیا کہ سارا گھر اوندھا پڑا ہے اور بچیاں ایسے افسانے و ناول پڑھ رہی ہیں جس کی ہیروین دوگھنٹے میں سارا گھر سینت کر، صاف کر، پکوان بھی کر لیتی ہے اور فریش ہو کر مہمانوں کا استقبال بھی کر رہی ہے۔‘‘
’’ ہاں،بیٹے یہ تو تم نے صحیح کہا ۔ اب تم ہی بتاؤ،اس عادت سے چھٹکارا کیسے دلائیں ۔ ‘‘ امی بے حد قلق سے پوچھ رہی تھیں۔
’’اوہ، محترم تمہارا دماغ تو میں ٹھکانے لگاتی ہوں۔ ‘‘اس نے چائے میں چینی کی جگہ نمک ملادیا۔
’’آنٹی ایسی بری عادتیں یوں نہیں جاتیں‘ڈنڈا رکھیں ڈنڈا۔ ‘‘ وہ مزے سے کہے جا رہا تھا۔
انشا نے اب چائے میں مرچی ملادی۔
’’کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے کہاں مانتے ہیں ۔ ‘‘ وہ بھی بلند آواز سے کہہ رہا تھا تاکہ اس تک آواز پہنچے۔
’’کمینہ۔‘‘ اب انشا نے ادرک لہسن کی طرف دیکھا جو امی نے سالن کے لیے پیس کر رکھا تھا۔
’’ارے کچھ نہیں ہوتا،بڑی ڈھیٹ ہے‘‘۔ امی نے یوں کہا کہ انشا خود چائے کی طرح کھولنے لگی ۔
’’یہ بھی صحیح ہے‘ کافی ڈھیٹ ہیں ۔ ‘‘ وہ ہنس کر کہہ رہا تھا جب انشا گرم گرم چائے اس کے سامنے رکھ گئی تھی ۔ انداز اتنا جارحانہ تھا کہ وہ یکدم صوفہ کی پشت پر جا لگا۔
’’بس ایک کام اچھا کرتی ہے چائے اچھی بناتی ہے۔‘‘ امی اب اسے چائے دے رہی تھیں۔
’’جی،جی ۔ ‘‘ اس نے چائے کا کپ لبوں سے لگایا تھا اور ایک گھو نٹ لیتے ہی اسے کھانسی شروع ہو گئی۔
’’ارے آہستہ بیٹے ۔ ‘‘
’’اب جاؤ پانی لاؤ‘ ٹھہری دیکھ کیا رہی ہو ۔ ‘‘ امی نے اسے لتاڑا تو وہ جانے کے لیے پلٹی لیکن ایک شیطانی مسکراہٹ اپنے لبوں پر سجا کر اسے دیکھا۔
’’چائے اچھی بنی ہے ناں۔ ‘‘
اور وہ بس اسے گھور کر رہ گیا تھا۔ اب وہ آنٹی کے سامنے ان ہی کی بات جھٹلا نہیں سکتا تھا۔
وہ جب واپس جا رہا تھا تو انشا اسے دیکھ کر اپنی ہنسی روکنے میں مصروف تھی۔چائے پی کر اس کا چہرہ لال بھبھوکا سا ہوا تھا ۔آنکھیں سرخی مائل ہوگئی تھیں ۔ یقینا اسے یہ چائے زندگی بھر نا بھولنے والی تھی ۔ لیکن انشا زندگئی بھر کے لیے کون ساسبق یاد رکھنے والی تھی یا وہ کون ساسبق اسے پڑھائے گا وہ ابھی سمجھ نہیں سکتی تھی ۔
٭…٭…٭
وہ آج ابو کے ساتھ ہسپتال آئی تھی ۔ ابو کو ہر مہینہ آنکھوں کے چیک اپ کے لیے آنا ہوتا تھا اور وہ ہر بار ان کے ساتھ ہوتی تھی ۔ہسپتال پہنچ کر ابو اندر نمبر لکھانے چلے گئے تھے ۔ چونکہ وہاں مریضوں کی لمبی قطاریں ہو تی تھیں اور نمبر کے لیے بھی کافی دقت ہو تی تھی ۔
جبکہ وہ باہر بیٹھ گئی تھی ۔ اس کے قریب ایک آٹھ سال کا بچہ بیٹھا ہوا تھا ۔ جو کافی شریر نظر آ رہا تھا ۔ اسے کچھ دیر تک دیکھنے کے بعد وہ سوال پر سوال کرنے لگا۔
’’آپ یہاں کیوں آئی ہو۔ ‘‘
’’ ہسپتال میں لوگ کیا کر نے آتے ہیں ۔ ‘‘ اس نے الٹا اسی سے سوال کیا۔
’’ ہممم… ‘‘ وہ کچھ دیر تک سوچتا رہا۔
’’ میں تو بس گھومنے کے لیے آیا ہوں کیونکہ یہ ہسپتال کافی بڑا ہے ۔ ‘‘ اس کی بات پر اسے ہنسی آگئی تھی۔
’’اچھاہسپتال بڑے ہوں تو گھوما بھی جا سکتا ہے ۔ ویسے میں اپنے ابو کی آنکھوں کے چیک اپ کے لیے آئی ہوں ۔ اور تم کس کے ساتھ آئے ہو۔‘‘
’’میں تو اپنے دادا ابو کے ساتھ آیا ہوں میرے ایک بھیا کے ساتھ ۔‘‘بچہ چلبلا سا تھا۔کبھی یہاں جھانکتااور کبھی وہاں جھانکتا۔
’’خاموشی سے ادھر بیٹھو کیوں اودھم مچا رہے ہو ۔ ‘‘ اسے غصہ آگیا تھا۔
’’ارے آپ تو مجھے ڈرارہی ہیں۔ ‘‘ بچے نے روتا منہ بنا یا۔
’’کچھ خواتین کافی ڈراؤنی ہوتی ہیں ۔ ‘‘ ایک مانوس آواز پر اس کا جھکا سر اٹھا تھا۔
’’کیوں کیا رات میں چڑیل بن جاتی ہیں۔ ‘‘ وہ بچہ ہنسا۔
’’اب یہ تو چڑیل باجی سے پوچھ لو ۔ ‘‘ وہ اس بچے کے قریب رکھا بیگ لے کر اندر کیبن میں جا چکا تھا۔
’’یہ یہاں …کیا …ہسپتال میں بھی…‘‘ اس نے گھور کے اسے جاتے دیکھا تھا۔
وہ بچہ اب بنچ پر یہاں وہاں الٹا لٹکنے لگا ۔ اس نے کچھ دیر اسے گھورا پھر برداشت نہ کرتے ہوے اس کے سر پر چپت لگائی۔
’’ آپ تو سچ مچ کی چڑیل…‘‘
’’اے خبردار ۔ ‘‘اس نے انگلی سے تنبیہہ کرنی چاہی۔
’’ نہیں، نہیں آپ تو بالکل باربی سی لگتی ہیں،گلابی گلابی سی۔‘‘ بچے نے اس کے گلابی کپڑوں کو دیکھتے ہوئے ڈر کر بات بدل دی تھی اور وہ بیساختہ مسکرا اٹھی۔
’’ لڑکیاں کتنی آسانی سے بے وقوف بنتی ہیں ناں اور وہ بھی آٹھ سال کے بچے سے ۔‘‘ وہ واپس آیا اور اب فائل اٹھا چکا تھا اور اسے کچھ بھی بولنے کا موقعہ دیے بغیر وہ پھر سے کیبن میں جا چکا تھا اور وہ لب بھینچ کر رہ گئی تھی۔
’’ تم ان بھیا کے ساتھ آئے ہو۔‘‘ اس نے بچے سے پوچھا تو اس بچے نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’دراصل صبح صبح دادا کی طبیعت خراب ہوئی تو گھر میں کوئی بڑا نہیں تھا ۔اس لیے امی نے بھیا کو بلایا تھا ۔ بھیا اکثر ہمارے محلے میں ہر کسی کی مدد کرتے رہتے ہیں ۔ کسی کے ساتھ ہسپتال جانا ہو یا کسی کا کوئی سرکاری کام ہوں ۔بھیا کرتے رہتے ہیں۔‘‘
’’ہمم خدمت خلق کے شوقین…‘‘وہ منہ بنا کر اب سامنے دیکھنے لگی تو وہ ابو کا ہاتھ پکڑے ادھر ہی آ رہا تھا۔
’’ابو۔‘‘ وہ جب قریب آئے تو اس نے شکوہ کے انداز میں کہا۔
’’میں یہاں تھی ناں ‘آپ کے ساتھ جانے کے لیے پھر آپ نے ان محترم کی مدد کیوں لی ۔ ‘‘ اس کا منہ ہی پھول گیا تھا۔
’’ارے میں نے تو بہت منع کیا تھا مگر اس نے تو آدھے گھنٹے میں سب کام ہی کر وادیے ۔‘‘ابو اس کا ہاتھ تھامے کافی خوش لگ رہے تھے۔
’’کیا سچ میں ۔ آپ ڈاکٹر سے مل کر بھی آ گئے ۔‘‘ اس نے گھڑی دیکھی تو واقعی آدھ گھنٹہ اور کچھ منٹ ہوئے تھے ۔
’’اب بس کچھ ڈراپس لانا ہیں میں وہ لاتا ہوں ۔ ‘‘ اس نے ابو کو پہلے کرسی پر بٹھایا تھا اور پھر کہا تھا۔
’’انکل ، آپ یہاں اطمینان سے بیٹھیں ۔ میں ذرا ابرار چچا کو دیکھ آتا ہوں ۔‘‘
’’ابرار صاحب کو کیا ہوا تھا ۔ ‘‘ابونے پوچھا۔
’’وہ دراصل ہارٹ پیشنٹ ہیں ۔ صبح صبح دل کے شدید درد نے انہیں بے چین کر دیا تھا گھر میں کوئی مرد مو جود نہیں تھے تو چچی نے مجھے ہی بلایا تھا ۔ ‘‘وہ ابو کو جواب دیتے ساتھ ساتھ دواؤں کی پرچی پر بھی نظر دوڑارہا تھا۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6 7 8اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے