ڈائجسٹ ریڈر : نازنین فردوس
’’ضروری تو نہیں کہ وہ میرے گھر پر آئے (ویسے میں نے اسے بلایا بھی نہیں) چلو بازار جاتی ہوں۔ ‘‘
’’ہائے کیا پتہ وہ بازار میں مجھ سے ٹکراجائے۔‘‘
’’آخر میں گھر میں رہوں گی توایک ہیرو سے ملاقات تو ہو نے سے رہی ۔ دودھ والے سبزی والے سے ہی ہوگئی۔‘‘
’’ہاں،آج شام میں بازار جاؤں گی ‘ امی کے ساتھ۔‘‘ وہ دل ہی دل میں منصوبہ بنا چکی تھی۔
وہ امی کو لے کر بازار آ تو گئی تھی اور گھوم پھر رہی تھی مگر اسے اپنا مطلوب کہیں نظر ہی نہیں آیا ۔ امی بھی بے مطلب پھر کر بیزار ہو چکی تھیں۔
’’ آخر تمہیں لینا کیا ہے۔ سوٹ پسند کرنے جاتی ہو اور ساڑی پوچھنے لگتی ہو ۔اور کپڑوں کی دکانوں پر بیگ پوچھنے کی کوئی تک بھی ہے ۔ ایسا لگ رہا ہے تمہیں لینا وینا کچھ نہیں ہے بس خوار ہی ہونا ہے۔ ‘‘
’’ ایسی بات نہیں ہے امی ، مجھے یہ رنگ کا دوپٹہ چاہیے تھا مل ہی نہیں رہا ۔‘‘ اس نے جلدی سے اپنا پہنا ہوا دوپٹہ ان کے سامنے کیا تھا۔
’’ ہاں وہ تو ٹھیک ہے مگر میچنگ سنٹر میں تم بالوں کے کلپ پوچھ رہی تھیں ۔ اور خریدا تو تم نے کچھ بھی نہیں۔‘‘ ان کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو گیا تھا ۔
’’جی، اب دیکھتی ہوں کچھ لینے کی کوشش کرتی ہوں ۔ ‘‘
وہ اندر دوکان میں جا ہی رہی تھی کہ پیچھے سے کسی نے آواز دی ۔ کسی نے اس کا دوپٹہ پکڑ لیا تھا۔
’’ یا اللہ۔‘‘ اس نے آنکھیں پٹپٹائیں۔
’’ کیا وہ مجھے یوں راستہ میں روکے گا ۔ اب میں امی کو کیا کہوں گی ۔ ‘‘ وہ بیچ سڑک پر خوامخواہ شرما رہی تھی۔
جب ایک بار اور اس کا پلو کھینچا گیا تو وہ اپنے بال لہراتی پلٹی تھی ۔سامنے ایک بے حد گھنگھریالے بالوں اور میلے کچیلے کپڑوں والا ایک بھکاری ہاتھ پھیلا ئے ہو ئے کھڑا تھا۔
’’باجی،اللہ کے نام پر کچھ خیرات کر دو ۔ ‘‘ بھکاری کی صدا۔
’’اف‘ یہ بھکاری۔ ‘‘ اس کی ساری شرم اب غصہ میں بدل گئی تھی۔
‘‘ یہ لو۔ ‘‘ اس نے بیس کا نوٹ دیا۔
’’کدھر جارہے ہو، دس واپس کرکے جائو۔‘‘ وہ واپس پلٹنے لگا تو انشا نے پکارا۔
’’میرے پاس دس نہیں ہے باجی۔‘‘ اس نے دانت نکالے۔
’’تو چلو یہ بھی واپس کرو۔‘‘ وہ اس کی جانب بڑھی۔
’’پاگل ہوگئی ہو کیا۔‘‘ امی نے اسے گھورا اور ساتھ لیے ایک دکان میں داخل ہوگئیں۔
’’جی کیا چاہیے میم آپ کو۔ ‘‘سیلز مین نے بڑے ادب سے ان کے پاس آکر پوچھا۔
’’ہیرو…وہ ڈائجسٹ کا ہیرو‘ ہے آپ کے پاس۔‘‘ انشا بڑ بڑائی تھی۔
’’جی ؟ ‘‘
’’ارے بیٹے دوپٹہ چاہیے اس رنگ کا۔ ‘‘امی نے سبز رنگ بتایا۔
’’جی ، ابھی لیں بلکہ یہاں پورے دوپٹوں کا سیٹ ہے آپ کلر دیکھ لیں جو سمجھ آجائے وہ لے لیں ۔ ‘‘اس نے ایک بڑا سا بنڈل ان کے سامنے رکھا۔
’’اب دیکھ لو۔‘‘امی نے بنڈل اس کی جانب کھسکایا۔
’’امی، اس میں نہیں ہے۔ ‘‘ اس نے پورے دوپٹے چیک کر لیے تھے۔اسے دراصل اس کلر کا دوپٹہ لینا ہی نہیں تھا۔
’’ہائیں، پھر ایسا کون سا انوکھا رنگ ہے تمہارے دوپٹے کا جو مل نہیں رہا۔‘‘ امی کو اچنبھا ہوا۔
’’وہ اب چلتے ہیں میں پھر آؤں گی۔ ‘‘وہ چپ چاپ یہاں سے کھسک جانا چاہتی تھی۔
’’ دو گھنٹے سے مجھے خوار کر رہی ہو اور اب کہہ رہی ہو کہ پھر آؤں گی ۔ جب لینا ہی نہیں تھا تو آئیں کیوں۔ ‘‘ وہ وہیں شروع ہوگئیں۔
’’اب چلیں بعد میں ڈانٹ لیں۔ ‘‘وہ سیلز مین بڑی بے شرمی سے اسے دیکھ کر بلکہ اس کی درگت بنتی دیکھ کر ہنسنے لگا تھا۔وہ انہیں وہاں سے اٹھا چکی تھی۔
’’دماغ خراب کر دیا‘ دو گھنٹے اور پیسوں کا ضیاع۔‘‘ امی مسلسل اس پر غصہ اتار رہی تھیں اور وہ دل ہی دل میں اس نا دیدہ ہیرو کو کوس رہی تھی۔
’’ صرف تمہاری خاطر آج اتنی خوار اٹھائی ہے۔ کبھی سامنے آؤ گے تو بتاؤں گی۔‘‘
٭…٭…٭
اب ہماری انشا کے لیے تو ہیرو شاید کوہ قاف میں چھپا بیٹھا تھا جو آ کر نہیں دے رہا تھا۔ وہ کالج کے آخری سال میں تھی ۔ پڑھائی تو وہ یوں بھی برائے نام ہی کر رہی تھی ۔ البتہ ڈائجسٹ کا مطالعہ خوب زور و شور سے چل رہا تھا۔
اس دن کالج گئی تو دھوپ اچھی خاصی تھی ۔ دور دور تک بادل ڈھونڈنے پر بھی نظر نہیں آ رہے تھے لیکن کالج کے ختم ہونے تک بارش اچانک اتنی بڑھ گئی کہ وہ کالج میں پھنس کر رہ گئی ۔ لائبریری میں ماہا ملک کو پڑھتے پڑھتے وہ اپنے آس پاس کے ماحول سے یوں کٹ گئی تھی کہ جب بادل زور زور سے کڑکنے لگے بجلیاں چمکنے لگی تو ماہا ملک کو چھوڑ وہ اب ’’ماں ‘‘کو یاد کرنے لگی ۔
کالج گھر سے کافی دور تھا تقریباً ایک گھنٹہ کی مسافت تھی ۔ اور جب وہ باہر آئی تو اس کی آخری بس بھی نکل گئی تھی ۔ آٹو رکشہ بھی جیسے آج سب ہڑتال پر چلے گئے تھے ۔ برستی بارش ،اندھیرا اور دور دور تک جاتی خالی سڑک ۔ وہ رونے کو آ گئی ۔ اپنے بیگ کو مضبوطی سے پکڑے وہ اب دعا ؤں پر آگئی تھی کہ اب یہی سہارا لگ رہا تھا ۔تبھی اس کے قریب ایک بلیک مرسیڈیز کار کے ٹائر چر چرائے اور وہ بدک گئی۔سامنے دیکھا تو صرف کار نظر آرہی تھی۔ کیونکہ کار کے ونڈوز ابھی اتارے نہیں گئے تھے۔
’’اوہ‘ تو اب شاید کوئی ہینڈسم سا شخص کار کا دروازہ کھولے گا اور کہے گا’’آئیے مس میں آپ کو ڈراپ کر دوں ۔ ‘‘ تو مجھے کیا کہنا ہو گا ۔‘‘ وہ سوچنے لگی ۔
’’ جی نہیں شکریہ ‘ میں چلی جاؤں گئی ۔ ‘‘ وہ دل ہی دل میں ڈائیلاگ دہرارہی تھی۔
’’آر یو شیور آپ چلی جائیں گی۔ ‘‘ اس آواز پر اس نے چونک کر اس کار میں بیٹھے شخص کو دیکھا اور یکدم اچھل پڑی۔
’’سر ابرار۔ ‘‘ وہ اس کے ہسٹری کے ساٹھ سالہ سر تھے جو تاریخ کو پڑھاتے پڑھاتے خود تاریخی کردار ہو جاتے تھے ۔
’’جی‘میں چلی جاؤں گئی۔‘‘ اس نے مری مری آواز میں کہا۔
بادل اور بجلیاں جس طرح مقابلہ بازی پر اتر آئے تھے اس سے تو اگلے چار پانچ گھنٹوں تک بارش کے آثار رکنے والے تو نہیں لگ رہے تھے مگر وہ انکار کر چکی تھی۔اب کیا کرتی۔
’’ اوکے، ایز یو وش۔ ‘‘ سر ابرار نے اسے دیکھ کر اب کار اسٹارٹ کرنا شروع کر دیا تھا۔
اس سے پہلے کہ سر ابرار بے مروتی سے کار آگے بڑھا تے۔اس نے انہیں روک لیا۔
’’سر،سر میں چلوں گی آپ کے ساتھ۔‘‘ اس نے بارش سے اپنے آپ کو بچاتے کہا تھا۔
’’اوکے۔بیٹھ جائیں۔ انہوں نے فرنٹ ڈور کھولا اور وہ جلدی سے بیٹھ گئی۔
’’آپ کا گھر…‘‘انہوں نے اس کے گھر کا ایڈریس پوچھا اور وہ بتانے لگی ۔
جب ایڈریس بتا کر خاموش ہوئی تو گاڑی میں گانے چل رہے تھے۔
جب دل ہی ٹوٹ گیا۔
اس دل کا کیا کریں گے
اس نے بڑی حیرانی سے انہیں دیکھا۔
ساٹھ سالہ عمر کے دور میں ان کا کون سادل ٹوٹ گیا ہو گا جس کی وہ دہائی دے رہے ہیں ۔کیا اس عمر میں بھی لوگ ٹوٹے دل کی دہائی دیتے ہیں۔ وہ افسوس اور رنج میں گھر گئی تھی۔
’’آپ نے میرے مضمون کے اسائنمنٹ مکمل کر لیے ۔‘‘
انہیں یاد تھا کہ اسکے اسائنمنٹ اکثر نا مکمل ہو تے تھے ۔اور وہ نا صرف تاریخ بلکہ اس جیسی نکمی طالب علم کو بھی یاد رکھے ہوئے تھے۔
یوں تو اسے بہت زیادہ پڑھنے کا شوق نہیں تھا مگر تاریخ…تاریخ سے تو اسے حد درجہ چڑتھی ۔ مجبوری میں لیا گیا یہ مضمون اسے ناکوں چنے اکثر چباتا رہتا تھا ۔ وہ اکثر سن پیدائس ،سن وفات بھولتی رہتی ۔ کون سی جنگ کب شروع ہوئی اور کب ختم یہ تو رٹا مارتی تب بھی اکثر بھول جاتی ۔ سارے جواب یاد رکھتی اور سن تاریخ کا حصہ خالی چھوڑ دیتی ۔ جس سے اس کے نمبر ہمیشہ کم آتے تھے ۔ جس کے لیے اکثر ڈانٹ بھی پڑتی کہ سب کچھ لکھا اور سن پیدائش ،سن وفات چھوڑ دیا ۔اور اس کی دلیل ہو تی تھی کہ کیا کریں گے جان کر کہ بابر کب پیدا ہوا اور وفات کب ہوئی۔
’’جی،ابھی کر رہی ہوں۔‘‘
’’آپ کو پتہ ہے پانی پت کی جنگ کا ۔‘‘ سر ابرار کو موقع بہت مناسب لگا تھا۔پانی پت کی جنگ کو چھیڑنے کا۔
اور اب وہ پورے جوش و خروش سے جب دل ہی ٹوٹ گیا کے ساتھ ساتھ اسے پانی پت کی جنگوں کے بارے میں بتا رہے تھے ۔ اور وہ بیگ پر نظریں جمائے سن رہی تھی۔صرف سن ہی رہی تھی پلے تو کچھ بھی نہیں پڑ رہا تھا۔
’’سمجھ گئیں ناں آپ۔‘‘ سر ابرار نے پوری پانی پت کی جنگ آدھے گھنٹے میں نبٹا لی تھی۔اور اب وہ شاید کسی دوسری جنگ کا آغاز کرتے اس سے پہلے اس کا گھر آ گیا تھا۔
’’جی سر بس گھر آ گیا ہے ۔ آپ اندر آجائیں چائے پی کر جائیں۔‘‘ اس نے اخلاقاََ کہا اور دل ہی دل میں شکر منارہی تھی کہ پانی پت کی جنگوں سے نجات ملی۔
’’ پھر کبھی… ‘‘
اب گاڑی میں کے ایل سہگل سے ‘‘مکیش ‘‘کا سفر شروع ہو گیا تھا اور اس سے پہلے کہ مکیش کے درد بھرے نغمے شروع ہوتے اس نے گاڑی سے اتر کر ایک ٹھنڈی سانس بھری تھی۔
’’اسائنمنٹ وقت پر مکمل کر دیں۔‘‘ اسے ایک استادانہ سرزنش کرتے سر ابرار کار آگے بڑھا لے گئے تھے۔
اور وہ ان ڈائجسٹ رائٹرز کو کوس رہی تھی جن کے افسانوں میں ہیروئن اکثر بارش میں پھنس جاتی ہے ۔ اور ایسے میں ہیرو جس کے پاس کار بھی ہوتی ہے اور وہ بھی شوروم سے نکلی ۔اس میں بیٹھ کر وہ ہیروئن کو لفٹ کی آفر دیتا ہے ۔ ( پتہ نہیں وہ خود اتنا بے کار کیسے رہ سکتا ہے جو کار میں شہر کی گلیوں کی خاک چھانتا پھرتا ہوگا ) اور ہیروئن کے نخرے تو ماشااللہ ۔ نہیں میں خود چلی جاؤں گئی ۔ ارے بھئی سنسان سڑک جہاں نہ آٹو ملتے ہیں نہ رکشے ۔ صرف ایک بس کا سہارا جو اکثر دغا دے جاتا ہے تو ایسے میں آپ خود سے کیسے جائے گی ۔ پیدل تو جانے سے رہی ۔پھر فضول کی ڈرامہ بازی کیوں ۔پرمیری قسمت میں تو وہ بیکار ہیرو بھی نہیں بلکہ سر ابرار ٹکرا گئے اور جو انہوں نے جنگ کا ذکر چھیڑا تھا تو دل تو چاہ رہا تھا تیسری چوتھی جو بھی عالمی جنگ ہو اس کا بگل بجا ہی دوں ۔ ایک کلاس کافی نہیں تھی جو کار میں بھی…
وہ جلتی کڑھتی بہر حال گھر میں داخل ہو چکی تھی۔
جس جس طرح سے انشا ایک ڈائجسٹ کے ہیرو کے لیے خوار ہوئی تھی اس کے بعد تو اس نے اپنے آپ ہی اس کھوج سے توبہ کر لی تھی ۔ اگر واقعی میں کوئی ہیرو ہوتا تو ضرور ہی اس سے ٹکراتا ۔ اس کی کوشش رائیگاں ہی گئی ۔
’’ہونہہ، اب میری جوتی کو بھی پرواہ نہیں۔‘‘ وہ کوفت میں مبتلا ہو چکی تھی۔
’’آیا بڑا ہیرو۔‘‘
چونکہ اب امید ختم ہو چکی تھی تو اس کا راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا ۔ لیکن اس جون کے تپتے موسم میں جب اس کے گھر کی بیل بجی تو…
’’میم آپ کا آرڈر ۔ ‘‘ وہ ایک ڈلیوری بوا ئے تھا۔
دھوپ سے بچنے اس نے ایک کیپ پہنی تھی ۔ اس کے ہاتھ میں اس کا پارسل تھا۔وہ اکثر آن لائن شاپنگ کرتی رہتی تھی ۔ ابھی کچھ دنوں سے میگزین ،ڈائجسٹ بھی ،آن لائن منگوانا شروع کیے تھے۔
’’اوہ، میرا ڈائجسٹ آگیا۔ ‘‘ وہ اچھل پڑی تھی۔ لیکن ڈلیوری بوائے کی تمسخرانہ نظروں کو بھانپ کر اپنی جون میں واپس آ گئی تھی۔
’’بل کتنے کا ہے ۔ ‘‘ اس نے رعب سے پوچھا ۔ کبھی کبھی رعب ڈالنا ضروری ہوتا ہے۔
’’ چارسو اسی روپے۔‘‘ اس نے کا روباری انداز میں کہا۔اور پیپرز پر لکھنے لگا۔
’’ ہاں ابھی لاتی ہوں۔ ‘‘وہ اندر گئی تھی اورپانچ سو روپے دیے تھے۔
اس نے پارسل اسے تھمایا اور اب اپنی گاڑی اسٹارٹ کرنے لگا۔
’’ ارے ، بقیہ بیس روپے کون دے گا۔ ‘‘ ہا ئے اس کے بیس روپے۔
’’ وہ تو برابر ہو گئے ۔ ‘‘ وہ بول کر اب نکلنے کی تیاری کر رہا تھا۔
’’برابر ہو گئے ۔‘‘وہ حیران ہوئی۔
’’ ایسے کیسے برابر ہو گئے ۔ ‘‘
’’ دیکھیں،اب میرے پاس چینج نہیں ورنہ میں دے دیتا ۔ اور ویسے بھی اتنے پیسے تو ہر کوئی رکھ لیتا ہے ، یہ انڈراسٹوڈ ہے ۔ ‘‘ وہ اس کو سمجھا رہا تھا مگر وہ ہتھے سے اکھڑ گئی۔
’’یہ کیا بات ہوئی، انڈر اسٹوڈ ہے ۔‘‘ وہ اڑ گئی۔
’’ یہ رمضان کا مہینہ نہیں ہے جو ہم تمہیں بخش دیں۔‘‘
’’ او میڈم یہ کوئی لاکھوں نہیں ہیں جو آپ بخش دیں گئی ۔ اور رمضان میں خیرات مانگنے والے بہت آتے ہیں آپ ان کو پیسے بخش کر اپنا شوق پورا کر لیں ۔ اور ویسے میرے پاس چینج نہیں ورنہ آپ کے منہ پر پھینکتا۔ ‘‘ وہ بھی غصہ میں آ گیا تھا۔
’’حد ہے،ہمارے پیسے ہمارے ہی منہ پر پھینکو گے ۔ خود کو کیا سمجھ رہے ہو،ایک تو چوری کرو گے اور پھر سینہ زوری۔ میں نے ویب سائٹ پر شکایت کر دینی ہے اور کمپلین بھی کہ آپ کے ایمپلائی نے بد تمیزی کی ۔ ‘‘ اسے بر وقت اپنی صلاحیتوں کا پتا چلا تھا۔
’’دھمکی دے رہی ہیں ۔ ‘‘ اس کا چہرہ بھی غصہ سے سرخ ہو گیا۔
’’ آپ کے بیس روپے میں شام تک دے جاؤں گا، خاطر جمع رکھیں۔ ‘‘ وہ اب پلٹ کر گاڑی اسٹارٹ کر رہا تھا۔
’’ہاں ہاں دینا پڑے گا ۔ ہمارے پیسے کوئی پیڑ پر نہیں اگتے ۔ بہانہ تو دیکھو،چینج نہیں ہے ۔ تو چینج تو رکھنا چاہیے‘کبھی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے ۔ یہ نہیں کہ پیسے ہی نہیں دیں گے ۔ چینج کا کہہ کر کیا پتہ دو گے بھی یا نہیں۔ ‘‘
’’یہ روپے آپ ہی رکھ لیں ۔ میں جب تک آپ کے بیس روپے لا کر نہیں دیتا۔‘‘ اس نے پانچ سو کا نوٹ اس کے ہاتھ پر رکھا اور چلا گیا تھا۔