ڈائجسٹ ریڈر : نازنین فردوس
’’کیا ہوا تھا بلکہ سب تعریف ہی کر رہے تھے۔ ‘‘اس نے جیسے یاد کرنے کی کوشش کی۔
’’تمہاری پھپھو نے ہی کہا تھا کہ دلہن کی نظر بٹو بن کے آئی ہے ہماری انشا ،مجھے کتنی شرمندگئی ہو ئی تھی۔‘‘
’’ جو بھی تھا مگر میں تو بہت منفرد لگ رہی تھی۔ ‘‘ اس کی سوئی وہیں اٹکی تھی۔
’’ لگتا ہے تم تو سدھرنے والی نہیں مگر اب جو بھی ہو ۔ منفرد بننے کی کوشش مت کرنا۔ ‘‘ امی نے اس کے سامنے باقائدہ ہاتھ جوڑے تو وہ شرمندہ سی ہوئی۔
‘‘ ارے نہیں امی بس آپ پریشان نا ہوں۔ بس نارمل سے تھوڑا ہٹ کر تیار ہونا اچھا لگتا ہے۔ ‘‘
‘‘ وہی تو ابنارمل بن کر چلنے سے اچھا ہے تم نا چلو۔ ‘‘ اس کے انداز پر امی کی جان جلی تھی۔
’’ امی ، آپ مجھے دعوت میں لے جانا چاہ رہی ہیں کہ نہیں۔ ‘‘ اب وہ بھی چڑی۔
’’ نمونہ مت بننا بس مگر جلدی کرو۔‘‘ وہ آف موڈ کے ساتھ ہی باہر چلی گئیں۔
’’ اور وہ جب تیار ہوئی تو اسے دیکھ کر ان کی جان جل کر خاک ہو گئی تھی۔
ہلکے سرمئی رنگ کے گولڈن بارڈر والا سوٹ جس پر ہلکا سا کام تھا ۔ اور فل دوپٹہ بنا میک اپ کے ہلکی سی میچنگ جیولری پہنے وہ مکمل ڈائجسٹی ہیروئن بن کر ان کے سامنے تھی ۔ انہوں نے خون کے گھونٹ پی کر اس کے ساتھ جانے کا قصد کر لیا تھا ۔اگر اب بحث کا آغاز کرتیں تو دعوت رہ جاتی اور شام تک اس کا موڈ آف رہتا۔اس لیے انہوں نے مصلحتاً خاموشی اختیار کر لی۔
٭…٭…٭
وہ لوگ جب پہنچے دعوت اپنے عروج پر تھی ۔وہ سیدھا اپنی کزنز کے پاس چلی گئی تھی۔ جنہیں دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے قوس قزح کے سارے رنگ انہوں نے پہن لئے ہوں۔
جبین نے گہرے گلابی رنگ کا غرارہ پہنا تھا جبکہ صفورہ نے گہرے آتشیں رنگ کا انار کلی پہنا تھا ۔اسی طرح اس کی دوسری کزنز بھی شوخ رنگ پہنے، گجرے ،مہندی لگائے ایک الگ دنیا کی باسی لگ رہی تھیں۔
’’ ارے یہ اپنی انشا ہے ۔ کیوں بھلا تمہیں کس نے کہا تھا یوں ماتمی رنگ پہن کر آ گئی۔ ‘‘ جبین اس کی بہت پیاری دوست تھی اسے یوں دیکھ کر چڑ گئی تھی۔
’’ ارے لگتا ہے وہ عمر جہانگیر کا چالیسواں ابھی نہیں ہوا،کیوں انشا ۔ ‘‘ فرح ہنس کر بولی تھی ۔اس کا عمر جہانگیر کے لیے پھوٹ پھوٹ کر رونے کا سب کو علم تھا۔
’’ اب بس کرو تم لوگ ۔ آتے ہی میرے پیچھے پڑ گئیں ۔ ‘‘ انشا کا چہرہ خفت سے لال ہو گیا۔
’’ یہ امی بھی ناں‘ کیا پوری دنیا کو بتا دیا ہے عمر جہانگیر کے بارے میں۔ ‘‘وہ کونا دیکھ کر سمٹ کر بیٹھی تھی۔
’’ آج کل تم عمیرہ احمد کو پڑھ رہی ہو‘یہ تمہارا انگلش کلر کا سوٹ بتا رہا ہے ۔ ‘‘ دیبا نے اسے سر تا پا دیکھا تھا۔
’’میک اپ بھی کر لیا کرو لڑکی‘ بھلا بنا میک اپ کے د عوت میں کیسے آتے ہیں ۔ تم نے فنکشن ہال کی دیوار پر پوسٹر نہیں پڑھا ۔ ’’دعوت میں بنا میک اپ کے آنا منع ہے۔ ‘‘ فرحین نے ایک آنکھ بند کر ہنس کر کہا تھا۔
’’جرمانہ لگتا ہے۔ ‘‘فرحین نے پھر آنکھ ماری تھی۔
’’ توبہ کرو ۔ اس انشا کو میک اپ کا کہہ کر اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لینے جیسا ہے ۔ کچھ دن پہلے وہ مجھ سے کاجل پنسل پوچھ رہی تھی ۔ میں نے کہا ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا ہے لگا لو ۔ تو پتہ ہے کیا لگا کر نکلی۔ ‘‘دیبا ان سب کو دیکھ کر بتارہی تھی۔جبکہ انشا بیچاری شرمندہ سی بیٹھی تھی۔
’’ کیا لگا لیا تھا ۔ ‘‘ سب نے یک بیک پو چھیں۔
’’ آئی لائنر ۔ ‘‘ دیبا نے دھماکہ کے انداز میں کہا تھا۔
’’کیا…آیٔ لائنر کاجل کی طرح لگالیا۔‘‘
وہ سب حیرت سے چیخ پڑیں تھیں جبکہ صفورہ نے انشا کو دیکھا تھا۔
’’سیریسلی انشا،آیٔ لائنر…‘‘
’’مجھے کیا پتہ تھا ۔ وہ بھی تو پنسل نما ہی تھا تو میں سمجھی وہ کاجل پنسل ہے۔ ‘‘انشا نے مجرموں کی طرح سر جھکا لیا تھا۔
’’تم تو لڑکیو ں کا نام بدنام کر دوگئی انشا ۔ کون آئی لائنر کو کاجل کی طرح…توبہ…‘‘وہ سب اسے غصہ سے گھورنے لگی تھیں۔
’’ ہاں تو مجھے نہیں پتہ میک اپ کا ، کیا کروں ۔ تم لوگوں نے یہ جو کلو کے حساب سے میک اپ دھرا ہے وہ ہینڈل کیسے کر لیتی ہو ۔ اور اتنی بھاری بھرکم جیولری‘گردن جھک نہیں جاتی کیا ۔ ‘‘ اس نے بھی جوابی حملہ کر دیا تھا اپنی تمام کزنز پرجو سلیقے سے میک اپ اور ڈریسنگ کر کے آئی تھیں۔
’’جی نہیں ۔ اس طرح تو ہم مقابل کی گردن جھکا دینے پر قادر ہو جاتے ہیں‘کیوں ۔ ‘‘ فرحین نے پھر وہی لوفرانہ انداز اپنا یا تو وہ سب اس کی ہاں میں ہاں ملا نے لگیں۔
’’ہماری انشا کو انتظار ہے کہ کوئی ہیرو لمبے لمبے ڈگ بھر کر آئے گا اور ان کی سادگی پر فدا ہو جائے گا اور کہے گا’’معاف کیجیے محترمہ،یہ آپ کا رومال کر گیا تھا ‘‘ وہ ایک گلابی رومال دیتے ہوئے کہے گا ۔جو کہ سراسر بات کرنے کا ایک بہانا ہو تا ہے۔‘‘
’’اور نہیں تو کیا یا پھر’’محترمہ،یہ آپ کی کتاب میری کتابوں میں مل گئی تھی ۔ یہ اپنی کتاب رکھ لیں‘‘اور ہماری انشا شرما کر کہے گئی۔’’وہ کتاب نہیں ماہانہ ڈائجسٹ جی ‘ میں تو کورس کی کتابوں میں بھی ڈائجسٹ رکھ کر پڑھتی ہوں ۔ ‘‘ وہ سب ہنسنے لگی تھیں۔
’’یا پھر ہیرو لمبے لمبے ڈگ بھرتا آئے گا اور…‘‘
’’ارے ایک منٹ رکو،مجھے یہ تو بتاؤ یہ جو ہیرو لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہے وہ کیا ہوتا ہے۔ ‘‘ صبا نے بیچ میں جبین کو ٹوکا۔
’’ ارے کچھ ہوتا ہوگا جو وہ بھرتا ہے ہمیں کیا پتہ۔ اسی ہیرو سے پوچھ لینا یا پھر ڈائجسٹی رائٹرز سے‘ جن کا ہر ہیرو لمبے لمبے ڈگ بھر تے رہتا ہے ۔ ‘‘جبین کو یوں بیچ میں ٹوکنا زہر لگا تھا۔
’’ہاں‘ اور وہ چھ فٹا ہوتا ہے تو اس کے ڈگ بھی لمبے ہو ئے ناں‘ مطلب قدم…‘‘ دیبا دور کی کوڑی لائی تھی۔
’’ہاں‘ہیرو تو بس چھ فٹ ہی ہونا چاہیے ورنہ قیامت نا آجائے گی ان ڈائجسٹی رائٹرز کے لیے ۔‘‘
’’ ہیرو چھ فٹ کا نا ہوا تو وہ لمبے لمبے ڈگ کیسے بھرے گا ۔ ‘‘دیبا کی بات پر تو وہ سب انشا کو دیکھ کر ہنسنے لگی تھیں ۔ وہ لوگ تو اس کی ڈائجسٹی دنیا کے پیچھے پڑ گئیں تھیں ہاتھ دھوکر ۔
’’اور اگر ہیرو عمیرہ کا ہے تو سمجھو اس کے گال پر ایک گڑھا بھی پڑتا ہے ۔‘‘
’’بالکل اور اس گھڑے میں ہیروئن کو ہی گرنا ہو تا ہے ۔ بیچاری،دوسروں کے لیے کھود ے ہوئے گڑھے میں خود گر جاتی ہے۔ ‘‘جبین نے معنی خیزی سے کہا ۔
’’ارے اب تم لوگ انشا کو میک اپ تو کر دو ورنہ یہ پھر سے کچھ کا کچھ لگا کر بیٹھ جائے گی۔‘‘صفورہ کو خیال آیا تو اس نے انشا کو دیکھ کر کہا۔
’’ہاں، ان محترمہ کا کیا ہے۔لپ اسٹک کو آئی شیڈوز سمجھ کر آنکھوں پر لگا لیں ۔‘‘
جبین نے اب اس کا میک اپ کرنا شروع کیا تھا ۔ وہ گھر سے میک اپ کٹ لے کر نکلتی تھی ۔ انشا ان سب کے سامنے کچھ کہہ نہیں پاتی تھی ۔ ہلکے میک اپ کی تو وہ بھی قائل تھی ۔جبین اور دیبا نے اس کا میک اپ کر ڈالا تھا اور دوپٹہ سر کے کو نے پر سیٹ کیا تھا ۔جس میں وہ بھی کافی پرکشش لگ رہی تھی۔
’’چلیں اب ہماری انشا ، ریڈی ہے اپنے ہیرو کو ٹکر مارنے کے لیے ۔ اب بس کہیں سے تو ہمار ے ہیرو کی انٹری ہو‘ کیوں انشا۔ ‘‘ انہوں نے جھک کر اسے دیکھا تو وہ بری طرح جھینپ گئی۔
’’اب بس مجھے معاف کردو۔ ‘‘
’’ ارے چلو کھانا لگ گیا ہے۔‘‘ کسی نے اندر آ کر کر اطلاع دی تو وہ سب گرتی پڑتیں کھانے کے ٹیبلز کی جانب دوڑیں کہ دعوت کا مطلب کھانا بھی تو ہوتا ہے۔
٭…٭…٭
وہ تمام دسترخوان کی نعمتوں پر ٹوٹ کر حملہ آور ہو چکی تھیں ۔ سارے ادب آداب کو بالائے طاق رکھ کر ۔جب واپس ہال میں آئیں تو کسی کی لپ اسٹک ،چکن کے ساتھ شکم میں اتر چکی تھی اور کسی نے بریانی اور رائتہ کے ساتھ میک اپ پر بھی ہاتھ صاف کر لیا تھا۔چکن لیگ پیس کو کھاتے ہوئے تو یوں بھی چہرے کے زاویے بگڑ جاتے ہیں ۔اس کے ساتھ چٹخارہ دار چکن تندوری ہو تو آنکھوں کے پانی کے ساتھ مسکارا بھی بہہ جا تا ہے ۔اور اب ان سب کے چہرے ما بعد طوفان کے نظارے پیش کر رہے تھے۔
میک اپ کا ایک اور دور چل رہا تھا ۔بزرگوں نے تو انہیں ان کے حال پر ویسے بھی چھوڑ دیا تھا ۔ وہ سب ایک بار پھر میک اپ کے ’’جدید دور ‘‘سے گزر رہی تھیں ۔جب شریف بھائی وہاں آئے تھے۔
’’شادی حمنہ کی ہو رہی ہے یا تم لوگوں کی ۔ کیا دھرا دھڑ کریم پر کریم تھوپ رہی ہو تم لوگ ۔ ‘‘ وہ ان کے میک اپ پر سیخ پا لگ رہے تھے۔
’’ نہیں شریف بھائی‘ شادی تو حمنہ کی ہی ہو رہی ہے ۔ ہماری ایسی قسمت کہاں ۔ ‘‘ دیبا فیس پاؤڈر لگاتے مگن انداز میں بولی تھی۔
’’ اچھا،قسمت پر رو رہی ہو کہ…‘‘ مارے شرم کے شادی جیسا لفظ ان کے منہ سے نہ نکل سکا ۔ بس چہرہ لال پیلا ہو گیا۔چونکہ وہ صرف نام کے نہیں حقیقت میں بے حد شریف تھے۔ چہرہ پر شرعی داڑھی بھی تھی جس سے وہ بے حد رعب دار لگتے تھے۔
’’ نہیں شریف بھائی وہ تو اب فوٹو سیشن کے لیے تھوڑا اپنا حلیہ ٹھیک کر رہے تھے ۔ ایسی ویسی تو کوئی بات نہیں ۔ ‘‘ جبین نے دیبا کے ہاتھ سے پاؤڈر چھین لیا تھا اور اب دوپٹہ لے کر خود مشرقی لڑکی کی طرح سر جھکا گئی تھی۔
’’ ہمم ، ٹھیک ہے۔ ‘‘ وہ ان سب پر ایک تیز نظر ڈالتے چلے گیء تھے۔
’’ واہ رے قسمت‘ ہماری ڈائجسٹی رائٹرز کو ہینڈ سم نہایت سمارٹ سے کزن کہاں سے ملتے ہیں ۔ ایک ہمارے کزن موصوف ہیں جنہیں دیکھ کر ’’ابا ‘‘بولنے کو جی چاہتا ہے ۔ ‘‘ جبین بڑی دل سوزی سے اپنے دل کے پھپھو لے پھوڑ رہی تھی۔
’’شریف بھائی اور ابا…‘‘وہ پوری کی پوری قل قل ہنسنے لگی تھیں ۔چونکہ یہ خطاب شریف بھائی پر بہت فٹ لگ رہا تھا ۔
’’ اور کیا‘ایک شریف ہیں تو دوسرے حسیب ہیں ۔ جنہیں ہمیشہ کریانہ کی دکان اور اس کے حسابوں سے فرصت نہیں ملتی ۔ کہاں ڈائجسٹ کے خوبرو سے کزن جو خوش قسمتی سے اچھے عہدوں پر بھی فائز ہو تے ہیں اور دولت مند بھی ۔ ایک ہمارے کزن ہیں… ‘‘
’’پتہ ہے پر سوں بڑی امی ‘ امی کو بتا رہی تھیں کہ حسیب بھیا تو کاروبار میں اتنے غرق رہتے ہیں کہ نیند میں بھی الایچی ،گرم مصالحہ کی پڑیا بناتے رہتے ہیں اور زور زور سے پکارتے ہیں۔ایک چھٹانک شاہ زیرہ، آدھا چھٹانک دار چینی۔‘‘
وہ یہ سب سن کر حیران ہو گئیں تھیں۔
’’ یا اللہ خیر،ہمیں ان دونوں’’ شریف برادران سے بچا ۔ ‘‘ان سب نے اجتماعی انداز میں دعا کی تھی اور ہنس کر ایک دوسرے کو آمین کہا تھا۔
انشا کے لیے بھی یہ سب نئی باتیں نہیں تھیں ۔ وہ واقعی اب تک اپنے آپ کو ہی ہیروین سمجھ کر مسکراتی رہتی تھی لیکن اب اسے بھی ایک عدد ہیرو کی شدید ضرورت محسوس ہو نے لگی۔
’’ یہ بات تو سوفیصد درست ہے کہ جہاں ہیروئن ہو وہاں ہیرو نہ ہو ۔یہ کیسے ہو سکتا ہے اور آج کل وہ ایک عدد ہیرو کو اپنے آس پاس تلاش کرنے لگی تھی ۔اب بھلا ہیرو کی انٹری کیسی ہو گئی وہ سوچنے لگی۔ اور اپنے دماغ پر زور ڈالنا چاہ رہی تھی مگر پھر سوچا۔
’’ ارے ہیرو کو آنا ہو گا تو خود ہی آجائے گا میں کیوں دماغ پر زور ڈالوں‘اونہہ…‘‘
لیکن ایک انتظار سا ہو نے لگا کہ کہیں سے تو وہ آ ئے گااور کہے گا۔
’’انشا،آپ تو بالکل ویسی ہی ہو جیسا میں نے سوچا تھا ۔ ‘‘
اب اس نے کیا سوچا ہو گا یہ تو اسے ہی معلوم ہو گا ۔بیچاری انشا تو اس سے لاعلم ہی ہو گئی۔
’’ ہائے ‘پتہ نہیں وہ کب آئے گا۔‘‘ دعوت سے واپس آکر آج کل وہ بس ایک ہیرو کی انٹری کا خواب ہی دیکھ رہی تھی۔
’’انشا،انشا، ذرا باہر آؤ ۔ ‘‘ امی اسے پکار رہی تھیں۔ وہ جو ہیرو کی انٹری سوچ رہی تھی ایک دم چونک گئی۔
’’ کیا ہوا امی ۔ ‘‘
’’ ارے،ذرا دروازہ پر دیکھو ۔دستک ہو رہی ہے۔ ‘‘
( ہائے کہیں وہ ہیرو ہی نہ ہو مگر اتنی جلدی آگیا؟)
وہ بھاگ کر گئی تھی ۔ اور جھٹ سے دروازہ کھولا تھا۔
’’ جی بی بی،کتنا لیٹر دودھ دوں ۔‘‘ وہاں دودھ والا اپنی بڑی بڑی مونچھوں کے ساتھ کھڑا تھا۔
’’ میں برتن لاتی ہوں۔‘‘ وہ اسے گھور کر واپس کچن میں چلی گئی تھی۔
’’ کون تھا۔‘‘
’’ امی،دودھ والا تھا ۔آپ تو ایسے آواز دے رہی تھیں مجھے میں تو سمجھی تھی کہ…‘‘ اس کی بات ادھوری رہ گئی تھی۔
’’ تو تم کیا سمجھیں تھیں بھلا ۔ یہ وقت تو دودھ والے کا ہی ہوتا ہے۔ ‘‘ امی نے اسے حیرانی سے دیکھا۔
’’ ہاں ہاں وقت تو بس دودھ والے ،چا ئے والے کا ہی چل رہا ہے ۔ پتہ نہیں ہمارا وقت کب آئے گا۔‘‘ وہ برتن میں دودھ لے کر دروازہ دھاڑ سے بند کر چکی تھی۔
دودھ والا بے چارا تو اس دھاڑ پر پریشان سا ہو گیا کہ آج چھوٹی بی بی نے ایسا کیوں کیا۔اسے کیا معلوم چھوٹی بی بی منہ بسورے اپنے کمرے میں ہیرو کی انٹری کے نت نئے خواب دیکھ رہی ہیں۔