ڈائجسٹ ریڈر : نازنین فردوس
’’ مالا ۔‘‘ ماہر فرید اسے روک رہا تھا ۔ اس کے ہاتھ میں پھولوں کا بکے تھا۔
’’ نہیں،مجھے روکنا مت ‘ میں جارہی ہوں ۔ ‘‘ وہ اب آگے بڑھ رہی تھی ۔اس کی باریک ہیلز کی کھٹ کھٹ دور تک سنا ئی دے رہی تھی۔
’’ میں جانے والوں کو روکتا نہیں ۔ ‘‘ ماہر فرید کی آواز اس کے کانوں میں سنا ئی دینے لگی۔
’’ اے،انشا…اٹھو،انشا ۔ ‘‘ کوئی اب اس کو جھنجھوڑ رہا تھا ۔
’’ ماہر فرید،اسے روک لوپلیز‘ زیاد نے کالا جادو کروایا ہے مالا پر ، اسے روک لو ۔ ‘‘ وہ اب نیند میں بڑبڑا رہی تھی کہ امی نے یکایک زور سے اس کا کمبل کھینچا۔
’’انشااٹھتی ہے کہ…‘‘ ان کی دل دہلانے دینے والی آواز پر وہ اٹھی تھی۔
سامنے امی اسے خونخوار نگاہوں سے گھور رہی تھیں ۔ ان کے ہاتھ میں اس کا کمبل تھا۔
’’ امی ، وہ ماہر فرید…‘‘ وہ کچھ بولتی امی نے ہاتھ اٹھا کر روک دیا۔
’’پڑوس کی جمعہ خالہ آئی ہیں ۔ چائے بنا کر لاؤ۔ ‘‘
’’ ہائے جمعہ خالہ اتوار کو کیوں آ رہی ہیں ۔ ‘‘ اس نے منہ پھاڑ کر جماہی لی تھی۔
’’ وہ جمعہ کو آئیں یا اتوار کو ان کی مرضی‘ ساری باتیں بعد میں کرنا سمجھیں۔‘‘وہ ایک تیز نظر اس پر ڈال کر اندر چلی گئیں تھیں۔
’’یہ امیاں بھی ایسی ہوتی ہیں ناں ۔ کیا تھا اگر کچھ دیر بعد اٹھاتیں ۔ ماہر فرید کیا پتہ مالا کو روک دیتا اور زیاد سے شادی نہ کرنے دیتا ۔ اونہہ سارے خواب ادھورے ہی رہ جاتے ہیں ۔ وہ جلتی کڑھتی چائے بنا چکی تھی اور اب ڈرائینگ روم کی جانب قدم بڑھا چکی تھی۔
’’ اب کیا بتاؤں بہن۔ہماری صفیہ کتنی پریشان ہے۔اس کے ساتھ اتنے عجیب وغریب واقعات ہو رہے ہیں کہ کیا بتاؤں ۔ اس کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں رہ رہی ۔سر درد تو عام بات ہو گئی ہے اور دل کی گھبراہٹ الگ ۔اب تم ہی بتاؤ کیا کریں اس کا ۔ پتہ نہیں میری بچی کو کیا ہو گیا ہے ۔‘‘ وہ آہ بھرتے ہوئے بولیں۔
’’خالہ،آپ کی بیٹی پر ضرور نگینہ سرکار نے کالا جادو کر وایا ہے ۔‘‘ وہ امی کی تیز نظروں کی پرواہ کیے بغیر چا ئے اندر لا تے بولی تھی۔
’’نگینہ سرکار…یہ کون ہے ۔ ‘‘ خالہ پریشان ہو ئیں۔
’’ ارے آپ نگینہ سرکار کو نہیں جانتیں، زیاد کی ماں ۔‘‘اس نے ان کی لاعلمی پر از حد مایوسی ظاہر کی۔
’’ زیاد…کون زیاد۔‘‘خالہ تو حق دق اسے دیکھنے لگیں۔
’’اف خالہ… ‘‘اس نے اپنے سر پر ایک ہاتھ مارا۔
’’کتنی بھولی ہیں آپ ۔زیاد جس نے کشمالہ پر جادو کروایا تھا۔‘‘
’’کشمالہ،اب یہ کشمالہ کون ہے ۔ میری بیٹی کا نام تو صفیہ ہے۔ ‘‘خالہ بیچارگی سے بولیں تھیں۔
’’ارے کشمالہ، حور جہاں کی بیٹی کشمالہ اب آپ یہ مت پوچھنا کہ حور جہاں کون۔‘‘ اس نے اب ہاتھ اوپر اٹھا لیے تھے۔
’’یہ کس حور جہاں کی بات کر رہی ہے ہاجرہ۔‘‘اب انہوں نے امی کو رحم بھر ے انداز میں دیکھا تھا۔
’’خالہ وہ حور۔ ‘‘
’’اب جاتی ہو کہ اٹھاؤں چپل ۔ ‘‘ امی دھاڑیں تو ان کے غصہ سے ڈرتی باہر آگئی تھی۔
’’ لو بھلائی کا زمانہ ہی نہیں رہا ۔ جمعہ خالہ کو جمعہ ہی کو آنا چاہیے اتوار کو نہیں ۔ورنہ اس طرح میرا اتوار برباد نا ہوتا ۔ امی نے تو بات ہی نہیں کرنے دی ۔‘‘ وہ بڑے قلق سے سوچتی اپنے کمرے میں آگئی ٔ تھی ۔
تو یہ تھی انشا رحمن…
ایک ڈائجسٹ ریڈر جسے ڈائجسٹ پڑھنے کاجنون تھا ۔ وہ اس وقت سے ڈائجسٹ پڑھ رہی تھی جب اسے ابھی ڈائجسٹ کے معنی بھی معلوم نا تھے ۔ اسے جہاں جہاں ڈائجسٹ ملتا وہ پڑھنے بیٹھ جاتی ۔ اپنے گھر کے ماہانہ ڈائجسٹ تو وہ دو دن میں ڈائجسٹ ختم کر دلیتی بقول امی کے پڑھتی ہے کہ چاٹتی ہے ۔کتابی کیڑا ہمیشہ کتاب میں ہی رہتا ۔ باہر کی دنیا سے اسے قطعا دلچسپی نہیں تھی۔
گھر کے کام اسے ویسے بھی پسند نہیں تھے ۔ ہاں البتہ جب ڈائجسٹی ہیروین اپنے کمرے یا صحن کو پوری دل جمعی سے جھا ڑو لگاتی تو ہماری انشا کو بھی اپنا کچن، صحن صاف کرنے کا خیال آ جاتا اور وہ بھی جھاڑن لئے گھر کی صفائی اور جھاڑ پونچھ کو نکل جاتی ۔ایسے میں امی حسب حال را ئے دیے جاتیں۔
’’ آج کیا نگہت عبداللہ کو پڑھا ہے جو گھر کی صفائی میں لگ گئی ہو۔‘‘
اگر اس کی ہیروئن شرارتیں کرتی گھر میں دھمال مچاتی تو یہ محترمہ بھی خوامخواہ گھر میں کودتی پھرتیں۔
’’لگتا ہے رخ چودھری کو پڑھ رہی ہے ۔ ‘‘ امی اس پر کڑی نظر ڈالتیں مگر اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔
اسے خود بھی پتا نہیں تھا کہ وہ ڈائجسٹ کی دنیا میں رہ رہی ہے ۔ اور اسی کے اثر میں وہ ہر کام کر رہی ہوتی ہے ۔ اس کی ہیروئن پکوان کرنے کی شوقین کچن میں گئی تو یہ بھی چلی گئی ۔ اگر ہیروئن کو پڑھنے کا خبط ہوتا تو یہ بھی پڑھنے میں طوطے کو مات دینے لگتیں۔دماغ تو جتنا تھا مگر رٹو طوطا بن کر اس نے کون سے امتحانات پاس کر نے تھے۔
اگر ہیروئن صاحبہ کو ہلکے رنگ پسند تھے تو ان محترمہ کی وارڈروب ہلکے رنگ کے کپڑوں سے بھر جاتی ۔ اور سارے گہرے رنگ کے کپڑے ماسی کی نذر ہو جاتے جس پر امی کا واویلہ تو بنتا تھا۔
’’کیا زہر ہوگئے ہیں کپڑے‘ایک دو بار تو پہنے تھے۔‘‘
’’امی اتنے گہرے رنگ‘اور شوخ سے رنگ ۔ میں نہیں پہنوں گی بالکل گاؤں کی گنوار لگوں گئی۔‘‘
’’کس نے کہا گہرے رنگ صرف گنوار لوگ پہنتے ہیں ‘‘امی کی جان جل جاتی۔
’’امی،وہ پر سوں ہی تو ایک ہیروئن نے یہ کہا تھا کہ شوخ رنگ بالکل نہیں پہننا سو بر رنگ پہننے چاہیے ۔ اچھا اثر پڑتا ہے۔‘‘
’’کس پر۔‘‘امی کو جلال آیا۔
’’ہیرو پر اور کس پر…‘‘یہ کہتے ہوئے امی کو دیکھا تو وہ اسے خشمگیں نظروں سے گھورنے لگیں تو جلدی سے بات بدل دی۔
’’ یعنی کپڑوں کا اچھا ذوق رکھنے والی خواتین ہلکے رنگ کے کپڑے پہنتی ہیں۔‘‘
’’اور جو مجھ جیسی خواتین گہرے سبز ،سرخ یا جامنی پہنے تو بالکل جنگلی نظر آتی ہیں‘ ہے ناں۔‘‘ امی پر غصہ چڑھنے لگتا۔
’’ارے امی،آپ کا کیا ہے آپ کی تو عمر ہی ہو گئی ۔ آپ کچھ بھی پہن لیں‘چل جاتا ہے۔‘‘ وہ آرام سے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنسی لیکن امی کے تاثرات اتنے ناقابل فہم تھے کہ ڈر کر وہاں سے کھسک لینے میں ہی اس نے عافیت جانی۔
امی کا ماتھا تو ایک سال بھر پہلے اس وقت ٹھنکا تھا جب وہ سونے جا رہی تھیں اور انشا کی سسکیاں انہیں سنائی دیں۔
’’آے ہائے کیوں رو رہی ہو ۔ ‘‘ وہ اس کے قریب چلی گئی تھیں جو دونوں پیر اور ہاتھ ایک دوسرے سے لپٹے چہکوں پہیوں رونے میں مشغول تھی۔
’’ امی،وہ عمر تھا ناں وہ مر گیا۔ ‘‘ ان کے پوچھنے کی دیر تھی انشا اب دھاڑیں مار کر رونے لگی ۔
’’ یا اللہ عمر مر گیا اور ایسے کیسے مر گیا ۔ ابھی پرسوں تو ڈسچارج ہو کر آیا تھا ۔ تمہاری پھپھو بتا رہی تھیں ۔ اور تم یہ کیسے بات کررہی ہو۔وہ پندرہ سال بڑا ہے تم سے شادی شدہ ہے اور…‘‘
’’ امی،وہ عمر بھائی کی بات نہیں کر رہی تھی میں ۔ وہ تو بیچارے صحت مند ہیں ۔ میں امر بیل کے عمر کی بات کر رہی تھی ۔ ‘‘
امی کی تیز چلتی زبان کو بریک لگانے کی کوشش کرتی وہ جلدی بول پڑی تھی۔
’’ کونسا بیل…‘‘امی کو پریشانی میں خاک پلے نا پڑا۔
’’ عمیرہ احمد کے ناول کا ہیرو…‘‘ اس نے اب شرمندگئی سے اپنا سر جھکایا۔
’’اوہ ہو‘اچھا اچھا…‘‘ امی نے ایک قہر آلود نظر اس پر ڈالی(انہوں نے جب پڑھا تھا تب وہ بھی ایسے ہی روئی تھیں)
’’میت کب کرہے ہیں وہ لوگ ۔ ‘‘ انہوں نے ٹھنڈے لہجے میں پوچھا۔
’’جی…‘‘وہ کچھ حیران ہو کر انہیں دیکھنے لگی۔
’’بھئی،جب وہ مر ہی چکا ہے تو تدفین وغیرہ بھی کر رہے ہو ں گے تو کیوں نا جا کر پرسہ ہی دے آئیں تمہاری عمیرہ احمد کو… ‘‘ انہوں نے ’’تمہاری ‘‘پر زور دے کرکہا تو وہ شرمندہ ہوئی۔
’’امی آپ بھی‘ ذرا رحم نہیں ہے آپ کے پاس ۔ کوئی مرے یا جیے آپ کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ‘‘
’’ہاں۔اب میری رحمدلی کے حقدار یہ افسانوی کردار ہی رہ گئے ہیں ۔اب دیکھنا انشا۔تمہارے بابا سے کہہ کر یہ ڈائجسٹ بند نا کر وایا تو میرا نام بدل دینا ۔‘‘ ان کاغصہ ساتویں آسمان پر چڑھ گیا تھا۔
’’بانو آپا ٹھیک رہے گا۔‘‘ اس نے چڑانے والے انداز میں انہیں دیکھا تو وہ اسے مارنے دوڑ یں تھیں۔
٭…٭…٭
اس دن واقعی میں امی سنجیدہ ہو گئیں تھیں ان ڈائجسٹ کو بند کرنے کے لیے ۔ شام میں بابا نے جیسے ہی کھانا ختم کیا اور انشا چائے بنانے چلی گئی ا نہوں نے اپنی بات کا آغاز کیا۔
’’ دیکھیں‘یہ ہماری انشا پر ڈا ئجسٹ پڑھنے کا جنون چڑھ گیا ہے ۔اس کی دنیا تو ڈائجسٹ سے شروع ہو کر ڈائجسٹ پر ختم ہو رہی ہے ۔ حد سے زیادہ ہی خیالی دنیاؤں میں رہنے لگی ہے ۔ ہمہ وقت ان ناول نگاروں کو سوچنا یہ اچھی بات تو نہیں۔‘‘
’’ واقعی میں اچھی بات نہیں ہے لیکن بیگم مجھے یادہے نئی نئی شادی ہوئی تھی تو آپ پر بھی اتنا ہی جنوںسوار رہتا تھا۔‘‘
’’ہاں تو مجھے وہ غلط کام لگا تو بعد میں کم بھی تو کردیا تھا ۔ اب چاہتی ہوں میری بیٹی ایسی نہ ہو۔‘‘
’’ایسا کرتا ہوں کیبل اور ڈائجسٹ دو نوں بند کر دیتا ہوں ۔ دونوں ماں بیٹی کافی سدھر جائیں گئی ۔ ‘‘ بابا نے گاؤ تکیہ سے سر ٹکا دیا تھا۔
’’ ہیں کیبل… کیبل کا ڈائجسٹ سے کیا تعلق ۔ ‘‘ امی گویا تڑپ گئیں۔
’’ بھئی جب ڈائجسٹ بچی کو بگاڑ رہے ہیں تو کیبل بھی تو عورتوں کو بگاڑ رہا ہے ۔ یہ جو ٹی وی کے ڈرامے آپ دیکھتی ہیں وہ بھی خواتین کو سازش کرنا سکھا رہے ہیں ۔ تو صرف ڈائجسٹ کیوں بند ہو۔‘‘ بابا کی بات پر انشا نے’’ہرے‘‘ کے انداز میں ہاتھ لہرائے تھے۔
’’ میں اس عمر میں ڈرامے دیکھ کر بگڑوں گی۔ کچھ خیال ہے آپ کو آپ کیا کہہ رہے ہیں ۔ ‘‘ امی گو کہ ڈراموں کی شیداء تھیں مگر ان کو بدنام بھی نہیں کرنا چاہتی تھیں۔
’’ کیا ان بے ہودہ ڈراموں سے بہتر نہیں ہیں ڈائجسٹ جو اس کو کم از کم زندگئی کا ڈھنگ تو سکھا دیتے ہیں ۔ اگر وہ ہیروئن کو دیکھ کر ہیروئن جیسا کچھ کرتی ہے تو کیا برا ہے ‘ کرنے دو۔ کچھ اچھا ہی کرے گئی ۔ اسی لیے تو ڈائجسٹ کی ہیروین کو بہت پرفیکٹ بتایا جاتا ہے تاکہ لڑکیاں کچھ زیادہ نہیں تو کچھ کم تو ان جیسی بن جائیں گئی ۔ اس لیئے میرے خیال میں اب نو آرگئیومنٹ ۔ ‘‘ بابا نے بات ہی ختم کر دی تھی۔
انشا مسکراتے چائے لائی تو ساتھ ہی اس نے بابا کو دونوں ہاتھوں سے وکٹری کا نشان بنایا جسے دیکھ کر وہ مسکرا دیئے تھے ۔ امی تو اپنے کیبل کی جان بخش جانے پر خوش تھیں ۔ اس لیے اس پر ان کا دھیان ہی نہیں گیا تھا۔ یوں محترمہ انشا کو بابا کی جانب سے مکمل اجازت مل گئی تھی کہ وہ جتنی خوابوں کی دنیا میں رہنا چاہتی ہیں رہ لے ۔کوئی مضائقہ نہیں ۔ آخر ڈائجسٹ کی دنیا اتنی بری بھی نہیں ہو تی۔
٭…٭…٭
امی کی ایک خالہ ذاد بہن کی بیٹی کی شادی تھی ۔ انہوں نے اسے شادی میں چلنے کے لیے کہا تھا ۔ اور وہ اب کپڑے لے کر بیٹھی تھی ۔ ایک بے حد شوخ رنگ شاکنگ پنک سوٹ جس پر ہیوی ورک تھا نکالا اور امی کو بتایا۔
’’ یہ پہن لوں۔ ‘‘
’’ہاں‘ بہت اچھی لگو گی ۔‘‘ امی کی تو بانچھیں ہی کھل گئیں۔
’’ جی،اس تپتی گرمی میں یہ بھڑکیلا سوٹ پہنوں گئی تو شعلہ جوالہ لگوں گئی ۔ ‘‘ اس نے جلدی سے اس ڈریس کو سائیڈ پر رکھا۔
’’ تو مجھ سے پوچھا ہی کیوں ۔ ایسے پوچھا جیسے فرمانبردار سی بیٹی ہو۔‘‘ امی حسب توقع بھڑکی تھیں۔
’’ مجھے آپ کا رد عمل دیکھنا تھا ۔ کیسی بانچھیں کھل گئیں تھیں یہاں سے وہاں تک ۔ ‘‘ وہ ان کی کیفیت کا مزا لیتی اب دوسرا سوٹ نکال رہی تھی۔
’’ ہونہہ،اب پہنوگی وہی پھیکے سڑے سے رنگ کے کپڑے ۔جو خود پر کھلتے بھی نہیں۔ ‘‘وہ اب بیزاری سے اٹھنے لگی تھیں۔
’’ انگلش کلرز ہوتے ہیں وہ پیاری امی ۔ ‘‘ اس نے ہلکا سرمیٔ رنگ کا سوٹ نکالا تھا۔
’’ اس منحوس رنگ کے کپڑے تو پہنو ہی مت ۔ چوہیا سے کم نہیں لگو گی ۔‘‘ اس رنگ کے سوٹ کو دیکھتے ہی ان کا پارہ چڑھا۔
’’تو سیاہ کیسا رہے گا ۔ بڑی منفرد لگوں گئی میں ۔ بالکل ڈائجسٹ کی ہیروئن کی طرح ۔ ‘‘ اس نے سیاہ کامدانی کا سوٹ خود پر لگا کر کہا۔
’’ہاں، پچھلی بار چلی تھیں نا سر سے پیر تک سیاہ پہن کر کیا ہوا‘یاد نہیں۔‘‘