چھ گز کا فاصلہ: سنیعہ عمیر
میں پچھلے کئی مہینوں سے آئینے کے سامنے بیٹھ کر اپنا چہرہ تکتی تھی کہ شاید آئینہ بول پڑے کہ میرے چہرے پر غیر معمولی روپ آ گیا ہے۔ میری جلد ترو تازہ ہوگئی ہے اور آنکھوں کے نیچے موجود ہلکے غائب ہو گئے ہیں۔ مگر آئینہ خاموش رہا۔ مگر آج جب میں نے آئینے سے کوئی سوال بھی نہیں کیا نہ ہی آئینے کے سامنے آنے کا مقصد پہلے ساتھا مگر آج آئینہ گویا چیخ رہا تھا کہ میں بہت حسین لگ رہی ہوں اور میرے چہرے پر ایک غیر معمولی نور ہے ۔ میں نے احتیاط سے اپنی ساڑھی کو کندھے پر ٹکا یا ‘ یہ اس ساڑھی کا ہی کمال تھا شاید کہ آئینہ بھی میرا عکس دکھا کر خود پر ناز کر رہا تھا ۔
جب چھ سال پہلے میں نے یہ ساڑھی پہلی بار پہنی تھی تب داستانوں کی حسین شہزادی کی مانند میں جان محفل بنی ہوئی تھی ۔ وہ میری باجی کا ولیمہ تھا اور ساڑھی کے لئے میں نے کئی دن اماں کی منتیں کی ، خدمتیں کی اور پھر بھی بات نہ بنی تو غصے میں بول چال بند کر دی کہ ساڑھی نہ بنی تو میں آپا کے ولیمے میں ہی نہیں جاؤں گی ۔ تب تک جب تک اماں نے ہتھیار نہ ڈال دیئے،میرا غصہ جاری رہا۔
آج چھ سال بعد میں نے وہ ساڑھی دوسری بار پہنی تھی اور حقیقت میں مجھے پہلی بار پہننے سے زیادہ دوسری بار پہننے کا انتظار تھا ۔
’’ضد کر کے تم نے ساڑھی بنوا تو لی ہے مگر دیکھنا ولیمے کے بعد ٹرنک میں بند ہو کر رہ جائے گی ۔‘‘ باجی نے کہا تھا۔
’’اتنی تو خوبصورت ساڑھی ہے میرا تو بس چلے ہر جگہ اس کو ہی پہن کر جاؤں۔‘‘
’’بس دل ہی نہ کرتا رہ جائے ۔‘‘
’’دیکھنا میں آپ کے ولیمے کے اگلے مہینے ہی پہنوں گی ۔ حاجرہ پھو پھوعون بھائی کے لئے لڑکیاں دیکھ رہی ہیں ۔ اُن کی منگنی پر میں دوبارہ یہ ساڑھی پہن لوں گی بلکہ میں اسی ساڑھی کو پہن کر شان سے عون بھائی کی بارات لے کر جاؤں گی۔‘‘میں نے باجی کو دیکھ کر کہا۔
٭…٭
’’بڑا بول نہیں بولنا چاہئے آگے آجاتا ہے۔‘‘ باجی شادی کے بعد مری کی سیر و تفریح سے آئی تھی۔
’’ میں نے کبھی بڑا بول نہیں بولا ۔‘‘ میرا موڈ چند دنوں سے خراب تھا۔
’’کہا نہیں تھا کہ یہ ساڑھی پہن کر عون بھائی کی بارات لے کر جاؤں گی مگر افسوس تم بارات نہیں لے کر جا سکو گی ۔ بارات تو وہ لے کر آئیں گے تم کو بیاہنے کے لئے۔ ‘‘
پھر بہت دیر وہ اپنی خوشگوار زندگی کے پہلو بتا کر میرا موڈ ٹھیک کرتی رہیں اور مجھے قائل کرتی رہیں۔
عون سے شادی ہوگئی اور پتہ چلا وہ مجھے پسند کرتے تھے۔
ایک ایک کر کے زندگی کے کئی در کھلنے لگے ۔ مجھ پر کئی انکشافات ہوئے ۔ میں نے جانا کہ خدا کے علاوہ اگر کسی کو سجدہ کرنے کی اجازت ہوتی تو کس کو ہوتی اور کیوں ہوتی۔ خوشی کیا ہوتی ہے، بے فکری کس کو کہتے ہیں اور جب کسی کو دل دیا جاتاہے تو کس طرح وہ آپ کے دل میں جنم لینے والی ہر خواہش ہر وسوسے کو آپ سے پہلے جان لیتا ہے ۔
چار سال میں آنچل بھر بھر کے خوشیاں سمیٹتی رہی اور اس میں اتنی مگن ہوگئی کہ گود خالی ہونے کا احساس ہی نہ ہو ا۔
پھر گھر والوں کے رویے، لوگوں کے سوالات اور اجنبی نظروں نے تمام احساسات جگا دیئے اور ہر محرومی کچوکے لگانے لگی۔
زندگی میں علاج معالجہ، دوائیاں، خوراک کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا ۔ وہ سلسلہ ایسا تھا جیسے کسی اناڑی کو ان سلا چھ گز کپڑا دیا ہو کہ اس کی ساڑھی پہنو اور وہ ناسمجھ ایک سرے سے دوسرے سرے تک کا فاصلہ سمجھنے کی تگ و دو کر رہی ہو ۔ کبھی ایک طرف سے پکڑو تو دوسری طرف سے چھوٹ جاتی ۔ کبھی فال بنانے کے لئے لپیٹو تو کندھے پر ڈالنے کیلئے نہ بچتی ۔ امید کی طرح بندھتی پھر چکنا چور ہو جاتی پھر بندھتی دوبارہ بکھر جاتی ۔ میں بھی اپنی قسمت کے چھ گز کے کپڑے سے الجھ کر نڈھال ہوگئی جب ڈاکٹر نے کہا۔
’’بعض اوقات سائنس کی نظر میں جو چیز ناممکن ہوتی ہے وہ خدا ممکن بنا دیتا ہے۔ وہ چاہے تو معجزے ہو جایا کرتے ہیں آپ بس اب اس سے دعا کریں۔‘‘
اور شادی کے چار سال بعد جب کوئی اُمید باقی نہیں رہی تھی معجزہ ہو گیا ۔ میں کمرے کے دروازے میں کھڑی سن رہی تھی عون کی بہنیں، ماں باپ اپنے اپنے انداز میں اس کو دوسری شادی پر قائل کر رہے تھے اور وہ آگے سے خاموش تھا ۔ یہ معجز نہیں تھا تو اور کیا تھا ۔ میں بیاہ کر اس گھر میں آئی تھی پر پچھلے کچھ مہینوں سے میں اپنے کمرے میں محدود ہو کر رہ گئی تھی تو یہ کمرہ بھی مجھ سے چھننے والا تھا ۔ اپنے سامنے میں اپنی زندگی کا بٹوارہ کرنے کے ارادے دیکھ رہی تھی اور خاموش رہی یہ بھی ایک معجزہ ہی تھا۔
وہ آہستگی سے کمرے میں داخل ہو کر میرے پاس بیٹھ گئے ۔
’’ تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ میرے دل میں جو مقام تمہارا ہے کسی اور کا کبھی نہیں ہو سکتا۔‘‘
میرے دل سے جیسے سارے بوجھ اتر گئے۔
’’ میری بیوی اور اس گھر کی بہو ہونے کا اصل حق صرف تم ہی کو ہے۔ دوسری جو بھی آئے گی۔ اس کی وہ حیثیت کبھی نہیں ہوگی۔‘‘
میری آنکھوں سے روانی سے آنسو بہنے لگے۔
’’سب کی مجھ سے بہت کی اُمید میں وابستہ ہیں میں اُن کے ارمان کیسے تو ڑسکتا ہوں میں سب سے لڑ نہیں سکتا۔‘‘
سب لوگ تو تب بھی ویسے ہی تھے جب ان سے لڑ کر آپ نے مجھے اپنی زندگی میں شامل کرنے پر قائل کیا تھا۔
’’زندگی بے رحم ہوتی ہے۔ اس میں اگر رونق نہ ہو تو اس سے وحشت ہو جاتی ہے ۔ ‘‘
آپ میرے لئے میری زندگی ہیں مجھ سے بہتر زندگی کی بے رحمی کو کون سمجھ سکتا ہے اور میری زندگی میں ایسی رونق آنا چاہتی ہے جو اس کو وحشت ناک بنا دے گی ۔
’’اگر میری اولاد ہو گی تو تم بھی اُس کی اتنی ہی ماں ہو گی ۔ تم کو اس پر مکمل حق ہوگا وہ تمہاری زندگی کا مقصد بنے گا۔‘‘
کیا جب اس کو بھوک لگے گی تو میں اس کا پیٹ بھر سکوں گی ؟ جب وہ چوٹ لگنے پر روئے گا تو کیا رونے کے لئے میرے پلو میں آئے گا ۔ قیامت کے دن جب اس کو پکارا جائے گا تو کیا اس کے نام کے ساتھ میرا نام بھی جڑا ہو گا؟
’’تم میری محبت ہو اور ہمیشہ رہو گی۔ وہ صرف ضرورت ہوگی۔‘‘
جب پیٹ میں بھوک کی آگ ہو تو محبت کسی کو نہیں سوجھتی سب ضرورت کے پیچھے بھاگتے ہیں ۔ پھر ضرورت ہی محبت ہوتی ہے اور وہی جنون۔
’’ مجھے صرف آپ کی خوشی چاہیے۔‘‘ میں نے بہت دیر میں صرف یہ چند الفاظ بولے تھے۔
میں ان کے کندھے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور جس طرح پریشان ہو کر مجھے چپ کرواتے رہے اُس سے مجھے احساس ہوا کہ ان کے دل میں میری محبت ابھی قائم تھی ۔
آج مجھ میں اور میری نئی زندگی میں صرف چھ گز کا فاصلہ رہ گیا تھا ۔ میں تردد سے وہی چھ گز کا کپڑا اوڑھے اپنی دیرینہ خواہش پوری کرنے جا رہی تھی ۔ وہ خواہش ایسے پوری ہوئی کہ وہم و گمان میں بھی نہ تھا ۔ میں وہی ساڑھی پہنے شان سے عون کی بارات لے جانے کو تیار ہو گئی اور آئینے سے منہ موڑ کر وہ چھ گز کا فاصلہ طے کرنے لگی جو میری زندگی بدلنے والا تھا۔
ختم شد
Saniya afsane main Jan daal daiti hai. Mgr itna chota, thori tashnagi rah Gai hai.