چھپا کے چھئی : فرزانہ کھرل

’’ آپ کی کال آرہی ہیں۔‘‘ اس نے پکڑا ضرور‘مگر ریسیو نہیں کیا۔
’’آپ جب تک بات نہیں کریں گے ‘ یہ محترمہ ہمارا سکون غارت کرتی رہیں گی ۔‘‘ وہ منہ بنا کر خاصی ناگواری سے بولی۔
’’اوہ … تو محترمہ نام پڑھ چکی ہیں ۔ ویسے ذرا وضاحت تو فرمائیں، ان کی کال سے آپ کا سکون کیوں غارت ہو رہا ہے ۔‘‘ آنکھوں میں شرارت مچلی‘ بظاہر سنجیدگی سے پوچھا۔
’’ خالہ ابھی سوئی ہیں، مسلسل بجتی ٹون سے اٹھ بھی سکتی تھیں۔‘‘ فوراََو ضاحت دی۔
’’ تو یہ کہنا تھا کہ خالہ کی نیند خراب ہو رہی ہے۔‘‘ ہنوز سنجیدگی کی آڑلے کر بولا۔
’’درمیان میں اپنے سکون کو مت گھسیٹیں۔‘‘ سیدھا اس کی آنکھوں میں جھانک کر مسکرایا جو اسے گڑبڑانے کے لیے کافی تھا۔ وہ پاؤں پٹختی وہاں سے ہٹی۔
’’پتا ہے بھائی صبح یہ میسج پڑھ رہی تھیں کہ محبت کا بی پی انتہائی لو ہے ۔ کسی لمحہ بھی دم توڑاجاسکتا ۔ ‘‘ اذ ان کے فلک شگاف قہقہے نے دور تک اس کا تعاقب کیا ۔ دل تو چاہا پلٹ کر امن کی گردن مروڑ دے۔
’’ اور رات کی سنیں کیا مہارت سے پڑھا ۔ باہر والوں کے لیے خوش خبری کہ آدھی ہری‘ آدھی کالی لڑکیاں ایجاد کرلی گئی ہیں ۔‘‘ ان دونوں کے چھت پھاڑتے قہقہوں نے اس کے ہونٹوں پہ بھی مسکراہٹ دوڑا دی ۔ اس آنگن کی پر مسرت گھڑیاں کل سے ناواقف تھیں کہ آج کے بعد یہ سب خواب ہوجائے گا۔ کل کا سورج ان تینوں خالہ بھانجی کے لیے اچھا ثابت نہیںہونے والا تھا۔
٭…٭…٭
’’آج تو سورج سمجھو‘ اگلے پچھلے تمام حساب چکانے نکلا ہے ۔‘‘ منیر صاحب کی اس بات پہ اذان بڑے ہی محتاط اور محظوظ انداز میں ہنسا۔
’’کبھی نہ کبھی تو حساب چکانے کی باری آہی جاتی ہے۔‘‘ اور وہ جو پانی کا چوتھا گلاس فٹافٹ چڑھا رہا تھا۔ ہاتھ ساکت رہ گئے بغور اسے دیکھا۔
حنان کا بھانجا اسے ضرورت سے زیادہ ہی ہوشیار لگا تھا ۔ اسے دیکھتے ہی دل کوپتنگے سے لگ گئے تھے ۔ اونچا‘ لمبا‘ خوبرو دیکھنے میںبہت بارعب شخصیت کا مالک تھا ۔ دوپہر کے کھانے کے بعد اس کے اشارے پہ مدحت نے ہی بات شروع کی ۔ دونوں لڑکیاں بھی قریب ہی بیٹھی تھیں۔
’’میں نے اذان کو آج صبح کرائے کی وصولی کے لیے بھیجا تھا ، مگر انہوں نے کہا کہ تمہارے آنے تک گزشتہ برس کا حساب کلیئر نہیں ہو سکتا ۔ اس لیے آج اذان کو بھی ساتھ لے کر جانا اب ہم کرایہ ہر با دو صول کیا کریں گے۔‘‘ وہ بنا سانس روکے بولتی چلی گئیں۔ منیر کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑگئے۔ پھر توقف کے بعد ہونٹوں پر زبان پھیر کے بولا۔
’’ ہر ماہ وصولی کروگی تو بچت کیسے کر پاؤگی۔‘‘ بہن سے نگاہیں چرا کر کان کھجایا۔
’’پہلے کون سی بچت ہوتی ہے۔ گھر کا حال دیکھو۔ پرانا کھنڈ ر ہوتا جارہا ہے ۔سوچ رہی ہوں ‘ ہر ماہ کچھ مرمت وغیرہ کروالیا کروں گی۔‘‘
’’تو کیا اب گھر میں غیر مردوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔‘‘ وہ بہن کی بات کاٹ کر درشتی سے بولا۔ مدحت کو اس کی بات بُری طرح چبھی ، مگر وہ اصل موضوع سے ہٹنا نہیں چاہتی تھیں۔
’’ زمانے میں ہزاروں اکیلی عورتیں رہ رہی ہیں تو کیا وہ گھریلو کام کاریگروں سے نہیں کرواتی ہوں گی۔‘‘ تحمل سے جواب دیا۔
’’دکاندار کہہ رہے تھے ہم تو چونسٹھ ہزار رینٹ پچھلے دو سالوں سے دے رہے ہیں۔‘‘ مدحت نے اسے جلتے توے پہ بیٹھا ہی دیا۔ جس نے شعلہ بار نگاہوں سے اذان کو گھورا۔
’’تمام رقم تمہارے ہاتھ پہ رکھتا تو تم اور تمہاری بھانجیاں اللوں‘ تللوں میں اڑا دیتیں ۔ اس لیے محفوظ کرتا رہا ہوں۔‘‘ وہ انتہائی ڈھیٹ قسم کا بندہ تھا‘اتنی جلدی چھتری تلے نہیں آنے والا تھا۔
’’اور کیا کچھ محفوظ کرتے رہے ہیں آپ ۔ ‘‘ اذان نے آخر میدان میں کودنے کا فیصلہ کرہی لیا۔ اس نے بڑی گہری اور ٹھنڈی نظروں سے مسکرا کے اذان کودیکھا۔
’’یہ ہمارا آپس کا معاملہ ہے۔ تم اپنی زبان بندہی رکھو۔‘‘
’’یہ بھی گھر کا ہی بچہ ہے۔ ‘‘ مدحت مضبوطی سے بولیں۔
’’اتنے سالوں بعد ہمدردی کا بخار چڑھا کر آگئے ہو میاں رشتہ داری کا اب علم ہوا ہے‘ ہنہ…‘‘ وہ سر جھٹک کر ہنسا۔
’’مان لیا کہ دیر سے علم ہوا ہے مگر حساب آپ کے نو سالوں کے برابر کردیا ہے ۔‘‘ بے فکرے پن سے ہنس کر معنی خیز جواب دیا۔
’’مطلب کیا ہے تمہارا۔ ‘‘ منیر نے تیکھے ابروئوںسے پوچھا۔
’’نو سالوں میں آپ کے نو یا گیارہ چکر لگے ہوں گے اور مجھے اٹھارہ دنوں سے چند گھنٹے زیادہ ہو گئے تو حساب برابر سے زیادہ ہوا ناں۔‘‘ ذہین چہرہ…فطین آنکھیں … پر اسرار لہجہ… پر تکلف انداز‘ اب جاکر صحیح معنوں میں منیر صاحب کے چھکے‘ چوکے سب چھوٹتے نظر آئے۔
’’بے کار کی باتوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ کچھ کام کی کو بے بات بھی ہو جائے۔ ‘‘ پٹڑی بدل کے وہ ایک دم جیسے نئے اسٹیشن پر اترا۔
’’شادی کی تاریخ کیا فائنل کرنی ہے۔‘‘
’’کس کی شادی۔ ‘‘ اذان نے اچنبھے سے پوچھا۔
’’جہاں تک میری معلومات ہیں آپ کا ایک ہی بیٹا ہے اور وہ نہ صرف شادی شدہ بلکہ تین بچوں کا باپ بھی ہے ۔ ‘‘ پورے کا پورا ناظم آباد جڑ سے اکھڑ کے ان تینوں عورتوں کے سر پہ گرا تھا۔ منیر کے لبوں کو چھوتی مسکراہٹ اس پل اڑنچھو ہوئی۔ چہرہ گہرا زرد ہلدی جیسا۔
’’اگر یہ یہاں تک جانتا ہے تو اور بھی بہت کچھ اس کے علم میں آچکا ہو گا مجھے یوں اپنے حواس نہیں چھوڑنے چاہئیں۔‘‘انہوں نے سر جھٹکا۔
’’ اس میں جبران کی رضامندی شامل نہیں تھی ۔بلکہ اس نے مجبوری کے عالم میں اپنی کینسر سے مرتی خالہ کی آخری خواہش پہ سر جھکایاتھا۔ ‘‘
’’ یہ شخص تو میرے قیافوں سے کہیں زیادہ تیزہے ۔‘‘ غصے کی سرخی سے اس کی آنکھیں جلنے لگیں۔ وہ خبر سننے کے بعد عدن فوراََ وہاں سے اٹھ گئی، مگر امن اور مدحت ابھی تک بے یقینی سے اس کا منہ تک رہی تھیں۔
’’بس بہت ہو گیامنیر صاحب ۔‘‘وہ ایک دم اکھڑے لہجے میں بولا۔
’’ آپ ان معصوم بے خبر عورتوں کو اور کتنا دھوکا دیں گے۔‘‘ ضبط کے باوجود وہ بھڑک اٹھا۔
’’ آنٹی! انہوں نے ماموں کی گاڑی بیچی ہی نہیں تھی وہ ابھی تک ان کے استعمال میں ہے ۔ ‘‘مدحت کے گلے میں دکھ سے گر ہیںپڑنے لگیں ۔ منیرفق چہرے کے ساتھ پوری آنکھیں کھولے ثابت اذان نگلنے کو تیار بیٹھا تھا۔
’’ ماموںنے آدھا مربع زرعی زمین خرید رکھی تھی ۔ یہ شخص ہر سال اس زمین کا ٹھیکہ جو کہ سات سے آٹھ لاکھ تک ہے ہڑپ کر جاتا ہے ۔ ‘‘ حقیقتوں کا گرم تندور بہن اور خالہ کے ساتھ کھڑکی سے لگی عدن کو بھی جھلسا رہا تھا ۔ وقت اس قدر سفاکیت دکھلا رہا ہے ۔ رشتوں میں صرف میرا ‘ میری کا عالم ہے ۔ ساکت و جامد بیٹھے منیر صاحب کے لبوں نے کافی دیر بعد جو کچھ کہا وہ‘سب کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ وہ تو سوچ رہے تھے کہ وہ کچھ عذر پیش کرے گا کوئی ٹھوس جواز یا پھر مدلل دلائل سے انہیں قائل کرے گا۔
’’ تم سب کے بھلے کے لیے ہی ایسا کرتا رہا ہوں ۔ مستقبل میں سب عدن کے ہی کام آئے گا ۔ اگر سب کچھ تم لوگوں کے حوالے کر دیتا تو لالچی اور مطلب پرست رشتہ داروں کا تانتا بندھا رہتا یہاں ۔ پھر تم سب کو کھوٹے کھرے کی پہچان کیونکر ہوتی۔ ‘‘کوئی قاتل ڈاکٹر بھی ان چاروں سے اگر کہہ دیتا کہ وہ چاروں پاگل ہیں تو وہ بلا چوں و چرا مان لیتے‘ مگر…
’’سوچ لو مدحت ! آج کل لوگ تعلیم یافتہ لڑکیاں پسند کرتے ہیں‘ جب کہ ہماری بھانجی کا شمار ان میں نہیں ہے نہ کوئی ہنر ‘ نہ کوئی گن‘ پھر مان لیا گھر کے لالچ میں کوئی آبھی گیا تو دوسرے دن تمہیں اور امن کو باہر نکال پھینکے گا ۔ شادی کے بعد جبران پندرہ دن یہاں گزارا کرے گا ۔ لوگ جہیز میں معذور خالہ کا بوجھ نہیں لے کر جائیں گے۔ گھر کی بات ہے گھر میں نبٹ جائے تو…‘‘
’’بس منیر!‘‘مدحت نے چیخ کرہاتھ اٹھایا۔
’’بھلے عدن گھر میں بیٹھی رہ جائے‘ مگر اب نہیں۔ مجھے یتیم بچیوں کی ایک ایک پائی واپس چاہیے ۔ سیدھے سبھائو دے دو ورنہ پھر عدالتوں کے چکر لگاتے پھرنا اور یہ محض دھمکی نہیں۔‘‘مدحت کے چپ ہونے پر اس نے اذان کو قہر برساتی نظروں سے دیکھ کر یوں جوتا پہنا جیسے اے سی صاحب کو پاؤں میں پہنا ہو۔
’’میں دیکھوں گا‘ یہ لڑکا کب تک تمہارا ساتھ دے گیا۔ جس کی ماں تم دونوں بہنوں پہ تھوکتی بھی نہیں تھی۔ اس کی اولاد کو اپنا خیر خواہ سمجھ رہی ہو‘ ہنہ ۔‘‘ جانے سے قبل اس نے کڑوے اور زہر یلے سچ کا پیالہ ان کے منہ سے لگایا تھا کہ وہ تینوں کچھ بولنے کے قابل نہیں رہیں۔
٭…٭…٭
بعد میں اس نے تمام تفصیلات ان کے گوش گزاریں کہ کیسے وہ اپنے ساتھ پٹواری اور تحصیل دار کو لے کر بدین گیا ۔ کمپیوٹر پہ ان کی زمین کے تمام کھاتے کھلوائے ۔ اس تمام جھنجٹ سے نپٹنے کے بعد وہ مسعود صاحب کے دوست کے گھر ٹھہرا ۔ جس کا گھر اس محلے میں تھا اور باقی ماندہ معلومات ان صاحب کی امداد کے عوض حاصل ہوئیں۔
’’ماموں کی گاڑی میں نے خود جبران کو ڈرائیو کرتے دیکھا تھا۔‘‘ اس کے منہ سے نکلنے والا ایک ایک لفظ ان تینوں کے لیے دم گھٹنے کا باعث بن رہا تھا۔
’’میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ منیر اس طرح رشتوں کا بھرم چوسنے والی جو نک ثابت ہو گا‘ مجھ سے مانگ کے تو دیکھتا ہم مل بانٹ کے کھالیتے ۔ ‘‘ شدید دکھ سے ان کے حلق میں بار بار ایک پھندا ساپڑرہا تھا۔
’’خدا نے تمہیں ہمارے لیے غیبی امداد کے طور بھیجا ۔ ورنہ اگر میری بچی کی شادی ہو جاتی تو ہم تو بری طرح پھنس جاتے۔‘‘
’’آنٹی ! یہ سب میں نے اپنے ابو کے کہنے پر کیا ہے۔‘‘ آنٹی کا تشکرانہ انداز اسے شرمندہ کر گیا تھا۔
’’ ایک بار اتفاقاََ بدین گئے تھے اور وہیں اپنے دیرینہ دوست سے انہیں کچھ آدھی ادھوری معلومات ملی تھیں اور پھر حج جانے سے قبل انہوں نے ہی مجھے سے یہ تمام گتھیاں سلجھانے کا وعدہ لیا ۔‘‘ وہ دونوں اس وقت تنہاتھے ‘مگر اسے احساس تھا کہ اندر کمرے میں ٹی وی بند ہے ۔ ان کی گفتگو عدن بھی سن رہی ہوگی۔
’’یقین جانو بیٹا۔ تمہارے ماموں سے شادی ہم دونوں بہنوں نے والدین کی رضامندی سے کی تھی۔ میں تو آپا کی شادی کے بعد ایک دو مرتبہ کراچی آئی تھی ۔ مجھے کبھی صباحت آپا نے بھی آصفہ آپا اور حنان کی ناراضی کی وجہ نہیں بتائی تھی۔ مجھے احساس جرم کچوکے لگاتا ہے کہ میری وجہ سے بچیوں سے ددھیال کا واحد رشتہ چھوٹ گیا ۔‘‘ انہوں نے اپنی آنکھوں کی نمی صاف کی۔
’’آپ خود کو اس سارے قصے میں ملوث کیوں کرتی ہیں آنٹی! ان شاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
’’اللہ کرے ایسا ہی ہو ۔‘‘ انہوں نے اپنے ہاتھ پہ رکھے اذان کے ہاتھ کو نرمی اور شفقت سے تھپکا۔
’’ عدن کو میری وجہ سے بچپنا چھوڑ کر بڑی عمر کی ذمہ داریاں سنبھالنی پڑیں، مگر اس بچی نے کبھی اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے میں‘ غفلت یا کوتاہی سے کام نہیں لیا نہ ہی کبھی اس کے مزاج میں، میں نے بے زاری محسوس کی نہ اکتاہٹ‘ پھر بھی میں خود کو اس کے تعلیم حاصل نہ کرنے کا قصور وار سمجھتی ہوں۔‘‘ ان کی دھیمی آواز گہرے کنویں سے آتی محسو س ہوئی۔
’’ایک درخواست ہے بیٹا۔‘‘ انہوں نے نم آنکھیں خاموش بیٹھے اذان پہ ٹکائیں۔
’’ درخواست کیوں آنٹی ‘آپ حکم کریں۔‘‘اس نے تیزی سے اپنا جھکا سر اٹھا کر کہا۔
’’ یہ تمہاری اچھی سوچ ‘سلجھے مزاج اور بہترین تربیت کا نتیجہ ہے ورنہ تمہارے بڑے پن کے سامنے ہم تو تنکے جیسے آسرے ڈھونڈنے والے انسان ہیں ‘ہماری اندھی بہری زندگی کی آسانیاں تمہاری مرحونِ منت ہیں ۔ بس تھوڑا سا … ساتھ اور دے دینا۔‘‘ وہ کچھ جھجک کر‘ ٹھہر کر بولیں۔ وہ جیسے ان کے ہر حکم بجا لانے کا منتظرتھا۔
’’ اگر تمہاری نظر میں کبھی بھی کوئی اچھی فیملی اور اچھے کردار کا سلجھاہوا لڑکا آئے تو عدن کو ذہن رکھنا۔‘‘
’’جی۔‘‘ دل پہ کسی نے گرم بلبلاتا پانی انڈیلا ۔ اس کے انداز میں اس قدر حیرانی تھی کہ مدحت نے الجھ کر اسے دیکھا۔ جیسے اس نے بڑی اونچی ڈیمانڈ کی ہو ۔ اندر بیٹھی عدن کلس کر رہ گئی۔
’’چاہے زیادہ پڑھا لکھا نہ ہو‘ مگر شریف اور اچھے مزاج کا ہو۔ مجھے پتا ہے تمہارا اٹھنا بیٹھنا اپنے ہی جیسے آفیسرز میں ہوتا ہوگا ۔ تمہارے لیے ہمارے جوڑ کا آدمی ڈھونڈنا اتنا آسان نہیں ہوگا ۔‘‘ وہ اس کے چونکنے اور ٹھٹکنے کو اپنے تئیں یہی وجہ سمجھی تھیں۔
’’ ارے نہیں آنٹی !میرا اٹھنا بیٹھنا ہر طرح کے لوگوں کے ساتھ ہوتا۔آپ بے فکر ہوجائیں۔ ‘‘وہ اپنے حواس کافی حد تک بحال کر چکا تھا اور اسے یہ بھی اندازہ تھا کہ اندر بیٹھی عدن کا خون کھول کھول کر اب بس سوکھنے کے قریب ہو گا۔
’’ا بھی اس کی عمر اتنی نہیں ہوئی‘ اگر پڑھنا چاہے تو اتنا مشکل کام نہیں ہے ۔‘‘ دل ایک دم ہی اسے چڑانے پہ بضد ہوا ۔ دوپہر ہونے والی تھی ۔ آج اس نے ناشتا بھی امن کے ہاتھ بھجوایا تھا۔
’’ انگلش میں ہی کچھ مہارت حاصل کرلے تو کسی آفیسر کا رشتہ بھی آسکتا ہے ۔ ‘‘ انتہائی سنجیدگی ساتھ آواز تیزہی تھی۔
’’ہزار دفعہ سمجھا چکی ہوں، مگر اس لڑکی کو ڈراموں سے فرصت تو ملے … اب بھی ڈرامہ ہی دیکھ رہی ہوگی ۔‘‘ فکر مندسی ہو کر بولیں ۔ اسی اثنا میں گیٹ پر دستک ہوئی ۔ وہ مسکراتا ہوا اٹھا ۔ یقیناََ امن کالج سے آئی تھی۔
٭…٭…٭
اگلا ایک ہفتہ بہت مصروفیت میں گزارا۔
ٹھیکیدار کو زمین کے اصل مالک کے کاغذات دکھا کر اس سے قبضہ چھڑوایا گیا ۔ اخبار میں زمین کی حق ملکیت کا حنان کے نام اشتہار دیا گیا تاکہ منیر صاحب نئے ٹھیکیداروںکا ناطقہ کہیں بند نہ کردے جلد ہی زمین ٹھیکے پہ دینے کا کام وہ اپنے باپ کے دوست کو سونپ آیا ۔ جب کہ منیر گاڑی کسی قیمت پہ دینے کو تیار نہ ہوا ۔ آنٹی کے کہنے پر اس نے مزید اصرار نہیں کیا‘ مگر اس سے ایک مناسب قیمت وصول کرلی گئی۔ واپس آکراس نے دونوں بہنوں کے نام سے اکاؤنٹ کھلوایا جس میں موجود رقم سات لاکھ کے قریب تھی ۔ آج کل ملکی حالات بھی ایسے تھے کہ کبھی لوڈ شیڈنگ پر دھرنا دیا جا رہا ہے تو کبھی گورنمنٹ سروس کے ملازمین تنخواہوں کے نہ ملنے پہ دھرنا مارکے بیٹھ جاتے۔
اس گھر میں گزارا جانے والا اس کا آخری عشرہ تقریباً باہر ہی گزرا ۔ وہ رات خاصی دیر سے ہی گھر آتا ۔ اس کی آمد پہ گیٹ بھی امن ہی کھولتی تھی حالانکہ وہ روزانہ اس کا ہی منتظر ہوتا ۔ آج کل تو وہ گھر واپسی کے لیے چھوٹی موٹی پیکنگ بھی کرنے لگا تھا ۔ اس کی امی کا فون پہ فون آرہا تھا کہ گھر جا کر ملازمین سے ذرا تفصیلی صفائی وغیرہ کرواؤ ۔ وہ نوٹ کر رہا تھا کہ عقبی صحن کو سمندر بنانے والا سلسلہ ترک ہوچکا تھا ۔ ایک بھید بھری تبدیلی نے ہر چیز کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ آج کچھ فراغت نصیب ہوئی تھی ۔ وہ دوپہر کا کھاناآفس میں ہی کھاتا تھا‘ مگر آج ایک بجے ہی گھر چلا آیا ۔ آتے ہوئے اس نے اپنے پسندیدہ ریسٹورنٹ سے کھانا بھی پیک کروالیا ۔ آج چنچل سی ہوا ہر کسی سے بلاوجہ گلے مل رہی تھی ۔ ایک ضروری فائل کا تھوڑا سا مطالعہ کرنا تھا ۔ آج بھی استقبال امن نے ہی کیا تھا اس نے پیک کیا کھانا اسے پکڑایا۔