مکمل ناول

چھپا کے چھئی : فرزانہ کھرل

’’لیجے بھائی! چائے سے پہلے مزیدار شربت انار کا لطف اٹھائیں۔ ‘‘اس کی بات پہ زور دار قہقہہ لگاتی امن نے ٹرے اس کے سامنے رکھی۔
’’ واہ بھی ‘کیا ذائقہ ہے۔ ‘‘گھونٹ بھر کر داد دیتی نگاہوں سے شکریہ ادا کیا۔
’’اب بتائیں دو دن کہاں گزارے؟‘‘ وہ اس کے سامنے خالہ کی چارپائی پہ ذرا سا ٹکی۔ خالہ نے کندھے پہ ہاتھ مار کے گھوری لگائی کہ تم کون ہوتی ہو حساب کتاب کرنے والی۔
’’ قسم سے پیچھے پڑ جاتی ہو۔‘‘ وہ سرکو جھٹکا دے کردھیرے سے ہنسا۔
’’ عید کے بعد بتاؤں گا۔‘‘ ایک دم سنجیدگی نے اس کا احاطہ کیا۔
’’ارے ہاں یاد آیا پرسوں تو عید ہے ۔ ابھی تو بکرے کی خریداری بھی ہونی ہے۔ ‘‘خالہ نے ماتھے پہ ہاتھ مار کے کہا۔
’’اس بار تو ساجدہ نے اپنے بکرے کی خریداری کرلی ۔ مجھ سے پوچھا تک نہیں۔‘‘لہجے سے فکرمندی عیاں ہوئی۔
’’آپ فکر مت کریں۔ میں بھی ابھی بکرا خریدوں گا۔ پھر یوں کریں گے کہ کل مارننگ ٹائم میں نظر چیک کروالیں گے اور شام کو بکروں کی خریداری ہو جائے گی۔‘‘
’’بھائی میں بھی چلوں گی۔‘‘ وہ مچلی۔
’’کوئی ضرورت نہیں۔ ‘‘ مدحت نے اسے آنکھیںدکھائیں۔
’’اسے مت روکیں۔ امن بی بی ہمارے ہوتے عیش کر سکتی ہیں‘ مگر پہلے پتا لگا کر آؤ کہ کچن میں چائے کے ساتھ کیا راز و نیاز ہو رہے ہیں۔‘‘ اس کی خواہش کچن میں سن لی گئی۔
’’یہ شخص کس قدر گھنا ہے۔ ‘‘ عدن نے دانت کچکچائے ۔ امن کے سیل فون پہ کال آرہی تھی‘ وہ دوسری طرف دوڑی ۔ اس نے ذرا سی دیر کو آنکھیں بند کیں ۔ وہ سوچ رہا تھا کہ واپسی پہ وہ تینوں اداس غمگین ملیںگی‘ مگر گھر کا ماحول پہلے جیسا ہی تھا ۔ بدین سے واپسی پر اس نے گاڑی سروس کے لیے دی تھی اور ایک دوست سے لفٹ لے کر گلی کے موڑ پہ ہی اتر گیا تھا ۔ گیٹ کھولنے سے قبل اس کے کانوں میں کچھ خواتین کی آوازیںپڑی تھیں۔
’’حنان کا بھانجا تو بہت خوبرو اور سلجھا ہوا ہے اچھی پوسٹ پر ہے ۔ اسے ہاتھ سے مت جانے دینا ۔ ‘‘ آنٹی نے بے مروتی سے ان کی بات کاٹ کرجواب دیا تھا۔
’’ہم خود غرض یا بد نیت نہیں ہیں، ماں باپ کے جانے کے بعد بچہ ڈیڑھ ماہ ماموں کے گھر مہمان بنا ہے۔آپ سب نے ایسا سوچا بھی کیسے… ہم ایسی گری ہوئی فطرت کے نہیں کہ کسی کو اپنے ہاتھ میں کرنے کی تدبیریں سوچیں ۔‘‘ وہ ٹیبل پہ چائے رکھ کر مڑنے لگی ‘ مگر اس کی نظر اذان کی جلی ہوئی انگلیوں پہ پڑی۔
’’ یہ کیسے جلیں ۔ ‘‘ بے ساختہ ہی پوچھا ۔ بوجھل ہوتی پلکوں نے آنکھوں کا در کھولا اور اس سادہ سے چہرے پہ اپنے لیے چھائی پریشانی کو بغور دیکھا۔
’’پتا ہی نہیں چلا ہی جل گئیں ۔‘‘ ذو معنی مسکراہٹ شام کی طرح اسے گھیرے ہوئے تھی۔
’’کیا ضرورت تھی پوچھنے کی۔‘‘خود کو سرزنش کی۔خالہ بھی فوراََ متوجہ ہو گئیں۔
’’ ارے یہ تو کافی جلی ہوئی ہیں ۔ دوا و غیرو لگائی کہ نہیں ۔ ارے امن ! جا میرے کمرے سے بھاگ کر برنال لے آ۔ ‘‘
’’ آپ پریشان مت ہوں۔ سونے سے پہلے لگالوں گا ۔‘‘وہ کچھ شرمندہ سا ہوا۔ وہ تو مٹھی سمیٹ کے بیٹھا تھا بے دھیانی میں ہی کھل گئی اور بے دھیانی میں ہی کسی نے اسے پورے دھیان سے دیکھا تھا ۔ پھڑ پھڑاتے پروں کے ساتھ کبوتروں نے پرواز ترک کر کے بر آمدے کے روشن دانوں کا رخ کیا ۔ ان کے سفید پروں سے محبت ہزاروں رنگوں میں کھل کر اس گھر کے آنگن کے کونوں کھدروں تک کو رنگنے لگی تھی۔ یہ نئی کیفیت تھی‘ یہ نیا قصہ تھا۔ نیم کی چوٹی پہ بیٹھی فربہ چڑیا نے وہ قصہ ‘ عدن کی آنکھوں میں رقم دیکھا۔
٭…٭…٭
آج اس نے مائدہ (ساجدہ کی بہو) کے ساتھ جاکر پاپوش مارکیٹ سے کافی خریداری کی تھی ۔ وہ گھر آئی تو خالہ آنکھوں کا معائنہ کروانے کے بعد واپس آچکی تھیں ۔ ملازمہ مشین لگائے کپڑے دھونے میں مصروف تھی ۔ خالہ بہت خوش تھیں۔ قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے وقفے وقفے سے اذان کو دعائیں دینے لگیں۔
’’وہ لوگ چلے گئے بکرے خریدنے۔‘‘ اس نے جوتا اتار کے دکھتی انگلیوں کو ہلکے سے دبایا۔
’’لگتا ہے موٹی ہوگئی ہوں۔‘‘تفکر سے سوچا۔
’’ کہہ رہے تھے پہلے شاپنگ کریں گے اس کے بعد بکرا منڈی جائیں گے ۔‘‘جواب دینے کے بعد پھر تلاوت کرنے لگیں۔
’’مگر امن نے مجھ سے پیسے تو نہیں لیے۔‘‘ وہ حیرانی سے بولی۔
’’مجھ سے لے کر گئی ہے۔ ‘‘ خالہ کی بات اتنی اطمینان بخش نہیں تھی۔ وہ بہن کی فضول خرچی سے بخوبی آگاہ تھی۔ یقینا آج اذان صاحب کی جیب ہلکی ہونے والی ہے۔
٭…٭…٭
’’پوری دنیا میں ڈھونڈنے سے بھی تم جیسی احمق لڑکی نہیں ملے گی۔ اگر بات منہ سے نکل گئی تھی تو زوبیہ کا نام لینے کی کیا ضرورت تھی۔‘‘ رخشندہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ بیٹی کا کیا حشر کریں۔
’’بس کریں مما… اگر میں نے آپ کو بتا ہی دیا ہے۔‘‘ وہ غصے سے پلٹا کھا کر بولی۔
’’میں گیٹ تک اسے پکارتی رہ گئی۔ موصوف نے پلٹ کر بات سننے کی زحمت تک گوارا نہیں کی۔‘‘ثمرہ کے گلے میں آنسوؤں کا پھندا سالگ گیا ۔ رخشندہ کا غصہ کچھ ٹھنڈا ہوا۔ ساتھ ہی بیٹی کی حالت پہ ترس آگیا۔
’’مما آج تک اس نے مجھ سے اس طرح بات نہیں کی۔ وہ میری عادات کو ہمیشہ سراہتا تھا ۔ اس کی آنکھوں میں میرے لیے پسندیدگی ہوتی تھی ۔ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ اس کا رویہ میرے ساتھ انسلٹنگ تھا ۔‘‘ اس کا حلق تک کڑوا ہو گیا‘ ضبط کے باوجود آنسو رخساروں پر بہنے لگے۔
’’ سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ آج آصفہ سے میری بات ہوئی تھی۔ تم خود کو یوں ہلکان مت کرو۔ مسعود بھائی حنان کے بہترین دوست تھے ۔ آصفہ بتا رہی تھی کہ وہ ان ہی کی ایما پہ گیا ہے ۔ ان کی پراپرٹی کے کچھ مسائل ہیں۔ اس کے بعد وہ گھر واپس آجائے گا۔‘‘ انہوں نے بیٹی کا سر اپنے رخسار سے لگایا۔
’’کسی کے بھی کردار پہ یوں بڑھ چڑھ کے نہیں بولتے ۔ وہ تو پھر اذان کی کزنز ہیں اور وہ ان کے لیے بہت پوزیسیو ہے۔ غفران سے کہہ کر کیسے اس نے زوبیہ کے کسی رشتہ دار کو اس محلے سے ہی چلتا کر دیا تھا ۔ مجھے تو لگتا ہے وہ لڑکا ان کی گلی میں بھی یقیناََ آتا جاتا ہوگا ۔‘‘ ماں کی بات پر ثمرہ کے ذہن میں بجلی سی لپکی۔ اس کے کانوں میں اذ ان کی ہتک آمیز آواز گونجنے لگی‘ جس طرح اس نے اس کا دوپٹادور پھینکا تھا وہ منظر بھولتا نہیں تھا۔
’’یہ زوبیہ آنٹی تو بڑے کام کی چیز ثابت ہو سکتی میں اتنی آسانی سے تمہیں کسی کا ہونے نہیں دوں گی۔‘‘ اس کے چہرے پہ جیسی کیفیت تھی۔
٭…٭…٭
کل کی بے اختیاری میں کی گئی حرکت کے باعث آج عید کے دن وہ اس سے چھپتی پھر رہی تھی ۔ وہ عید کی نماز پڑھنے گیا تو احتیاطاََ برآمدے میں دھریںکرسیاں اٹھا کر ‘ اس سمت رکھیں کہ ان کی پشت کچن کی جانب تھی۔
’’آنٹی زندگی اور صحت سے بھرپور عید مبارک …‘‘ اس کا خوش گوار لہجہ پورے گھر میں گونجا۔ مدحت نے جواباََ اسے ہزاروں دعاؤں سے نوازا ۔ اس نے ایک طائرانہ سی نظر بر آمدے کی سیٹنگ پر ڈالی تو ایک گدگداتے سے احساس نے اسے اپنے حصار میں لیا دل نے خواہ مخواہ ہی قہقہہ لگانا چاہا۔
’’عدن کہاں رہ گئی ہو ۔ ناشتا لے کر آؤ ۔ قصاب تو کہیں بارہ بجے کے بعد آئے گا ۔ ارے سن رہی ہو۔‘‘ انہوں نے پھر کچن کی طرف دیکھ کر ہانک لگائی۔
’’ سنائی دے گیا ہے خالہ کچن قریب ہی ہے افغانستان میں نہیں ہے۔‘‘ اس کی تپی تپی آواز نے بھی ٹھنڈک کا احساس دلایا۔
’’اس بار قصاب سب سے پہلے ہمارے گھر آئے گا آنٹی بے فکر ہو جائیں۔‘‘
’’ اللہ تمہارا ہمیشہ بھلا کرے۔‘‘ انہوں نے فوراََدعا سے نوازا۔
’’ اگر سارے بھلے اس کے کھاتے میں آگئے تو باقی دنیا تو ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی رہ جائے گی ۔‘‘ وہ خاصا جل کر بہ آواز بلند بڑبڑائی ۔ کچن واقعی افغانستان میں نہیں تھا ۔ اذان کو یقین ہو چلا۔
’’ ذراا دیکھیں تو آنٹی۔ان کرسیوں کی کچن والوں سے ضرور لڑائی ہوئی ہے جو بے مروتی سے رخ پھیر کر بیٹھی ہیں‘ مگر ہماری تو نہیں۔‘‘ مسکراہٹ دبا کر فوراََ بدلہ لیا۔
’’اللہ یہ بندہ کتنا ہے تنا تیز ہے ‘ سب کچھ بھانپ لیتا ہے۔‘‘ وہ پوری جان سے تلملائی۔
آج سوٹ کے ہم رنگ نیلا دو پٹا بھی اوڑھ رکھا تھا ۔ دونوں کلائیوں میں کوئی چار چھ چوڑیاں بھی تھیں ۔ آنکھوں میں کاجل کی گہری لکیریں ۔ اتنی سی تیاری اور اس قدر تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ بھی وہ اتنی اچھی لگ رہی تھی کہ اسے تمام دن وہیں جم کر دیکھنے کو دل نے مکمل آمادگی کا اظہار کیا ۔ گویا زندگی کا اگلا سفر تمام کر کے آخری سانس تک یہ چہرہ دیکھا جا سکتاہے۔
’’ دیکھ لیں ۔ کچن والوں سے خفا کر سیوں نے صلح جوئی کا جھنڈا لہرا کر اپنا رخ بدل لیا ہے ۔‘‘ ٹرے ٹیبل پر رکھتے ہوئے اس کے ہاتھ ذرا سا لرزے ۔ اسے مسلسل اپنی جانب دیکھتا پا کر وہ پہلے ہی خاصی بد حواس ہوئی جارہی تھی ۔ اس نے غصے سے لب بینچ کر اسے گھورا، مگر وہ زیرِ لب مسکرا تا ناشتے کی طرف متوجہ ہو چکا تھا ۔ جہاں خوش رنگ پاستا‘ فروٹ چاٹ اور سینڈوچز دیکھ کر بھوک کا احساس چمک اٹھا تھا۔
’’عدن دیکھو مائدہ نے مجھے کتنی اچھی مہندی لگائی ہے۔‘‘ امن کی آمد پر اس نے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی۔
’’ہاں اچھی ہے۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ کمرے کی طرف جانے لگی۔
’’بھائی آپ بھی دیکھیں ۔ ‘‘ وہ اس کے ساتھ والی کرسی پہ بیٹھی تو اس نے خاصی دلچسپی سے اس کے خاصی دلچسپی سے اس مہندی سے سجے ہاتھوں پر نظر ڈالی۔
’’میرے لیے بھی ایک پلیٹ لے آئو۔‘‘ وہ جودہلیز پار کرنے لگی تھی‘ اپنا رخ دوبارہ کچن کی طرف کیا۔
’’بجائے اس کا ہاتھ بٹانے کے‘ اپنا چھوٹے سے چھوٹا کام بھی اس سے کرواتی ہو ۔‘‘ مدحت نے غصیلی نگاہ بے فکرسی امن پہ ڈالی ۔ ڈانٹ ڈپٹ جس کے سر سے گزر جاتی تھی‘ اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔
’’مائدہ کہہ رہی تھی ناشتے کے بعد تمہیں بھی لگا جائے گی۔‘‘ اس نے پلیٹ پکڑتے ہوئے کہا۔
’’مجھے کوئی شوق نہیں۔‘‘ سنجیدگی سے ترنت جواب آیا۔
’’کہاں بھاگی جارہی ہو۔ ادھر بیٹھو۔‘‘جاتی ہوئی عدن نے خالہ کو ٹھٹک کر دیکھا۔ خالہ کے انداز سے لگ رہا تھا کہ بات سنجیدہ ہے ‘چاروناچار اسے بیٹھنا پڑا۔
’’ا بھی کچھ دیر پہلے تمہارے ماموں کا فون آیا تھا کہہ رہا تھا کل آؤں گا ۔ آتے ہوئے یقیناََ کرائے کی وصولی بھی کرے گا۔ تم سب یہاں موجود ہو‘با ہم مشورہ کرلیتے ہیں کہ بات کس طرح کرنی ہے اور…‘‘وہ کچھ رکیں‘ کچھ جھجکیں۔
’’ کہہ رہا تھا کہ شادی کی تاریخ بھی طے کر کے جاؤں گا ۔‘‘ دھڑ‘ دھڑ‘ دھڑ‘ عدن کا تمام اطمینان وسکون زمین ہوس ہوا۔ حواس باختہ سا ہو کر سامنے دیکھا۔ وہ انتہائی اطمینان سے اب ٹشوسے ہاتھ صاف کر رہا تھا۔ مدحت کے چہرے پہ فکر مندی کے آثار نمایاں تھے ۔ امن کی بھوک جیسے ایک دم ہی ختم ہوئی۔
’’آپ پریشان مت ہوں۔ میں بات کروں گا بلکہ کئی باتیں ہوں گی۔‘‘ وہ ٹشو سے ہونٹ صاف کرتا عجب سے انداز میں بولا اور سرسری سی نظر عدن پر ڈالی جس کا چہرہ بجھ سے گیا تھا۔ پھر جیسے کچھ یاد آیا۔
’’انہیں میری یہاں موجودگی کا علم ہے؟‘‘ اس کی سوالیہ آواز میں بردباری تھی، ٹھہراؤ تھا۔
’’ہاں میں نے کچھ دن پہلے ذکر کیا تھا۔‘‘
’’ ہوں… آپ خواتین جانتی ہی نہیں کہ کل کن‘ کن رازوں سے پردہ اٹھنے والا ہے۔ ‘‘ سوچ کی لکیریں اس کی چوڑی پیشانی پہ بھی واضح ہوئیں۔
’’اور اگر انہوں نے پوچھا کہ آپ ایک دم ہمارے سربراہ بن کر کہاں سے ٹپک پڑے ہیں تو۔‘‘ اپنی سوچوں میں غلطاں اذان نے چونک کر عدن کو دیکھا ۔ استہزا اس کے لہجے میں ہی نہیں تھا بلکہ اس کی آنکھیں بھی واضح تمسخر اڑا رہی تھیں۔
’’میں اچانک مشرق سے ٹپکا ہوں یا مغرب سے۔ یہ میں انہیں خود سمجھالوں گا۔ آپ اپنی انرجی اس معاملے میں مت ویسٹ کریں۔‘‘ خلاف معمول جانے کیوں اسے غصہ آگیا۔
’’اور امن آپ کے ہاتھ کیوں رک گئے۔ اتنا اچھا ناشتا چھوڑنے پر تمہیں شام تک افسوس رہے گا۔‘‘ وہ ڈھیلے ڈھالے لہجے میں کہتا اس کے سر پہ چپت کرتا اپنے سیل کی فون کی جانب متوجہ ہوا۔سعودیہ سے کال آرہی تھی۔ وہ معذرت کرتا گیٹ کی طرف بڑھا۔ مدحت نے بڑی بھانجی کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا
’’عجیب بندہ ہے۔ ‘‘ ان کی گھوریوں کا جواب تین حرفوں میں دے کر جان کی امان پاتے ہوئے وہ وہاں سے کھسک لی‘ جبکہ امن اچھا ناشتہ ڈ و نگوں میں نہ چھوڑنے کا تہیہ کر چکی تھی۔
’’یا اللہ ان بچیوں کے معاملے میں میرا دل ہمیشہ ٹھنڈارکھنا۔ ‘‘ مدحت نے دل میں دعا مانگی۔ تب ہی دروازے کی بیل چنگھاڑی۔
’’یقیناََ قصاب ہو گا۔‘‘ امن چھلانگ لگا کر یہ جا‘ وہ جا۔
’’ارے رک تو … اذان دیکھ لے گا ۔تو نے کون سا چھریاں تیز کرنی ہیں۔ ‘‘خالہ کی اب کون سنتا ۔ کچھ دیر بعد بکرا ذبیح ہو رہا تھا اور وہ دونوں ہاتھ پہلوؤں پر دھرے ان کے سر پر کھڑی تھی ۔ اس کے برعکس عدن نے دروازہ اچھی طرح بھیڑ لیاتھا کہ آوازیں اندر نہ آئیں۔ وہ ان سب کے لیے ایک یادگار عید تھی۔
سہ پہر کے وقت امن اور اذان کا باربی کیو شروع ہوا۔ عدن کی بھاگ دوڑ ہوتی رہی ‘ برآمدے کے ٹیبل پہ اذان کے سیل پہ کالز آرہی تھیں۔ وہ کسی وجہ سے گزری تو اسکرین پہ نظر ڈالی ’’ ثمرہ کالنگ‘‘ ہجے کر کے پڑھ ہی لیا۔ چند ثانیے سوچا پھر سیل لیے اس کے پاس آئی۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے