چھپا کے چھئی : فرزانہ کھرل
’’میں عمر کے اس حصے میں ہوں جہاں غلط اور صحیح کا فرق سمجھتی ہوں … بچی نہیں ہوں بتادیجئے گا اپنے چہیتے کو ۔‘‘ وہ دانت کچکچا کر خاصی بلند آواز سے بولی ۔ گیٹ سے گاڑی نکالتے ہوئے اس نے بخوبی سن لیا ۔ ہونٹوں کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی ‘امن گیٹ بند کر کے آئی تو وہ خالہ سے دو ‘دو ہاتھ کر رہی تھی جو بالکل گم صم ہی عدن کا چہرہ تکے جارہی تھیں۔
’’کاش رشتوں اور اعتبار کو جوڑنے والی ایلفی ایجاد کرلی جائے ۔ ‘‘ کتنی ہی دیر کی خاموشی کے بعد کے لبوں نے دہائی دی۔ وہ ایک دم چپ ہوئی ۔ امن کی مدحت کی ‘ملامتی نظروں سے وہ جیسے کٹ کر رہ گئی۔ اتنی خاموشی‘ پرندے چپ‘پتے ساکن ‘درودیوار اداس غمگین شاید حبس بہت بڑھ گیا ۔
’’بارش ہونے والی ہے۔‘‘خاموشی کی گہری ندی میں امن کی سراسیمہ سی آواز نے ہلکا سا کنکر پھینکا۔
’’کوئی بھی چیز جب دوبارہ جوڑی جاتی ہے تو اس میں دراڑ واضح ہو جاتی ہے ۔ برتن ہوں ‘رشتے ‘یا اعتماد ‘پھر اس نظر آتی دراڑ کو کیسے چھپاتے ہیں۔‘‘ اس کی سوالیہ نظریں دونوں کی طرف اٹھیں … ڈری سہمی‘مگر چوکنی ہو کر خاصی فربہ چڑیا آبخورے کی طرف بڑھی‘ خالہ کی بات پر دونوں نے اپنی سانسوں سے دھواں نکلتا محسوس کیا‘ اگلے ہی پل وہ ان کے دائیں بائیں بیٹھی زندگی سے بھر پور باتیں کر رہی تھیں۔ وہ انہیں موجودہ کیفیت سے نکالنے میں کامیاب ٹھہریں۔
’’ عنیزہ سید کا ناول بڑا زبردست ہے‘ شام تک مکمل کر ہی لیں گے۔‘‘ عدن نے تکیے کے نیچے ہاتھ ڈال کر میگزین نکالا‘ پھر ناول کے اختتام تک مدحت کی دلچسپی برقرار رہی۔
٭…٭…٭
دروازے پر ہونے والی مسلسل دستک نے اسے گہری نیند سے بیدار کیا‘ اس نے وال کلاک کی طرف نگاہ کی چھ بج چکے تھے تو کیا میں تین گھنٹے سوتا رہا ہوں۔ وہ بعجلت اٹھا اور دروازہ کھولا۔ سامنے پرانا ملازم غفور کھڑا تھا۔ اذان نے تیوری چڑھا کر اسے دیکھا۔
’’وہ صاحب! بیگم صاحبہ کی دوست آئی ہیں اور آدھے گھنٹے سے مجھے آپ کو جگانے کا کہہ رہی تھیں۔‘‘ ملازم نے نظر جھکا کر کہا، اس اطلاع پہ جیسے اس کے سارے وجود میں بل پڑے۔
’’میرے گھر آنے کا انہیں کس نے بتایا۔‘‘ بولا تو لہجہ بھی سلوٹ زدہ تھا۔
’’وہ جی کچھ دن پہلے تشریف لائی تھیں تو مجھے تاکید کرگئی تھیں کہ… ‘‘ وہ جملہ ادھورا چھوڑ کر صاحب کے غصے کی حدود و قیود سے واقفیت چاہتا تھا‘ اور وہ اس کے ادھورے جملے سے تمام معاملہ سمجھ گیا۔
’’ ٹھیک ہے آپ جائیں…‘‘وہ گہرا سانس بھر بولا۔
’’میں ذرا فریش ہو کر آتا ہوں ۔‘‘زوبیہ اس گھر میں خود کو مہمان نہیں سمجھتی تھیں لہٰذا لاؤنج میں ہی براجمان تھیں ۔ اذان کو آتا دیکھ کر وہ بے تابی سے اس کی طرف بڑھیں۔
’’میں صدقے قربان میرے بچے کا کیسا ذرا سامنہ نکل آیا ہے ۔‘‘ اس کی پیشانی چومتے ہوئے انہوں نے ہزاروں بلائیں لے ڈالیں۔ ٹانگ پہ ٹانگ جمائے بڑے اسٹائلش انداز میں صوفے میں دھنسی سارا کو دیکھ کر وہ انتہائی کوفت کا شکار ہوا ۔
’’میری طرف آکررہتے ، تمہارا اپنا ہی گھر تھا‘ اجنبی جگہ اور لوگوں میں رہنا کافی مشکل ہوتا ہے۔ ‘‘کچھ دیر رسمی حال احوال دریافت کرنے کے بعد وہ اپنے اصل مقصد کی طرف آئیں۔ سادہ الفاظ اور سادہ لہجے میں انہوں نے گھمبیربات کہہ دی۔ جیسے وہ اسے اندر تک پرکھنا چاہتی ہوں۔
’’جی آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ ‘‘وہ شگفتگی سے مسکرایا، سارہ نے مبہوت سا ہو کر اسے دیکھا‘ کم بخت مسکراتے ہوئے جوتوں سمیت دل میں گھس جاتا ہے‘ بے چینی سے پہلو بدلا۔
’’آئے ہائے ایسی بات ہے تو پھر کون سی مجبوری نے ادھر کا راستہ دکھلا دیا۔‘‘
’’یہ ابو کا فیصلہ ہے۔ میں کیا کہہ سکتا ہوں۔‘‘ اس نے ہلکے سے کندھے اچکائے۔ پھر کلائی پہ بندھی انتہائی قیمتی گھڑی کی طرف دیکھا۔
’’میرے بارے میں تو اس نے خوب دل کی بھڑاس نکالی ہوگی۔‘‘ زوبیہ نے محتاط سا ہو کر سوال داغا۔
’’جی کس نے؟ ‘‘معصومیت سے پوچھا گیا۔
’’ تمہاری ممانی نے اور کس نے؟‘‘ وہ کھسیانی سی ہوکرہنسیں۔
’’ کیا وہ آپ کو جانتی ہیں۔ ‘‘ بھولپن کی حد کر دی گئی۔ آنکھوں اور نتیجے سے اشتیاق ٹپکا۔
’’چھوڑیں بھی امی آپ کس کا ذکر کرنے لگیں۔‘‘ سارہ نے بر وقت بات سنبھائی۔
’’معذرت چاہتا ہوں ابھی مجھے چچا کے گھر جانا ہے تو…‘‘ باوقار لہجہ ‘با رعب آواز‘نیند سے جاگی پر خمار آنکھیں ‘سارا گنگ ہی دیکھتی رہ گئی۔
’’ ہاں ہاں کیوں نہیں، یہاں سے اتفاقاََ گزر ہوا تو کھلے گیٹ سے تمہاری گاڑی نظر آئی۔ سوچا اپنے بچے کی خیر خیریت دریافت کرلوں۔‘‘ ہزاروں سوالوں کو دل میں دباتے ہوئے وہ ہلکی پھلکی سی ہو بولیں۔
’’ویسے تمہارے ماموں کے گھر میں کتنے افراد ہیں۔‘‘ اذان نے آنکھیں پھیلا ئیں۔
’’ممانی سمیت کل تین بنتے ہیں ۔ ‘‘ ہونٹوں پر شہادت کی انگلی موڑ کر کے رکھی اور کچھ ایسی نظر سے ماں کی سہیلی کو دیکھا کہ میں نے تو کب کی پہیلی بوجھ لی تھی۔ انہوں نے اٹھنے میں ہی عافیت جانی‘ جاتے جاتے بصد اصرار گھر آنے کی پر زور دعوت دی۔
٭…٭…٭
’’اتنے برسوں بعد ماموں کی فیملی کیسے یاد آگئی۔‘‘ گھنٹے ڈیڑھ بعد بات گھما پھرا کر ثمرہ اصل موضوع کی طرف لے آئی۔
’’خیر اب ایسی کوئی صدی بھی نہیں گزری۔ چھ ‘سات سال پیشتر ہم ان کے ہاں آتے جاتے تھے۔‘‘ وہ دوسال گول کرکے لہجے میں در آئی ہلکی سی سختی کو دبا کر بولا۔
’’تاہم وہ ہماری فیملی کا ایک حصہ ہیں۔‘‘ اتنا تو وہ جان چکا تھا کہ اس کا وہاں رہنا کسی کے لیے بھی پسندیدہ نہیں ۔ اب کے وہ کچھ تحمل سے پر سکون ہو کر بولا۔
’’پھر بھی‘ تمہارے اور ان کے لائف اسٹائل میں زمین آسمان کا فرق ہو گا‘ ذرا سوچو اس قدر سو کالڈ سے محلے میں تم کیسے آجارہے ہو، اوپر سے وہ تمہاری کزنز بھی کچھ اچھی شہرت کی نہیں۔‘‘ اسے لگا‘ بیش قیمت نفیس کرسٹل کی کیتلی سے گرم چائے ثمرہ نے اس کے سر پہ انڈیل دی ہے۔ اس نے کپ ٹیبل پر زور سے پٹخا تھا کہ چھلک کر باہر آتی گرم چائے نے اس کی انگلیاں جلا دیں۔
’’ کیا کہا اور یہ بکو اس تم سے کس نے کی ہے؟‘‘ اشتعال کی ایک لہر اس کے بوٹوں کی نوکوں تک آئی۔
’’بی ہیو یور سیلف اذان ‘اس میں اتنا مشتعل ہونے والی کون سی بات ہے۔ ‘‘ وہ تیزی سے اٹھ کر اس کے قریب آئی اور اس کی جلی ہوئی انگلیاں تھامنے کی کوشش کی وہ ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹا۔
’’پہلے میری بات کا جواب دو۔‘‘ وہ ایک‘ ایک لفظ چبا کر بولا۔ اس کے اس قدر خراب موڈ پہ ثمرہ نے ششدر ہو کر اسے دیکھا۔ اسے تیزی سے ماحول کی سنگینی کا احساس ہوا کہ اس نے واقعی غلط بات کی ہے۔
’’زوبیہ آنٹی مما سے کچھ اس طرح کی بات کر رہی تھیں۔‘‘ اذان کے چہرے کا رنگ تیزی سے بدلا‘ اس نے بغور ثمرہ کا جائزہ لیا، سلیولیس شرٹ میں اس کے گورے بازو دمک رہے تھے۔ اس نے شاٹ شرٹ اور ٹائٹ زیب تن کی ہوئی تھی ۔ دوپٹہ کندھے پہ جھول رہا تھا۔ وہ دونوں غفران کے کمرے میں تنہا بیٹھے تھے جو اچانک وہاں سے اٹھ کر کسی کام سے باہر چلا گیا تھا۔ شاید گھر سے ہی چلا گیا تھا ۔ چچی اور چچا کسی ولیمہ کی تقریب میں گئے ہوئے تھے۔ وہ اسے دیکھتا جارہا تھا اور اس کی آنکھوں کی سرخی گری ہوتی جارہی تھی۔
’’ ان کی شہرت اچھی نہیں کیونکہ ان کا کو رنگی میں دس مرلے کا ایک پرانا گھر ہے، وہ بے یارو مددگار ہیں۔‘‘ دھیمی آواز میں کہتے ہوئے وہ رکا ‘ اس نے ثمرہ کے عریاں کندھے پہ اپنا ہاتھ رکھا‘ثمرہ کی ریڑھ کی ہڈی میں برف سی جمی۔
’’میں گیارہ دن سے وہاں ہوں، اور میری ہمت نہیں پڑتی کہ ان کے بیڈ روم کی کھڑکی سے جھانک لوں اور تم نے۔‘‘ وہ استہزائیہ ہنسا۔
’’ یہ دوپٹا جو بطور فیشن اوڑھنے کی کوشش کی ہے۔‘‘ اس نے گردن سے لپٹادو پٹا نوچ کے دور پھینکا‘ثمرہ پھٹی،ہو ئی بے یقین نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
’’یہ دوپٹا سائبان کی طرح انہیں ڈھانپے رہتا ہے۔ ان پاکیزہ لڑکیوں سے حیا کے معنی و مفہوم‘ سمجھتا ہے یہ۔‘‘اذان نے اس کا سفید رنگ سیاہ ہوتے دیکھا۔
’’لگژری لائف میں یہ سب اچھی شہرت کا حامل ہے، پانچ کنال کی اس کوٹھی کے ویل ڈیکوریٹڈ فرنشڈ بیڈ روم میں ‘ ہم تنہا گھنٹوں بیٹھ سکتے ہیں کوئی انگلی نہیں اٹھائے گا‘ دولت عیبوں پہ خوب پر دے ڈالتی ہے۔‘‘ اس نے اس کے کندھے سے ہاتھ ہٹایا ‘ثمرہ نے اپنا سانس بحال کیا۔
اس کمرے سے باہر آکر بیرونی گیٹ عبور کرنے میں اسے چند منٹ لگے تھے۔ اس کی گاڑی اب سڑک پہ فراٹے بھر رہی تھی۔ ثمرہ کی پکار اس کے کانوں میں گونج رہی تھی‘ان کے خاندان کے بیچ زہر گھولنے والی زوبیہ تھیں‘ وہ سوچ رہا تھا کہ بدین جا کر وہاں کا معاملہ حل کرنے کے بعد یہ آخری معرکہ بھی سر کرنا از حد ضروری تھا ۔ گھر آنے تک وہ غور و فکر کر چکا تھا کہ کل فجر کے وقت بدین کے لیے روانہ ہو گا۔
٭…٭…٭
ستمبر کے وسط میں ہی درو دیوار سے اتر تے سایوں کو تبدیلی موسم کی نوید ہوا ہلکی سرگوشیوں میں دے رہی بھی، شاخوں پہ چہکتی ‘چڑیاں … ان سرگوشیوں سے با خبر تنکا تنکا اکٹھا کر کے نیم کی گھنی شاخوں پہ گھو نسلوں کی تعمیر شروع کر چکی تھیں۔
ہر سال امن کے لیے یہ منظر شش کا باعث بنتا ۔ سہ پہر کے بعد نچلی سیڑھی سے ذرا آگے مدحت کی چارپائی بچھ جاتی‘ جس کے اطراف پرانی طرز کی آرام دہ کرسیاں عدن اور امن کی نشست ہوتیں، اس وقت بھی عدن اپنے گھٹنوں پر ڈائجسٹ دھرے انہیں ناول پڑھ کر سنا رہی تھی، امن کو ان کا یہ مشغلہ بالکل پسند نہیں تھا۔
’’ایک تو تیسرے دن واپس آئے ہیں پھر آتے ہی سو گئے۔ وہ بھی سارے گھوڑے ‘گدھے اور ہاتھی بیچ کر یہ بھی نہیں بتایا کہ…‘‘
’’ا من چپ کرو۔ تمہارے ساتھ کیا مسئلہ ہے۔‘‘ بہن سے ڈانٹ کھا کر تنکوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرتی وہ نچلی سیڑھی پہ بیٹھ گئی۔
چہار سوچٹکی چاندنی کا فسوں ایسے قصے سنا رہا تھا کہ وہ آئندہ کا سفر تمام کر کے آخری سانس تک وہ چہرہ دیکھنے کی خواہش کرنے لگا۔ جالی دار دروازے سے لگے اذان نے آئندہ کا سفر تمام کر کے کہانیاں سناتا چہرہ دیکھنے کی خواہش کی اور اتنی آہستگی سے دروازہ کھولا کہ ماحول پہ چھایا چاندی جیسا فسوں ٹوٹنے نہ پائے۔
’’وہ راستوں میں رنگ گھولتی ہوا کو پیچھے دھکیلتا جاناں کی طرف بڑھا۔ ‘‘
قصہ گو کا خوب صورت لب و لہجہ اور طرز ِبیاں سفید دن کو پر فسوں چاندنی میں ڈھال رہا تھا‘ وہ بھی کچھ کہتی کچھ سنتی سبک ہوا کو اپنے اور اس کے بیچ رکھ کر بر آمدے کے تیسرے ستون سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔ وہ خود سے بھی بے خبر ہو کر ناول پڑھ رہی تھی۔
’’ارد گرد سے بے خبر کبیر نے جاناں کا نرم ہاتھ نرمی سے تھاما ۔‘‘ اس نے اپنے چہرے پہ کسی کی نگاہوں کا ارتکاز محسوس کیا تو چہرہ موڑ کے دیکھا۔
’’اف یہ جانے کب سے کھڑا ہے۔‘‘ اس نے خجالت محسوس کی‘ کیا میں اپنی بے خبری میں پڑھ رہی تھی، خالہ آنکھیں بند کیے نیم دراز تھیں۔
’’ اب آگے بھی پڑھو ۔ ‘‘بے صبرا پن دکھایا گیا ‘چور نظروں سے اسے دیکھا ۔ وہ لا تعلق سا کھڑا تھا۔ نظریں دوبارہ صفحات پہ مرکوز ہو ئیں۔
’’ سفیدی مائل چہرے پہ شرمگیں سے رنگ اترے۔‘‘
’’ آگے کیسے پڑھ سکتی ہوں۔‘‘ اس کے لب کسی احساس سے کانپے ۔
’’ جاناں نے کبیر کے چہرے پہ زور دار تھپڑ لگایا۔‘‘
وہ ستون سے ٹیک لگائے خلا میںگھورتے شخص کے متبسم چہرے کی شرارت سے جیسے زچ ہوکر‘ چڑ کر بولی۔ خالہ نے جھٹ پٹ آنکھیں کھولیں۔
’’ہیں یہ کیا؟ یہ آج کل رائٹرز کو کیا ہو گیا ہے۔‘‘ان کی آواز میں حیرت تھی۔
’’ پہلے تو ہیرو جب ہیروئن کا ہاتھ پکڑتا تھا تو یہ شرماتی لجاتی تھی اور چاہتی تھی کہ وہ اس کے حسن کی تعریفوں میں زمین آسمان کے قلابے ملائے، آج کل جوں ہی وہ ہاتھ تھامتا ہے یا تو ہیروئن اسے دھکا دے دیتی ہے یا تھپڑ سے نوازدیتی ہے ۔ ‘‘ خالہ کی آواز صدمے سے چور سے بھی آگے تک پہنچی ہوئی تھی۔
ایک دو مرتبہ پہلے بھی وہ اذان کی آمد پر اسی طرح کہانی کا رخ موڑ چکی تھی۔
’’ او ہو خالہ! آپ جانتی تو ہیں کہ سمیرا حمید اپنے ناولوں میں رومانٹک سین نہیں ڈالتی۔‘‘ اس نے جھنجھلا کر ذراسی ترچھی نظر اس پہ ڈالی جو اس کے تنکے توڑنے والے مشغلے کی طرف متوجہ تھا مگر اس کی آنکھیں اور چہرہ ایک محتاط سی جنسی کی زد میں تھے۔
’’آج کل کی ہیروئنیں محب وطن ہیں اس لیے ملکی حالات کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے مار دھاڑ کا مظاہرہ کر رہی ہیں ۔‘‘ا من ہنستے ہوئے دونوں ہاتھ جھاڑ کے اٹھی تو پیچھے کھڑے اذان پہ نظرپڑی۔
’’ آپ اٹھ گئے۔‘‘ وہ جیسے چیخی تھی۔ مدحت نے دوپٹاٹھیک طرح سے پھیلایا اور سرذرا سا اونچا کر کے تکیے سے ٹیک لگائی‘ وہ اگلی ہی جست میں کرسی گھسیٹ کر چارپائی کے قریب بیٹھ چکا تھا۔
’’ نیند پوری ہوگئی۔‘‘ انہوں نے ناول کے اثر سے باہرآکر بشاشت سے پوچھا۔
’’ہاں بالکل نیند کا مزہ آگیا ۔ ‘‘کچھ لہجہ خمار آلود ہوا ‘کچھ سوئی جاگی آنکھیں میگزین کے صفحات پہ ٹکی آنکھوں پہ ٹھہریں۔
’’اگر ایک کپ چائے مل جائے تو شام کا لطف بھی دوبالا ہو جائے۔‘‘ خوشگوارسی ہلکی بھاری ہوتی آواز پر پلکیں اٹھا کر بے اختیارہی دیکھا۔ وہ اسی کو دیکھ رہا تھا۔ نظروں کے بدلے بدلے‘ زاویے صاف محسوس ہوئے۔
’’ان صاحب کے ساتھ کیا مسئلہ ہے کبھی مجھے بچی سمجھتا ہے تو کبھی …‘‘ ڈائجسٹ بند کر کے وہ جھٹکے سے اٹھی۔ وہ مسکرایا اور خود کو ڈھیلا چھوڑ کر کرسی کی پشت سے ٹیک لگائی۔
’’آنٹی! آپ خود مطالعہ کیوں نہیں کرتیں؟‘‘ نظریں ابھی تک غصے سے پیر پٹختی عدن پہ مرکوز تھیں۔
’’کیسے پڑھوں؟ قریب کی نظر بہت کمزور ہے۔ منیر سے کہا تھا کہ رکشے میں سفر کرنے سے قاصر ہوں ۔ ٹیکسی کروا کر آنکھوں کا معائنہ بھی کروالیں گے ساتھ ہی چشمہ بھی لگ جائے گا‘ آہ! سنی ان سنی کر گیا۔‘‘ ٹھنڈا گہراسانس بھر کر بولیں۔
’’ آپ کل میرے ساتھ چلیے گا۔ بس ایک گھنٹے کا کام ہے، آپ دیکھیے گا … جب آپ خود ناول پڑھیں گی تو ہیروئنیں ملکی حالات بالائے طاق رکھ کر پھر سے محبت کی باتیں کرنے لگیں گی ۔ ‘‘ نچلا لب دبا کر خاصی بلند آواز سے کہا ‘ جو یقیناََ سن لیا گیا تھا کوئی برتن زور سے بچا گیا۔