چھپا کے چھئی : فرزانہ کھرل
’’تمہاری بات اذان سے نہیں ہوئی ۔ ‘‘ نوڈلز کا بائول تھامے کسی مووی میں گم بیٹی کو رخشندہ نے دھیان سے دیکھا۔
’’ آپ جانتی تو ہیں کس قدر موڈی ہے وہ‘ حال احوال سے آگے بات ہی نہیں کرتا ۔ اس کی جاب ایسی ہے کہ وہ واقعی مصروف ہوتا ہے۔ ‘‘ثمرہ نے ایک ہاتھ سے اپنے نرم تراشید مبالوں کو ادا سے پیچھے کیا۔
’’تمہیں پتا ہے وہ آج کل ناظم آباد میں اپنے ماموں کے گھر ٹھہراہوا ہے۔‘‘
’’ کیا۔‘‘ ثمرہ ہلکی سی آواز میں چیخی۔
’’میں یقین نہیں کر سکتی۔‘‘ اس نے نفی میں سر ہلایا۔
’’یقیناََ کسی ہوٹل میں ہو گا اسے اپنی پرائیویسی بہت عزیز ہے۔ ‘‘ دوبارہ نوڈلز کی طرف متوجہ ہوئی۔
’’خبرپکی ہے کیونکہ غفران نے دی ہے ۔ ‘‘ رخشندہ نے لب کاٹتے ہوئے کہا‘ وہ کسی سوچ کے تانے بانے میں الجھی ہوئی تھی۔ اب صحیح معنوں میں ثمرہ کی بھوک اڑی۔ اس نے پائوں قریبی ٹیبل پر رکھا۔
’’ زوبیہ بتاری تھی کہ اس کی ماموں کی لڑکیاں اتنی اچھی شہرت نہیں رکھتیں ۔ اس لیے کہہ رہی ہوں اسے اپنے رابطے میں رکھو۔‘‘
’’مما!وہ لڑکیوں کے معاملے میں نہیں پڑتا۔ خود کو بڑی اونچی چیز سمجھتا ہے، بالکل تائی جیسا ہے جو اپنے سامنے کسی کو کچھ گردانتی نہیں اور آپ زوبیہ آ نٹی سے اتنا فری مت ہوا کریں۔‘‘ثمرہ کے ذہن میں پچھلی عید پہ سارہ کا اذان سے فری ہونا یاد آیا ۔ رخشندہ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
’’آئی مین … دونوں ماں بیٹیاں عجیب ہی نیچر کی ہیں۔‘‘ وہ ماں پہ اور کچھ بھی واضح کر کے اسے مزیدالجھن میں نہیں ڈالنا چاہتی تھی۔
’’ڈونٹ وری مما…اذان کی چوائس بہت ہائی فائی ہے۔‘‘ سارہ کے معاملے میں اس کی ناگواری اس نے بھانپ لی تھی۔
’’ بندہ ذرا الگ مزاج کا ہے۔ اسے تو پانی کا ایک گلاس بھی پورے پروٹوکول اور نفاست کے ساتھ چاہئے۔‘‘ بیٹی کے لہجے میں دن دہاڑے جو اذان کے ذکر پہ جگنو چمکتے تھے وہاں کی نظریں دیکھ سکتی تھیں۔
٭…٭…٭
موٹر پمپ کی چھکا چھک سے تو نجات مل گئی تھی‘ واش روم میں رستی ٹوٹیوں کی ٹپ ٹپ بھی بند ہو چکی تھی مگر ایسا کوئی مستری نہیں تھا جو صبح صبح، عقبی صحن میں برپا ہونے والی شڑپ ‘شڑپ اور شرڑشرڑ جیسی سریلی آوازں سے نجات دہندہ بنتا ۔ اس پانیوںپہ چھینٹیں اڑاتی ہوئی لڑکی کی وہ … زبان نہیں پکڑسکتاتھا۔
اس نے بس پہلی صبح پردہ سر کا کر دیکھنے کی جسارت کی تھی ۔ گو کہ منظر دیدہ زیب تھا اور نیند کی طلب پس پشت ڈال کر دیکھا جاسکتا تھا مگر اذان مسعود ایسی غیر اخلاقی حرکت کا مرتکب نہیں ہو سکتا تھا۔ شام کو وہ چند فائلز اپنے ساتھ لایا تھا ۔ رات خاصی دیر تک وہ کام میں مصروف رہا ۔ اب علی الصبح پھر چھپا کے چھئی۔
’’اف محترمہ عدن صاحبہ مجال ہے جو اپنی ڈیوٹی سے چُوک جائے۔‘‘ اس نے تکیہ اپنے کانوں پہ رکھا ۔
’’ لکھتے رہے ہیں تمہیں روز … خواہشوں کے خط ۔‘‘ ایک لمبا سُر لگا‘ اس نے دوسرا تکیہ بھی کان پر رکھا۔
’’کبھی بھیجے ہی نہیں۔‘‘
’’ا چھا کرتی ہوبی بی جو نہیں بھیجتی ہو۔‘‘ دونوں تکیے ٹھا کر دور پھینکے۔
’’پانی میں تر بتر خط کون آنکھوں کا اندھا پڑھ سکتا۔‘‘ ایک جھٹکے سے اٹھا اور واش روم میں گھس گیا ۔ کچھ دیر بعد وہ نک سک سے تیار تھا۔ اب اس کا رخ باہر کی جانب تھا۔
’’پتا نہیں یہ لڑکی صحن سے کن زمانوں کی گردد ھوتی رہتی ہے۔ ‘‘ مدحت بڑبڑا ئیں۔
’’ امن اگلا صحن صاف کرکے کالج بھی چلی جاتی ہے ۔‘‘
’’آپ کو کیا خبر کہ عقبی صحن میں ہر صبح کون سی شوٹنگ چلتی ہے‘ گویا صحن نہیں سمندر کا کنارا ہوتا ہے ۔ ‘‘ وہ برآمدے میں بچھی دوسری چارپائی پر نیم دراز تھا اس کا موڈ ابھی تک آف تھا۔
’’ارے عدن‘ اب آبھی چکو۔‘‘ مدحت نے بہ آواز بلند پکارا۔
’’رہنے دیں آنٹی! مجھے ناشتے کی کوئی جلدی نہیں ۔ ‘‘ پھر چونک کر اپنی دھلی دھلائی گاڑی کو دیکھا یقیناََ یہ امن کی کارستانی تھی۔
’’آنٹی مجھے اچھی طرح یاد ہے ماموں کی بھی گاڑی ہوتی تھی۔‘‘
’’ہاں ہوتی تھی۔ ‘‘انہوں نے اذان کی گاڑی کو حسرت سے دیکھا۔
’’پھر اس کا کیا بنا ؟ ‘‘ وہ ایک دم سیدھا ہوا۔
’’بیچ کر پیسے بینک میں رکھوا دیے کہ کل کو بچیوں کے جہیز کے کام آئیں گے۔‘‘ ماضی کی یاد سے بھیگتا بے آسرا سالہجہ‘ نظریں غیر مرئی نکتے پر ٹکیں۔
’’وہ گاڑی کس نے خریدی تھی اور وہ رقم کس کے اکاؤنٹ میں شفٹ کی گئی۔‘‘ یوں ہی کسی سوچ کے تحت اس نے قدرے جھجک کر پوچھا۔
’’ ر قم تو میں نے منیر کے اکاؤنٹ میں ہی رکھوائی تھی۔ اور گاڑی کا علم نہیں کس نے خریدی۔ ‘‘آنٹی کا جواب سن کر دو روز پہلے کہی گئی عدن کی بات بالکل سچ لگی کہ وہ بہت سادہ لوح عورت ہیں۔
’’کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ رقم کی ادائیگی کتنی ہوئی ۔ ‘‘ اور قیمت کا سن کے وہ بھونچکا رہ گیا۔
’’نو سال پہلے جب ماموں فوت ہوئے تھے‘ تو میں آیا تھا مجھے اچھی طرح یاد ہے گاڑی بالکل نئی تھی‘ پھر بھی اونے پونے داموں بیچ دی گئی۔‘‘
’’بیٹا ہمارا پرسان حال کون تھا جس پہ میں بھروسا کرتی۔‘‘ آنٹی نے یوں ہی ہوا میں ہاتھ لہرایا ‘برآمدے کی اوپری سیڑھی پہ بیٹھی چڑیا پھر سے اُڑی ‘کھوڑی میں دانے اور آب خورے سے منہ موڑ کر۔ مدحت کو دکھ محسوس ہوا۔
’’جب حنان حیات تھا تو میرے چچا‘ تایا‘ ماموں وغیرہ جب جب کراچی آئے یہیں قیام ہوتا ‘بے سہارا عورتوں کی خبر گیری کون کرتا ہے، منیر کا بھلا ہو‘ بے آسرا عورتوں کے جھنڈ میں جھانک تو لیتا ہے۔ بھلے سال بھر بعد ہی سہی۔‘‘ تشکر سے لبریز آواز۔
اذان محسوس کررہا تھا کہ منیر ان کے لیے ڈوبتوں کو تنکے جیسا سہارا تھا‘ اس نے دکانیں دیکھی تھیں مین روڈ پہ اچھی تھیں۔ جنہوں نے کرائے پہ لے رکھی تھیںان سے تفصیلی بات چیت بھی ہوئی تھی ۔ منیر صاحب نے ہر جگہ اندھیر مچارکھا تھا ۔ باقی کا کام ان کی آمد کے بعد ہی نبٹایا جا سکتا تھا۔
’’برے اور کڑے وقت میں اچھے وقتوں کے رشتہ دار اور دوست آنکھیں پھیر کے گزرتے ہیں ۔ نہ کبھی ہم نے حساب کتاب مانگا‘ نہ کبھی اس نے دیا ۔ کبھی خبر گیری کرنے آجاتا ہے تو گلی محلے میں چلو بھرم ہی رکھ لیتا ہے کہ ان کا بھی کوئی ہے۔ ‘‘ مدحت جیسے خود کلامی کر رہی تھیں۔
ایک تلخ سی مسکراہٹ نے اذان کے ہونٹوں کو چھوا ۔ دو تین دنوں سے اندر چھپائی بات کرنی مشکل لگ رہی تھی مگر کرنی تو تھی۔ عدن ان کے قریب سے تیزی سے گزر کر اپنے بیڈ روم میں گھسی ۔ اس کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی کہ اتنی صبح وہ خالہ کون سے راز و نیاز کر رہا ہوگا۔
’’ سمجھ میں نہیں آتا کہ ادھر کون سے سیلابی ریلے پہ بند باند ھتی رہتی ہو۔‘‘ خالہ نے غصے سے باز پرس کی۔
’’ آنٹی باتیں مزے کی کرتی ہیں۔‘‘ بمشکل ہنسی پر قابو رکھا۔ کھلا دروازہ پھلانگ کر ہمسائیوں کا بکرا گھر میں گھس آیا تھا۔
’’عدن ذرا باہر آنا ارے اس کو بھگاؤ پودے کھا جائے گا۔‘‘ عدن غسل فرما رہی تھی ۔ اذان کو ہی اٹھنا پڑا کمرے کی رسی پکڑی۔
’’ ابوجی! دیکھیں تو کیسے کیسے کام انجام دے رہا ہوں ۔‘‘ کنڈی لگا کر واپس آیا۔ کچن سے کھٹ پٹ کی آوازیں آرہی تھیں۔ صحن کے کونے میں لگے بیسن میں ہاتھ رگڑ کر دھوئے ۔ میلی موٹی بکرے کے گلے میں پڑی رسی جیسے ہاتھ میں کھب سی گئی تھی۔
انڈا ‘پر اٹھا ‘دہی‘ رات کا بچا سالن ٹرے میں ہر چیز نفاست سے موجود تھی ۔ٹرے رکھتے ہوئے عدن نے تفصیلی جائزہ لیا ۔ اذان نے اس پل نظریں اٹھائیں ۔ وہ نظر چمکارتی‘پچکارتی چوسنی پکڑانے جیسی ہرگز نہیں تھی ۔ بالکل الگ سی تھی کچھ جتاتی، کچھ پوچھتی ہوئی کہ کہو کیسا ہوں؟ اس نے یکلخت گڑ بڑا کر نظرجھکائی ۔ دیکھنے میں اٹھنے بیٹھنے میں کیسا لگتا ہوں؟ اس کے گڑ بڑانے پر وہ بہت محظوظ ہوا۔
’’اسے کیا ہوا ہے ۔‘‘کچن میں آکر سوچوں میں غرق ہی چائے بنائی، کچھ منٹوں بعد چائے کا کپ اسے تھماتے ہوئے اس نے دوبارہ دیکھنے سے احتراز برتا ۔مگر کپ تھامنے والے نے اس احتراز کو صاف محسوس کیا۔
’’یہ تمہاری خام خیالی ہے عدن بی بی کہ میں تمہیں بے وقوف سمجھتا ہوں۔‘‘ وہ ایک شریر سے احساس میں گھر کر خوش ذائقہ اور خوش رنگ چائے سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔
٭…٭…٭
آصفہ سے آج اس کی فون پہ بات ہوئی تھی اور زوبیہ نے انہیں اذان کی بابت بتا دیا تھا۔ کتنی دیر تک دوسری جانب خاموشی چھائی رہی۔
’’وہ اپنے باپ کی مرضی سے گیا ہے۔‘‘ آصفہ معاملے کی تہہ تک پہنچ کر بولیں۔
’’اچھا میں تو سمجھی کوئی اور ہی چکر ہے ۔ ‘‘ زوبیہ نے بات کو پھر گھمایا کیونکہ بھتیجیوںکے بارے میں وہ اس کے کان اکثر بھرتی رہتی اور کچھ یوں نقشہ کھینچتی کہ جیسے وہ حنان کا گھر نہیں بہت ہی خراب عورتوں کا ٹھکانہ تھا۔
’’تمہیں پتا تو ہے اس کے مزاج کا وہ ایسے چکروں میں پڑنے والا نہیں پھر بھی میں اس سے بات کروں گی ۔‘‘ یہ الگ بات کہ خبر سن کر ان کا خون کھول اٹھا تھا ۔ مگر بروقت انہوں نے بات سنبھال لی تھی وہ نہیں چاہتی تھیں کہ اذان کے چاچا ، تایا کی فیملی ان کے بارے میں کچھ ایسا ویسا سوچے‘ انہوں نے زوبیہ کو خدا حافظ کہا۔
آصفہ جانتی تھیں کہ زوبیہ کیا سوچے بیٹھی ہے ۔ سارہ نے رو دھو کر انٹر پاس کیا تھا جبکہ اذان کو اعلیٰ تعلیم یافتہ کانفیڈنٹ مردوں کے شانہ بشانہ چلنے والی لڑکیاں پسند تھیں ۔ انہیں بہو کے روپ میں ثمرہ پسند اور ان کے بیٹے کو کوئی اعتراض بھی نہیں تھا ۔ وہ خود ہمیشہ مڈل کلاس ہونے کی احساس کمتری میں مبتلارہی تھیں ۔ اب وہ تصور میں اپنے گھر میں ایک اپر کلاس بہو کو چلتے پھرتے دیکھتی تھیں۔ جو فر فرانگلش بولنا بھی جانتی تھی۔
٭…٭…٭
’’ جنہوں نے یہ دکانیں کرائے پہ لی ہوئی ہیں ایک دو دن پہلے میں ان سے ملا تھا ۔ ‘‘ وہ کوشش کر رہا تھا کہ بنا تمہید باندھے مناسب الفاظ میں حقیقت سے پردہ اٹھائے ۔ امن خالہ کے پہلو میں بیٹھی تھی ۔ عدن ذرا دور کسی میگزین کی ورق گردانی کر رہی تھی۔
’’ وہ بتارہے تھے کہ گزشتہ برس منیر صاحب نے فی دکان بائیس ہزار کرایہ وصول کیا تھا ۔ ‘‘ مدحت کے سر پہ ساتوں آسمان گرے ۔ عدن نے میگزین بند کر کے جھٹکے سے سراٹھایا۔مدحت نے اپنے سفید پڑے ہونٹوں پہ زبان پھیر کر اذان کے جھکے سر کو تحیر سے دیکھا ۔ وہ جان بوجھ کر ان تینوں کی طرف دیکھنے سے گریز برت رہا تھا ۔ مدحت کا چہرہ کرچیوں میں بٹا‘ مگر نہیں کرچیاں تو دل میں ہوئی تھیں‘ اعتبار کے کتنے ہی ٹکڑے ہوئے۔
’’ یتیم بھانجیوں کا حق غصب کر کے اپنے بال بچوں کے لیے لے جاتا تھا، کبھی یہ نہ سوچا کہ یہ رقم ان کے سال بھر کا گزارہ ہے ۔‘‘ ان کا لہجہ دھواں دھواں ہو رہا تھا۔
’’آپ کو کرایہ ماہانہ وصول کرنا چاہیے تھا ۔ ‘‘ اذان نے سر اٹھا کر انہیں باری باری دیکھا۔
’’کون ہرماہ وصول کرتا ‘غیر مردوں کے پاس میں اپنی بچیوں کو نہیں بھیج سکتی تھی ۔ ‘‘ پھرپتا نہیں انہیں کیا ہوا‘ ایک دم پھوٹ پھوٹ کے رو پڑیں ۔ وہ اپنی جگہ سے تیزی سے اٹھ کر عدن سے پہلے ان کے قریب آیا۔
’’یہ کیا کر رہی ہیںآپ ‘اتنی بہادر خاتون اور یہ آنسو۔‘‘ وہ بلاو جہ ہی مسکرایا۔
’’آپ یہ سب کیوں کر رہے ہیں۔‘‘وہ اتنی درشتی سے بولی اور اتنے خطرناک تیوروں کے ساتھ کہ اسے لگا کہ وہ ابھی اس کا گریبان پکڑے گی۔
’’ہم بے خبری میں ہی خوش تھے، آپ ہمارے بھرم کیوں توڑ رہے ہیں۔‘‘ اس لمحے اذان نے ان غصیلی آنکھوں میں جھانکنے کی غلطی کی تھی ۔ سیدھی سادی گہری سیاہ آنکھوں میں نمی تھی۔
دکھ کے پانیوں میں تیرتی وہ آنکھیں اس کے حیران چہرے پہ گڑی تھیں‘ کوئی اسیر کرنے والا پل اترا تھا ‘ آنکھ کی تہہ سے لپٹی نمی نے کسی بے رنگ لمحے کو رنگ دیا ۔ اذان کا دل اس کے پورے وجود میں دھڑکا اور زندگی میں پہلی بار اس نے اتنا شور کرتے سنا ، وہ اس اجنبی انجان کیفیت سے ایک ساعت میں پورے کا پورا آگاہ ہوا ۔ نظر کاٹھہرناوقت نے مقید کردیا‘تو اس سے سوال کرتی آنکھیں ٹھٹکیں‘قید سے نکلیں اور پھر جھک گئیں ۔ وہ اجنبی لمحوں کے پرفسوں کھیل سے باہر آیا ۔ امن کے آنسو بے آواز بہہ رہے تھے۔
’’میرا مقصد آپ سب کو ہرٹ کرنا نہیں تھا، پھر بھی آئی ایم سوری۔‘‘ اس نے معذرت خواہانہ نگاہوں سے انہیں دیکھا۔
’’مگر …‘‘کچھ لمحوں کا وقفہ دے کر وہ سنجیدگی سے گویا ہوا۔
’’کسی بہت بڑے نقصان سے بچنے کے لیے چھوٹے موٹے دکھ برداشت کرنا ہی بہادری ہے۔‘‘ اس کا لہجہ بھاری ہوا۔
’’ایک نہ ایک دن تو …‘‘
’’آپ کے نزدیک یہ دکھ کتنا چھوٹا ہے؟‘‘ وہ اس کی بات کاٹ کر بولی۔
’’اعتبار کانچ کا برتن نہیں ہوتا کہ پھر خرید لیا جائے۔ ایک بچا کھچا رشتہ تھا‘ آپ کیا چاہتے ہیں کہ چند ہزاروں کی وجہ سے وہ بھی ختم ہو جائے۔‘‘ وہ اس کے روبرو غصے سے لال پیلی ہوتی‘ کہیں کا غبار کہیں نکال رہی تھی۔
’’ میں ایسا کیوں چاہوں گا۔‘‘ وہ نرم آواز میں بولا اور حمایتی نظروں سے امن اور مدحت کو دیکھا جو اسے مل بھی گئی۔
’’اذان نے جو کیا ہماری بہتری کے لیے کیا ہے۔‘‘ مدحت کو بھانجی کی بے مروتی سے کی گئی گفتگو ذرا نہیں بھائی تھی۔
’’اگر ماموں کی ضرورتوں کے لیے چھتیس ہزار اہم ہیں تو سمجھو ہمارے لیے بھی وہ چند ہزار نہیں ۔ رشتوں پہ فوقیت دینے والا ایک روپیہ بھی انمول محبت اور اعتماد مو بے مول کر سکتا ہے ۔ ‘‘ امن نے بے دردی سے آنسو پونچھتے ہوئے بہن کو ناپسندیدگی سے دیکھا جس نے جزبز ہو کر نگاہیں چرائیں۔
’’ آنٹی اب اجازت چاہتا ہوں، آج رات گھر پر ٹھہرنے کا ارادہ ہے ۔ ‘‘ مسکرانے کی کوشش کرتا وہ ایک دم ہی اپنی نشست سے اٹھا اس کا دل کچھ بوجھل سا ہو رہاتھا۔اس کی غیر موجودگی میں تینوں ایک دوسرے سے غم و غصے کا اظہار کھل کر کر سکتی تھیں۔
’’ کیوں بیٹا؟‘‘ لمحوں میں مدحت کا چہروفق ہوا۔
’’اس لڑکی کا تو صرف قد بڑھا ہے عقل نام کو نہیں۔ ‘‘ سختی سے بے عقل بھانجی کو دیکھ کر اس کی طرف سے معافی بھی مانگ لی۔
’’کیوں شرمندہ کر رہی ہیں آپ ۔‘‘ دو قدم آگے کو ہو کر ان کے سامنے ٹکا۔
’’مما کا فون آیا تھا کہ برسات کا موسم ہے۔ پتا نہیں مالی نے پیڑ پودوں کو جنگل میں ہی نہ بدل دیا ہو، کل آجاؤں گا اور دوسری بات یہ کہ ان کی باتوں پہ ناراض نہیں ہوں۔‘‘ہنستے ہوئے وہاں سے اٹھا اور وہ جو آگے کی سمت قدم اٹھا چکی تھی اس کے بلاوجہ ہنسنے پہ ٹھٹکی پھر مڑ کے اسے دیکھا ۔ وہ میل سے گاڑی کی چابی اور موبائل اٹھا رہا تھا ۔ اس کے مڑ کے دیکھنے پہ اس کی طرف متوجہ ہوا۔
’’یہ ابھی بچی ہے۔ وقت کے ساتھ سمجھ دار ہو جائے گی۔‘‘گہرے لہجے میں شرارت رقصاں تھی ۔ سنجیدگی کا سہارا لے کر ان مسکراتی آنکھوں نے جیسے اس کے دکھتے حصے کو زور سے دبایا تھا ‘کہ مقابل کے چہرے پہ مرنے مارنے والی کیفیت اتری … پھر فوراََ نظر کی توپیں بہن کی طرف موڑ یں کہ دیکھا میں صحیح کہتی تھی ناں ۔ چوسنی تھمانے والے کی طبیعت کا بوجھل پن لمحوں میں رفو چکر ہوا ۔ سب پہ الوداعی نظر ڈالتا سر شار قدموں سے گاڑی کی طرف بڑھا۔