چھپا کے چھئی : فرزانہ کھرل
چھکا چھک چھکا چھک ۔
موٹر پمپ چلتا تو یوں لگتا کہ زمین زلزلے کی زد میں ہے ۔ آج وہ مستری سے موٹر ٹھیک کروا رہا تھا اور جن ٹوٹیوں اور شاور زمیں پانی کم آتا تھا ان کی بھی بدلی ہو رہی تھی۔ کام ختم کروا کر ابھی وہ بیٹھا ہی تھا کہ عدن کی سنجیدہ آواز سماعت سے ٹکرائی۔
’’ ہم فقیر نہیں اذان صاحب کہ حیلوں بہانوں سے ہماری امداد کی جائے ۔ یو پی ایس سے لے کر آج تک کے تمام سامان کی رسیدیں مجھے چاہئیں۔ ‘‘ اذان دیکھ رہا تھا کہ وہ کل کے واقعے کے بعد کچھ اکھڑی اکھڑی سی تھی۔ گھر خالی کرواتے وقت وہاں پولیس کی کافی بھاری نفری تھی جو کہ باقی گلی محلے والوں کے لیے تنبیہہ تھی کہ اب بند گلی طرف کوئی میلی یا اجلی آنکھ سے بھی دیکھنے کی جرات ہرگز برداشت نہیں کر سکتا۔
آج صبح سے ہی گھر میں محلے کی خواتین کا آنا جانا لگا رہا سب ایک ہی بات دہراتی رہیں کہ حنان صاحب کا بھانجا بہت بڑا افسر ہے ‘ جس نے شیرو جیسے لوفر سے اس محلے کو نجات دلا کر بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔
’’ کس قدر گھنا ہے یہ بندہ‘ ذرا جو اپنی ملازمت کی بھنک بھی پڑنے دی ہو۔ خالہ کے استفسار پر کیسے معصوم بن کے کہا کہ گورنمنٹ کا ملازم ہوں۔ ‘‘ آج جب اسے حقیقت کا علم ہوا تو عدن کے تو گویا تلووں پرآکر بھجی تھی ۔ اس کے اس قدر روڈ انداز پہ اذان نے ٹھٹک کر بغورا اسے دیکھا‘ پھر سہولت سے بولا۔
’’رسیدیں وغیرہ تو میرے پاس ہیں مگر جو بات آپ کو مشتعل کر رہی ہے سیدھے سبھائو سے وہ بتا دیں تو مہربانی ہوگی۔ ‘‘ وہ ذرا سا مسکرایا۔
’’آپ کسٹم میں ہوں، واپڈا میں کلرک ہوں یا چوکیدار‘ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں اور نہ ہی یہ بات مجھے مشتعل کررہی ہے۔‘‘
’’اوہ۔‘‘ اذان نے نے محضوظ سا ہو کر لبوں کو گول کیا ۔ اس لمحے اُس کی غصیلی آنکھوں میں بھلا وہ جھانکنے کی مجال کیوں کر کر سکتا تھا۔
’’ عدن یہ کیا بدتمیزی ہے۔‘‘اشاروں کنایوں میں مدحت اسے ڈپٹ چکی تھیں ۔ مگر اب کھل کے بالآخر بولناہی پڑا ۔
’’رہنے دیں آنٹی۔ ‘‘ اس نے ہاتھ اٹھا کر جیسے انہیں مزید کچھ بھی کہنے سے روکا ۔ پھر دوبارہ تلملاتی عدن سے مخاطب ہوا۔
’’آپ اس تمام واقعے کو صرف اپنی ذات تک محدود مت سمجھیں ۔ سمجھیں ہر گھر میں مجبور ماں باپ اپنی بیٹیوں کی طرف سے اسی صورت حال کا شکار تھے۔‘‘ اس نے نرم لہجے میں کہہ کر متانت سے اسے دیکھا۔
’’آپ کی دوسری بات کا جواب یہ ہے کہ آپ لوگ امداد کے مستحق ہر گز بھی نہیں ۔ اب تھوڑی تھوڑی دیر بعد میں آپ سے پیسے مانگتا اچھا لگوں گا۔‘‘ وضاحت دیتی نظریں اسی پر مرکوز تھیں۔
’’جانے سے قبل فرصت میںحساب کرلیں گے ۔ جاب کے متعلق اس بتایا کہ پھر لڑکیاں اس حرکت کو شو بازی سے منسلک کرتی ہیں۔‘‘ اس کا چہرہ تک مسکرا اٹھا۔
’’کیوں آنٹی سچ کہہ رہا ہوں نا۔ ‘‘ نگاہوں کا ارتکاز ٹوٹا وہ مدحت سے تائید چاہتا قریب سے گزرتی امن کو پکار بیٹھا۔
’’ایک کپ چائے ہو جائے۔ ‘‘ جواباََ اس کے قہقہہ لگانے کو حیرت سے گھورا۔
’’ سمجھیں، آپ نے گرم پانی کی فرمائش کی ہے۔‘‘ وہ جھٹ قہقہےکی وجہ بتاتی کسی کمرے میں گھس گئی ۔ عدن اسے گھورنا چھوڑ کر کچن کی طرف مڑی تو اس نے بھی طمانیت بھر گہراسانس لیا ۔ اسے غصہ نہیں آیا تھا بلکہ اس کی خودداری اچھی لگی تھی۔
’’ آپ نے ملازمہ وغیرہ کا جھنجٹ نہیں پالا ہوا۔‘‘اپنی ماں کو گھر میں ملازمہ سے جھک ‘ جھک کرتا دیکھ کر وہ جھنجلا ہٹ اور کوفت کا شکار ہوتا تھا۔
’’ پرانی ملازمہ کی بہو آتی ہے ۔ دوسرے تیرے دن مشین لگا کر کپڑے دھو جاتی ہے ۔ ساتھ ہی تفصیلی صفائی وغیرہ بھی کر جاتی ہے ۔ ‘‘ آنٹی کی گفتگو میں اس کے سوال کرنے کاتجسس اپنی جگہ بر قرار رہا۔
’’عدن کو ساتھ ساتھ پڑھائی جاری رکھنی چاہیے ۔‘‘ وہ دیکھتا تھا کہ وہ کیسے ذرا ‘ ذرا سے میسج پڑھانے کے لیے امن کے آگے پیچھے پھرتی ہے۔
’’مطلب ریگولر نا سہی ٹیوشن سینٹر و غیروہی جوائن کرلے ۔‘‘وہ بالکل مدہم لہجے میں بات کر رہا تھا کہ مبادا کہیں وہ سن کر پھر کسی کمپلیکس کا کا شکار نہ ہو جائے۔ ایک تو ویسے ہی بات بات پہ آنکھیں دکھانے لگتی ہے۔
’’پہلے تو اس کم بخت لڑکے کا مسئلہ تھا ‘ اب میں اس سے بات کروں گی کہ شام میں وقت نکالے ۔ ایک تو آج کل یہ لڑکیاں موئے ڈرامے بہت دیکھتی ہیں اور وہ بھی مانو بالکل فارغ ہیں جو ڈراموں پہ ڈرامے بنائے چلے جاتے ہیں۔‘‘ ساتھ ہی ترچھی نظر سے چائے لے کر آتی بھانجی کو دیکھا۔
’’ خالہ کیسی جاہلانہ بات کرتی ہیں ۔‘‘ وہ منہ بنا کر بولی۔ اعتراض اس پہ تھا کہ سب کے سامنے ہی کرتی ہیں سو کشیدہ نظر مہمان پہ ڈالی۔
’’ یہ ان کا ذریعہ معاش ہے۔ ‘‘ ٹیبل پر چائے رکھ کر سیدھی ہوئی تب ہی اس کے سیل پہ میسج ٹون بجی۔
اب یہ پڑھی لکھی بہن کی طرف دوڑلگائے گی اور کچھ لمحوں بعد وہ نگاہیں سیل پہ جمائے امن کے نام کی ہانک لگا رہی تھی۔ اذان نے کمروں میں جھا نکتی عدن کو محفوظ سا ہو دیکھا۔
٭…٭…٭
زوبیہ نے رزاق کے اٹھتے ہی شیر دل کو آڑے ہاتھوں لیا۔ دل تو کر رہا تھا کہ اس کے لمبے تڑنگے وجود کا حشر قیمے سے کم نہیں ہونا چاہیے۔
’’غفران کے سامنے میرے اباکانام لینے کی کیاضرورت پیش آنی تھی۔ ‘‘لہجے میں کریلے سے بھی زیادہ کڑواہٹ تھی۔
’’کیوں کہ میرے ابا آپ کی سہیلی کے سسرال والوں کو خوب جانتے تھے اور پہچان کر ہی آپ اور ان کے بیچ تعلق کی وضاحت کی تھی ۔ ‘‘ شیرو نے زوبیہ کو بڑی میٹھی اور لتاڑتی نظروں سے دیکھا۔
’’ایسی نظروں سے مجھے نہیں حنان کی بیٹی کو تاڑتے رہتے تو زیادہ بہتر تھا ۔ ‘‘ وہ جیسے جھلس کر بولی۔
’’اتنے سالوں میں تجھ سے اتنا سا کام نہ ہو سکا۔‘‘
’’وہ ذرا سا کام نہیں تھا پھوپھی !دھمکی اپنی جگہ ہے مگر اغوا کرنے کی صورت باقی تمام عمر جیل میں سڑنا پڑتا تو کیا بعد میں تو مجھے نکلواتی جو اپنے باپ کا نام درمیان میں آنے پر مجھے قتل کرنے کے درپے ہے ۔ ‘‘ شیرو کو بھی ہری مرچیں داڑھ کے اندر رکھنے کی عادت تھی۔
’’ویسے بھی میں تو صرف تیرے کہنے پہ اس لڑکی کے پیچھے لگا رہا ورنہ ایسا کیا تھا اس میں نہ کوئی اسٹائل نہ فیشن ۔‘‘وہ بدمزہ ہو کر بولا۔
’’اوپر سے محلے کی لڑکیوں نے جو واقعی دیکھنے کے قابل تھیں، مجھے اس کا عاشق سمجھ کر کبھی لفٹ تک نہ کرائی۔‘‘
’’اس کا عاشق رہنے میں تجھے کون سے گھاٹے کا سامنا کرنا پڑا ۔ ‘‘ اس نے آم کی قاش اٹھا کر منہ میں رکھی۔
’’تیرے باپ کی ابھی تک چونسہ کھانے کی لت نہ گئی۔‘‘ آم کا ذائقہ چکھ کر موڈ کچھ خوش گوار ہوا۔
’’ ایک تو پھوپھی تو ماضی کی کتاب کھول کر ہر وقت رٹے لگاتی رہتی ہے۔‘‘ شیر و منہ پھاڑ کے ہنسا۔
’’سارے صفحات پھاڑ کے ٹوٹے کر کے پھینک دیے ہیں ۔ بس ایک دو سنبھال کے رکھے ہیں۔ ‘‘ آج بھی اس کے تصور میں حنان کا وجود ہلچل مچاتا تھا۔
’’خیر اتنا تو ہوا کہ عدن کی پڑھنے پڑھانے کی عمر تیرے خوف سے نکل گئی ،اوپر سے شکل بھی واجبی سی… کہاں اذان کہاں وہ ۔‘‘ اطمینان وتسلی کے سارے پل باندھ کے بولی۔
’’ویسے پھوپھی! چھوٹی بہن بھی قیامت کی چیزہے۔‘‘ وہ آنکھیں ٹیڑھی کر کے خباثت سے مسکرایا۔
’’خبردار …‘‘اس نے فوراََشہادت کی انگلی اس پر تانی۔
’’اب نہیں۔ پہلے کی بات اور تھی۔ اب اذان کا آنا جانا ادھر رہے گا اور جو غفران کے سامنے تیرے باپ نے رشتہ داری کا کہہ ہے تو جانتا تو ہے کہ میں سارہ کی شادی اذان سے کرنے کی خواہش مند ہوں۔‘‘
’’ا تنے اونچے خواب نہ دیکھو۔ آسمان سے گرے کی تو ہڈی پسلی کا رونا بھی نہیں روناپڑے گا پھو پھی۔‘‘ سارہ کا پرکشش سراپا نگاہوں میں گھرا تو پھوپھی کی شکل پہ پھٹکار برستی نظر آئی۔
’’اتنے سالوں سے آصفہ میری مٹھی میں ہے اور جوگڑ میں رخشندہ کی دیوار کے ساتھ لگا کر آئی ہوں اب دیکھنا کس کا کھیل بنتا ہے اور کس کا بگڑتا ہے ۔ ‘‘ دھیان میں رخشندہ کا پھیکا پڑتا چہرہ آیا تو اس کے ہونٹوں پہ ایک شاطرسی مسکراہٹ گھر گئی۔
’’ لگتا ہے آج کل شیطان کی اکیڈمی میں پھوپھی کا آنا جانا کچھ زیادہ ہی ہے۔‘‘ اس کے بلند و بانگ قہقہے پہ زوبیہ نے چونک کرنا گوار نظروں سے اسے دیکھا۔
٭…٭…٭
ہوا کے چھوتے ہی کھڑکی کا پٹ زور سے بجا۔
’’ میں ساحرہ ہوں۔ میں محبت کی مانند احساس کو چھولیتی ہوں۔ جسموں کے اندر سرایت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔ آؤ مجھے چھو کے دیکھو اور مجھے چھونے دو ۔ ‘‘ اس نے کان میں سرگوشی کر کے ایک کھلی ترغیب دی۔
لمس کا ہلکا سا احساس بخش کر دور ہو گئی ۔ اندر حبس بڑھ گیا تھا ۔ سب کی نیند ٹوٹنے کے احساس سے آہستگی سے دروازہ واکر تا وہ با ہر آیا۔ گھپ اندھیرا تھا ۔ روزانہ بر آمدے میں آنٹی اس کے لیے بستر بچھواتی تھیں ۔ وہ باہر سونے کا عادی نہیں تھا ۔ آج موسم ٹھنڈا تھا تو وہ کمرے کی گھٹن سے گھبراکر دبے پاؤں چار پائی تک آیا ۔ ہوا بہت خوش گوار تھی ‘جھوم کے اس سے لپٹی۔
’’عدن تمہیں اذان بھائی کیسے لگتے ہیں؟‘‘ دونوں بہنیں صحن میں چارپائیاں بچھا کر لیٹی ہوئی تھیں ۔ امن کے سوال پر اس کے کان کھڑے ہوئے، اپنے بارے میں لڑکیوں کی رائے سے وہ بخوبی واقف تھا ۔ اس کی کزنز کی سراہتی نظریں اسے گھیرے میں لیے رہتیں ‘ اس کی نظر میں یہ دونوں بہنیں ابھی بچیاں تھیں۔ وہ پر خلوص نگاہوں سے انہیں دیکھتا تھا پھر بہن سے ایسے سوال کی کوئی تک بنتی تھی۔
’’کیا مطلب کیسے لگتے ہیں؟‘‘ الٹا اس نے سوال داغا ۔ تڑتڑتا ہوا لہجہ چھوٹی بہن کے کان کھینچتا ہوا۔
’’افوہ!مطلب دکھنے میں کیسے لگتے ہیں۔‘‘ امن جھنجھلائی۔
’’ جیسا کہ جبران تمہیں گنجا نظر آتا ہے۔‘‘ جملہ بول کے وہ گڑبڑائی بھی۔
’’کیونکہ وہ گنجا ہے اس لیے گنجا نظر آتا ہے۔‘‘ وہی سابقہ لہجہ کرختگی سے بھرپور۔
’’اچھا چپ تو کرو ۔‘‘ امن کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کس طرح سمجھائے ۔
’’جیسے ہمایوں سعید تمہیں اچھا لگتا ہے۔‘‘
’’ لا حول ولا قوۃ۔‘‘ اذان نے کروٹ بدلی۔
’’بے وقوف ہمایوں کو تو میں نے بے شمار بے حساب دیکھ رکھا ہے۔ اس کی تو بات ہی الگ ہے۔‘‘لہجے میں شرینی سی گھلی۔
’’ میرے حساب سے اذان بھائی کو آئے ہفتہ ڈیڑھ تو ہو ہی گیا ہے گھر آنے کے بعد بر آمدے میں ہی بیٹھتے ہیں‘ کون سا گھونگھٹ نکال کر بیٹھتے ہیں۔ ‘‘ امن کا تیز ہو تا لہجہ بے یقینی سے بھر پور تھا ۔ اندھیرے میں یقیناََ آنکھیں پھاڑے اسے تک رہی تھی۔
’’اچھا ناراض تومت ہو ‘ بتاتی ہوں۔‘‘ اسے جیسے بہن پرترس آیا۔
’’سچ بتاؤں … میں نے کبھی اسے دھیان سے دیکھاہی نہیں۔‘‘
’’ لیجئے اے سی صاحب خوش گمانیوں کے جھولے سے اتر آئیے ۔‘‘ نرم ہوا نے اس کی آنکھوں پر دھرے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ پورے استحقاق سے دھرا اس قدر ہوا کا حق جتانا اسے اچھا نہیں لگا تھا شاید کہ جھٹکے سے آنکھوں پر سے کلائی ہٹا کر گھپ اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ کر اس بیس سالہ لڑکی کو دیکھنے کی کوشش کی جس کی دورو نزدیک کی نظر خاصی کمزور ہوگی ۔ اس نے یقین کی حد پار کی۔
’’ اسے دیکھتے ہی مجھے غصہ آجاتا ہے ۔ ‘‘فضا میں گھلی لیموں کی باس نے مہمان کی سانسوں کو کافی کھٹاکیا۔
’’ ذر ا سوچو‘اباکے مرنے کے بعد رشتہ داروں سے محبت ایک دم کہاں سے پھوٹ پڑی … بلکہ ابا کے ہوتے بھی کون سا پھوپھو آتی تھیں، مگربہت نرم خو‘ شفیق سے مسعود پھوپھا کا تصور میرے ذہن میں بہت پختہ ہے۔ابا نے جب خالہ سے شادی کی تو اس کے بعد بھی یقیناََ پھوپھو سے چھپ کر ہی آتے ہوں گے۔‘‘
’’ میں تمہاری بات سے اتفاق نہیں کرتی ۔ ‘‘ امن نے اس کی نا مکمل بات کا آخری کو نا اپنے ہاتھ میں لیا۔
’’ہمارے گھر کی دیواروں پہ کون سے ہیرے جواہرات جڑے ہیں جنہیں وہ اتارنے آئے ہیں پھر خالہ مدحت کو اگر اس کے خلوص پر شک ہو تا تو ڈیڑھ دو ماہ کے لیے یوں ایک اجنبی کو گھر میں ٹھہرنے دیتیں ۔ ‘‘ امن کو اذان کے بارے میں ہری ہری سوجھ رہی تھی اس لیے اس کالہجہ بھی سبز پتوں جیسا تھا۔
’’خالہ کو جیسے زمانے کی بڑی خبر ہے ۔ ان ساسید ھا تو کوئی ہے ہی نہیں،بوا رشیدہ بتارہی تھی کہ اذان صاحب کے چچا تایااسی شہر میں رہتے ہیں ، جبکہ وہ حضرت‘ خالہ سے کہہ رہے تھے ماموں کے علاوہ شہر میں کوئی دوسرا رشتے دار نہیں تھا ۔ آفس کا مسئلہ تھا۔ اس لیے ادھر آیا ہوں ‘جبکہ…‘‘
’’ ایک تو یہ تمہارا جبکہ مجھے زہر لگتا ہے، سونے دو مجھے ۔‘‘ جب بات اس کی پسند کے خلاف ہو ا کرتی تو وہ یوں ہی رستہ بدل لیا کرتی تھی۔
’’ناراض مت ہو، صبح دھیان سے دیکھوں گی ‘ پھر بتاؤں گی کہ کیسا دکھتا ہے کیسے بیٹھتا ہے۔‘‘
’’تم نے نوٹ کیا ہم دونوں سے وہ یوں بات کرتا ہے جیسے ہمارے منہ میں چوسنیاں ہوں۔ ‘‘ رات کے سکوت میں اس کی ہلکی ہنسی کلی کی طرح چٹکی تھی۔
’’ ہم سے کافی بڑا ہے نا۔‘‘ اس لیے امن کچھ صلح جو ہو کر بولی۔
’’وہ ہمیں جاہل اور بے وقوف سمجھتا ہے اس لیے ۔‘‘سکوتِ شب نے مسحور سا ہو کر بر آمدے میں چت لیٹے خوبرو مہمان کے ہونٹوں سے چپکی مسکراہٹ کو دل لگا کر دیکھا۔
ہوا پودوں کی خوشبو کو سونگھنے، چہار اطراف مٹر گشت کرتے کرتے کچھ تھکنے تھی ۔ صحن سے آوازیں آنا بند ہوئیں ۔ نیند کا اسم محبت کی مانند بے اختیار کر دیتا ہے نیند کی پہلی جھپکی پہ بے اختیاری کے عالم میں اترنے سے قبل وہ کمرے میں چلا آیا ۔ صبح اسے بر آمدے میں سوتا دیکھ کر وہ انہیں شرمندگی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا تھا۔
٭…٭…٭