چھپا کے چھئی : فرزانہ کھرل
’’ آج پھر تم دروازے تک آگئے ہو ۔ میں حاجی صاحب سے شکایت لگائوں گا ۔ ‘‘ سبزی والے نے اسے دبے لفظوں میں جھڑکا۔
’’ چچا ! ہم بھی سبزی خریدنے آئے ہیں‘ ناراض کیوں ہوتے ہو ۔‘‘ وہ جیسے دروازے سے جڑ کر کھڑا تھا او ر باباکے ہاتھ سے سبزی کا شاپر جھپٹ کر خوف سے پیلی پڑتی عدن کی طرف بڑھایا ۔ سارا معاملہ اذان کی سمجھ میں آگیا تھا ۔ ایک ہاتھ سے عدن کو راستے سے ہٹا کر تیر کی تیزی سے باہر گیا ۔ وہ نوجوان جو شکل سے ہی آوارہ دکھائی دے رہا تھا اسے دیکھ کر ٹھٹکا ضرور مگر اپنی جگہ جما رہا ۔ اذان عین اس کے سامنے جاکر کھڑا ہوا ۔ وہ لڑکا اس کے اونچے قد اور بارعب شخصیت کے سامنے تنکے جیسا لگ رہا تھا۔
’’ آئندہ اگر اس گھر کے سامنے نظر آئے تو واپس اپنی ٹانگوں پر چل کر نہیں جاسکو گے ۔ ‘‘ اس کا مضبوط اورسرد لہجہ سن کر لڑکے کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑ گئی ۔ اذان لب بھینچے اپنے غصے کو قابو میںرکھے ہوئے تھا۔
’’ آئندہ سبزی ہمیشہ اپنے گھر کے سامنے خریدنا ‘ اب چلتے پھرتے نظر آئو ۔ ‘‘ دل تو کررہا تھا کہ الٹے ہاتھ کے دو چار جھانپڑ رسید کردے۔
’’ ورنہ …‘‘ وہ لڑکا شاید اب کچھ سنبھل چکا تھا۔
’’ ورنہ تمہیں کل ہی پتا چل جائے گا ۔‘‘ اتنا کہہ کراذان اس کے سامنے سے ہٹ گیا ۔ وہ ایسے لوفروں سے نپٹنا اچھی طرح جانتا تھا ۔ آنٹی اور امن کے کے ہراسا ں چہرے دیکھ وہ دہ سمجھ گیا کہ عدن انہیں سب بتا چکی ہے۔
’’ تو عدن کا باہر کی دنیا سے کٹ کر رہنے کی وجہ کیا یہی لڑکا ہے ؟ ‘‘ اس نے باری باری ان دونوں خالہ بھانجی کو دیکھ کر مدھم لہجے میں پوچھا ۔ اس کے چہرے پر غصہ ابھی تک نمایاں تھا۔
’’ کیا کریں بیٹا ! اکیلی عورتوں کو ایسے لوگ تر نوالہ سمجھتے ہیں وہ تو تمہارے ماموں کی وجہ سے محلے میں ہماری بہت عزت کی جاتی ہے ‘ ڈھائی سال ہو گئے بچی کو گھر سے نکلے ۔ ‘‘ کچھ لمحوں کے لیے اذان سانس لینا بھول گیا ۔ سانس لینا واقعی اسے دشوار لگا۔
’’ کہتا تھا زبر دستی اٹھوا کر نکاح کرلوں گا ۔ ساری گلی جانتی ہے ۔ بس یہ ذرا حاجی صاحب سے جھجکتا ہے ۔ برے لوگوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے ۔‘‘ ایک انسان پرندے کی طرح اتنا عرصہ پنجرے میں بند رہے ‘ پھر بھی وہ ہنستا ہے بولتا ہے ۔ اس کی سانس سے زندگی خوشبو کشید کرتی ہے ۔ اس کی آنکھوں نے اس باہمت لڑکی کو کھوجا ۔ گھر پکوڑوں کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔ گویا وہ معمول کی طرح اپنے کام میں مصروف تھی۔
’’ا ن کے ماموں سے کہا تھا ۔ جبران سے بھی کہا تھا ، کہنے لگے ہم کیوں دشمنی مول لیں ۔ ایسے لوگوں کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں ۔ ڈر کے بھاگ گئے ۔ جانے اس کم بخت نے جبران کو کیا دھمکی دی تھی، چار سال ہو گئے آیا ہی نہیں ۔‘‘ اذان کے دل کو کسی احساس نے بری طرح کچلا۔
’’امی آپ نے ذرا اچھا نہیں کیا ۔ ‘‘ حرم شریف میں طواف کرتی ماں سے اس نے بھر پور غائبانہ شکوہ کیا ۔ کچھ دیر قبل ماں سے جھوٹ بولنے کا احساس زائل ہو کر اب گہرے پچھتاوے میں بدل گیا۔
’’ پھر بھی عدن کو اس طرح ڈر کر گھر میں بند نہیں ہونا چاہیے تھا ۔ بے جھجک ہو کر باہر آتی جاتی تو وہ یوںشیر نہ بنتا ۔ ‘‘ کافی دیر بعد وہ اپنی آواز اور سانس کی تیزی پہ قابو پا کر کچھ بولنے کے قابل ہوا۔
’’ آپ کے لیے یہ کہنا آسان ہے ۔ میرے لیے ایسا کرنا مشکل ترین تھا ۔ ‘‘عدن نے پکوڑوںسے بھری پلیٹ اور چائے کے تین کپ ٹیبل پہ رکھتے ہوئے پر اعتماد لہجے میں کہا ۔ اذان نے جھٹکے سے سراٹھا کر بے یقینی سے اسے دیکھا۔
’’اگر وہ مجھے اغوا کر کے ایک گھنٹہ بھی اپنے پاس رکھتا تو باقی تمام زندگی میری لیے صرف موت ہوتی ۔ اذان صاحب عزت کے ساتھ گھر کی قید بھی میرے لیے راحت ہے ، جنت ہے اور پھر ہمارا تھا ہی کون جو اس سے حساب کتاب لیتا ۔‘‘ اذ ان کی نگاہ یکلخت جھکی۔
’’بس اللہ ہمارا واحد سہارا ہے جس کی پناہ میں ہم بحفاظت ہیں ۔ ‘‘ چائے کا کپ اس نے نرمی سے اذان کے سامنے رکھا اور قدم واپس موڑے وہ اس کے صاف شفاف پاؤں نظروں سے اوجھل ہونے تک دیکھتا رہا۔ دل کی بے چینی الگ سوا تھی۔
٭…٭…٭
دوسرے دن اس نے آفس کے اردلی بھیج کر اس لڑکے اور اس کے باپ کو اپنے آفس بلایا جو اے سی صاحب کے بلاوے پہ بلا چوں و چراں اس کے سامنے موجود تھے ۔ وہ لڑکا اسے اے سی کی کرسی پہ دیکھ کرحیرت زدہ سا د یکھتا ہی رہ گیا۔
’’سر! آپ کے کتنے بچے ہیں۔‘‘ کافی دیر بعد ازان مئودب انداز میں اس کے باپ سے مخاطب ہوا البتہ اس کی جامد نگا ہیں اسی لڑکے پہ ٹکی رہیں۔
’’یہ ناخلف میری واحد اولاد ہے۔‘‘ باپ نے شرمندگی سے سرجھکا کر جواب دیا۔
’’آپ لوگ اس محلے میں کتنے عرصہ سے رہائش پذیر ہیں۔‘‘ اگلا سوال آیا۔
’’جی بارہ سال ہو گئے ہیں۔‘‘ جواب پھر عاجزی سے دیا گیا۔
’’ہوں ۔‘‘ اذان نے ایک گہرا سانس لیا۔
’’ پھر تو آپ کی حنان صاحب سے دو تین سال تک واقفیت اور بات چیت رہی ہوگی۔‘‘
’’جی جی۔‘‘ اس آدمی نے فوراََ سر ہلایا۔
’’آپ یقینا اپنے بیٹے کے کرتوتوں سے بھی واقف ہوں گے۔‘‘ اذان نے قہر برساتی نظر اس آوارہ پہ ڈالی۔جو پہلو پہ پہلو بدل رہا تھا۔
’’یہ میری بد نصیبی ہے کہ اس ناہنجار نے محلے میں مجھے منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ ‘‘ باپ کے لہجے میں دکھ کے ساتھ واضح لرزش در آئی۔
’’ ماں تو ہر گھر میں ہوتی ہے جو عورت کا سب سے مقدس روپ ہے، لیکن اس کے گھر میں دو چار جوان بہنیں ہوتی تو یہ شخص یوں لوگوں کی بیٹیوں کو اغوا کی دھمکیاں دن دیہاڑے نہ دیتا پھرتا۔‘‘ وہ اپنے مزاج کے مطابق تحمل سے بات کر رہا تھا ۔ اندر سے وہ جس قدر گذشتہ دن سے کھول رہا تھا یہ وہی جانتا تھا۔
’’ خیر رزاق صاحب دو تین دنوں کے اندر آپ کو وہ محلہ چھوڑنا ہوگا ۔ ‘‘وہ ٹھہر ٹھہر کر بولا ۔ باپ بیٹے نے ہڑبڑا کر اسے دیکھا ۔ تب ہی دروازہ بجا ۔ یسکی آواز پہ ڈیوٹی پر مامور چیڑ اسی نے اندر اگر مئودب لہجے میں اطلاع دی۔
’’سر! ایس ۔پی صاحب آپ سے ملاقات کے منتظر ہیں ۔ ‘‘ اس لڑکے کے چہرے پہ ایک دم تاریکی چھا گئی۔
’’ انہیں فوراََ اندر بھیجیں ۔ ‘‘ اس نے مطمئن ہو کر اپنی کرسی کی پشت سے ٹیک لگائی اور بالکل ڈھیلے انداز میں کرسی کو ادھر ادھر گھمایا ۔ ایس پی صاحب نے ادھر ادھر نظر ڈالے بناعین اس کے سامنے نشست سنبھالی۔
’’ آج اے سی صاحب کو ہماری شکل دیکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ۔ ‘‘ اس نے اذان سے مصافحہ کرتے ہوئے بشاش لہجے میں کہا۔
’’آپ کی شکل دیکھنے کی ضرورت یوں پیش آئی ہے کہ آپ کو کسی کی شکل دکھانی تھی۔‘‘ اذان کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ گہری ہوئی۔
’’ وہ کون سی خوش نصیب شکل ہے۔ ‘‘ اس کا لہجہ بھی شریر ہوا۔
’’ صاحب اس کو معاف کردیں … مم … میں وعدہ کرتا ہوں دو دنوں تک وہ محلہ چھوڑ دیں گے۔‘‘ اچانک وہ آدمی اٹھا اور ان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا۔
’’ آپ پلیز تشریف رکھیں۔ ‘‘ اذان نے کوفت زدہ ہو کر اسے دیکھا پھر کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اس کے بیٹے سے مخاطب ہوا۔
’’ میری بات دھیان سے سنو اور یاد بھی رکھنا میں حنان صاحب کا سگا بھانجا ہوں اور یہ پولیس آفیسر میرے تایا کا بیٹا ہے ۔ اس گھر کو تم نے لاوارث سمجھ رکھا تھا تو یہ تمہاری بھول تھی۔‘‘ اس کے کرخت لہجے سے آگ برس رہی تھی۔
’’اگر آئندہ اس لڑکی کو خواب میں بھی دیکھنے کی کوشش کی تو میں تمہاری آنکھیں نکالنے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کروں گا ۔ میری بات سمجھ میں آئی کہ نہیں۔‘‘ اس نے ٹیبل پہ زور سے ہاتھ مارا۔
’’ جی،جی۔‘‘ وہ لڑ کا ایک دم کانپا۔
’’پہلے ہمارے کچھ خاندانی مسائل چل رہے تھے جو اب ختم ہو چکے ہیں ۔ اب تمام زندگی اس محلے میں تمہاری شکل نظر نہیں آنی چاہیے ورنہ باقی ماندہ غفران صاحب کی جیل میں مہمان بن کرگزارنی پڑے گی ۔ ‘‘ اور اسی لمحے اس کے سامنے بیٹھے پولیس آفیسر نے ہاتھ اٹھا کر اسے خاموش ہونے کا اشارہ کیا۔
’’ بس کر ویار ۔ اب گیند تمہارے کورٹ سے نکل چکی ہے ۔ ‘‘ پھر وہ اس لڑکے سے مخاطب ہوا۔
’’ میں نے تمہاری اغوا کی دھمکیوں کو صرف لڑکی کے نام اور مقام کی وجہ سے فراموش کر دیا ہے ورنہ وہ چھترول لگا تا کہ عشق کا سارا بھوت ہوا ہو جاتا۔‘‘ غفران کی بات سے اس کے دل میں کوئی نو کیلا کا نچ چبھا ۔ اس کی آنکھوں کے سامنے عدن کا روشن اور پاکیزہ چہرہ آگیا۔ اتنا گھٹیا اور حقیر شخص عشق جیسے لفظ کا مرتکب وہ بھی اس کے لیے‘ کیسے ہو سکتا ہے۔ چبھن جیسے دل میں گھر کر کے اس کی کیفیت کا لطف لینے لگی۔
’’اوکے اذان ! پھر کل شام میں ملاقات ہوتی ہے میرا خیال ہے کہ ان کے سامان کی شفٹنگ کے وقت اگر میں بھی وہاں موجود ہوں تو زیادہ بہتر رہے گا ۔ ‘‘ اس نے بائیں آنکھ میچ کر اسے اشارہ کیا۔
’’ ٹھیک ہے۔ جیسا تم مناسب سمجھو۔‘‘ اذان نے بھی ذومعنی سا جواب دیا۔ سو وہ ہاتھ ملا کے رخصت ہوا۔
’’اب آپ دونوں جاسکتے ہیں ۔ ‘‘ اگر اس کے بس میں ہو تا تو ان میں سے ایک کو دنیا سے ہی بھیج دیتا۔ اس نے ان کی طرف دیکھے بنا اپنے سامنے ایک فائل کھسکائی ۔ وہ یوں جلدی سے باہر کو لپکے جیسے کے بعد رہائی ملی ہو۔
’’گھٹیا لوگ۔‘‘ اذان نے ان کے جاتے ہی ہاتھ سر کے پیچھے لے جاکر انگلیاں آپس میں مدغم کیں اور خود کو پر سکون کرنے کے لیے جسم بالکل ڈھیلا چھوڑ۔
٭…٭…٭
’’آج زوبیہ کو ہماری یاد کیسے آگئی؟‘‘ رخشندہ کو واقعی خوشی ہوئی ۔ ایک تو وہ اس کی ہونے والی سمدھن کی قریبی دوست تھی۔ دوسرے بڑے کمال کی چیز تھی کسی چوکنے اینکر سے کم نہیں تھی۔ جس کا چاہے پانسہ پلٹ سکتی تھی اور کسی کا بھی بیڑا غرق کرنے کا مکمل اختیار رکھتی تھی۔
’’آپ سے ملے بھی کافی عرصہ ہو گیا تھا ‘ مگر سچ بتاؤں تو اذان کی خبر گیری کا بھی دھیان تھا ۔ آخر کو ماں باپ سے پہلی دفعہ جدا ہوا ہے اتنے عرصے کے لیے ‘ پھر آصفہ سے گلہ کرے گا کہ اچھی خالہ ہے تمہاری غیر موجودگی میں میری خبر تک نہیںلی ۔ ‘‘ آج وہ خلاف معمول سوچ سمجھ کر بول رہی تھیں نظریں بھٹک بھٹک کر دروازے طرف تھیں۔
’’اذان ہماری طرف تو نہیں ٹھہرا ہوا۔‘‘ رخشندہ نے اچنبھے سے اسے دیکھا۔
’’ میرے سامنے آصفہ نے اس سے کہا تھا کہ ہمارے بعد تایا کی طرف ٹھہرے۔‘‘
’’پھر یہاں نہیں ہے تو وہ ہے کہاں…؟ ‘‘ اس کے اندر خود بڑی شدت سے کھد بد ہوئی۔ اصل میں زوبیہ کو جس کا انتظار تھا وہ آگیا۔
’’ السلام علیکم خواتین اینڈ خواتین ! ‘‘ غفران شگفتگی سے مسکرایا اور ماں کے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔
’’امی! بہت اسٹرونگ سی چائے بنوائیے، بہت تھک گیا ہوں۔ ‘‘
’’ثمرہ! بھائی کے لیے ذرا الگ سے اسٹرونگ سی چائے بنا لاؤ۔‘‘ انہوں نے کچن کی جانب رخ کر ہدایت دی پھر پوری اس کی طرف گھومیں۔
’’ غفران! تمہیں کچھ علم ہے اذان کہاں ٹھہرا ہوا ہے۔‘‘ انداز کچھ تشویش زدہ تھا۔
’’جی امی‘ وہ اپنے ماموں کے طرف ہے۔ ‘‘ وہ بند آنکھوں کو پوروں سے دباتے ہوئے بولا۔ زوبیہ کو جیسے کسی نے کھولتے ہوئے کنویں میں دھکا دیا۔
’’اس کے ماموں کی فیملی کے ہاں تو ایک عرصے ان کا آنا جانا تقریباََ ختم ہی ہے۔‘‘ رخشندہ نے کچھ محتاط سا ہو کر ترچھی نظروں سے زوبیہ کو دیکھا۔
’’ مگر ہیں تو ان کے رشتہ دارہی ۔ پھر آنٹی کی رضامندی سے ہی گیا ہو گا ۔ میری آج ہی کسی کام کے سلسلے میں اس سے ملاقات ہوئی ہے۔ ماشاء اللہ خوش ہے ۔ ویسے یاد آیا، آنٹی آپ بھی تو اسی محلے کی پروردہ ہیں ۔‘‘ غفران ایک دم سیدھا ہوا۔ زوبیہ نے گڑبڑا کے پہلو بدلا۔
’’زمانہ ہی ہو گیا اماں ابا کے بعد بھائیوں نے وہ گھر بیچ دیا ۔ اب تو بھولے بھٹکے سے بھی کبھی جانا نہیں ہوا۔‘‘
’’ مگر آپ کے رشتہ دار تو اسی گھر میں رہتے تھے ۔‘‘ غفران نے جیسے اس کی شہ رگ پہ ہاتھ رکھا تھا۔ وہ ایک دم بد کی۔
’’میرا چچیرا بھائی شاید ابھی تک ادھر ہے کیوں کہ بھائیوں سے وہ گھر اس نے خریدا تھا۔‘‘ آواز بمشکل سے حلق سے نکلی۔
’’کل تک وہ ضرور ادھر تھا مگر آج کہیں اور شفٹ کرگئے ہیں وہ لوگ…‘‘غفر ان کا انگوٹھا ابھی تک اسے اپنے نرخرے پہ محسوس ہو رہا تھا۔
’’یہ تم کیا اس کے ماضی کے دروازے کھول کے بیٹھ گئے ہو۔ ‘‘ رخشندہ ہلکا سا ہنسیں۔
’’ ارے نہیں امی‘ اصل میں ان کے کزن کا بیٹا کچھ اچھے قماش کا نہیں تھا۔ دور کی بات تو چھوڑیں اپنے گلی محلے کی لڑکیوں کو بھی کھلے عام اغوا کی دھمکیاں دیتا پھر رہا تھا ۔ وہاں کے باسیوں کی شکایت پر پولیس کو نوٹس لینا پڑا ۔ آج شام وہیں گزری تو وہاں آنٹی کے والد کا بھی تذکرہ ہو رہا تھا اور اتفاق دیکھیں‘ گھر آتے ہی ان سے ملاقات بھی ہو گئی۔‘‘
’’بڑی چوکنی ہو گئی ہے ہماری پولیس فوراََ نوٹس لے لیتی ہے۔ ‘‘ ثمرہ نے چائے پکڑاتے ہوئے کھلا طنز کیا ۔ رخشندہ کا ذہن کچھ الجھ سا گیا تھا۔
’’میں ذرا تھوڑی دیر نیوز کا لطف اٹھالوں۔‘‘ وہ ان سے معذرت کرتا اپنے کمرے کی طرف بڑھا ۔ ثمرہ‘ زوبیہ اور رخشندہ کو چائے پیش کر رہی تھی ۔ جب وہ جاچکی تو زوبیہ رخشندہ کی طرف کھسکی پھر ادھر ادھر نگاہ دوڑا کر رازداری سے بولی۔
’’ اذان کو کیا سو جھی ماموں کے ہاں ٹھہرنے کی۔ ہم خود بچیوں والے ہیں ۔ کہنا تو نہیں چاہیے‘مگروہ لڑکیاں اچھے کریکٹر کی نہیں ہیں ۔ گلی محلے میں کتنے ہی لڑکوں کو پھانس رکھا ہے ۔ اپنا اذ ان تو پھر سیدھا سادہ بچہ ہے۔ اپنی آنکھیں کھلی رکھنا رخشندہ اور میں اب چلتی ہوں ۔ سارہ انتظار کرتی ہوگی۔‘‘ رخشندہ جیسے زبردستی مسکرائیں اور اسے دروازے تک چھوڑنے آئیں۔ اس نے تیلی لگا کر بھری ماچس میں رکھ دی تھی۔ دھواں بنتا یا آگ لگتی کچھ عرصہ تک نتیجے کا انتظار کرنا تھا ۔ شیردل کی باتوں سے اسے شک گزرا تھا کہ وہ اے سی صاحب ‘ کہیں اذان ہی تو نہیں جس نے غفران کے ساتھ مل کر انہیں اس محلے سے بے دخل کیا ہے۔ آج اپنے شبے کی تصدیق کی غرض سے ہی وہ یہاں آئی تھی۔
’’میں دیکھوں گئی مدحت بیگم !کہ تمہاری زندگی میں اچھے دن کیسے واپس آسکتے ہیں۔‘‘ سوچ کی تلخی کا ذائقہ اس کی زبان تک اتر آیا تھا۔
٭…٭…٭