چھپا کے چھئی : فرزانہ کھرل
’’ہش! آہستہ بولو۔ ‘‘ عدن نے دھیمی آواز میں گھر کا ۔
’’ جاؤ تازہ لیموں توڑ کے لاؤ۔ میں تب تک جگ میں چینی گھولتی ہوں ۔ ‘‘ اس کے ہاتھ تیزی سے کام کر رہے تھے ۔ دس منٹ بعد اذان مزیدار مشروب سے لطف اندوز ہورہا تھا۔
’’خالہ عدد پوچھ رہی ہے رات کے کھانے میں کیا بناؤں ؟ ‘‘ امن نے مہمان کے عقب میں کھڑے ہو کر استفسار کیا۔
’’بہن سے کہہ زر ا سا جدہ کو فون لگائے۔ اس کا بڑا پوتا آئے تو سامان منگوالینا۔ ‘‘ عدن سمجھ گئی تھی کہ ساجدہ کے بڑے پوتے سے کیا سامان منگوانا ہے ۔ سال کے سال ماموں کی آمد پر بھی ساجدہ کے بڑے پوتے سے گوشت اور کھیر ،مکس بریانی ،مسالحہ منگوایا جاتا تھا ۔ اذان نے دیکھا آدھے گھنٹے بعد نو دس سالہ بچہ کچھ شاپرتھامے گھر میں آیا تھا۔
’’ خالہ عدو پوچھ رہی ہے ۔ گوشت سالن میں زیادہ ڈالوں یا بریانی میں ۔‘‘ ایک مرتبہ پھر اس کے عقب سے سابقہ آواز آئی۔
’’ا صل میں گھر میں سوائے ان کے ماموں کے کوئی مہمان نہیں آتا ۔ اس لیے لڑکیاں ذرا ‘ اتاولی ہوئی جارہی ہیں۔‘ ‘ خالہ نے بھانجی کو گھور کے دیکھا۔
’’بریانی میں گوشت زیادہ ڈال دیجئے گا ۔‘‘ خالہ کی بجائے جواب مہمان کی طرف سے آیا تھا۔ امن سر پٹ کچن کی طرف بھائی۔
’’ مہمان کے منہ میں تو زبان بھی ہے ۔ ‘‘با آواز بلند تبصرہ کیا۔ اذان کے لب سیٹی کی طرح گول ہوئے۔خالہ نے شرمندگی سے نگاہ نیچی کی۔
’’پتا نہیں کھیر میں مزید چینی ڈالنی ہے کہ نہیں۔‘‘ یہ آواز عدو نامی لڑکی کی تھی۔
’’خالہ عدد نے پوچھا ہے کہ …‘‘ خالہ کی ابلتی لال آنکھیں با ہر چھلکنے کو تیارہوئی۔
’’ مجھے شوگر تو نہیں پر زیادہ میٹھا مجھے پسند نہیں لہٰذا …‘‘ مسکراتے لہجے میں کہی گئی بات کچن میں سن لی گئی ۔ برآمدے کے کونے میں دس فرلانگ کے فاصلے پر تو کچن تھا ۔
’’اصل میں ان کے ماموں زیادہ میٹھا کھاتے ہیں تو …‘‘ گھوریاں ڈال ڈال کر خالہ بے چاری کی آنکھیں دکھ رہی تھیں۔
’’ امو‘عدو سے کہو دوسرے کونے کے ساتھ والا بڑا کمرہ کھول دے اور تو جا کر فٹافٹ بیڈ شیٹ بھی بدل دے اور جھاڑ پونچھ کی ضرورت ہے تو وہ بھی کردے ۔ ‘‘ خالہ نے مناسب لہجے میں متانت سے بات ختم کی۔
’’ پہلے کھانا تو بنالوں …خالہ کے محترم مہمان کو ایک فون کر کے آنا چاہیے تھا ۔ ‘‘ خالہ نے بہ خوبی سن لیا تو مہمان بہرہ تو نہیں تھا۔ مدحت کا بس نہیں چل رہا تھا کہ منہ پہ چادر لپیٹ کے بس پڑھ جائیں ۔
’’ عد و بیٹا! بہن کو چابیاں ہی بتادے تاکہ وہ کمرہ ٹھیک کردے ۔ بچہ تھکا ہوا لگ رہا ہے ۔ کھانا پکنے تک چند گھڑیاں آرام کرلے گا ۔ ‘‘ مدحت نے دل ہی دل میں لاکھ پلٹے کھا کر کہا۔
’’ توکیا مہمان کا بچہ گاڑی میں سو رہا ہے ۔ ‘‘ دونوںبہنوں کے مشترکہ خیالات سے خالہ کا آنکھیں چرانا اور اذان سے ہنسی کنٹرول کرنا مشکل ہو رہا تھا ۔ امن کو شایدچابی مل گئی تھی ۔ پندرہ منٹ بعد وہ اذ ان کو اپنی معیت میں اس کمرے تک لے آئی ۔ پرانا مگر خوبصورت فرنیچر سے آراستہ وہ ایک کشادہ بیڈروم تھا جس کی دیوار گیر کھڑ کی پچھلی جانب بھی کھلتی تھی ۔ باتھ روم بھی اٹیچڈتھا۔
’’ میں نے تولیہ بھی واش روم میں رکھ دیا ہے ۔‘‘ امن دروازے کی طرف بڑھی۔
’’ شکریہ…‘‘ اذان نے دوستانہ مسکراہٹ سے اسے دیکھا۔
وہ سامان لینے کی غرض سے باہر آرہا تھا جب اس نے برآمدے میں عدن کی آواز سنی۔
’’اتنے سالوں بعد پھوپھو کو ہماری یاد کیسے آگئی؟‘‘ شکوہ کناں آواز میں کتنی نمایاں تھی۔ اذان کے قدم وہیںتھم گئے۔
٭…٭…٭
پانیوں پر چھینٹے اڑاتی ہوئی لڑکی … شڑاپ کی زوردار آواز … وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا ۔ پہلے تو سمجھ میں نہیں آیا کہ کہاں ہے ۔ پھر دماغ میں بجلی سی کو ندی کہ وہ رات سے یہاں مہمان ٹھہرا ہواہے۔
’’ دیکھی ہے ہم نے آئی ہوئی لہروں پہ جاتی ہوئی لڑکی شڑاپ … شڑاپ۔‘‘ وہ ہڑبڑ کے اٹھا۔
’’ یا خدا یہ صبح صبح کون سی فلم چل رہی ہے ۔‘‘جالی دار دروازے کی وجہ سے مچھر تو نہیں تھے مگر بجلی جانے کی صورت میں کمرہ حبس زدہ ہو جاتا تھا سو وہ تمام رات سوتا جاگتا رہا ۔ اب کہیں دو تین گھنٹے قبل ہی سکون کی نیند آئی تھی کہ یہ آواز ‘ وہ پر تجسس سا ہو کر کھڑکی کی طرف بڑھا۔
’’چھئی چھپاچھئی ‘ چھپا کے چھئی ۔ ‘‘ اس نے ہاتھ میں پانی کا موٹا سا پائپ پکڑا ہوا تھا ۔ دوسرے ہاتھ میں ایک بڑی سی گڑیا تھی ۔ کھڑکی کے ساتھ پکی جگہ پر زمین پر کچھ خانے بنا کر وہ اکیلی کوئی گیم ان خانوں میں اچھل اچھل کر کھیل رہی تھی ۔ موٹے پائپ سے پانی کی تیز دھار بر آمد ہو رہی تھی۔
یہ وہی لڑکی تھی جس نے کل دروازہ کھولا تھا ۔ جس کے چہرے پہ ایک متانت اور سنجیدگی تھی ۔ اذان کے لیے یہ منظر دلچسپی کے ساتھ حیران کن بھی تھا ۔ وہ ساتھ ہی گڑیا کوبھی نہلانے لگتی مگر اس کا اصل مقصد عقبی صحن کی صفائی تھی۔
’’ پانیوں پر چھینٹیں اڑاتی ہوئی لڑکی۔‘‘ زیادہ دیر کھڑکی کے پاس رکھنا اسے مناسب نہیں لگا ۔ وہ پردہ برابر کر کے اپنے سامان کی طرف آیا ۔ آج ہفتہ تھا سو تمام دن گھر پہ گزرنا تھا ۔ اس نے شلوار قمیص کا انتخاب کیا۔
’’آج یہاں پہلا دن ہے۔ وقت پر ہی سب کے ساتھ ناشتہ کرنا چاہیے ۔‘‘ وہ سوچتا ہوا ‘ واش روم میں گھس گیا ۔ دوسری جانب سے بھی آوازیں آنی بند ہو چکی تھیں۔ غالباََ وہ لڑکی فراموش کیے بیٹھی تھی کہ گھر میں کوئی مہمان بھی ہے جس کے کمرے کی کھڑکی پچھلے صحن میں کھلتی ہے۔ ان ہی سوچوں میں غلطاں وہ بر آمدے میں آیا جو دھوپ میں ڈوبا ‘ سورج سے پناہ مانگ رہا تھا۔ مدحت آنٹی کی چارپائی نیم کے درخت کے نیچے بچھی تھی۔
جامن کے درخت نے بھی گٹھ جوڑ کر کے وہاں خوب چھاؤں پھیلا رکھی تھی۔ چارپائی کے ساتھ دو کرسیاں لگی ہوئی تھی۔ آنٹی کو صبح بخیر کہہ کر وہ ایک کرسی پر نشست سنبھال چکا تھا۔
’’ اور سناؤ رات کیسی گزری ہے ،نیند ٹھیک سے آئی ۔‘‘ مدحت نے نرم آواز میں مسکرا کر پوچھا تو اذان نے بھی مسکرا کر ہی ’’ جی …‘‘ کہا ہی تھا کہ عدن ٹرے اٹھائے ان کی طرف آئی ۔ اذان نے بلا ارادہ ہی بغور اسے دیکھا ۔ کچھ دیر پہلے کا منظر اس کی آنکھوں میں تازہ ہوا ۔ وہی سنجیدگی اور وقار اس کی شخصیت سے جھلک رہا تھا کہیں سے بھی وہ پانیوں پہ چھینٹیں اڑانے والی لڑکی نہیں لگ رہی تھی ۔ اذان نگاہ جھکانے پہ مجبور ہوا ۔ ناشتا واقعی مزیدار تھا۔
’’ آپ چینی کتنی لیتے ہیں ۔ ‘ـ‘ اس نے چائے کا کپ سامنے رکھ کر پوچھا۔
’’شکریہ میں خود بنا لوں گا۔‘‘ وہ ہلکی آواز میں سہولت سے بولا۔ وہ یہاں ان سے خدمتیں کروانے نہیں آیا تھا۔
’’امن نظر نہیں آرہی؟‘‘وہ چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے بولا۔
’’امن کالج گئی ہوئی ہے۔‘‘ آج پرندوں کی آواز یں ذرا کم تھیں ۔ شاید وہ بھی مدحت کی طرح حیران تھے۔ اس نے یوں ہی درختوں کی طرف نگاہ کی۔
’’ اور عدن کالج نہیں جاتی۔ ‘‘ کچھ دیر کے وقفے کے بعد اس نے پوچھا۔
’’نہیں ۔ ‘‘ مدحت کا یک لفظی جواب اسے کسی گہرے کنوئیں سے آتا ہوا محسوس ہوا ۔ اس نے چونک کر اپنے سامنے بیٹھی خاتون کو دیکھا جن کا چہرہ ہزار ملالوں کی زد میں گھرا تھا ‘ جیسے دیکھ کر اذان کے ذہن میں ہزاروں سوال سر اٹھا رہے تھے ۔ جب خاموشی ان دونوں کے درمیان طوالت پکڑنے لگی تو پژمردہ لہجے میں جواب ایک مکمل وضاحت کی صورت میں دیا گیا۔
’’ عدن ساتویں کلاس میں تھی جب میرا اور حنان کا ایکسیڈنٹ ہوا ۔ وہ تو دوسری سانس بھی نہیں لے پایا تھا اور میں حرماں نصیب بچ گئی مگر ریڑھ کی ہڈی میں ایسی چوٹ لگی کہ بس ضروریات زندگی کے تحت ہی چل پھر لیتی ہوں ۔ سچ پوچھو تو عدن کا بچپن اور جوانی میری بدنصیبی کی نذر ہو گئی ۔ ‘‘ ضبط کے کڑے پہرے تو ڑ کر آنسو رخساروں تک آنے میں کامیاب ہوئے ۔ اذان بے بسی سے انہیں دیکھنے لگا کہ تسلی کے لیے کون سے لفظوں کا چناؤ کرے ۔
’’ حنان جو اپنوں کو ناراض کر کے مجھے بچیوں کے لیے محبت کا سائبان سمجھ کر اس گھر میں لایا تھا ۔ وہ سب تو خواب ٹھہرا‘ الٹا میں ایک معذور کی صورت ان پر ایک بوجھ کی طرح مسلط ہو گئی ۔‘‘ اذان کے لیے زندگی کی یہ بے رنگ حقیقتیں بالکل نئی تھیں ۔ پھر بھی وہ اپنی نشست سے بے چین سا ہو کر اٹھا ۔ ان کی پائنتی پر لگ کر دل گرفتگی سے ان کے ہاتھ تھام لیے۔
’’ماموں کا فیصلہ سو فیصد درست تھا ۔ آپ اب بھی ان کے لیے ایک مضبوط سائباں ہیں ۔ لڑکیاں آپ کے زیرِ سایہ محفوظ ہیں ۔ آپ کی جگہ کوئی اور خاتون ہوتی تو اس کے تمام رشتے دار عدن اور امن کے لیے نا محرم ہوتے ۔ زندگی ان کے لیے مشکل ہوتی۔‘‘ وہ ان کے ہاتھی تھپتھپا کر بولا تو وہ ایک دم مسکرادیں ۔فی الحال وہ اپنی ماں کا ذکر چھیڑنا نہیں چاہتا تھا۔
’’میں اب آگیا ہوں سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ ‘‘ مدحت نے ممنون نظر اس پہ ڈالی ۔ تب ہی بیرونی گیٹ کا چھوٹا دروازہ دھڑ دھڑایا گیا جو اذان نے ہی کھولا ۔ ساجدہ کا پوتا اذان کے ہمراہ اندر آیا۔
’’ خالہ جی !عدن باجی نے فون کر کے بلایا ہے ۔‘‘بچے نے بات مدحت سے کی اور للچائی نظروں سے موٹے جامن تاڑے ‘ اذان بچے کی آمد کا مقصد جان گیا۔
’’ مہمان صرف ایک دن کا ہوتا ہے ۔ اب کسی خاص اہتمام کی ضرورت نہیں ‘ لہٰذاآئندہ اگر آپ کی باجی اس وجہ سے بلائیں تو مت آنا۔‘‘
’’مہمان تین دنوں تک خدمت کروانے کا حق رکھتا ہے لہٰذا ۔ ‘‘عدن نے اچانک سر پہ آکر اس کی بات کاٹی۔
’’گڈو بھاگ کر قیمہ اور ہری مرچیں لے آؤ ہے ۔ بے فکر ہو کر جاؤ میں نے تمہارے لیے ٹوکری بھر جامن رکھے ہیں ۔ دھیان سے قیمہ بنوانا چھیچھڑے مت ڈالوانا ۔ جہاں سے جلیبی کی دکان نظر آئے دوسرے رخ کھڑے ہونا ۔ یاد رکھنا ذرا سا چھیچھڑا بھی ہوا تو جامن نہیں دوں گی۔‘‘
’’ واہ بھی کام کروانے کے لیے خوب لالچ دیا جارہا تھا ۔‘‘ اذان نے لبوں پہ ہاتھ جما کر مسکراہٹ چھپائی ۔
چوں ‘چوں ‘گھو ‘گھو‘گھوں … چڑیا اور فاختہ شاید کسی بات پہ خوش ہوئی تھیں تب ہی ایک دوسرے کے دکھ سے سکھ بانٹنے لگیں ۔ پرندوں کی چپ ٹوٹی ‘ میٹھی بولیوں اور بے فکری چہکار سے لگ رہا تھا کہ چھاؤں میں بیٹھنے والا مہمان انہیں اب اجنبی نہیں لگ رہا ۔ گیٹ پھر بجا عدن جو قریب ہی کھڑی تھی ‘ قدم بڑھا کر دروازہ کھولا۔
’’باجی! اماں پوچھ رہی ہے آپ کے دروازے کے سامنے جو گاڑی گھڑی ہے وہ آپ کا مہمان ہے ۔‘‘ اذان نے کسی بچے کی آواز سنی ۔
’’ صبح سے یہ کوئی بار ہویں گھر سے بچہ یہی تصدیق کرنے آیا ہے۔‘‘ مدحت کالہجہ کھلکھلاتا سا تھا۔
’’ہاں یہ خوش نصیبی ہمارے حصے میں ہی آئی ہے چلو تم شکل گم کرو ۔ گاڑی نہ ہوئی ‘ہوائی جہاز ہو گیا ۔‘‘ عدن کی بڑبڑاہٹ عروج پر تھی ۔ مدحت نے فوراََ اذان کی طرف دیکھا جس کی مسکراتی آنکھیں کسی بھی رویے کابرا نہ ماننے کی گواہی دے رہی تھیں۔
٭…٭…٭
سہ پہر کا ہاتھ تھام کر سورج کا غصہ ذرا ٹھنڈا ہوا تو اذان کی گاڑی بھی حرکت میں آئی ۔ واپسی پہ اس کے ساتھ دو مستری بھی تھے ۔ آج اتوار تھا اور وہ یہ دونوں کام آج ہی نبٹانا چاہتا تھا ۔ بڑے گیٹ کا اندرونی کنڈہ جو پچھلے کئی سالوں سے بند رہنے کی وجہ سے زنگ آلودہ اور پھنسا ہوا تھا ۔ ایک مستری وہاں نیا کنڈا لگانے کی جدو جہد میں مصروف تھا تاکہ گاڑی اندر کھڑی کی جاسکے اور دوسرا اپنے ایک کاریگر کے ساتھ مشاق ہاتھوں سے یوپی ایس فٹ کرنے میں مصروف تھا۔
’’ اس کی کیا ضرورت تھی۔ ‘‘ مدحت یہ ایک جملہ کوئی دسویں بار کہہ رہی تھیں۔
’’ضرورت تھی تب ہی تو لگوا رہا ہوں ۔ آپ مجھے اپنا بھی سمجھتی ہیں اور پھر غیروں جیسی باتیں بھی کرتی ہیں ۔‘‘ وہ اپنے مخصوص نرم لہجے میں انہیں مطمئن کرچکا تھا ۔ اس تبدیلی پہ امن خوش تھی ‘ البتہ عدن کے سپاٹ چہرے سے کچھ بھی اخذ نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ اگلے ایک ہفتے تک وہ اس گھر کے تینوں افراد کی عادات و اطوار ان کے مزاج اور روٹین سے کافی شناساہو چکا تھا۔
امن ایک پر اعتماد لڑکی تھی ۔ اس کے کالج آنے جانے کے لیے ایک رکشہ لگا ہوا تھا ۔ عدن کی دنیا بس گھرکے اندر تک تھی ۔ وہ سبزی بھی گیٹ کے اندر کھڑی ہو کر خریدتی ۔ وہ ایک سادہ لوح گھر یلو اور خدمت گزار قسم کی لڑکی تھی ‘ جس کی روز مرہ زندگی مدحت کے ارد گرد گھومتی رہتی جو معمول کے مطابق پچھلے صحن میں پانیوں پر چھینٹیں اڑاتی تھی ۔ وہ عدم تحفظ کا شکار تھی ۔ وہ صبح آفس جاتا تو واپسی شام کو ہی ہوتی کیونکہ یہاں سے آفس کافی دور تھا ۔ آج اس گھر میں آئے ایک ہفتہ ہوچکا تھا ۔ امن سے اس کی بے تکلفی اوردوستی ہوچکی تھی ۔ عدن کی طبیعت بس اپنی خالہ کے ساتھ ہنسوڑ تھی یاپھر اپنی گڑیا سے رازو نیاز کرتی جسے وہ درختوں کی شاخوں میں چھپا کر رکھتی۔
اذان اس کی نفسیات سمجھ چکا تھا ۔ وہ ایک ہی وقت میں تین عمریں گزار رہی تھی ۔ وہ گیارہ سال کی عدن جب اس سے بستہ اور اس کی گڑیا چھوٹی تھی‘ تنہائی پاتے ہی وہ اس عمر میں پہنچ کر اپنے شوق کی تکمیل کرتی تھی ۔ خود سے اپنے بچپن سے ملتی ۔آتی ہوئی لہروں پہ اس جاتی ہوئی لڑکی کو دیکھتی جو اس کی ذات سے نکل چکی تھی۔ جب وہ کچن میں ہوتی تو ایک سنجیدہ ‘باوقار ‘ ذمہ دار عورت کا روپ دھارلیتی گھر جس کے کندھوں پر چلتا تھا ۔ وہ گھر پر خرچ ہونے والی ایک ایک پائی کا حساب لکھتی تھی اور جب خالہ کو ایک محبت بھری کہانیاں پڑھ کر سنارہی ہوتی تو ‘ بیس سال کی عمر میں لڑکیاں خوابوں کے جتنے محل تعمیر کرتی ہیں‘ وہ ان میں چلتی پھرتی سفر کرتی نظر آتی تھی ۔ باہر کی دنیا اس کے لیے اجنبی تھی‘ خوف کی علامت تھی۔
آج بادل گھر ‘ گھر کر آرہے تھے ۔ منچلی سی ہوا تینوں کے آنچلوں کو چھو چھو کے رنگین ہوئی جارہی تھی ۔ سب کا ٹھکانہ آج کشادہ برآمدے میں تھا ۔ امن اپنی انگلش کی کتاب کھولے اذان سے کچھ سمجھ رہی تھی ۔ ریڑھی والے نے سبزی کی صدا لگائی۔
’’عدو … آلو بینگن کے پکوڑے بنادو ۔ ‘‘ امن نے فرمائش کی ۔ حسب عادت وہ سرہلا کر بیرونی دروازے کی طرف بڑھی ۔ تب ہی سعودیہ سے کال آگئی ۔ سگنل کا مسئلہ تھا اس وجہ سے اذان کا رخ بھی گیٹ کی طرف تھا۔
’’ تمہارے چچا چچی کیسے ہیں ۔ ‘‘ ماں کے سوال وہ کچھ گڑبڑایا ضرور پھر سنبھل کر انہیں جواب دیا ۔ اگر امی کو پتا چل جائے کہ میں اس وقت ان کی بڑی بھتیجی کے عین پیچھے‘ چند قدم کے فاصلے پہ کھڑا ہوں ۔ اسے عجیب سی شرمندگی نے گھیرا ۔ حرم شریف میں کھڑی ماں سے وہ کیسے جھوٹ بول رہا تھا ۔ تاسف کے مارے اس نے کال ڈراپ کردی۔
’’ بینگن ایک کلو کہا تھا چچا ۔ ‘‘ وہ ہنس کر بولی تھی ۔ اتنا تو وہ جان چکا تھا کہ وہ اسی مخصوص چچا سے سبزی خریدتی تھی۔
’’ کیوں جناب! وہ مہمان ہم سے زیادہ عزیز ہے جس کی خدمتیں کی جارہی ہیں ۔ ‘‘ یہ لوفرانہ آواز سن کر وہ بدک کر دو قدم پیچھے ہٹی ۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اذان اس کے پیچھے کھڑا ہے ۔ فق ہوتے چہرے کے ساتھ مڑی‘ یہ آواز سبزی والے بابا کی تو ہرگز نہیں تھی۔