مکمل ناول

چھپا کے چھئی : فرزانہ کھرل

’’حنان میرا بہت اچھا دوست بھی تھا۔ میں اب تک سمجھتا رہا کہ وہاں سب ٹھیک ہوگا سو کچھ مطمئن تھا۔ میرا خیال تھا کہ بہن اور بھانجیوں کیذمہ داری کا جو بار منیر نے اپنے سر لیا تھاوہ بخوبی نبھا رہا ہو گا۔ وہ تو اتفاقاََ ایک ماہ پہلے کسی کام سے مجھے بدین جانا پڑا تو وہاں ایک دیرینہ بھلے وقتوں کے دوست سے ملاقات ہوگئی ۔ میں نے دانستہ منیر کا ذکر چھیڑا تو اس نے مجھے بتایا کہ وہ تو سال میں ایک آدھ بار کراچی کا چکر لگاتا ہے ، جہاں تک مجھے یاد ہے حنان نے بدین میں کچھ زمین بھی خریدی تھی جواب یقینا منیر کے قبضے میں ہوگی اور جس کی بھنک بھی اس نے مدحت یا بچیوں کو نہیں پڑنے دی ہوگی ۔ میرا دل کہتا ہے وہاں کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ اذان بیٹا اگر تمہاری ماں اور میراحج کے لیے بلاوا نہ بھی آتا تو بھی میں نے دل میں ٹھان لیا تھا کہ تمہیں وہاں ضرور بھیجوں گا۔ ‘‘ مسعود صاحب نے بیٹے کے متفکر چہرے پہ نظریں ٹکائیں۔
’’تمہاری ماں ایک بے جا ضد کی انا میں کئی سالوں سے مقید ہے اور صد افسوس کہ اس سے رہائی چاہتی ہی نہیں ۔ حالانکہ حنان کا فیصلہ سوفیصد درست تھا کہ خالہ جتنی محبت ان بن ماں کی بچیوں کو دیتی دنیا کی کوئی عورت نہیں دے سکتی تھی ۔‘‘ وہ چندلمحے خاموش رہے‘ اذان نے اپنے باپ کو آج سے پہلے اس قدر افسردہ نہیں دیکھا تھا ۔ وہ شگفتہ مزاج کے، محفل میں رنگ جمانے والی طبیعت رکھتے تھے۔
’’ تمہارے ماموں نے غصے میں قطع تعلق کی بات کہہ دی اور تمہاری ماں نے اس کی بات پہ مہر لگا کر اجنبیت کی حد کردی ۔ مدحت بیچاری ایک سیدھی سادی اور نیک دل عورت ہے ۔ مگر آصفہ بیگم کی نظرمیں اس جیسی۔‘‘ ا نہوں نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’خیر چھوڑو۔‘‘ وہ کچھ توقف سے بولے۔
’’ اب تم ان تمام معاملات کو کیسے ہینڈل کرو گے یہ تمہارا مسئلہ ہے ۔ ‘‘ وہ کچھ ہنس کر بولے اور بیٹے کے خوبصورت چہرے کو بغور دیکھ کر اس کی اندرونی کیفیت کو جانچا۔
’’ باقی سب تو ٹھیک ہے ابو ! میں امی کو بھی بعد میں بخوبی سنبھال سکتا ہوں مگرو ہ لوگ اس طرح اچانک ٹپک پڑنے والے رشتہ دار کو ۔ آئی مین کسی غیرکوشخص کو ڈیڑھ دو ماہ اپنے گھر کس طرح ٹھہرائیں گے ۔ ‘‘وہ کچھ الجھ کر کندھے اچکا کر رہ گیا۔
’’تم ان کے لیے غیر شخص ہرگز نہیں البتہ وہ اور تم ابھی چند روز تک اجنبیت ضرور محسوس کرو گے اور پھر تم کہہ دینا کہ کراچی میں میرا اور کوئی رشتہ دار نہیں تھا تو والدین کے آنے تک میں کہاں رہتا … بس کہہ دینا مجھے مسعود صاحب نے بھیجا ہے۔‘‘ وہ کچھ جھنجھلا کر قطعی لہجے میں بولے تو اذان کی ہنسی چھوٹ گئی۔
آج آصفہ بیگم ٹیلر سے اپنے سلے ہوئے کپڑے لینے گئی ہوئی تھیں سو مسعود صاحب کو بیٹے سے کھل کر معاملات طے کرنے کا موقع مل گیا۔
’’اور سنو اگر تمہیں کسی شک و شبہ کی بنیاد پر بدین جانا پڑ جائے تو جانے میں تامل سے کام مت لینا باقی میرا بیٹا بہت برباد اور سمجھ دار ہے، ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کر سکتا ہے ۔ کیوں بھئی ٹھیک کہہ رہا ہوں ناں…‘‘ وہ اس کے کندھے پہ تھپکی دے کرہنسے۔
’’ دیکھ لیں ابو کافی مشکل سچویشن میں آپ نے پھنسا دیا ہے۔‘‘ وہ بھی سر کھجا کر مسکرایا۔
’’اور فرض کریں ان خواتین نے مجھے گھر کے اندر گھسنے ہی نہ دیا اور دروازہ ٹھکسے بند کر کے کہا ہم آصفہ بیگم کے بیٹے کو گھر میں نہیں ٹھہرا سکتے تو …‘‘ شرارت سے زیادہ اس کے لہجے اور آنکھوں تشویش نمایاں تھی۔
’’ایسا ہو ہی نہیں سکتا مدحت ایک سلجھی ہوئی وضع دار عورت ہے اور اس نے بچیوں کی تربیت بھی اسی انداز میں کی ہوگی ۔ بیٹا! وہ تو رشتوں کو ترسے ہوئے لوگ ہیں۔‘‘ مسعود کا لہجہ دھیما ہوا۔
’’سورشتوں کی قدر ان سے زیادہ کس کو ہوگی۔‘‘و ھیما لہجہ ملال میں گھر کر سرگوشی نما ہوا۔
’’اور گاڑی کا کیا کروں گا ۔ ‘‘ اذان کسی حتمی فیصلے پر پہنچ کر بولا۔
’’ میری چھوٹی گاڑی لے جانا ۔ میں نہیں چاہتا وہ تمہاری گاڑی یا تمہارا عہدہ سن کر کسی احساسِ کمتری میں مبتلا ہوں ۔ پتا نہیں وہ کس حال میں زندگی گزار رہی ہوں گی ۔ بس ان میں گھل مل کے رہنا بالکل گھر کے ایک فرد کی طرح اور …‘‘ وہ کچھ کہتے کہتے خاموش ہو گئے۔ اذان نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا۔
’’یار اب یوں تو نہ دیکھو کیا ساری باتیں میں ہی تمہیں سمجھاؤں۔‘‘ وہ خفیف سا ہنسے۔
’’میں سمجھا نہیں۔‘‘ اذان نے کچھ الجھ کر پوچھا۔
’’میں اور کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ بس تم پیکنگ کرو ۔ پرسوں ہماری فلائٹ کے بعد ان شاء اللہ رات کا کھانا اپنے ماموں کے گھر کھانا۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ اٹھ کر باہر چلے گئے مگر وہ ابھی تک ایک کشمکش کا شکار تھا۔
اسے ماں سے زندگی میں پہلی دفعہ اتنی بڑی بات چھپانی تھی اور زندگی میں پہلی بار بالکل انجان لوگوں میں اتنے دن گزارنے تھے، اپنی حیثیت چھپا کر رہنا تھا۔ وہ مقابلے کے امتحان میں کامیاب ہو کر اب اے سی کے عہدے پر فائز تھا۔
’’تو چلیں اے سی صاحب! رخت سفر باند ھیں، ایک نیا اور انوکھا معرکہ حل کرنا ہو گا۔‘‘ وہ اپنے آپ سے مخاطب ہوا۔ اب اس کا رخ اپنے کمرے کی طرف تھا۔
’’ابو بھی ناں … کم از کم ان لوگوں کو ایک فون ہی دیتے مگر چلو خیر اب وہ لوگ مجھے سزا کی طرح جھیلیں یا جزا کی مانند دیکھا جائے گا۔‘‘ وہ ہر فکر سے آزاد ہو کے جانا چاہتا تھا ۔ اسے ان دیکھے رشتہ داروں کی زندگی سے ان الجھنوں کو ختم کرنا تھا بقول مسعود صاحب کے وہ جن میں گھرے ہوئے تھے ۔وہ جانتا تھا کہ وہ ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
٭…٭…٭
اس نے نظر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا جہاں سفید بدلیاں ایک دوسرے کے تعاقب میں تھیں۔
’’خالہ کالے بادل تو مینہ برساتے ہیں ۔ یہ سفید بدلیاں آسمان پہ کیوں دکھتی ہیں ۔ ‘‘ امن نے ان خالہ بھانجی کی مصروفیات میں خلل ڈالا۔ عدن نے ڈائجسٹ بند کر کے بے زار نظروں سے اسے لتاڑا۔
’’مجھے تو اچھی لگتی ہیں ۔ روئی کے گالوں جیسی بدلیاں، سفید پھول ،سفید دعا ۔‘‘
’’ اور سفید محبت ۔‘‘ امن نے قہقہہ لگا کر جملہ مکمل کیا۔
’’ سفید محبت پہلی مرتبہ سنا ہے۔‘‘ مدحت کو اس کا قہقہہ اور یہ دو حرفی بات جانے کیوں اچھی لگی۔
’’جن کا خون سفید ہو جاتا ہے پھر وہ محبت بھی سفید ہی ہو جاتی ہے۔‘‘ امن کے ان دو لفظوں کی عدن نے خوب تشریح کی ۔ مدحت کچھ لمحوں تک کچھ بول ہی نہیں سکیں ۔ جو دو تین رشتے تھے ‘ انہوں نے کیسے دل کھول کے ان بچیوں کے ساتھ نا انصافی کی تھی۔
سورج کی ڈوبتی کرنیں چھن چھن برآمدے کے اس سرے میں گھسنے کی کوشش کر رہی تھیں ۔ آج مدحت کی آنکھوں کی نمی کچھ زیادہ چمکیلی تھی ان کا دل جیسے پھٹا جا رہا تھا۔
’’ہماری کہانی کیا خوب موڑ لے رہی تھی سارا مزہ کر کرا کر دیا ۔ ‘‘ عدن کو خالہ کی آنکھوں کی نمی کسی بھرے سیلاب کی مانند دکھ رہی تھی ۔ عدن پچھتائی کہ اس نے ایسی بات کیوں کی ۔ خالہ یوں ہی خود کو قصور وار سمجھنے لگتیں۔
’’ آپ دونوں خالہ بھانجی کا انداز ہمیشہ مجھ سے جان چھڑانے والا کیوں ہوتا ہے ۔ ‘‘ امن پیر پٹختی پچھلے صحن کی طرف جانے لگی۔
’’اسے خود … دلچسپی نہیں اور ہماری کہانیوں کا سارا سسپنس اسی طرح توجہ بٹا کر خراب کرتی ہے ۔ ‘‘ عدن نے سر جھٹک کر دوبارہ رسالہ کھولا اور ساکت بیٹھی خالہ پہ اک نظر ڈال کر پڑھنا شروع کیا۔
’’ گھنی باڑھ کے پیچھے اس سے کوئی سات فرلانگ کے فاصلے پر ایک سایہ دبے پاؤں جیسے پانی پہ تیرتا اس کی طرف بڑھ رہا تھا ۔ ‘‘ امن جو پچھلے صحن کو جانے والا بر آمدہ آدھا عبور کر چکی تھی‘ بہن کی آواز سن کر ر کی۔
’’ لمبا سفید چغہ ‘ جھکا ہوا سر … اور چہرے کے اطراف پھیلے نیچے جاتے بال …‘‘بر آمدے میں رکی امن اپنے الٹے قدموں ان کی طرف بھاگی ۔
’’اف عدو چپ کر جاؤ۔‘‘ امن خالہ کے پلو سےجڑ کر اس سے لپٹ ہی گئی۔
’’یہ ضرور آیوشمتی ہوگی ۔ ‘‘ خالہ کا چہرہ بھی خوف سے پیلا ہوا۔
’’ یہ آمنہ ریاض کی آیو شمتی پتا نہیں کیا ہے ۔رات کو آس پاس محسوس ہوتی ہے ۔ عدن! آئندہ مجھے بس کیف اور خوش نصیب والا حصہ سنایا کرنا ۔ ‘‘مدحت نے انگلی اٹھا کر اسے متنبہ کیا۔
’’ارے خالہ کچھ نہیں ہوتا ۔‘‘ عد ن ایسی باتوں پر یقین نہیں رکھتی تھی سو بہادری سے بولی۔
’’اتنا بڑا گھر ہم تین اکیلی عورتیں ۔ گھر میں ہولناک سناٹے، بند گلی کے آخرپہ ہمارا گھر ۔ لوگوں کا آنا جانا بھی مفقود ‘ نہ کوئی ٹریفک کا گزر۔‘‘ عدن نے ان دونوں کو ڈرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی خالہ سمٹی،امن خالہ کی بغل میں منہ گھسانے لگی۔
’’اوہو تمہاری کہنی میری پسلی میں چبھ رہی ہے ۔ ‘‘مدحت نے خشک ہونٹوں پہ زبان پھیری۔
’’گلی میں آیوشمتی آتی ہے پھر دروازہ بجتا ہے ۔‘ ‘عدن نے رسالہ کھولا اور اپنی طرف سے جملہ گھڑ کے سنایا۔
’’ارے کہہ رہی ہوں بند کرو مجھے نہیں سننا ۔ ‘‘ایک زوردارد ستک۔
’’پوچھا ’’کون‘‘جواب آیا ۔ ‘‘ خالہ بھانجی نے مضبوطی سے ایک دوسرے کو پکڑا۔
’’ٹھک ‘ٹھک۔‘‘ دستک واقعی زوردار تھی۔ دونوں کی خاصی بلند چیخ نکلی۔
’’ تو بہ ہے۔‘‘عدن نے رسالے کو پا ئنتی پر رکھا۔ امن نے فوراََ اٹھا کر کرسی پہ پھینکا۔ جیسے وہ روح باہر آجائے گی۔ عدن کا قہقہہ کچھ زیادہ ہی بلند تھا۔
دروازے کے دوسری طرف موجود اذان کے لیے صورت حال کافی خطرناک تھی ۔ پہلے چیخنے کی آواز میں ‘ پھر کسی لڑکی کا بے باک سا قہقہہ ۔ اس نے گھر کی طرف دوبارہ دیکھا ۔ پرانی طرز کا خاصا بڑا گھر جس کی سفیدی اتر کر برہنہ اینٹوں کو کسمپرسی میں مبتلا کر رہی تھی ۔ پوچھنے کی زحمت کیے بنا دروازہ کھول دیا گیا ۔ دروازے کھولنے والی نے شدید حیرت سے گھر کر اپنے سامنے کھڑے اجنبی مرد کو آنکھیں پٹپٹا کر دیکھا ۔ جس کے ہاتھ میں ایک بھاری اٹیچی کیس بھی تھا ۔ اٹیچی کیس سے ہوتی اس کی حیران نظریں گلی میں کھڑی سفید مہران پہ ٹکیں … بند گلی کا آخری گھر شاید کوئی راستہ بھول کر آ گیا ہے۔
’’یہ حنان صاحب کا گھر ہے ؟‘‘ سامنے اونچے لمبے ‘ لچھے دار بالوں والے سوبر سے بندے نے پوچھ کر اس کے گمان کو ہوا میں اڑایا کہ آنے والا راستہ نہیں بھولا بلکہ صحیح پتے پہ آیا ہے ۔ لڑکی نے از سر نو‘ سر سے لے کر پیر تک اس کا جائزہ لیا۔
’’ آپ کو کس سے ملنا ہے۔ ‘‘ عدن نے تھوک نگل کر پوچھا ۔
اب سامنے کھڑی بندی کا معائنہ کرنے کی باری اذان کی تھی ۔ سادہ سا چہرہ جس کے انتہائی مناسب نقوش ‘بالوںکی چھوٹی بڑی الجھی لٹیں کانوں کے اطراف میں جھول رہی تھیں ۔ چہرے پہ نرمی کے ساتھ الجھن اور حیرت دو چند تھی۔
’’ جی میں اذان مسعود ہوں اور مجھے مدحت آنٹی سے ملنا ہے۔‘‘
’’اے عدو کیا آیوشمتی کو دیکھ کر پتھر کی تو نہیں ہو گئی ہو ۔ ‘‘ مدحو خالہ کی کڑک آواز گونجی ، انہیں لڑکیوں کا دروازے میں کھڑا ہونا سخت نا پسند تھا۔
’’ خالہ کوئی اذان مسعود صاحب ہیں اور آپ سے ملنا چاہتے ہیں ۔ ‘‘ عدن نے ذرا سا پیچھے ہٹ کر وہیں سے ہانک لگائی ۔ اگر ان کی بھانجی آیوشمتی کا نام لیتی تو انہیں حیرت کا اتنا شدید جھٹکا نہ لگتا ۔ نام سن کر وہ اندر تک سنسنا اٹھی تھیں۔ کئی ثانیے توکچھ بولنے کے قابل نہیں رہیں ۔ پھر حواسوں میں آکر جلدی سے اور بے قراری سے بولیں۔
’’ اسے اندر لے آؤ ۔ ‘‘ لہجے میں تیزی اور بے چینی نمایاں تھی کہ ذرا سی تاخیر ہوئی تو مبادا آنے والا لوٹ ہی نہ جائے۔
’’ جی اندر تشریف لے آئیں۔‘‘ محتاط سے لہجے میں کہا ۔ اذان نے اٹیچی کیس اٹھایا۔
’’ ابھی خالہ نے صرف آپ کو اندر آنے کے لیے کہا ہے ‘ سامان کی بابت تو میں نے بتایا ہی نہیں ۔ ‘‘ عدن نے قدرے رک کر کہا ۔ اذان کا سامان کی طرف بڑھا ہاتھ پیچھے ہٹا۔
’’ خالہ! ان صاحب کا سامان بھی ساتھ ہے ۔ ‘‘ غٹرغوں کبوتروں کا غول بر آمدے کے روشن دانوں سے اڑا ‘ عدن کی ہانک تھی ہی اس قدر اونچی ۔ بھانجی کی اس بات پہ خالہ کے وجود میں روح پھڑ پھڑائی ضرور مگر کبوتروں کی طرح اپنا ٹھکانہ نہیں چھوڑا۔
’’اسے کہو سامان بھی ساتھ لے آئے ۔ ‘‘ خالہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ آیوشمتی کی طرح تیر کر اس مہمان کے استقبال کے لیے جا پہنچیں ۔ امن اس تمام کارروائی میں پتھر کابت لگ رہی تھی ۔ اذان نے خالہ کی آواز سن کر اجازت طلب نظروں سے اس لڑکی کو دیکھا اور اٹیچی اٹھا کر دہلیز پار کی۔
’’ ایک منٹ رکیں ۔ ‘‘ عدن نے ہاتھ کا اشارہ کیا پھر پلٹ کر صدالگائی۔
’’ خالہ گاڑی بھی ہے ۔ ‘‘ اذان کو اب سامنے بر آمدہ نظر آرہا تھا۔
’’ اے ہے عدن کیا ہے ۔ اگرٹرین بھی ساتھ ہے تو بھی ایسے اندر آنے دو ۔ ‘‘ خالہ کے انداز میں عجلت نمایاں تھی ۔ اذان نے ذرا سی گردن ترچھی کر کے مسکراہٹ دبا کر اسے دیکھا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا برآمدے کی طرف بڑھا ۔ بر آمدے کی چار سیڑھیاں چڑھ کر وہ اس چارپائی کے قریب پہنچا ‘ جس پہ یقیناََ مدحت آنٹی تقریبا لیٹنے کے انداز میں بیٹھی تھیں۔
اذان نے مئودب انداز سے انہیں سلام کرنے کے ساتھ اپنا سر ان کے آگے جھکایا ۔ مدحت نے اپنائیت سے سلام کا جواب دے کر شفقت سے اس کے سرپہ ہاتھ پھیرا ۔عدن بھی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی پہلی سیڑھی تک پہنچ چکی تھی۔
’’امن‘عدن‘بھائی کو سلام کرو ۔ ‘‘ بت بنی امن کے وجود میں ذراسی جنیش ہوئی فوراََ ماتھے تک ہاتھ لے جا کر عین امراؤ جان والے انداز میں سلام کیا ، البتہ عدن اس پہلی سیڑھی کے پاس پڑے بھاری اٹیچی کی طرف متوجہ تھی۔
’’ یہ تمہاری پھوپھو آصفہ کا بیٹا ہے ۔‘‘ امن نے سٹپٹا کر اور عدن نے جھٹکا کھا کر اسے دیکھا ۔ خالہ اس اجنبی کا تعارف کروا کے اب اس سے باتوں میں مشغول تھی ۔ عدن نے کچن کی طرف بڑھتے ہوئے امن کو بھی اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔
’’ خدا جب دیتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے ۔ ‘‘ امن نے اندر آتے ہی منہ پھاڑ کے خوشی کا اظہار کیا ۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے